پاکستانی اور پشتو فلموں کی زبوں
حالی کانوحہ و گریہ کرتے کرتے میرا قلمکند ہو چلا ہے لیکن پشتو فلمیں بنانے
والے پختون ثقافت و روایات کے بر خلاف اپنے من مانی او ر بے حیائی کے
کارنامے سر انجام دینے میں مصروف ِ عمل ہیں۔ یہاں تک کہ میں اپنے گذشتہ کئی
کالموں میں پشتو فلموں میں غیر پختون طوائفوں کی جانب سے پختون ثقافت و
روایات کی پامالی و فحاشی پر صدائے احتجاج اس قدر بلند کرتا رہا کہ اس کی
گونج نگار خانوں، سنیما گھروں میں بیٹھے فلم بینوں تک اس انداز میں جا
پہنچی کہ کسی بھی عریاں سین پر"قادر ، کو بتاؤ ، قادرخان آجائے گا "کی
صدائیں بلند ہوتیں اور فلم اسٹاروں کے پرستار اپنے مخالففلم بینوں کی
پھبکیوں پر کھسیایا جاتے۔ فلم اسٹاروں کی کئی تنظیموں نے فلموں میں پختون
ثقافت کیخلاف برپا فحاشی پر میرا ساتھ دیا اور اپنے ہر ممکن تعاون کا یقین
دلایا۔ میرے کالموں نے کئی ہدایتکاروں اور فلم سازوں کو یہ سوچنے پر مجبور
کیا کہ اگر عوام کی جانب سے ماضی کی طرح "بیگم جان"جیسی فلم پر اشتعال
انگیزی پیدا ہوئی تو یہ بچے کچے سنیما بھی نہیں بچیں گے۔نامور پشتو فلمی
ہیرو ز کی جانب سے مجھے دہمکیاں تک دیں گئیں لیکن میں نے سچ کا اظہار کرنے
سے گریز کی راہ اختیار نہیں کی، یہیں پر کچھ نامور ہیرو ز نے وعدہ بھی کیا
کہ آئندہ آنے والی فلموں میں عریانیت و فحاشی کیساتھ پختون ثقافت کے برخلاف
فلمیں بنانے سے گریز کیا جائے گا۔ان کی پرستار تنظیموں نے بھی وعدہ کیا کہ
آئندہ ایسا نہیں ہوگا ، میں نے کراچی میں موجود فلم سنسر بورڈ کے واحد
پختون رکن عمر خطاب سے عید سے کچھ دن پہلے تفصیلی گفتگو میں شکایت کی کہ آپ
لوگ فحش پشتوفلموں کو اجازت نامے کس طرح جاری کردیتے ہو ، جب کہ ایسی
روایات ہمارے پختون معاشرے میں موجود نہیں ہے ، انھوں نے عاجزی سے جواب دیا
کہ کہ نہیں ، جب سے میں آیا ہوں ، اسی کسی فلم کو اجازت نامہ فراہم نہیں
کیا ۔ اُس وقت پشاور اور سوات میں فلم "لوفر"اور بھنگئے لیونے"کے ٹریلر
مقامی طور پر سی ڈی میں چل رہے تھے ، سنسر بورڈ کی رکن کا اصرار تھا کہ
انھوں نے ان فلموں کو اجازت نامے نہیں دئیے اور اب تک یہ فلمیں سنسر کیلئے
بھی ان کے پاس نہیں آئی ہیں۔سی ڈی پر چلنے والے ٹریلر اور کیبل آپریٹرز پر
ان کا اختیار نہیں ہے اس لئے ان کی ذمے داری پیمپرا پر عائد ہوتی ہے۔میں نے
ان کا استدال تسلیم کرتے ہوئے استدعا کی چونکہ بقول ان کے وہ سنسر بورڈ کے
واحدپختون رکن ہیں اور ان کی اجازت کے بغیر پشتو فلموں کو سنسر کی اجازت
کوئی اور نہیں دے سکتا اس لئے ، گذارش ہے کہ وہ پختون ثقافت و روایات کے
خلاف بننے والے عریاں و فحش فلموں کی حوصلہ شکنی کریں، جس کا انھوں نے وعدہ
بھی فرمایا۔لیکن عید سے ایک دن قبل جمعرات کے روزپشتو فحش فلم"لوفر" اور
قربانی کو سنسر بورڈ نے نمائش کیلئے اجازت فراہم کردی اور پوری دنیا نے
دیکھا کہ ان فلموں میں انتہائی بے ہودہ ڈانس و فحاشی موجود تھے۔اس سے قبل
بھی میں اپنے کئی کالموں میں بتا چکا تھا کہ پشو فلمیں سنسر بورڈ کی اجازت
کے بغیر بھی نمائش پذیر ہوتی ہیں اور حکومت چشم پوشی سے کام لیتی ہے۔پشاور
اور سوات سرکٹ میں اخلاق باختہ فلموں کی نمائش کی ایک بنیادی وجہ پشاور کے
سابق حکمران جماعت کے ایک اہم سیاسی رہنما کیذاتیسنیما گھر تھے جہاں برہنہ
انگلش فلموں سے لیکر فحش پشتو فلموں کی نمائش بغیر سنسر ایک عام سی بات تھی۔
اس بار کے پی کے کی جانب سے عید کے ایک ہفتے بعد ریلیز ہونے والی پانچ
فلموں ، لوفر ، بھنگئی لیونے،قربانی،زما ارمان اورشرق پر پابندی عائد کردی
تو کراچی میں سنسر بورڈ کو بھی ہوش آیا اور مقامی سنیما میں چھاپا مار کر
جہانگیر خان پر فلمایا گیا ہدایت کار ارباز خان کی قربانی فلم کاایک عریاں
وفحش نمائش پزیر رقص قبضے میں لے لیا اور دو لاکھ روپے جرمانہ عائد
کردیا۔عمر خطاب سے دریافت کیا تو انھوں نے کہا کہ اسلام آباد مرکزی سنسر
بورڈ کراچی کے علاوہ نمائش کیلئے اجازت نامے دیتا ہے لیکن جب ذرائع سے اس
بات کی تصدیق کی تو پتہ چلا کہ اسلام آباد میں مرکزی سنسر بورڈ غیر فعال ہے
اور کراچی سے ہی فلموں کی نمائش کے حقوق جاری کئے جاتے ہیں۔بہرحال سنسر
بورڈ نے یہ وطیرہ بنا لیا ہے کہ پشتو فلموں میں کام کرنے والی پنجابی
طوائفوں کے عریاں و فحش ڈانسوں اور نام نہاد پشتو ہیرو کے بے ڈھنگے اسٹائل
کو پشتو فلموں کے ذریعے اجازت دیکر ایک غیور قوم کو بد نام کیا جائے۔ چند
روپوں کے عوض اپنا دین ایمان و غیرت فروخت کرنے والے سنسر بورڈ کو صرف رشوت
سے غرض ہے۔ مجھ سے پشتو فلموں کے سب سے مصروف ہیرو شاہد خان نے کہا کہ پشتو
فلموں نے پاکستانی فلم انڈسٹری کو سنبھالا ہوا ہے تم اس کو بند کرانا چاہتے
ہو۔سنسر بورڈ کے قابل قدر عمر خطاب نے بھی فرمایا کہ تمھاری جدوجہد اس وقت
ہی کامیاب ہوسکتی ہے جب پشتو فلم انڈسٹری بند کرا دو(یعنی سنسر بورڈ کچھ
نہیں کرسکتا)۔میرا جواب ان دونوں اور تمام سنسر بورڈ کے ساتھ ان عریاں پشتو
فلموں کے کرداروں سے ہے کہ صرف پشتو بولنے والا پختون نہیں کہلاتا بلکہ
پختون ثقافت کی حفاظت کرنے والا ہی دراصل پختون ہے۔میں اسلامی نقطہ نظر کی
بات ہی نہیں کر رہا کیونکہ اسلام میں تو ان باتوں کی اجازت ہی نہیں ہے۔
لیکن جب بہ حیثیت قوم اپنی روایات پر گنڈاسہ چلاتے رہو گے تو کوئی سر پھرا
کچھ بھی کر سکتا ہے ۔پھر میڈیا لاکھ شور مچاتا رہے لیکن ہمیں یہ سمجھ لینا
چاہیے کہ پشتو فلموں میں دکھائے جانے والے اخلاق باختہ مناظر ، شاہد خان ،
ارباز خان ، جہانگیر خان، ارشد خان کی خاندانی میراث تو ہوسکتے ہیں لیکن
پختون معاشرے میں ایسا کئی نہیں ہے کہ فحش رقص کے ساتھ نیم لباس ہوکر پوری
قوم کیلئے شرمندگی کا باعث بنیں۔اس پورے عمل کا باقاعدہ ذمے دار سنسر بورڈ
ہے، جو چند روپوں کی رشوت کے عوض ایک غیور قوم کو پوری دنیا میں بد نام
کرتا ہے۔ کیا ایسی فلمیں بنانے اور نمائش کے لئے اجازت نامے دینے والے اپنے
گھر والوں ، بیوی بچوں ، بہنوں اور اپنی گھریلو عورتوں کے ساتھ ، چرس کے
مرغولوں اور شراب کی بوتلوں کے ساتھ سنیما میں بیٹھ کر پشتو فلم دیکھ سکتے
ہیں؟۔بے ہودہ فلمیں بنانے والوں کی آنکھوں سے شرم کا پانی مر چکا ہے اس لئے
ان سے بعید نہیں کہ یہ ان کے گھروں کی میراث ہو۔سنسر بورڈ کی مثال ، کسی
ہیرا منڈی کی دلال کی سی ہے جیسے شرم وحیا کے بجائے صرف اپنی غیرت نیلام
کرنے سے سروکار ہو۔لعنت ہے ایسی پرستار تنظیموں اور ان کی فلموں کی جھوٹی
تعریف کرنے والوں پر جو اپنی ضد میں اس قدر اندھے ہوچکے ہیں کہ انھیں برائی
، برائی نظر نہیں آتی۔مجھے بتایا گیا کہ میں نے ہدایت کار لیاقت علی خان پر
شدید تنقید کی تھی ، لیکن اُس نے اس بار بالکل مختلف اور اچھی فلم بنائی ہے
جو قابل تعریف بات ہے اور مجھے ذاتی طور پر خوشی ہوئی ہے۔خاص کر ایک فلم
زماارمان کے حوالے سے یہ بات سامنے آئی ہے ۔ موجودہ روایات کے برخلاف ماضی
میں بننے والی پشتو فلموں کی یاد تازہ کردی ہے چونکہ فلم ایچ ڈی ٹیکنالوجی
پر بنائی گئی ہے اس لئے اس کی حوصلہ افزائی سب کو کرنی چاہیے۔یقینی طور پر
یہ قابل ستائش بات ہوگی کہ اگر کوئی اصلاح کی جانب گامزن ہوتا ہے۔سنسر بورڈ
کو اپنی اصلاح کرنی چاہیے اور بے ہودہ فلموں پر ایک بار سختی کردیں۔ ہمارا
کام تنقید برائے تنقید نہیں ہے ، بلکہ اصلاح اور پختون سمیت تمام قومیتوں
کی درست نمائندگی ہے۔ لیکن کوئی اس کے برخلاف چلے گا تو ملک میں عدالتیں
آزاد اور عوام کو اپنے جمہوری احتجاج کا حق حاصل ہے۔تو پھر بعد میں گلہ
کرنا فضول ہوگا۔پشتو فلمی بنانے اور سنسر کرنے والے اپنے معتصبانہ و
مجرمانہ روئیے پر نظر ثانی کریں۔ |