تعلیم وتربیت کے حوالے سے مولانااحمدرضاخاں کے چارنکات عصری احوال کے تناظرمیں

دنیامیں کئی قسم کے لوگ بستے ہیں، ایک وہ ہیں جودوسروں کے خوانِ افکارسے خوشہ چینی کرکے کوئی لائحہ عمل مرتب کرتے ہیں اوروہ قوم کے سامنے پیش کردیتے ہیں اورقوم ان کے بنائے ہوئے نقشے کے مطابق چلتی رہتی ہے ۔ اوردوسرے وہ ہیں جواپنی خدادادصلاحیتوں اوراپنے افکارکاایساپھل دارشجرلگاتے ہیں کہ وہ برسوں تک سایہ دیتارہتاہے اوران افکارکے پھل اتنے خوش ذائقہ اورلذیذہوتے ہیں جوذہن ودماغ کوتوفرحت بخشتے ہی ہیں پورے جسم کوبھی صحت یاب رکھتے ہیں۔چودھویں صدی کے مجدداعلیٰ حضرت امام احمدرضابریلوی قدس سرہ العزیزاسی قسم کے لوگوں میں سے ہیں۔جن کے برصغیرمیں سب سے زیادہ چاہنے والے موجود ہیں ۔ان کی حیات کاورق ورق ہمیں عمل کی تلقین کرتاہے ۔ انہوں نے صرف منصوبے نہیں بنائے بلکہ ان پرعمل کرکے دکھایا۔فروغِ اہلِ سنت کے لیے انہوں نے جودس نکاتی پروگرام مرتب کیاتوسب سے پہلے اس پرعمل کرکے دکھایا۔ان کی خدمات کاجائزہ لے لیجیے ان کی پوری زندی اسی منصوبے کی تکمیل میں گزری۔امام احمدرضاسے یہ کیسی محبت ہے اوریہ کیساعشق کہ ان کے وصال کوسوسال ہونے کوآئے مگراس دس نکاتی پروگرام میں سے ایک بھی منصوبہ صحیح طورپر عمل کی دہلیزسے نہ گزرسکا۔آخرہم تنظیمیں بناکرمنصوبے کب تک ترتیب دیتے رہیں گے اورکام کیسے ہوگا؟۔
فروغِ اہلِ سنت کایہ دس نکاتی فارمولہ مختصرہے مگراس میں اتنی جامعیت ہے کہ اسے اپناکرکوئی بھی مذہب اورکوئی بھی قوم اپنی ترقی کامینارکھڑاکرسکتی ہے۔اگریہ فارمولہ کسی اورقوم کے پاس ہوتاتویقین جانیے وہ اب تک ان خطوط پرچل کربہت آگے نکل چکی ہوتی۔غیروں کی طرف نظردوڑائیے وہ اسی اندازسے اپنے افکاراوراپنے مذہب کی تبلیغ کررہے ہیں اورحیرت انگیزطورپراپنے مقاصدحاصل کررہے ہیں۔امام احمدرضاکے اس فارمولے کاایک ایک نکتہ اتناوقیع ،جامع اوردوررس نتائج کاحامل ہے کہ اس پردرجنوں صفحات تحریرکیے جاسکتے ہیں مگر ہم صرف تعلیمی اورتربیتی امورکے متعلق اس دس نکاتی فارمولے سے صر ف چارنکات پراپنی گفتگومرکوزرکھیں گے کہ اسی میں سارے مسائل کاحل پوشیدہ ہے۔

(۱)عظیم الشان مدارس کھولے جائیں باقاعدہ تعلیمیں ہوں۔
یہ اکیسویں صدی ہے آج باطن سے زیادہ ظاہر پر نظریں جمتی ہیں۔ آپ کتنے ہی بڑے عالم و فاضل کیوں نہ ہوں اگر اس کا اظہار نہیں ہوگا تو کوئی بھی آپ سے دلچسپی نہیں رکھے گا ۔مشہور کہاوت ہے کہ جو دِکھتا ہے وہ بِکتا ہے۔ یہ فارمولہ اگردینی کاموں کے لیے استعمال کیاجائے تواس میں کوئی مضائقہ نہیں ہوناچاہیے اس لیے اگر عظیم الشان مدارس و مکاتب کا قیام ہو تو یہ قوم کے حق میں بہت بہتر ہوگا۔اعلیٰ حضرت کے پہلے نکتے میں لفظ’’عظیم الشان ‘‘پرغورکیجیے توذہن اس حقیقت تک بآسانی پہنچ جائے گا۔ ہمارے طالب علمانہ خیال میں اعلی حضرت امام احمد رضا کے اس پہلے نکتے کے دو جز ہیں۔ ان میں ایک کا تعلق ظاہر سے ہے اور دوسرے کا باطن سے۔یہاں ان دونوں نظریات کا رد ہے جو صرف ظاہری رنگ وروغن کو اہمیت دیتے ہیں اور جو صرف معنوی و باطنی حیثیت سے مدارس و مکاتب کا داخلی نظام بہتر بنانے کی وکالت کرتے ہیں۔

ہماری آبادیوں میں مدارس ومکاتب کی بہتات ہے ۔ان کے جزوی فوائدسے انکارممکن نہیں مگرسوالیہ نشان اس بات پرہے کہ ان میں کتنے صحیح اورباصلاحیت افرادقوم کوپیش کررہے ہیں ۔امام احمد رضا کا یہ جملہ کتنا فکر انگیز اور معنی خیز ہے کہ عظیم الشان مدارس قائم ہوں اور ساتھ ساتھ باقاعدہ اور معیاری تعلیم و تربیت کا بھی نظم ہو۔ ایسا نہ ہو کہ عظیم الشان ادارے تووجود میں آجائیں مگروہاں تعلیم بالکل نہ ہو اور یہ بھی نہ ہو کہ صرف معیار پر توجہ دی جائے اورظاہری طور سے یہ ادارے بالکل بے رنگ وبے کیف ہوں۔ حسب استطاعت ایسی کوششیں ہونی چاہیے جو ایک ساتھ دونوں سے ہم رشتہ ہوں۔

(۲)طلبہ کووظائف ملیں کہ خو اہی نہ خواہی گرویدہ ہوں
طلبہ کی ترغیب و تشویق اورتعلیم کے تئیں ان کی دلچسپی کے مختلف طریقے ہوسکتے ہیں ان میں ایک طریقہ طلبہ کو وظائف دینا بھی ہے۔ وظائف طلبہ کے لیے ان کی صلاحیت کے مطابق مختص ہوں۔ان کے شوق کو انگیخت اور ان کے اندرونی جذبے کو لَو دینے کے لیے یہ طریقہ بہت کارگر ہے۔ اس کے جو فوائد ہیں ان سے ہرذی شعورواقف ہے۔طلبہ روپے کی لالچ میں جی جان سے محنت کرتے ہیں اپنے ہم سبق ساتھیوں سے برتر ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور یہی محنت اور جذبۂ مسابقت آگے چل کر شوق میں تبدیل ہوجاتاہے اوراگرشوق میں تبدیل نہ بھی ہوپھربھی یہ محنت اورجذبۂ مسابقت انہیں کامیابی کی شا ہ را ہ سے آسانی کے ساتھ گزاردیتا ہے۔ دوسرا اہم ترین فائدہ یہ ہے کہ غریب طلبہ جو اپنی عدم استطاعت کی وجہ سے اپنے شوق اور تعلیمی تجسس کو بروئے کار نہیں لاپاتے اور ان کی صلاحیتیں یوں ہی دم توڑ دیتی ہیں،اس اسکالر شپ کے ذریعہ وہ اپنا تعلیمی کارواں آگے بڑھاتے رہتے ہیں اور قوم و ملت کے لیے مستقبل کا بہترین سرمایہ ثابت ہوتے ہیں اسی لیے بعض بڑے اداروں میں محنتی طلبہ کو اسکالر شپ دی جاتی ہے۔ بعض رفاہی اور فلاحی تنظیمیں بھی اس کے لیے بجٹ مختص کرتی ہیں حتی کہ گورنمنٹ بھی ایسے محنتی طلبہ کو اسکالر شپ دے کر ان کے شوق کو ہوا دینے کی کوشش کرتی ہے۔اسکالرشپ کایہ بجٹ کروڑں اربوں روپے کاہوتاہے۔

ایسے ایک نہیں ہزاروں طلبہ ہیں جوتنگ دستی کی وجہ سے اپنی تعلیم جاری نہ رکھ سکے حالانکہ وہ ذہانت و فطانت میں کسی سے کم نہیں تھے۔ ایسے محنتی طلبہ کی ممکنہ صلاحیتیں ہماری بے توجہی اور تعلیمی مراکز کی عدم دلچسپی کی بنا پرپھلنے پھولنے سے رہ جاتی ہیں، ان کی شخصیت مضمحل ہوجاتی ہے اور ان کے اذہان و افکار کی ترقی کی رفتار دھیمی ہوجاتی ہے۔ اکثر یہ شکایتیں سننے کو ملتی ہیں کہ جگہیں خالی ہیں لیکن ان جگہوں کے لائق افراد نظر نہیں آتے اور جو افراد تیار بھی ہو رہے ہیں وہ اس منصب کے اہل نہیں ہیں ۔اگرامام اہل سنت کے اس ارشاد پر عمل کر لیا جائے اور طلبہ کے لیے اسکالر شپ سسٹم نافذ ہو تو کوئی وجہ نہیں کہ ہمیں قابل کارافراد میسر نہ آسکیں۔

(۳)مدرسین کی بیش قرارتنخواہیں ان کی کاروائیوں پردی جائیں۔
ضروریاتِ زندگی کی تکمیل کے لیے خوش حالی ناگریز ہے۔ جب تک خوش حالی نہیں ہوگی سکون و قرارنصیب نہیں ہوگا۔یہی وجہ ہے کہ پٖر کشش تنخواہوں کی وجہ سے زیادہ سے زیادہ لوگ ملٹی نیشنل کمپنیوں میں ملازمت کرنے کو ہی ترجیح دیتے ہیں کیونکہ اس کے ذریعے انہیں فارغ البالی میسرآتی ہے اور وہ بالکل بے فکری کی زندگی گزارتے ہیں۔ چونکہ یہ انسانی حیات کا لازمی جزو ہے اس کے بغیر زندگی کی گاڑی پٹری پر دوڑ ہی نہیں سکتی اس لیے امام احمدرضاکے فرمان پرعمل کرتے ہوئے مدارس و مکاتب کے ذمہ داران کو چاہیے کہ وہ اساتذہ کی زیادہ سے زیادہ تنخواہیں مقرر کریں اوریہ تنخواہیں ان کی کاروائیوں پردی جائیں۔ وہ زیادہ تنخواہوں کے اس لیے بھی زیادہ حق دار ہیں کہ وہ اپنے ہاتھوں سے قوم و ملت کا مستقبل تیار کر رہے ہیں مگر المیہ یہ ہے کہ سرکاری اداروں کو چھوڑ کر مدارس و مکاتب کے اساتذہ کی تنخواہیں سب سے کم ہیں اور بانیانِ ادارہ اس طرف سوچنا بھی نہیں چاہتے ۔

ذراسوچیے کہ مدارس کے ذمے داران ہر سال دستار بندی کا جلسہ منعقد کراتے ہیں اس پر لاکھوں روپے خرچ کرتے ہیں۔ان جلسوں میں اتنی بے دردی سے پیسہ خرچ کیا جاتا ہے کہ اﷲ کی پناہ۔ پورے ملک میں منعقدہونے والے سالانہ جلسۂ دستار بندی میں کیے جانے والے خرچ کا جائزہ لیجیے تویہ حقیقت کھلے گی کہ ان کابجٹ لاکھوں میں ہے۔ مگر ایک مدرس، ایک استاذ پورے ایک مہینے تک ہرروز مسلسل کئی کئی گھنٹے درس گاہ سے چپکا رہتا ہے، دماغ سوزی کرتا ہے، فکر کا آتش دان روشن کرتا ہے، مطالعہ کرکے طلبہ کی ذہنی فضا ہموار کرتا ہے، وہ دین کا بھی مستقبل تیار کرتا ہے ،ملت کا بھی اور ملک کا بھی اوراس کے ذریعے معاشرے کے مفاسدکاسدباب کرتاہے ،اس کی تنخواہ اتنی کم کہ اس سے اس کی زندگی کے مطالبات بھی صحیح ڈھنگ سے پورے نہیں ہوسکتے۔یہ ناانصافی نہیں تو اور کیا ہے؟پیشہ ورمقررین اورشعراکو اتنازیادہ معاوضہ دے کراوراساتذہ کوان کے حق سے محروم رکھ کرکون سی دین کی خدمت کی جارہی ہے؟
یہاں ایک بات اور توجہ طلب ہے کہ ذمے دارانِ ادارہ جلسۂ دستار بندی کرنے اور طلبہ کی دستار بندی کرکے خوش تو ہو لیتے ہیں اور اپنی کارکردگی سے مطمئن بھی ہوجاتے ہیں لیکن ایک چبھتاہواسوال یہ ہے کہ ذمہ داروں کو یہ خوشی اور یہ عمدہ کارکردگی کس بنیاد پر حاصل ہوئی؟ اگر اساتذہ کوشش نہ کریں اورطلبہ کوکسی لائق بنانے میں دماغ سوزی نہ کریں توکیا طلبہ دستار بندی کے لائق ہوپائیں گے؟ یہ بہت بڑی ستم ظریفی ہے کہ بعض اداروں میں تواساتذہ کااستحصال تک کیاجاتاہے۔کچھ مدارس میں تو یہاں تک دیکھا گیاہے کہ منتظمین کم سے کم تنخواہ والے اساتذہ تلاش کرتے ہیں اورجواز یہ پیش کرتے ہیں کہ بجٹ نہیں مگر دستار بندی کے وقت یہی بجٹ لاکھوں کو پار کر جاتا ہے۔یہ ایسے تلخ حقائق ہیں کہ جن کاگھونٹ پیے بغیرنہیں رہاجاسکتا۔ اگر ذمے دارانِ مدارس و مکاتب امام احمدرضاکے اس فرمان پرعمل کریں تو تھوڑی سی محنت سے اساتذہ کا یہ مسئلہ حل کر سکتے ہیں اورقوم کوباصلاحیت افرادپیش کرسکتے ہیں۔

(۴)طبائع طلبہ کی جانچ ہوجوجس کام کے زیادہ مناسب دیکھاجائے ،معقول وظیفہ دے کراس میں لگایاجائے
اساتذہ اور تعلیمی مراکز کی ایک اہم ذمے داری یہ بھی ہے کہ طلبہ کی تعلیم و تربیت کے ساتھ ان کی طبیعتوں کی جانچ بھی کرتے رہیں کہ ان کا رجحان کس طرف زیادہ ہے۔ انہیں اسی طرف مائل کردیا جائے تاکہ وہ اس میں اپنی محنت اوردل چسپی کی بنیاد پر کسی لائق بن سکیں۔ بہت سارے عصری اداروں میں اسی لیے طلبہ کے دماغ کی سطح کا ٹسٹ ہوتا ہے جس سے انہیں اندازہ ہوتا ہے کہ طلبہ کا ذہن کس رخ پر زیادہ سوچتا ہے، سہل پسند ہے یا دقت پسند، کس کام کے اور کس فن کی زیادہ اہلیت رکھتا ہے تو پھر اسی ٹسٹ کی رپورٹ کے مطابق طالب علم کو اس کے لیے تیار کیا جاتا ہے۔ اس کاسب سے بڑافائدہ یہ ہوتاہے کہ مختلف شعبوں کے لیے باصلاحیت افرادمیسرآجاتے ہیں اورصلاحیتوں واہلیتوں کے اعتبارسے ذمے داریاں تفویض کرنے میں آسانی پیداہوتی ہے ۔ یہ بالکل فطری بات ہے کہ انسان کو جس سمت زیادہ دلچسپی ہوتی ہے اس کا ذہن و دماغ اس میں بڑی تیزی سے کام کرتا ہے ۔اس کے برعکس اگر اسے دلچسپی کا سامان فراہم نہ کیا جائے تو وہ کام بگاڑنے کے سواکچھ اورنہیں کرے گا۔اس ٹسٹ کو سائیکلوجیکل ٹسٹ یاآئی کیوٹسٹ کا نام دیا گیا ہے یعنی نفسیات وطبائع کی جانچ۔

طلبہ کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنا ہمارا طرۂ امتیاز ہے ہم یہ سوچنے کی زحمت گواراہی نہیں کرتے کہ پہلے طلبہ کی نفسیات کوجانچ لیں پھراس کے بعدان کی تعلیم اورتربیت کافریضہ انجام دیں۔غورکرنے کامقام یہ ہے کہ اکثر اداروں میں تربیت تو بہتر ڈھنگ سے ہو نہیں پاتی ایسی صورت میں طبائع کی جانچ کا دردِسر کون مول لے گا۔ بہت بڑی ٹریجڈی یہ ہے کہ بچے پر والدین اپنی مرضی تھونپتے ہیں ۔اکثراس طرح کے حادثات پیش آتے ہیں کہ والدین اپنے بچے کو ڈاکٹر بنانا چاہتے ہیں لیکن بچہ انجینئر بننا چاہتا ہے مگراس کی خواہش کااحترام کیے بغیر والدین اسے زبردستی ڈاکٹر بنا کر ہی دم لیتے ہیں۔والدین کوجس شعبے سے دلچسپی ہے مگربچے کواس سے کوئی لگاؤ نہیں۔ظاہرسی بات ہے کہ جب طلبہ اپنی خواہشات کوکچل کرتعلیم حاصل کریں گے توکیااس سے مثبت نتائج برآمدہوں گے ؟مگرآج کل اسی کشمکش میں بہت سارے طلبہ کاکیرئیرپروان چڑھ رہاہے۔ عموما ایسا بھی ہوتا ہے کہ خالہ زاد بھائی آرکیٹیک ہے اور اس سے تھوڑی سی ان بن ہے یا خاندانی رقابت ہے تو یہ جناب بھی آرکیٹیک بننے کی ٹھان لیتے ہیں یہ جائزہ لیے بغیر کہ ان کا ذہن ان کی خواہش کا ساتھ دے گا یا نہیں۔ یہ تو آج بہت کثرت سے ہو رہا ہے کہ فلاں شعبے سے دولت بہت زیادہ کمائی جاسکتی ہے اور فلاں ڈگری سے اچھی سے اچھی ملازمت مل سکتی ہے یا فلاں ڈگری سے شہرت و مقبولیت مل سکتی ہے تو اسی کی طرف دیوانہ وار دوڑ پڑتے ہیں۔ ان میں بعض تو کامیاب ہوجاتے ہیں اور بعض اوندھے منہ گر پڑتے ہیں اوراگر جیسے تیسے کامیاب ہوبھی جائیں تو وہ متعلقہ منصب کا حق ادا نہیں کر پاتے۔ اساتذہ اوروالدین کی یہ اہم ذمے داری ہے کہ طلبہ کے اندرون میں جو شخصیت چھپی ہوئی ہے اور جس فن کاشعوران میں موجود ہے اسی کے مطابق ان کی پرورش وپرداخت کریں تاکہ مختلف صلاحیتوں کے حامل طلبہ تیارہوسکیں۔

یہ سائیکولوجیکل یاآئی کیوٹسٹ آج سے شروع ہوئے ہیں مگر امام احمد رضا ایک سو اٹھارہ سال قبل ہی ۱۸۹۴ء میں تعلیمی مراکزکے ذمے داران کو اس سے آگاہ کر چکے ہیں۔اعلی حضرت امام احمد رضا کی نظران شعبوں پرتھی جہاں پرمختلف النوع صلاحیتوں والے طلبہ اپنی اپنی صلاحیتوں کامظاہرہ کریں اوردینِ متین کی خدمت انجام دیں۔آج کتنے شعبے ایسے ہیں کہ جو مناسب افرادکے نہ ملنے سے اب تک خالی پڑے ہیں۔ اگریہ سسٹم نافذہوجائے تواندازہ کیجیے کہ کتنابڑاکام ہوجائے گا۔ اس سے ایک قدم اور آگے بڑھ کرامام احمدرضا فرماتے ہیں کہ طبائع طلبہ کی جانچ کرنے کے بعد ان میں جو جس کام کے مناسب ہوں اس میں لگائے جائیں اور انہیں معقول وظیفہ بھی دیا جائے تاکہ وہ سکون و اطمینان کے ساتھ خوش اسلوبی سے کام انجام دے سکیں مگرافسوس ہم آج تک اس پر عمل نہ کرسکے۔ کتنے ہی باصلاحیت لوگ ہیں جو پیٹ کی آگ سرد کرنے کے لیے مارے مارے گھوم رہے ہیں اور بہتوں کی صلاحیتیں تو دیواررزق چاٹنے کی ہی نذر ہوچکی ہیں۔ ملت ان کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے کے بجائے محروم ہے ۔ اس بات کا رونا غلط ہے کہ ہمیں رجالِ کار میسر نہیں ۔افراد تو ہیں اور بہت بڑی تعداد میں ہیں مگر کیاصحیح معنوں میں ان کی قدرکی جاتی ہے ؟اگرہم آج بھی اہل علم کی عملی طورسے قدرومنزلت کرنے لگیں توجوکام سمتوں میں پھیلاہواہے وہ آسانی سے سمیٹاجاسکتاہے۔میں ذاتی طورپر ایک نہیں ایسے درجنوں نام جانتا ہوں کہ لوگوں نے جن کی قدر نہ کی اور ان کی صلاحیتیں حصول معاش کی تگ ودوکی نذرہو گئیں۔ناقدری کرنے والے کوئی اورنہیں ہم ہی ہیں۔ آج کتنے میدان خالی ہیں جہاں سے دعوت و تبلیغ کی نمایاں خدمات انجام دی جاسکتی ہیں اور مختلف صلاحیتوں کے حامل افراد کو مختلف کاموں پر بامعاوضہ لگایا جاسکتا ہے۔

اب دورشکوے شکایت کانہیں
ایک صالح معاشرے کی تشکیل اور نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی امت میں ہونے کا صحیح حق ادا کرنے کے لیے امام احمدرضانے جو نکات پیش فرمائے وہ صرف ایک عہدکے لیے مخصوص نہیں ہیں بلکہ ہر زمانے میں ان کی افادیت تازہ رہے گی۔ اندازہ کیجیے کہ ایک سوپندرہ سال قبل بنایا گیا یہ فکری خاکہ ایسا لگتا ہے کہ ہمارے ہی زمانے کے لیے ترتیب دیاگیاہے۔ کوئی یہ نہیں کہہ سکتا ہے کہ اس سے فلاں عہد کی بو آرہی ہیں یایہ فلاں عہدسے مخصوص تھا۔ اگر ہم ان پر عمل کرتے تو آج ہمارے حریف ہماری گردکو بھی نہ پاتے ۔ ہمارے پاس زمانے کے چیلنج کا سامنا کرنے کے لیے ایک سے بڑھ کرایک اسلحے موجود ہیں اور ہم ہیں کہ انہیں استعمال ہی نہیں کرتے ۔ ہم نے اپنے اسلاف کی تعلیمات سے بھرپور فائدہ نہ اٹھایا بس ان کے نام پر کھاتے کماتے رہے، ان کی حقیقی تعلیمات، ان کے ارشادات، ان کی ہدایات، ان کا طرزِ عمل اور ان کی حیاتِ طیبہ کو فراموش کر بیٹھے۔ خیر اب دور شکوے شکایت کا نہیں ،عمل کرنے کاہے۔جوکوتاہیاں ہوچکی ہیں انہیں بھول جانااوران سے مثبت اثرلیناضروری ہے۔ آج کے دور میں وہی فاتح کہلائے گا جس نے زمینی حقائق سے اپنا رشتہ استوار کر رکھا ہے۔ جومشورے دینے، منصوبے بنانے، خاکے تیار کرنے، میٹنگیں منعقد کرنے اور تنظیمیں قائم کرلینے سے زیادہ عمل کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔ جو کہتے سناتے کم ہیں کرتے زیادہ ہیں،جوفکرسے زیادہ عمل کے غازی ہیں اور جو عقیدت پیشے سے زیادہ حقیقت پسند اور حقیقت دوست ہیں۔ یہ اکیسویں صدی ہے اوریہ صدی سب سے زیادہ زہریلی ہے۔ یہ ایسے لوگوں کو ملیامیٹ کرکے تاریخ کے ڈھیر میں دبا دے گی جن کے دماغوں میں اب بھی عصری حسیت کی کرنیں نہیں پہنچیں اور انقلاباتِ زمانہ سے انہوں نے کچھ بھی سبق حاصل نہیں کیا۔

ہم کو انفرادی اور اجتماعی طو رپر اس طوفان کا رخ پھیرنے کے لیے سر سے کفن باند ھ کر میدان میں آنا ہوگا جو ہمارے سر پر کھڑا ہے۔ ہماری بیشتر فکری بستیوں کو تباہ و برباد کرکے اب ہمارے گھروں کا رخ کر رہا ہے۔ اب آپسی چپقلش ،باہمی رقابت، ایک دوسرے پر الزام رکھنے کا شور و غل، گورنمنٹ سے انپے حق کے مطالبات کے لیے چیخ و پکار اور اپنے داخلی مسائل پر واویلا کرنے کے بجائے مل جل کر ایسی تحریک چلانا ہوگی جو دلوں میں انسانیت کا شعور پیدا کردے، ذہنوں میں ایک صالح نظام کے لیے تڑپ پیدا کردے اور ہمیں فکری طورپر بیدار کر دے۔ اس بیداری، اس انقلاب کے لیے دوچار پانچ سال کی مدت کافی نہیں ہوگی بلکہ اپنے مطلوب کو حاصل کرنے اوراعلی حضرت امام احمد رضا کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے میں ہمیں برسوں درکار ہوں گے۔ یہ یقین کر لیجیے کہ جب تک تعلیمی انقلاب برپا نہیں ہوگا ہم سے ہمارے حقوق چھینے جاتے رہیں گے۔ ہم آج ریزرویشن کے لیے گورنمنٹ کے سامنے کشکول لیے کھڑے رہتے ہیں اور برسوں سے اس امید پر کھڑے ہوئے ہیں کہ شاید اس کشکول میں گورنمنٹ چند سکے ڈال دے۔ اس ملک پر ہم برابر کے حق دار ہیں مگر پھر بھی ہمیں نظر انداز کیا جاتا رہا ہے اور یہ بات اپنی گرہ باندھ لیجیے کہ ہمیں نظر انداز کیا جاتا رہے گا۔ آپ باہر کے ذرائع پر امید مت رکھیے کوئی آپ کو مواقع نہیں دے گا۔ آپ کو سارے ذرائع خود اپنے اندر سے تلاش کرنے ہوں گے۔

ہمیں امام احمد رضاکے نقوش فکر پر چلتے ہوئے خود کو ذہنی و عملی انتشار اور فکری آویزشوں سے بچا کر عامتہ المسلمین کی اعتقادی ، اخلاقی، سماجی ، دینی ، تمدنی، معاشی اور تعلیمی اصلاح کرنی ہے۔ ان لوگوں کی حوصلہ افزائی کرناہے جو ملت اسلامیہ کے لیے کچھ کرنا چاہتے ہیں اور ان لوگوں کی سختی سے حوصلہ شکنی کرنی ہے جو تخریب کاری کاالاؤسلگاکرمسلمانوں کا بچا کھچا وقار بھی بھسم کر دینا چاہتے ہیں۔ دینی اقدار، مسلکی اُمور اورمورثی فکر و اعتقاد کا ورثہ ہی ہماری کل پونجی ہیں اگر یہ بھی محفوظ نہ رہا تو پھر بچاکیا؟ غیر معمولی صبر و ثبات، انتہائی سرگرمی اور غارت درجے کی حکمت و دانش مندی، یہ تینوں خصوصیات اگر ہم اپنے اندر پیدا کرلیں تو یقین کیجیے ہمیں انقلاب برپا کرنے میں ذرا بھی دیر نہیں لگے گی۔ اپنی اجتماعی ذمے داری محسوس کیجیے۔اجتماعی طور پر نہ سہی انفرادی طور پر ہی سہی اگرہر ایک خود کو ذمہ دار سمجھنے لگے تو ایک بہت بڑا کام ہوجائے اوربہت سے کام بن جائیں۔ ہمیں یہ حدیث شریف ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کُلُّکُمْ رَاعٍ وَکُلُّکُمْ مَسْئُوْلٌ عَنْ رَعِیّتِہٖہر آدمی ذمے دار ہے اور ہر آدمی سے اس کی ذمے داری کے مطابق خدا کے یہاں سوال ہوگا۔اعلی حضرت امام احمد رضا قدس سرہ العزیز کے نظریات کیااب بھی صرف کتابوں میں شائع ہوتے رہیں گے اورماہرین سے مقالات لکھواکران کی معنویت ثابت کی جاتی رہے گی ؟یہی سب کرتے کرتے ایک صدی سے زائدعرصہ تومکمل ہوچکاہے ۔اورکتناطویل انتظارکرناہوگا؟اگران نکات کے ایک حصے پربھی عمل کرلیاگیاتو یہ بشارت سن لیجیے کہ مستقبل ہمارا ہے ۔
sadique raza
About the Author: sadique raza Read More Articles by sadique raza : 135 Articles with 171481 views hounory editor sunni dawat e islami (monthly)mumbai india
managing editor payam e haram (monthly) basti u.p. india
.. View More