جنگلی کبوتر

ایک جنگلی کبوتر کہیں سے اُڑتا ہوا ایک چھت پر آ بیٹھا۔ اس کی نظروہاں کابکوں میں بہت سارے کبوتروں پر پـڑی جو اپنے شاندار گھروں میں اٹکھیلیاں کر رہے تھے۔اپنے خوبصورت رنگین پروں اور شکل و صورت کے لحاظ سے ہر ایک اُس سے بہتر تھا۔وہ تھوڑا سا اور قریب ہوا تو دیکھا کہ شاندار صاف ستھرے برتنوں میں وافر مقدار میں دانہ اور صاف ستھراپانی موجود ہے اور وہ سب اُسکی حالت اور بھوک کو دیکھ کر تفاخر کا مظاہرہ کررہے ہیں۔

خود اس نے بھی اپنی حالت پر نظر ڈالی تو اس کا احساسِ کمتری اور بڑھ گیااس کا دل چاہا کہ یہاں سے اڑ جائے اور کہیں اور جاکر دانہ تلاش کرے مگر اس تگ و دو میں تو اس کو دوپہر ہوگئی تھی اور کچھ خاص نہیں مل سکا تھا۔وہ اُن کبوتروں کے اِدھر اُدھر بکھرے چند دانوں کو تلاش کرکر کے دور دور سے ہی کھا رہا تھا ۔کافی دانے کابکوں کے پاس پڑے تھے مگر وہ ان کے اتنا قریب جانے کی ہمت نہیں کرپا رہا تھا ۔لیکن کیونکہ بھوکا تھا اس لئے اس کی نظر بار بار ان دانوں کی طرف اٹھ جاتی تھی۔اس کو بھوکا دیکھ کر ایک کبوتر نے اس کو آواز دی کہ بھائی یہاں کافی دانے پڑے ہیں تم اِنہیں کھا سکتے ہو۔اُس کی جھجک کچھ کم ہوئی اوروہ اس کے قریب چلا گیا دانے بھی کھائے اوراس سے حال احوال بھی کیا۔

جنگلی کبوتر نے بتایاکہ میں تو یہاں سے کافی دور ایک بوسیدہ سی پرانی ٹوٹی پھوٹی عمارت میں رہتا ہوں۔ دانے پانی کے لئے دور دور تک مارا مارا پھرتا ہوں۔تم لوگ جب ٹولیوں کی صورت میں اُڑتے ہو تو مجھے بہت اچھا لگتا ہے لیکن اپنے آپ کو تمہارے قابل نہیں پاتا کہ ساتھ اُڑوں۔اندر سے کبوتر نے جواب دیا کہ تم اچھے ہو بھائی ۔ہم کو تو ہمار امالک جتنا کھِلاتا ہے اُس سے کہیں زیادہ ہم سے کماتا ہے۔ہم کون سا اپنی مرضی سے اُڑتے ہیں ہم تو اس کے لئے اڑتے ہیں ،جب وہ چاہتا ہے ،جتنا چاہتا ہے ،جہاں تک چاہتا ہے ہم کو اُڑنا پڑتا ہے ۔ہم تو اپنی مرضی سے کہیں بیٹھ بھی نہیں سکتے اور نہ باہر کسی سے دوستی کرسکتے ہیں کہ کبھی اپنی مرضی سے گھوم پھر آئیں۔سمجھو ہم تو اُس کے ہاتھ میں کھلونا ہیں یا بکاؤ مال۔

ابھی یہ باتیں ہو ہی رہی تھیں کہ جنگلی کبوتر نے ایک موٹے تازے بلّے کو دبے قدموں چھت پہ نمودار ہوتے دیکھاوہ فوراً اڑ کر منڈیر پر جا بیٹھا۔اس نے دیکھا کہ بلّے نے جالی پر ایک زور دار حملہ کیا اندر افراتفری اور سراسیمگی پھیل گئی اور تمام کبوتر خوف سے پھڑ پھڑانے لگے۔ بلّے نے دوچار زور دار حملے کئے تو زنگ آلود جالی ایک جگہ سے ٹوٹ گئی اور بلّا اندر گھس گیا۔اس نے بہت سے کبوتروں کو زخمی کیا اور ایک موٹے سے خوبصور ت کبوتر کو گردن سے منہ میں دبوچ کر غائب ہوگیا۔

یہ منظر دیکھ کراُس نے شکر ادا کیا کہ اس کو اتنا اچھا کھانا اور ایسی رہائش میسر نہیں۔ایسی خوبصورتی کا کیا فائدہ جو قیدی بنا دے اس نے خوف کے عالم میں اب تک اپنی کابکوں میں پھڑپھڑاتے ہوئے خوبصورت کبوتروں پرایک افسوس کی نگاہ ڈالتے ہوئے آزاد فضا میں ایک بھرپور اڑان بھری ۔خوش ہوتے ہوئے کہ وہ آزاد ہے ۔ آزادی کیا چیز ہے اِس کا احساس اُس کو زندگی میں آج پہلی بار ہوا تھا ۔

اب وہ آزادی کے نشہ میں سرشار فخرسے اپنی پرانی ٹوٹی پھوٹی بوسیدہ عمارت کی طرف محوِ پرواز تھا۔

بھوک ہے بہتر غلامی کے متنجن سے
خطرے میں ہے ایمان وجاں، نہیں جو آزادی
Dr. Riaz Ahmed
About the Author: Dr. Riaz Ahmed Read More Articles by Dr. Riaz Ahmed: 53 Articles with 40916 views https://www.facebook.com/pages/BazmeRiaz/661579963854895
انسان کی تحریر اس کی پہچان ہوتی ہےاس لِنک کو وزٹ کرکے بھی آپ مجھ کو جان سکتے ہیں۔ویسےکراچی
.. View More