ادب کا معاشرے اور معاشرے کا ادب
پر بلواسطہ یا بلا واسطہ اثر انداز ہونا مستند ہے مولانا الطاف حسین حالی
کی تنقید پر لکھی گئی مشہور تصنیف 'مقدمہ شعر و شاعری' کی رو سے شاعری
معاشرے پر اور معاشرہ شاعری پر اثر انداز ہوتے ہیں
چونکہ شاعری بھی ادب ہی کی ایک صنف ہے لہٰذا شاعری کے تناظر میں ہی معاشرے
کا ادب اور ادب کا معاشرے پر اثر انداز ہونا صادق آتا ہے
سوچنے کی بات یہ ہے کہ پہلے ادب معاشرے پر اثر انداز ہوتا ہے یا ادب پر
معاشرے کی اثر انگیزی کی ابتدا معاشرے سے ہوتی ہے، یا پھر ادب اور معاشرے
پر ایک دوسرے کے اثر انداز ہونے کے آغاز و ابتدا کا عمل بتدریج ساتھ ساتھ
ہی جاری رہتا ہے ، ادب اور معاشرے کا ایکدوسرے پر اثر انداز ہونے کا عمل
کیوں اور کیسے ہوتا ہے۔۔۔؟
تجسّس ہمیشہ سے انسان کی فطرت رہا ہے اور یہ تجسّس ہی ہے کہ جو انسان کو
چیزوں کی طرف مائل کرتا ہے اور انسان کو کائنات اور مظاہر کائنات پر غور و
فکر پر اکساتا ہے ، غور وفکر کی عادت انسان کے تخیّل میں اشیا کی مختلف
خیالی تصویریں ترتیب دیتی ہے جو کہیں انسان کے لاشعور میں چھپی بیٹی ہوتی
ہیں انسان کی اپنے لاشعور میں پوشیدہ ان خیالی تصویروں کو شعور میں لانے کی
تگ و دو اور عملی کوششیں
انسان سے مختلف شاہکار تخلیق کرواتی ہے لاشعور میں پوشیدہ انہی خیالی
تصویروں کو شعور میں لا کر مادی شکل دینے سے فنون لطیفہ کی مختلف صورتیں
ادب و آرٹ وغیرہ وجود میں آتی ہیں
یعنی جب انسان کے تصورات عملی صورت میں منظر عام پر آتے ہیں تو دنیا میں
نئے نئے شاہکار اور شاہ پارے تخلیق ہوتے ہیں جو معاشرے کو نئی جہت سے آشنا
کرتے ہیں اور اس طرح ادب و تخلیق کے اثرات سے ہی انسانی معاشرتوں میں مختلف
النوع طرز معاشرت اور تہذیب و ثقافت کی داغ بیل پڑتی ہے یہی ادب کا معاشرے
پر اثر انداز ہونے کا نتیجہ ہے
اس سے ثابت ہوا کہ پہلے پہل ادب معاشرے پر اپنا اثر قائم کرتا ہے اور اس
کے بعد ادب کی طرح ہی معاشرہ بھی بتدریج ادب پر مخنلف نوعیت کے اثرات مرتب
کرنے لگتا ہے یعنی جس طرح ادب معاشرے پر اپنا اثر قائم کرتا ہے اسی طرح
ایسا بھی ہوتا ہے کہ معاشرہ بھی رفتہ رفتہ ادب پر اثر انداز ہونا شروع ہو
جاتا ہے
ادب کا معاشرے پر اثر ہونا تو بیان ہو چکا اب یہ دیکھنا ہے کہ معاشرہ ادب
پر کیسے اثر انداز ہوتا ہے ادبی دنیا سے وابستہ جتنے بھی تخلیق کار خواہ وہ
شاعر، نثر نگار، یا مصوّر ہوں معاشرے میں ہونے والی تبدیلیوں پر گہری نظر
رکھتے ہیں
چونکہ گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ معاشرے میں تبدیلیوں کا در آنا عام سی بات ہے
کہ یکسانیت اور ایک ہی طرح کا طرز زندگی انسان میں اکتاہٹ اور بیزاری پیدا
کرتا ہے جو بالآخر انسان میں لمحہ بہ لمحہ کچھ نہ کچھ نئے سے نیا کرنے کی
لگن پیدا کرتی اور انسان کو پرانی روش میں کچھ تبدیلیاں لانے پر مجبور کرتی
ہے جو انسان میں جدید تبدیلیوں کا رجحان پیدا کرتی ہے اور یہی رجحانات
معاشرے میں مختلف نوعیت کی تبدیلیاں پیدا کرتے ہیں جنہیں تخلیق کاروں کی
دور بیں نگاہیں باآسانی بھانپ لیتی ہیں اور یوں تخلیق کاروں کی تخلیق پر
معاشرے میں بڑھتے ہوئے جدید رجحانات کا اثر بلا واسطہ اثر انداز ہونے لگتا
ہے اور یہی تبدیلی رفتہ رفتہ معاشرے میں نئے ادبی رجحانات کی بنیاد بنتے
ہیں اور یوں وقت کے ساتھ ساتھ ادب کے معاشرے پر اور معاشرے کے ادب پر اثر
انداز ہونے کا عمل وجود میں آتا ہے اور اس طرح مختلف حالات و واقعات کے پیش
نظر انسان کے مزاج ، ترجیحات اور تہذیب و ثقافت میں جو تبدیلیاں آتی ہیں وہ
رفتہ رفتہ جدید ادب کا حصّہ بنتی چلی جاتی ہیں
لیکن اب ایسا بھی نہیں کہ ادب کا معاشرے پر اثر انداز ہونے کا سلسہ چل نکلا
ہے تو ادب محض معاشرے کے زیر اثر ہی تخلیق ہوتا رہے گا اور ادب کا معاشرے
پر اثر انداز ہونے کا سلسلہ ختم جیسا معاشرہ ویسا ادب کے مترادف بلکہ ادب
کے معاشرے پر اثر انداز ہونے کا عمل وقت کے ساتھ ساتھ معاشروں میں وقت کے
منا سب حال انقلابات و تغیّرات پیدا کرنے کا باعث بنتا رہتا ہے
اگر معاشرے میں بہت سے ناخوشگوار واقعات کے درپیش آنے کے باعث جیسا کہ آج
کل ہماری سرزمین وطن پر آج کل نا مساعد حالات کے باعث پورا معاشرہ جس
انتشار و پریشانی کی لپیٹ میں ہے اس کا بلواسطہ اثر ادبی و فنی تخلیقات پر
واضح طور پر محسوس کیا جا سکتا ہے
اب ایسی کیفیت میں معاشرے کو مایوسی ، خوف اور پریشانی کے عالم سے نکالنے
کے لئے دیگر تدابیر کے ساتھ ساتھ ادب کے ذریعے بھی کام لیا جا سکتا ہے ایسے
حالات میں تخلیق کاروں پر یہ ذمّہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ایسی تخلیقات کے
ذریعے جو افراد معاشرہ کو مایوسی کے عالم میں پیدا ہونے والے منفی رجحانات
سے نجات دلا سکیں تخلیق کی جانی چاہيں ان حالات میں ایسا ادب تخلیق کرنے کی
ضرورت ہے جو افراد معاشرہ کو ہر طرح کے حالات کا مقابلہ کرنے کے لئے تیّار
کر سکے، ان میں بہادری و جراءت پیدا کر سکے اور درست سمت میں افراد معاشرہ
کی رہنمائی کر سکے
اور ہم دیکھ بھی رہے ہیں کہ اگرچہ تمام نہیں لیکن بیشتر تخلیق کار معاشرے
میں بڑھتے ہوئے منفی رجحانات کے پیش نظر ایسے ادب پارے تخلیق کر رہے ہیں جو
آج کے وقت کی ضرورت ہیں اور یقینا مخلص تخلیق کاروں کی یہ کاوشیں رفتہ رفتہ
معاشرے پر اثر انداز ہو کر افراد معاشرہ میں مثبت رجحانات پیدا کرنے میں
معاونت کریں گے
ادب کےیہی اثرات معاشرے میں مثبت رجحانات پیدا کرنے کا باعث بنتے ہیں جو کہ
تخلیق کاروں کی ادبی ذمّہ داری بھی ہے اور معاشرے پر ادب کی اثر انگیزی بھی
ہے |