اسمِ اعظم پر محققین اور معتبر علمی شخصیات کے مقالے اور
تحاریر کتب و رسائل ، اخبارات اور انٹرنیٹ پر بکثرت موجود ہیں۔ جن فورمز پر
میں لکھتا ہوں وہاں بھی اس حوالے سے آپ کو عاملین اور محققین کا کام نظر
آتا ہے۔ روحانی علوم اور وظائف کے بارے ایک بات یاد رکھیں کہ کتب میں جو
کچھ لکھا ہوتا ہے ضروری نہیں کہ لکھنے والا ان تمام وظائف کا عامل ہو، یا
اس نے اس عمل یا وظیفہ کی زکوٰۃ لازمی ادا کی ہو، آج کل کی اکثریت تو نقل
کرتی ہے جیسا کہ پچھلے دنوں میرا ایک طبی مضمون اول تا آخر ایک صاحب نے
اپنی فیس بک پر کاپی کر دیا ، وہ تو بھلا ہو ایک عزیز کا جس نے اسے مثبت
انداز میں سمجھایا ۔۔۔ روحانیت میں عامل اگر واقعی صالح ہو نسبت و اجازت
والا ہو اور شریعت مطہرہ کا پابند ہو تو پھر دورانِ مطالعہ و ریاضت الہامی
طور پر بھی اسے رہنمائی ملتی ہے۔ روحانیت کے طالب پر مخلوقِ خدا کی بھلائی
کی تراکیب و وظائف کا روحانی نزول ہوتا ہے جس سے رشد و ہدایت کے راستے
کھلتے ہیں۔ اسمِ اعظم مخلوقِ خدا کی بھلائی، ہدایت، حصولِ رحمت، قضائے
حاجات اور مشکلات کے حل کا ذریعہ ہے، اہلِ اسلام کا ازل سے اس پر عمل رہا
ہے۔
اسمِ اعظم کا مطلب واضح ہے، اللہ تعالیٰ کے صفاتی ناموں میں سے اس کا
انتخاب ہوتا ہے۔ میری معلومات اور مطالعہ کے مطابق علمأ و محققین کسی ایک
نام پر متفق نہیں ہیں جسے حتمی طور پر اسمِ اعظم کہا جا سکے۔ بعض نے یا حی
یا قیوم کو اسمِ اعظم لکھا ہے تو بعض نے اسمِ ذات یعنی اللہ کو اسمِ اعظم
قرار دیا ہے۔ اسمِ اعظم نام کے اعداد کے حساب سے اخذ کیا جاتا ہے، اس میں
بھی محققین کا اپنا اپنا طریقہ ہے، جیسا کہ علمِ جفر، رمل اور ابجد وغیرہ۔
کچھ لوگ مزید باریکیوں میں جا کر مفرد، مرکب، شمسی اور قمری حساب سے بھی
نکالتے ہیں۔ میں نے اپنے بزرگوں کو علمِ ابجد سے ہی کام لیتے دیکھا ہے اور
جمہور مشائخ و علمأ اسی سے کام لیتے ہیں۔ امام المسلین ، اعلٰی حضرت الشاہ
احمد رضا خان ، مفتیِ اعظم ہند الشاہ مصطفٰی رضا اور میرے شیخِ کامل شیخ
الحدیث والتفسیر، نائبِ محدثِ اعظم پاکستان علامہ مفتی محمد عبد الرشید
قادری رضوی رحمۃ اللہ علیم اجمعین حسب ضرورت علمِ ابجد سے ہی کام لیتے تھے۔
اسی پر میرا عمل ہے۔ علمِ ابجد میں جس کا اسمِ اعظم درکار ہو، اس کے نام کے
اعداد نکال لئیے جاتے ہیں، پھر ان اعداد کے مطابق اللہ تعالٰی کے اسمائے
حسنیٰ میں سے ایک دو یا تین یا حسبِ ضرورت جتنے اسمائے حسنیٰ اس نام کے
اعداد کے برابر ہوں، انتخاب کر لیتے ہیں۔ پھر حاجت اور مراد کے پیشِ نظر سمِ
اعظم کو نام کے مجموعی اعداد کے برابر، دو گنا، تین گنا یا عامل کی تجویز
کے مطابق عمل کیا جاتا ہے۔
بعض اوقات مخصوص اسمأ بمطابق نام کےساتھ کچھ اضافی اسمأ بھی شامل کئیے جاتے
ہیں، اس کا انحصار حالات و ہدف پر ہوتا ہے۔ اگر کسی کے گناہوں سے پردے اٹھ
رہے ہوں اور ذلت و رسوائی کا خطرہ ہو تو اسمِ اعظم کے ساتھ یا ستّار (اے
گناہ چھپانے والے)، اگر کسی پر سختی کرنا مقصود ہو تو یا قھّار (اے قہر
نازل کرنے والے)، یا گناہوں کی کثرت ہو جائے اور توبہ کی توفیق ملے تو یا
غفار (اے بخشنے والے) لگا کر دئیے جاتے ہیں۔
ایک عام فہم بات ہے کہ انسان جس چیز کا نام بار بار پکارے یا کوئی نام اس
کی زبان پر جاری ہو جائے تو وہ چیز یا اس کا وجود انسان کے دل میں قرار
پاتا ہے۔ جب ہم کسی مصیبت یا حاجت میں اللہ تعالٰی کو اس کے صفاتی ناموں سے
پکارتے ہیں تو اس کی رحمت عود کر آتی ہے۔ حق تعالٰی خود فرماتا اور ترغیب
دلاتا ہے کہ میرا ذکر کرو میں تمہارا ذکر کروں گا، صبح شام میرا ذکر کرو،
میرے ذکر میں دلوں کا سکون ہے، تم مجھ سے مانگوں میں قبول کروں گا۔۔۔ تو اس
سے بہتر اور کیا طریقہ ہو گا کہ حسب موقع و حالت ہم اللہ تعالٰی کے اسمائے
گرامی میں سے انتخاب کریں، پھر اس کی مداومت کریں، اس کی بارگاہ میں جھک
جائیں ، اپنی غلطیوں، بدکاریوں، بد اعمالیوں اور گناہوں کو یاد کریں، پھر
اس خالق و مالک کی بارگاہ میں ندامت سے آنسو نکل آئیں اور آنکھوں کو غسلِ
طہارت کا سامان ملے ۔ یہی مقصد ہے اسمِ اعظم کے ورد کا، روحانیت بھی اسی کا
نام ہے، اولیأ اللہ یہی سبق دیتے ہیں کہ جب کوئی پریشان حال ہو، دنیاوی و
مادی معاملات کی وجہ سے مصائب میں گر جائے تو اسے اللہ کے ذکر کے ذریعے
اللہ تعالٰی کے قریب کر دو۔ اسمِ اعظم آپ کی ہر طرح کی حاجات و مسائل کا حل
ہے، رزق میں برکت و اضافہ، مقدمہ میں کامیابی، شادی و نکاح، اولاد ، ملازمت،
ذہنی ونفسیاتی مسائل، گھریلو جھگڑے الغرض پیدائش سے لے کر موت تک پیش آنے
والے معاملات میں اس سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔
روحانی علاج کے لئیے رابطہ کرنے والے تمام لوگوں کو میں کسی نہ کسی صورت
اسمِ اعظم ضرور دیتا ہوں، مثلاً حصولِ خیر و برکت کے لئیے خاندانِ عالیہ
قادریہ رضویہ کا معمول پنج گنج قادریہ ہے جو کہ اسمِ اعظم کی برکات کا منہ
بولتا ثبوت ہے، پانچوں نمازوں کے بعد کے وظائف میں اللہ تعالٰی کے اسمأ
شامل ہیں، جو تمام ضروریات زندگی کی کفایت کے لئیے ہیں۔ اعلٰحضرت امام احمد
رضا رحمۃ اللہ علیہ نے وظیفۃ الکریمہ میں اسے شامل فرمایا ہے جو حجۃ
الاسلام الشاہ حامد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ کے دستِ مبارک سے لکھے ہوئے
مقدمہ کے ساتھ دستیاب ہے۔
اسی طرح کلمہ طیبہ اسمِ اعظم کا منبع ہے۔ اس میں تو اسمِ ذات اللہ موجود ہے۔
خالق کائنات کا ذاتی نام یہی ہے باقی صفاتی اسمأ ہیں۔ اپنے شیخِ طریقت رحمۃ
اللہ علیہ کی تعلیمات و معمولات کے مطابق میں نے اپنے محبین کو نمازِ فجر
کے بعد کلمہ طیبہ بشمول درود شریف ایک سو مرتبہ تجویز کیا ہے، الحمد للہ
نفسیاتی و ذہنی مسائل سے نجات کے لئیے مجرب پایا۔ اس میں شہادت و رسالت،
اسمِ اعظم اور درود شریف کا مجموعہ ہے۔
اسم اعظم کے برکات و فضائل پر سلسلہ وار مضامین ترتیب دینے کا ارادہ ہے، جس
میں مختلف مسائل و مشکلات کے حل کے لئیے اسمائے الٰہیہ سے وطائف پیش کئیے
جائیں گے۔ انشأ اللہ۔ ۔ ۔ اپنی حاجات اور مسائل کے حل کے لئیے
کمنٹ باکس میں اپنا نام لکھ دیں یا ای میل اور فیس بک کے ذریعہ بھی رابطہ
فرما سکتے ہیں۔
https://www.facebook.com/iftikharulhassan.rizvi
Email: [email protected]
Skype: mi.hasan |