امریکہ نے کہا ہے کہ اس کے پاس ایسے شواہد موجود ہیں جن
سے ظاہر ہوتا ہے کہ شامی حکومت نے گذشتہ ماہ دمشق کے نواحی علاقے غوطہ میں
باغیوں کے خلاف کیمیائی مادہ سیرن استعمال کیا تھا۔
سیرن کیا ہے؟
سیرن ان کئی کیمیائی مادوں میں شامل ہے جنھیں نرو ایجنٹ یا اعصابی گیسیں
کہا جاتا ہے۔ ان میں وی ایکس، ٹیبون اور سومن شامل ہیں۔
سیرن شفاف، بے رنگ اور بے ذائقہ مائع ہے جو فوراً بخارات میں تبدیل ہو جاتا
ہے۔
سیرن اور دوسرے نرو ایجنٹس انتہائی مہلک مادے ہیں، حتیٰ کہ یہ سائنائیڈ
جیسے زہر سے بھی کہیں زیادہ خطرناک ہیں۔
ان کی اتنی کم مقدار بھی دو منٹ کے اندر اندر انسان کو ہلاک کر سکتی ہے جو
سوئی کی نوک پر سما جائے۔ ان کے بخارات بھی انسان کو پندرہ منٹ کے اندر
اندر ہلاک کر سکتے ہیں۔
یہ مادے نظامِ تنفس پر حملہ کر کے اسے مفلوج بنا دیتے ہیں، جس سے انسان
سانس نہیں لے پاتا۔
سیرن کا تریاق ایٹروپین اور پرالِڈوکسائم جیسی ادویات کی شکل میں موجود ہے،
تاہم یہ اسی صورت میں موثر ثابت ہوتے ہیں اگر انھیں فوراً استعمال کیا
جائے۔
سیرن کو کب اور کہاں استعمال کیا گیا؟
سرین کو جرمنی نے 1930 کی دہائی میں ایجاد کیا تھا، لیکن اسے دوسری جنگِ
عظیم میں استعمال نہیں کیا گیا۔
جنگ کے بعد کئی ترقی یافتہ ممالک نے نرو گیس کی مختلف اقسام بنانا شروع کر
دیں۔ اس کی وی ایکس قسم برطانیہ میں ایجاد کی گئی۔
سیرن کو عراق کے سابق صدر صدام حسین نے 1988 میں عراقی کردوں کے خلاف
استعمال کیا۔ ہلبجہ میں ہونے والے اس حملے میں پانچ ہزار سے زائد افراد
مارے گئے تھے۔
1995 میں ٹوکیو میں اوم شنریکو نامی تنظیم نے زیرِزمین ریل میں سرین کے
تھیلے رکھے تھے۔ اس حملے میں 12 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
امریکی وزیرِ خارجہ جان کیری نے کہا ہے کہ 21 اگست کو دمشق میں ہونے والے
حملے کے متاثرین کے بالوں اور خون کے تجزیے سے سیرن گیس کی نشان دہی ہوئی
ہے۔ امریکہ نے اس سے پہلے بھی کہا تھا کہ شامی حکومت نے باغیوں کے ساتھ جنگ
میں سیرن استعمال کی ہے۔
شام کے پاس سیرن کہاں سے آئی؟
شام کے بارے میں خیال ہے کہ اس نے 1980 کی دہائی میں سیرن تیار کرنا شروع
کی۔ امریکی حکام کا دعویٰ ہے کہ شام نے 1988 میں کیڑے مار ادویات کی کئی
فیکٹریوں کو سیرن بنانے کے کارخانوں میں تبدیل کر دیا تھا۔
شام دنیا کے ان پانچ ممالک میں شامل ہے جنھوں نے کیمیائی ہتھیاروں پر
پابندی کے معاہدے پر دستخط نہیں کیے۔ ان میں شام کے علاوہ مصر، شمالی
کوریا، انگولا، اور جنوبی سوڈان شامل ہیں۔
تاہم شام 1925 کے جنیوا پروٹوکول میں شامل ہے، جس کے تحت کیمیائی ہتھیاروں
کے استعمال پر تو پابندی ہے، تاہم ان کی تیاری، ذخیرہ کرنے یا نقل و حمل کے
بارے میں کچھ نہیں کہا گیا۔ |