ازل سے تین نظام چل رہے ہیں:
ایک وہ نظام جو ہمارے اختیار میں ہے اُس کی منصوبہ بندی ہم کرتے ہیں اور اس
کے نتائج بھی عین ہماری مرضی کے مطابق حاصل ہوتے ہیں ۔
دوسرا وہ جو ہمارے اختیار میں ہے اُس کی منصوبہ بندی ہم کرتے ہیں لیکن اس
کے نتائج ہماری مرضی کے مطابق حاصل نہیں ہوتے۔
تیسرا وہ جو ہمارے اختیار میں تو کُجا، ہم اُس کی منصوبہ بندی بھی نہیں
کرتے اور اُس کے نتائج سے بھی لاعلم ہوتے ہیں کیونکہ جب ہم نے منصوبہ بندی
ہی نہیں کی تو اُس کے نتیجہ کا ہمیں کیا اندازہ؟
تینوں طرح کے نظام پر بحث ہوئ ہے اور مزید ہو سکتی ہے لیکن میں آج محض
دوسرے نمبر والے نظام پر اپنی رائے کا اظہار کرونگا۔ ممکن ہے بیشتر قارئین
اتفاق نہ کریں لیکن یہ ان کا بنیادی حق ہے۔ بیشتر ترقی یافتہ ممالک ستاروں
پر کمندیں ڈال چکے ہیں، محض دو لاکھ ڈالر کا وَرجِن اٹلانٹک کے اسپیس شپ کا
ٹکٹ لے کر خلا کی سیر کی بکنگ زور و شور سے جاری ہے لیکن سمندروں میں چلنے
والے سست رفتار کارگو شِپس کا آج بھی کوئ نعم البدل نہیں لہٰذا بندرگاہوں
کی قدرو منزلت میں بھی کوئ کمی واقع نہیں ہوئ۔ ایسے ممالک جن کی سرحدوں کے
ساتھ سمندر واقع ہیں وہاں بندرگاہیں بھی ہیں اور وہ خوش نصیب سمجھے جاتے
ہیں۔ پاکستان کے جنوب میں بحیرہ عرب واقع ہونے کی وجہ سے اس میں تین بندر
گاہیں کراچی، پورٹ قاسم اور گوادر موجود ہیں۔ جیسے ہوائ جہازوں کیلئے کم از
فاصلہ پر ائرپورٹ درکار ہوتے ہیں اسی طرح بحری جہازوں کیلئے بھی کم از کم
فاصلہ پر بندرگاہیں درکار ہوتی ہیں تاکہ کسی ناگہانی کی صورت میں جلد از
کنارے پہنچا جا سکے۔ منزلِ مقصود تک پہنچنے کا فاصلہ ہر قسم کی سواری کیلئے
کم از کم ہونا لازمی جزو ہے تاکہ سفری اخراجات کم از کم ہوں۔
مندرجہ بالا شرائط اور حدود و قیود کی روشنی میں گوادر پورٹ کی اہمیت اسقدر
شدت سے محسوس کی جاتی ہے جس کو ہمارے علاوہ دنیا کے تمام ممالک تن، من، دھن
کی بازیاں پچھلی پانچ دھایئوں سے زائد سے محض اس لیئے لگا رہے ہیں کہ وہ
کسی طرح اس کو حاصل کر کے اپنی تجارت کو فروغ دے سکیں۔ یاد رہے گوادر 3
ملین ڈالر میں 8ستمبر 1958 کو اومان سے خریدا گیا تھا۔سوویٹ یونین نے گوادر
تک پہنچنے کیلئے دسمبر 1979 سے فروری 1989 تک نو سال افغانستان میں جنگ لڑی
اور وہیں سے نامراد لوٹنا پڑا۔ اس جنگ میں امریکا ہمارے ساتھ تھا کیونکہ
روس کے بعد اس کا نمبر تھا اور 11/9 کا بہانہ بنا کر آج تک اس امید پر
ہزاروں اپنے فوجی، ہزاروں ہمارے اور بے شمار اسلحہ ضائع کرنے کے باوجود
اِسکوائر وَن پر کھڑاہے۔
اس کے برعکس چین نے کوئ جنگ نہیں کی۔ تدبّر، فہم و فراست سے کام لیا، ظلم و
زیادتی کے باوجود صبر کا دامن نہیں چھوڑا اور یہی وجہ ہے کہ ہم گوادر کیا
پورا پاکستان اس کی جھولی میں ڈالنے کیلئے بے چین ہیں۔ حضرت محمّدﷺ کے چچا
سعد ابن ابی وقاص، جعفر ابن ابی طالب اور جاہش ایبیسینیا سے چٹاگانگ-
کامرپ- منی پور کے راستے 615/16 میں بحری راستے سے پہلی مرتبہ چین گئے اس
کے بعد حضرت عثمانؓ کے حکم پر تیسری مرتبہ 650/51 میں سعد ابن ابی وقاص چین
میں سفارتخانہ کھولنے کی غرض سے تشریف لے گئے جہاں بادشاہ نے بہت گرم جوشی
سے استقبال کیا اور کینٹن شہر میں چین کی پہلی مسجد حضرت محمّدﷺ کی یادگار
کی حیثیت سے بنانے کا حکم دیا۔ عرب میں اسلام کے دور سے پہلے سے عرب اور
چین کے درمیان تجارتی تعلقات تھے لیکن یہ چین کے جنوبی ساحل کے ذریعے ہوتے
تھے جو کہ بہت طویل سفر ہؤا کرتا تھا لہٰذا اس کو کم کرنے کی ضرورت اس وقت
سے ہی محسوس کی جاتی تھی۔
دوسرا نظام دیکھیئے کہ منصوبہ بندی اور تگ و دو کن ممالک نے کی اور آج
تاریخ نے فیصلہ کس کے حق میں دیا۔اسی لئے تو حضرت محمّدﷺ نے فرمایا تھا کہ
سیکھنا ہے تو چین سے سیکھو۔ |