والدین اولاد کی نفسیات کو سمجھیں

محبت‘ انسیت‘ غصہ‘ ناراضگی‘ نفرت‘ خلوص‘ ایثار اور ہمدردی انسانی جبلت کا خاصہ ہیں۔ انسان بلند و بالا پہاڑوں‘ قدرتی فضائوں اور سیاروں کی تسخیر کا دعویٰ کرتا ہے۔ وہ انسان جو درندوں سے خوفزدہ رہتا تھا آج درندے اس کی درندگی سے ڈرتے ہیں مگر تسخیر کائنات کا مدعی حضرت انسان ان جذبات و احساسات پر قابو پانے سے قاصر رہا ہے۔ آدم علیہ السلام کی تخلیق سے دور حاضر تک کرہ ارض نے ان گنت انقلابات دیکھے۔ ان انقلابات زمانہ کے باعث انسانی تہذیب‘ ثقافت ‘ فن سیاسیات‘ فن تعمیر‘ سماجی رسوم و روایات کو ہر دور میں تغیر نصیب ہوا ہے لیکن انسان کے فطری رویوں میں تغیرو تبدل نہ آسکا۔ ان جذبات پر کسی حد تک قابو پایا جاسکتا ہے مگر کلی طور پر ان کی فراموشی کا تو اللہ کے برگزیدہ بندے بھی دعویٰ نہ کرسکے۔ یہ الگ بات ہے کہ ان کی محبت اور ناراضگی کے تناظر میں کوئی نہ کوئی مقصد پوشیدہ ہوتا ہے۔ یہ مقصد صرف اور صرف رضائے الٰہی اور فلاح انسانیت پر مبنی ہوتا ہے۔ انسان اشرف المخلوقات اور نائب خدا ہونے کے اعزاز سے معزز ہوا ہے۔ اس کے اور دوسری مخلوقات کے درمیان ایک امتیازی فرق ہے کہ انسان ایک معاشرے میں رہتا ہے جہاں بحیثیت رکن معاشرہ اس کے ذمے کچھ فرائض اور واجبات ہوتے ہیں جن کی ادائیگی ناگزیر ہے۔

کوئی بھی فرد معاشرے میں جتنے بھی رشتوں سے منسلک ہوتا ہے ان میں سب سے زیادہ اس کا رشتہ والدین کے ساتھ مضبوط ہوتا ہے اولاد اور والدین کے درمیان محبت کی فطری جبلت پائی جاتی ہے اس کی ابتدا ماں کی گود سے ہی شروع ہوجاتی ہے۔ شاید اسی وجہ سے ہی ماں کی گود کو بچے کی پہلی درسگاہ قرار دیا جاتا ہے۔ اسی درسگاہ سے وہ خود اعتمادی جیسی نعمت سے مالامال ہوتا ہے جو بعد میں اس کی شخصیت میں نکھار کا سبب بنتی ہے۔ خدا کی پناہ کے بعدوالدین ہی وہ ہستیاں ہیں جو کسی بھی شخص کیلئے جائے پناہ کاکام دیتی ہیں۔ والدین اور اولاد کے درمیان رخنے کی شکایت اس وقت پیدا ہوتی ہے جب بچہ ایام طفولیت سے نکل کر ایام بلوغت کی طرف آتا ہے اگرچہ مشرق میں شکایت کا تناسب مغرب کی نسبت کم ہے مگر سوچنے کی بات یہ ہے کہ آخر وہ کیا چیز ہے جو والدین اور اولاد کے درمیان موجود اس جذبہ محبت کو عداوت میں بدل دیتی ہے۔ اگرچہ سبھی معاملات زندگی میں بات انتہا تک نہیں پہنچی مگر نوجوانوں کے رویے کو محسوس کرنے کیلئے ان کے چہرے کے تاثرات اور بھنوئوں کے اتار چڑھائو ہی والدین کیلئے کافی ہوتے ہیں جسے والدین کے لیے برداشت کرنا مشکل اور صبر آزما کام ہے۔

نفسیات کے ماہرین اولاد اور والدین کے درمیان اس چپقلش کو نسلی خلاءکا نام دیتے ہیں۔ ماں باپ بچے کیلئے اپنے تجربات کو سنگ میل سمجھتے ہیں جبکہ نوجوان طبقہ اپنی زندگی کے فیصلے خود کرنے اور تجربات کرنے کا خواہشمند ہوتا ہے۔ اس خلاءکی بڑی وجہ یہ ہے کہ مادی ترقی نے انسان کی سوچ کے معیار بدل دئیے ہیں ۔ انسان نے ترقی تو کرلی ہے مگر خواہشات کے حصول کی دوڑ اور مادہ پرستی نے اسے ایک دوسرے کے احساسات و جذبات کی پرواہ کرنے کے جذبے سے محروم کردیا ہے۔ الیکٹرانک ترقی نے جہاں ساری دنیا کوگلوبل ولیج بنادیا ہے وہاں ہر ملک کی انفرادی روایات کو بھی تباہ و برباد کرنے میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔ مغرب کی اندھی تقلید بھی نوجوانوں کو والدین کا گستاخ اور خودسر بنارہی ہے۔

مغرب کے مادر پدر آزاد معاشرے نے جہاں اور کئی قباحتوں کو جنم دیا ہے وہاں بدتمیزی اور بدتہذیبی جیسے جراثیم بھی ہمیں عنایت کیے کہ طبقہ اشرافیہ تو ان کی نقالی میں سب کو پیچھے چھوڑ گیا ہے اور اولاد کے رویے کی شکایات بھی اسی طبقے سے موصول ہورہی ہیں۔

نوجوانوں کے اس حوصلہ شکن رویہ کے کسی حد تک ذمہ دار والدین بھی ہیں۔ وہ تیزی سے بدلتے معاشرے سے صرف نظر کرتے ہوئے جوان بچوں پر اپنی مرضی ٹھونسنے کی کوشش کرتے ہیں اور بدلے میں انہیں اپنے ارمانوں کا خون کروانا پڑتا ہے۔ وہ نوجوان نسل کو اپنے نقش قدم پر چلانا چاہتے ہیں جبکہ نوجوانوں کو اپنے قدموں کے نیچے سیڑھیاں پسند نہیں وہ ہوائوں میں اڑنے کے خواہاں ہیں۔ نوجوان خون کے فیصلے جلد بازی اور جذبات پر مبنی ہوتے ہیں اور والدین کی ہٹ دھرمی جلتی پر تیل کا کام دیتی ہے۔

اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جو اپنے پیروکاروں کو زندگی گزارنے کے تمام آداب سے روشناس کرواتا ہے۔وہ کرہ ارض پر موجود تمام رشتوں کی تعظیم کا درس دیتا ہے۔ باری تعالیٰ نے انسان کو بقائے نوع انسانی کے علاوہ اور بھی ارفع و اعلیٰ فرائض تفویض کیے ہیں جن میں اولاد کی تعلیم وتربیت‘ تہذیب معاشرت اور تربیت اخلاق بھی شامل ہے۔ تعلیم کے ذریعے بچوں میں شریعت اور تہذیب پیدا ہوتی ہے۔ جن سے وہ عادات و خصائل و اخلاق انسانیت کی بلندیوں پر پہنچ جاتا ہے۔ ”فرمان رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہے باپ کاکوئی عطیہ بیٹے کیلئے اس سے بڑھ کر نہیں کہ وہ اس کی اچھی تعلیم وتربیت کرے۔“

ضرورت اس امر کی ہے کہ والدین بچوں کی مناسب تعلیم و تربیت پر توجہ دیں اور بچے والدین کے ادب و احترام کا پاس رکھیں۔ اسلام تو بچوں کو یہاں تک حکم دیتا ہے کہ اپنے والدین کے سامنے ”اف“ تک نہ کہیں اور بعد مرنے کے بھی ان کے حقوق کا خیال رکھیں اور وہ حقوق یہ ہیں کہ ان کی مغفرت کیلئے دعا کریں‘ ان کیلئے صدقہ کریں اور ان کے اعزا و اقارب اور دوستوں سے محبت سے پیش آئیں۔

حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا ایک اعرابی دوست آپ کو ملا اور پوچھا کہ آپ فلاں (حضرت عمر رضی اللہ عنہ) کے بیٹے ہیں اس پر حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے اس اعرابی کو ایک سواری اور اپنے سر سے عمامہ اتار کر دیدیا حالانکہ آپ کے بعض ساتھیوں کے بقول اس کیلئے دو درہم بھی کافی تھے لیکن حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے والد کی دوستی کا خیال کیا اور اسے خوب عنایت کیا۔

جہاں اسلام میں نوجوانوں اور بچوں کو والدین کی خدمت کا پابند کیا گیا ہے وہاں ماں باپ کو بھی سب بچوں کے درمیان عدل وانصاف کرنے کا حکم صادر فرمایا گیا ہے۔

نوجوانوں کا رویہ ایک سوالیہ نشان بنتا جارہا ہے۔ اس وقت نوجوانوں اور والدین کو اپنے اپنے حقوق و فرائض باور کروانے کی ضرورت ہے جو والدین کو باور کروائے کہ گھروں میں بچوں کیساتھ دوستانہ رویہ روا رکھا جائے۔ بچوں کی صلاحیتوں اور قابلیتوں کو تسلیم کیا جائے اس کے ساتھ ساتھ بچوں کو اس بات کا احساس دلایا جائے کہ ان کی صلاحیتیں اور قابلیت اپنی جگہ مگر والدین کے تجربے سے بھی فائدہ اٹھایا جانا چاہیے تاکہ والدین اور اولاد کے درمیان باہمی افہام و تفہیم کی فضاءہموار رہے۔ اس سلسلے میں لوگوں کو اسلامی تعلیمات سے روشناس کروانے کی بھی ضرورت ہے۔ اسلام نے والدین اور اولاد کیلئے الگ الگ فرائض کا تعین کیا ہے جن سے گریز کسی صورت بھی ممکن نہیں۔

بشکریہ ماہنامہ عبقری میگزین
Jaleel Ahmed
About the Author: Jaleel Ahmed Read More Articles by Jaleel Ahmed: 383 Articles with 1220613 views Mien aik baat clear karna chahta hoon k mery zeyata tar article Ubqari.org se hoty hain mera Ubqari se koi barayrast koi taluk nahi. Ubqari se baray r.. View More