پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا کی ایک میڈیکل یونیورسٹی
میں طالبات کے لیے ’اسلامی حجاب‘ کو لازمی قرار دے دیا گیا ہے۔ انتظامیہ کے
مطابق یہ قدم اس لیے اٹھایا گیا ہے تاکہ ’شائستگی کا کلچر‘ پیدا ہو۔
ڈوئچے ویلے کی شائع کردہ ایک رپورٹ کے مطابق جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے نے
پشاور کی خیبر میڈیکل یونیورسٹی سے وابستہ ایک اعلیٰ اہلکار کے حوالے سے
بتایا ہے کہ یونیورسٹی میں خواتین کے لیے حجاب کا استعمال ضروری قرار دے
دیا گیا ہے۔ پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے صوبائی دارالحکومت پشاور میں
قائم خیبر میڈیکل یونیورسٹی سے الحاق شدہ خیبر میڈکل کالج کے پرنسپل نور
العمران کے بقول حجاب پہننا پاکستانی معاشرے کی بنیادی اقدار میں شامل ہے۔
انہوں نے انتظامیہ کے اس فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے کہا، ’’ یہ قدم اسلامی
اقدار کی ترویج اور اپنی روایات کو محفوظ بنانے کے لیے اٹھایا گیا ہے۔
|
|
عمران نے کہا کہ خیبر میڈیکل یونیورسٹی میں اسٹوڈنٹس کی مجموعی تعداد پندرہ
سو ہے، جن میں سے قریب نصف خواتین ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ صرف طالبات کے
لیے ہی حجاب ضروری قرار نہیں دیا گیا ہے بلکہ طلبا کے لیے بھی ایک ڈریس کوڈ
متعارف کرایا گیا ہے۔ خیبر میڈکل کالج کے پرنسپل کا کہنا تھا کہ طلباء بھی
ڈھیلے ڈھالے ٹراؤزر اور لمبی شرٹس پہنیں گے۔ انہوں نے کہا کہ یہی لباس
پاکستان کے زیادہ تر علاقوں میں مقبول ہے۔
یہ امر اہم ہے کہ پاکستان کے متعدد شہروں کے ساتھ ساتھ پشاورمیں بھی مغربی
طرز کے لباس انتہائی مقبول ہیں اور نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد ایسے لباس
زیب تن کرنے کی خواہش رکھتی ہے۔ یونیورسٹی انتظامیہ کی طرف سے اٹھائے گئے
اس قدم پر طلباء و طالبات نے غصے کا اظہار کرتے ہوئے احتجاج بھی کیا ہے۔ ڈی
پی اے نے ایک طالب علم کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا ہے کہ اکثر اسٹوڈنٹس نے اس
نئے ڈریس کوڈ کو پابندی قرار دیتے ہوئے اس پر عمل کرنے سے انکار کر دیا ہے۔
اس یونیورسٹی کے ایک طالب علم عرفان اللہ مروت نے ڈی پی اے سے گفتگو کرتے
ہوئے کہا، ’’ہم اس فیصلے کو تسلیم نہیں کرتے ہیں۔‘‘ بائیس سالہ عرفان کہا
کہ یہ ایک سخت قدم ہے اور کوئی بھی انہیں یہ نہیں بتا سکتا کہ انہیں کیا
پہننا چاہیے اور کیا نہیں۔ لیکن پرنسپل نور العمران نے کہا ہے کہ انتظامیہ
اپنا یہ فیصلہ نہیں بدلے گی۔
ناقدین کے بقول کسی یونیورسٹی میں حجاب کو زبردستی لازمی قرار دے دینا دراصل
پاکستانی معاشرے میں بڑھتی ہوئی قدامت پسندی کی طرف اشارہ ہے۔
|
|
ابھی گزشتہ ہفتے ہی پاکستانی ٹیلی کمیونیکشن اتھارٹی (پی ٹی اے) نے موبائل
فون آپریٹرز کو حکم دیا تھا کہ وہ نوجوانوں میں مقبول رات کے وقت مفت ٹیلی
فون پیکجز ختم کر دیں کیونکہ ایسی سہولیات پاکستان کی ’سماجی اقدار سے
تصادم‘ رکھتی ہیں۔ پی ٹی اے حکام کے مطابق مفت ٹیلی فون کی سہولت سے
نوجوانوں کی ’اخلاقی حالت بگڑ‘ رہی ہے، جو ’بے حیائی‘ کا سبب بن رہی ہے۔ |