قباء سے واپسی پر ہم مولاناعبداﷲ حیدری کے
ساتھ الجامعۃالاسلامیۃبالمدینۃالمنورہ چلے گئے، جامعہ کے گیٹ پرمولاناحیدری
صاحب کے’’ضیف خاص‘‘کہنے پربحمداﷲ گاڑی کیساتھ اندرجانے کی اجازت مل گئی۔
مختلف شعبوں کادورہ کیا،آخرمیں کلیۃاللغۃ العربیۃ کاذرا تفصیلی جائزہ
لیاگیا،مدیرالکلیہ ماجستیر(ایم اے)کے کسی مقالے کے’’نِقاش‘‘یعنی وائیواکے
لئے تشریف لے گئے تھے، سیکرٹری سے ملاقات ہوئی، بڑے تپا ک کے ساتھ انہو ں
نے ہمارا استقبال کیا،بہت خوش اخلاقی اور ملنساری کا مظاہرہ فرمایا،یہ بھی
کہنے لگے کہ مدیر صاحب جہاں مناقشے میں مصروف ہیں، وہاں آپ حضرات شرکت
کرناچاہیں،توبسر وچشم،لیکن ہم قلتِ وقت کے باعث نہ جاسکے، ادھرہمیں ’’عمادۃخدمۃالمجتمع‘‘
یعنی سول سروسزڈپارٹمنٹ جاناتھا،جہاں ان ساتھیوں سے کچھ گفت وشنیدبھی کرنی
تھی، ڈیپارٹمنٹ کے تمام مسؤلین نے کھڑے ہوکرخوش آمدیدکہا، چائے پانی کے
بعداپنے شعبے کا تفصیلی تعارف ،خدماتِ فضلائے جامعہ اسلامیہ کی فہرستیں، ان
سے ارتباطا ت کی تفصیلات پیش فرمائیں،مولاناعبدااﷲ حیدری صاحب زیدمجدہم نے
اپناتعارف کرایا اور سابق فاضل اوراس شعبے سے منسلک ہونے ، بلکہ اس شعبے کو
فعال ومستعد بنانے میں فائلیں منگواکر اپنا کرداربتایا اورمستقبل کے لئے
انہوں نے کچھ تجاویز بھی پیش کیں،جنہیں وہاں موجود ساتھیوں نے زیبِ قرطاس
کیا تھا۔
اس کے بعد ہم نے دنیاکے گلوبل ویلج بننے، الیکٹرونک صنعت میں دنیا کی تیز
ترین اور محیر العقول ترقی ،میڈیا کا کردار ،بین الفرق والادیان والمذاہب
الفکریۃ المعاصرۃ کے مکالمے کی شدید ترین ضرورت ،دعوت وتبلیغ میں حکمت
اورمواعظ حسنہ اپنانے ،نظریاتی جنگ(الغز والفکري)میں اپنا بھر پور وزن
ڈالنے کے لئے ہمہ جہتی مطالعے اور اس طرح کے کچھ عناوین پر مختصر بات
کی،ساتھ ہی میں نے عرض کیاکہ جامعہ کے فضلاء وخریجین کو عربی زبان وادب میں
مثالی کردار کا حامل ہوناچاہئے ،اس کے حوالے سے کچھ چیزوں کی طرف ہم نے
اشارے بھی کئے ،نیز سلفیت اوررسوخ فی الاعتقاد کے موضوع پر میں نے عرض
کیا،کہ لوگوں کودین میں داخل کرانے اور کسی طرح اہل قبلہ کوحظیر ۂ اسلام
میں شمارکرنے کا طریقہ اپنایا جائے ،نہ یہ کہ اہل دیوبند جیسے راسخین فی
الدین اور سلف صالح کے منہاج پر چلنے والوں کو بھی کچھ ناعاقبت اندیش حضرات
مطعون کریں،میں نے عرض کیا کہ فرق وأدیان پر کام کرنے کا چونکہ بحمداﷲ مجھے
قدرے تجربہ ہے،اور اس حوالے سے میں متعدد کتب کا مطالعہ بھی کرچکا ہوں،جن
میں سے بعض محققین دادِ تحقیق حاصل کرنے کے لئے خواہ مخواہ کے بکھیڑوں میں
پڑتے ہیں ،حقیقت تو یہ ہے کہ بعض جگہوں میں اس طرح کے محققین اعتدال کے
حدود کو زبان وبیان میں پھلانگ دیتے ہیں،جس سے ’’امہ‘‘ کی خدمت کی بجائے
نقصان کااندیشہ ہوتاہے، (لایجرمنکم شناٰن قوم علیٰ ألا تعدلوا اعدلوا
ھوأقرب للتقوی)کو نصب العین بنانا اس کام میں ضروری ہے۔
میں نے عرض کیا کہ ہماری کتاب ’’مکالمہ بین المذاہب ‘‘پر بعض دوستوں کا
اعتراض کہ آپ نے کیا کیا ہے ؟ کسی فرقے پر تصحیح ،تصویب یا تخطیۂ و تغلیط
کا حکم نہیں لگایا ،میں اس کے جواب میں انہیں کہتا ہوں ،کہ بھائی آج کے
زمانے میں کوئی کسی کا فتویٰ نہیں مانتا ،یہ زمانہ تو دلیل ،منطق ،ڈائیلاگ
اورمعلومات کاہے،بہر حال آخر میں کچھ دوستوں نے وحدت ادیان ،توحید بین
الأدیان ،اور تقریب بین المذاہب الاسلامیہ جیسے موضوعات پر سوالات بھی کئے
، حسبِ استطاعت ٹوٹے پھوٹے جواب دینے کی کوشش کی گئی،کچھ ساتھیوں نے
دیوبندیوں میں بعض کی طرف اشارے کئے،میں نے عرض کیا کہ مجمع علیہم اور متفق
علیہم کو دیکھا کریں ، شذوذ،تفرد اور شواردکے پیچھے پڑنے والوں کو خاطر میں
نہ لائیں ،میں نے عرض کیا کہ جہاں جہاں اس طرح کی چیزیں ہوتی ہیں کہ جن سے
بدعت فی العمل یا ابتداع فی الاعتقاد کی بو آتی ہو، وہاں ہمارے شیخ سماحۃ
العلامۃ حضرت مولانا سلیم اﷲ خان صاحب دامت بر کاتہم جیسے اساطین علم اس کی
اصلاح بھی فرماتے رہتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ ان ساتھیوں کی باتیں سن کر ان کے اخلاق دیکھ کر، ان کی
عالمی فکر وفلسفے کی طرف رسائی کاعلم ہوکر ،بے حد خوشی ہوئی، اﷲ انہیں اور
ہم سب کو اسلام اور مسلمانوں کی خدمت کی توفیق نصیب فرمائیں۔
ہم نے یونیورسٹی پہنچ کرشیخ حبیب حسن زئی صاحب اور اسلام الدین صاحب کو فون
ملایاتھا،حسن زئی صاحب ہمیں تلاش کرکے ہمارے ساتھ ہولئے تھے ،یہاں آخرمیں
’’عمادہ ‘‘والوں نے ہم تینوں کومکتبہ شاملہ وغیرہ کی سی ڈیز،ڈھیرساری قیمتی
اورضخیم کتابیں الگ بنڈل بناکرتحفے میں دیں،اﷲ انہیں اجرجمیل اورعلم ِنافع
نصیب فرمائے ۔
مدینہ یونیورسٹی کےv cکی ضیافت:
جامعہ اسلامیہ کے وائس چانسلر محترم جناب محمدبن علی العقلہ کوجب وفاق
المدارس العربیہ پاکستان کے اعلی سطحی وفد کی یہاں آمدکے بارے میں معلوم
ہوا ،تو انہوں نے اس وفد کے اعزاز میں اگلے اتوارکو ایک ایسی ضیافت کے
اہتمام فرمانے کاارادہ کیا،جس میں جامعہ کے کچھ دیگرپروفیسرز بھی شریک
ہوں،لیکن صدافسوس کہ ضیقِ وقت کے باعث’’وفد ِوفاق‘‘اس پُروقارضیافت کے لئے
نہ رُک سکا۔ |