جس خاک پہ رکھتے تھے قدم سید عالم (ﷺ)
اس خاک پہ قربان دلِ شیدا ہے ہمارا
اﷲ تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ سے کائنات میں جو کچھ بھی تخلیق فرمایا،یقینا
بے انتہا خوب ہے ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’فَتَبٰرَکَ اللّٰہُ اَحْسَنُ الْخٰلِقِیْن۔‘‘ ترجمہ: ’’تو بڑی برکت والا
ہے اﷲ سب سے بہتر بنا نے والا ۔‘‘ (المومنون)
زمین وآسمان ،جو کچھ ان میں اور ان کے علاوہ ہے بلاشبہ بہت خوب ہے ۔پوری
زمین بابرکت اور اہل اسلام کے لئے مسجد کا مقام رکھتی ہے۔لیکن زمین کے جس
حصہ کو اس کے محبوب بندوں سے خاص طور پر نسبت ہو اس کی اہمیت وفضیلت وبرکت
زمین کے دیگر حصوں سے زیادہ ہے ۔جیسا کہ ارشاد ربانی ہے:’’مِنَ الْمَسْجِدِ
الْحَرَامِ اِلَی الْمَسْجِدِ الْاَقْصَی الَّذِیْ بٰرَکْنَا
حَوْلَہٗ۔‘‘ترجمہ:’’مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک جس کے ارد گرد ہم نے برکت
رکھی۔‘‘(بنی اسرائیل)(کنزالایمان)
جب مقامات مقدسہ، آثار اسلام ودیگر انبیاء کرام کی نسبت کے باعث مسجد حرام
تا مسجد اقصیٰ تک کا علاقہ بابرکت قرار پایا تو اس سرزمین کی قسمت کا کیا
کہنا جسے بالخصوص محبوب خدا ،سیدالانبیاء حضرت محمد مصطفےٰﷺ سے نسبت کا شرف
حاصل ہو۔
حرم کی زمین اور قدم رکھ کے چلنا
ارے سرکا موقع ہے او جانے والے
ارشاد باری تعالیٰ ہے:’’لَااُقْسِمُ بِھٰذَ االْبَلَد ہ وَ اَنْتَ حِلٌّم
بِھٰذَاالْبَلَد 0‘‘ترجمہ: ’’مجھے اس شہر کی قسم کہ اے محبو ب تم اس شہر
میں تشریف فرما ہو۔‘‘(کنزالایمان)(البلد)
آیات مذکورہ میں شہر سے مراد مکہ مکرمہ ہے۔معلوم ہوا کہ یہ عظمت مکہ مکرمہ
کو سید عالم ﷺ کی رونق افروزی کی بدولت حاصل ہوئی۔(خزائن العرفان حاشیہ
کنزالایمان)
تو جب حضور پر نور شافع یوم النشور ﷺ مکہ مکرمہ سے ہجرت فرما کر یثرب تشریف
لے گئے تو یثرب یثرب نہ رہا ،مدینہ منورہ بن گیا۔عزت وحرمت والا بن گیا
۔باالفاظ دیگر اگر یوں کہا جائے کہ آیاتِ مذکورہ کا مضمون اب مدینہ طیبہ پر
بھی منطبق ہوتا ہے تو بے جا نہ ہو گا۔اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاں حنفی
قادری فاضل بریلوی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں:
کھائی قرآں نے خاک گزر کی قسم
اس کفِ پاکی حرمت پہ لاکھوں سلام
زیر قلم مضمون میں مناسک حج سے متعلقہ مقامات کو مستثنیٰ رکھتے ہوئے (کہ ان
کا تذکرہ مضامین حج میں موجود ہے)بعض دیگر مقامات کا ذکر قارئین کرام کی
نذر کرنے کی سعادت حاصل کی جا رہی ہے۔
حضرت اسمٰعیل علیہ السلام وحضرت ہاجرہ سلام اللّٰہ علیہا کے مزارات:پرنالہ
ء کعبہ یعنی میزاب کے نیچے زیر سنگ حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کا مزار
پُرانوار ہے ۔حضرت اسمٰعیل علیہ السلا م کے مزار شریف کے ایک جانب رکن
عراقی کے قریب آپ کی والدہ ماجدہ حضرت ہاجرہ سلام اﷲ علیہاکا مزار اقدس
ہے۔ہر دو مزارات مابین سات بالشت کا فاصلہ ہے۔(سفر ابنِ بطوطہ)
مولد الرسول ﷺ : وہ بابرکت مقام جہاں آقا ئے کائنات ﷺ کی ولادت باسعادت
ہوئی۔محلہ ’’فشاشیہ‘‘(مکہ معظمہ)کی اس گلی میں ہے جسے ’’سوق الیل ‘‘ کے نام
سے جانا جاتا ہے۔حضرت عبداﷲ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا وہ مکان مبارک جہان سیدہ
آمنہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہانے اس نورمجسم ﷺکو جنم دیا جس کے نور سے انہوں نے
شام کے محلات کا مشاہدہ فرما لیا۔(بحوالہ بخاری شریف)
اب اصلی حالت میں تو محفوظ نہیں تاہم موجودہ عمارت اسی مقام پر ہے جہاں آپ
ﷺ کی ولادت باسعادت ہوئی ۔
جس سہانی گھڑی چمکا طیبہ کا چاند
اس دل افروز ساعت پہ لاکھوں سلام
مولد مبارک ان مقد س مقامات میں سے ہے جن کی برکت سے دعائیں قبول ہوتی
ہیں۔مفتی مکہ شیخ عبدالکریم القطبی نے تحریر فرمایا ہے جس کا مفہوم یہ ہے
۔’’مولد النبی ﷺ کے پاس دعائیں قبول ہوتی ہیں اور یہ مقام محلہ بنی ہاشم
میں مشہور ومعروف ہے۔(اعلام العلماء)
حشر تک ڈالیں گے ہم پیدائش مولیٰ کی دھوم
مثلِ فارس نجد کے قلعے گراتے جائیں گے
محلہ بنی ہاشم:جبل ابو قبیس کے دامن میں واقع ہے۔یہی وہ جگہ ہے جہاں قبیلہ
قریش آباد تھا۔جہاں آپ کے دادا حضرت عبدالمطلب رہائش پذیر تھے جو خاندان
بنو ہاشم کے سردار اور خانہ کعبہ کے متولی تھے۔یہیں وہ گھاٹی تھی جسے شعب
ابی طالب کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ جہاں آ پﷺ اور آپ ﷺ کے قبیلے نے کفار
مکہ کے ظلم وستم سے تنگ آکر تین سال گزارے ۔
جبل ابو قبیس:یہ پہاڑ صفا شریف پہاڑی کے بالکل نزدیک ہے۔حضرت ابن عباس رضی
اﷲ تعالیٰ عنہ کی روایت کے مطابق جب اﷲ تعالیٰ نے پہاڑ پیدا فرمائے تو سب
سے پہلے جبل ابو قبیس کو پیدا فرمایا۔طوفان نوح علیہ السلام کے بعد حجر
اسود اس پہاڑی میں بطور امانت محفوظ رہا۔یہ بھی کہتے ہیں کہ حضرت آدم علیہ
السلام کا مزار یہیں ہے۔وہ متبرک مقام جہاں معجزہ شق القمر کے وقت حضور پر
نور شافع یوم النشور ﷺ قیام پذیر رہے اسی پہاڑ پر ہے۔(سفر نامہ ابن بطوطہ)
جبل نور: مکہ معظمہ سے تقریباً تین میل کے فاصلے پر واقع ہے ۔اس کی چوٹی پر
وہ مقد س غار ہے جو تاریخ میں ’’ غار حرا‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ جس میں
حضور ﷺ کی حیات مبارکہ کا اکثر وقت گزرتا تھا اور جس میں آپ ﷺ پر پہلی وحی
کا نزول ہوا۔
بجھ گئیں جس کے آگے سبھی مشعلیں
شمع وہ لے کر آیا ہمارا نبیﷺ
جبل ثور:مکہ مکرمہ سے تقریباً چھ میل دور یمن کے راستہ پر واقع ہے ’’ غار
ثور‘‘ اسی پہاڑ میں ہے جس میں آپ ﷺ دوران ہجرت حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ
تعالیٰ عنہکے ہمراہ پناہ گزیں رہے ۔
مقام خواب راحت چین سے آرام کرنے کو
بنا پہلوئے محبوب خدا ،صدیق اکبر ؓ کا
جائے سکونت سیدہ خدیجہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا:وہ مقام جہاں آقائے کائنات ﷺ کی
پہلی زوجہ محترمہ ،ام المومنین حضرت خدیجہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کی رہائش
تھی۔جہاں حضرت زینب رضی اﷲ عنہا ،حضرت رقیہ رضی اﷲ عنہا ،حضرت ام کلثوم رضی
اﷲ عنہا، سیدہ فاطمۃ الزہرا رضی اﷲ تعالیٰ عنہا ،حضرت طاہر رضی اﷲ تعالیٰ
عنہ اور حضرت طیب رضی اﷲ تعالیٰ عنہپیدا ہوئے نہایت فضیلت کا حامل ہے۔یہ
متبرک مقام کوہ مروہ کے دامن میں چھتہ بازار کے اندر زر گروں کی پہلی گلی
میں واقع ہے۔
بیت صدیق اکبر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ:وہ متبرک مقام جہاں سے آپ ﷺ نے بوقتِ ہجرت
حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہکو ساتھ لیا تھا۔و ہ مقدس مقام جو اس
عظیم الشان نیکی کا نقطہ آغاز تھا جس کے مقابلے میں رفیق رسول ﷺ حضرت عمر
فاروق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ بھی اپنی عمر بھر کی نیکیوں کو کمتر خیال فرماتے
تھے ،محلہ مسفلہ میں زرگروں کی گلی میں واقع ہے۔
مصحف زیدبن ثابت رضی اﷲ تعالیٰ عنہ:حرم شریف سے متعلقہ لائبریری میں قرآن
کریم کا و ہ متبرک مصحف شریف جو حضرت زید بن ثابت رضی اﷲ تعالیٰ عنہنے آپ ﷺ
کی وفات شریف کے بعد 18ھ میں نقل فرمایا تھا۔ایک تابوت کے اندر محفوظ ہے۔
اس مصحف شریف کی بابت مرقوم ہے کہ !
’’ اہل مکہ جب کسی قحط یا مصیبت میں مبتلا ہوتے ہیں تو اس مصحف شریف کو
نکالتے ہیں اور کعبہ شریف کا دروازہ کھول کر آستانہ مبارک پر رکھ دیتے ہیں
اور اس کے ساتھ مقام ابراہیم علیہ السلام پر بھی لا کر رکھتے ہیں اور سب
لوگ ننگے سر جمع ہو کر مصحف شریف اور مقام شریف کے توسل سے دعا مانگتے ہیں
تو اﷲ تعالیٰ خاص لطف وکرم فرما دیتا ہے۔(سفر نامہ ابن بطوطہ)
جنت المعلٰی: مکۃ المکرمہ کا قبرستان جو کہ تاریخی حیثیت کا حامل ہے ۔جس
میں بے شمار صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین،تابعین،تبع تابعین،اولیاء
کرام اوربزرگانِ دین مدفون ہیں۔حضور ﷺ کی پہلی زوجہ اُم المومنین حضرت
خدیجہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہاکا مزار اقدس بھی اس قبرستان میں ہے۔علاوہ ازیں
حضرت اسماء بنت ابی بکر صدیق، عبدالمطلب، چچا ابو طالب ،حضرت عبداﷲ بن زبیر
رضی اﷲ تعالیٰ عنہ ،حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اور صاحبزادگانِ
رسول ﷺ حضرت قاسم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ ،حضرت طاہر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اور حضرت
طیب رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اس قبرستان میں آرام فرما ہیں۔مگر افسوس صدافسوس کہ
نجدی حکومت کی ستم ظریفیوں کے باعث بے شمار قبریں بے نشان ہو کر رہ گئی
ہیں۔
جنت المعلٰی ہو یا جنت البقیع (مد ینہ منورہ کا مشہور قبرستان)انہیں لوہے
کے مشینی ہلوں سے برابر کر ڈالا گیا۔کہیں سڑکیں کھلی کرنے اور کہیں توسیع
پسندانہ منصوبوں کے نام پر یہ دل آزار منظر کشی داغی گئی۔حتیٰ کہ حضرت
خدیجۃ الکبریٰرضی اﷲ تعالیٰ عنہاجیسی متبرک ہستیوں کی قبروں کے نشانات تک
کو مٹا دیا گیا۔(بحوالہ: سیدہ آمنہ ؓ اور مملکت سعود یہ کی ستم کاریاں )
مقام ابواء: مکہ معظمہ ومدینہ منورہ کے مابین اس مقدس ومتبرک مقام پر سرور
کائنات ،شافع یوم النشور حضور پر نور ﷺ کی والدہ طیبہ طاہرہ حضرت سیدہ آمنہ
رضی اﷲ تعالیٰ عنہا آرام فرما ہیں۔آپ ﷺ کی عمر مبارک چھ برس کی تھی جب آپ ﷺ
کی والدہ ماجدہ نے آپ ﷺ کو آپ کے ننھیال دکھانے کیلئے سفر یثرب (مدینہ)کی
تیاری کی۔ ایک اُونٹ پر سیدہ آمنہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا سوار تھیں اور دوسرے
پر آپ ﷺ اور آپ ﷺ کی خادمہ اُم ایمن ۔انہوں نے بنوعدی بن النجار کے ہاں
دارالنابغہ میں قیام فرمایا۔ایک ماہ بعد واپس لوٹیں تو راستے میں طبیعت سخت
ناسازہو گئی۔ابواء شریف کے مقام پر اپنے لخت جگر ونور نظرحضرت محمد مصطفےٰ
ﷺ کو حسرت بھری نگاہوں سے دیکھتے دیکھتے داعی الٰہی کو لبیک کہا اور وہیں
مدفون ہوئیں۔
مگر افسوس صد افسوس ! رمضان المبارک 1419ھ کے دوران نام نہاد سعودی حکومت
نے سرکار دوعالم ﷺ کی پیاری والدہ ماجدہ کی قبر انور کو بلڈوزر سے منہدم کر
دیا۔اس متبرک مقام کو کئی فٹ تک کھودا گیا اور اسے تلپٹ کر دیا اور جس پہاڑ
کی چوٹی پر یہ قبر انور موجود تھی اسے کاٹ کر ایک جانب دھکیل دیا گیااور وہ
پتھر جن پر ماضی میں زائرین نے نشان کے طور پر سبز رنگ کیا ہوا تھا کچھ
پہاڑی کی ڈھلوان پر اور کچھ ایک جانب ڈھیری کی شکل میں ڈال دئیے گئے۔ (سیدہ
آمنہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا اور مملکت سعودیہ کی ستم کاریاں) لیکن ایسے افعال
سے ملت اسلامیہ سخت مضطرب ہوتی ہے ۔سودی فرمانروا خادم حرمین شریفین کو ان
باتوں کا نوٹس لینا چاہیے اور متبرک و مقدس مقامات کی حفاظت کے لئے اقدامات
اٹھانے چائیں تاکہ یہ یادگارقلوبِ مومنین کی تسکین کا باعث بنیں۔
مدینہ منورہ کے فضائل وبرکات:حضرت سفیان بن ابی زبیر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے
روایت ہے کہ میں نے رسول اﷲ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ یمن فتح ہو گا اور کچھ
لوگ اپنے گھر والوں اور اپنی فرمانبرداری کرنے والوں کو وہاں لے کر چلے
جائیں گے ۔حالانکہ مدینہ ان کیلئے بہتر ہے اگر وہ جانتے اور شام فتح ہو گا
اور کچھ لوگ دوڑ کر (یعنی بہت جلد)اپنے گھروالوں اور فرمانبرداروں کو وہاں
لے جائیں گے حالانکہ مدینہ ان کے لئے بہتر ہے اگر جانتے۔ اس طرح عراق فتح
ہو گا اور کچھ لوگ بہت جلد آئیں گے اور اپنے گھر والوں اور اطاعت کرنے
والوں کو لے کر وہاں چلے جائیں گے حالانکہ مدینہ منورہ ان کے لئے بہتر ہے
اگر وہ جانتے ۔(بخاری ومسلم)
حضرت ابن عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا
: جس سے ہو سکے کہ مدینہ میں مرے تو وہ مدینہ ہی میں مرے۔ کیونکہ جو شخص
مدینہ میں مرے گا میں اس کی شفاعت فرماؤں گا۔(ترمذی وابن ماجہ)
حضرت عبادہ بن صامت رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے دُعا
فرمائی کہ! اے اﷲ جو اہل مدینہ پر ظلم کرے اور انہیں ڈرائے تو اس پر خوف
مسلط کر اور اس پر اﷲ اور فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت اور اس کا نہ
فرض قبول کیا جائے گا نہ نفل ۔(طبرانی شریف)
حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا :
مجھے ایک ایسی بستی کی جانب ہجرت کا حکم ہو ا ہے جو تمام بستیوں کو کھا
جائے گی(یعنی سب پر غالب آئے گی)لوگ اسے یثرب کہتے ہیں حالانکہ وہ مدینہ ہے
۔یہ بستی لوگوں کو اس طرح پاک وصاف کرے گی جیسے بھٹی لوہے کی میل کو ۔
(بخاری)
رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: مدینہ کے راستوں پر ملائکہ پہرہ دیتے ہیں۔ اس میں نہ
دجال آئے گا نہ طاعون ۔قریب قیامت دجال قریب مدینہ آکر اُترے گا۔ اس وقت
مدینہ منورہ میں تین زلزلے ہوں گے جن سے ہر کافر منافق یہاں سے نکل کر دجا
ل کے پاس چلا جائے گا۔(بحوالہ بخاری ومسلم )
مدینے کے خطے خدا تجھ کو رکھے
غریبوں فقیروں کے ٹھہرا نے والے
زیارت روضۂ رسول اللّٰہ ﷺ
حاجیوآؤ شہنشاہ کا روضہ دیکھو
کعبہ تو دیکھ چکے اب کعبے کا کعبہ دیکھو
حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد
فرمایا : جو میری قبر کی زیارت کرے گا اس کیلئے میری شفاعت واجب ہو گی۔(
بیہقی شریف)
رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: جو کسی حاجت کے بغیر میری زیارت کو آئے تو مجھ پر حق
ہے کہ قیامت کے دن اس کا شفیع بنوں۔
زیارت اقدس کے وقت ادب واحترام کا دامن کسی لمحہ چھوٹنے نہ پائے اور
درُودوسلام سے غافل نہ رہیں۔دامانِ رسالت ہی میں رفقا ئے رسول ﷺ حضرت
ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ ا ور حضرت عمر فاروق رضی اﷲ تعالیٰ عنہبھی
آرام فرما ہیں ۔ان کی خدمتِ اقدس میں سلام عرض کرنا ،حاضری سرکار اعظم حبیب
اکرم ﷺ پر قبولیت کی مُہر لگوانے کے مترادف سمجھیں۔
محبوب رب عرش ہے اس سبز قبہ میں(ﷺ)
پہلو میں جلوہ گاہ عتیق وعمر کی ہے(رضی اﷲ تعالیٰ عنہما)
مسجد نبوی ﷺ : حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہسے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ
نے ارشاد فرمایا: میری مسجد میں نماز پڑھنا دوسری مسجدوں کی ہزار نمازوں سے
بہتر ہے سوائے مسجد حرام کے۔(موطا امام مالک)
یہ وہ متبرک مسجد ہے جس کا سنگ بنیاد تاجدار ختم نبوت ﷺ نے خود اپنے دستِ
اقدس سے رکھا ۔اس کی تعمیر میں شیخین سمیت بہت سے جلیل القدر صحابہ کرام
رضوان اﷲ علیہم اجمعین نے براہ راست حصہ لیا۔حضور اقدس ﷺ کے زمانہ مبارکہ
میں اس کا طول ۱۰۰ہاتھ اور عرض بھی ۱۰۰ ہاتھ تھا ۔اگرچہ بعد میں کچھ اضافہ
ہوا ہے اس میں نماز پڑھنا بھی مسجد نبوی ہی میں پڑھنا ہے ۔البتہ کوشش کی
جائے کہ مسجد اول یعنی حضور اقدس ﷺ کے زمانہ میں جتنی تھی اس میں نماز ادا
کی جائے۔(بہار شریعت،حصہ ششم)
مسجد نبوی ﷺ کے سات ستون:یہ ساتوں ستون ان مقدس مقامات پر تعمیر کئے گئے
ہیں جو بالخصوص حضور ﷺ کی یاد گار ہیں ۔یہ ستون اُسی حصہ مسجد میں ہیں جو
آپ ﷺ کے زمانہ مبارکہ میں تھی۔ان مقامات مقدسہ کے پاس مشغول عبادت ہونا
یقینا بہت بڑی خوش نصیبی وسعادت مندی ہے۔
ریاض الجنہ:قبر اطہر اورمنبر رسول ﷺ کے درمیان کا حصہ ریاض الجنہ کہلاتا ہے
۔حضور ﷺ نے اس کی نسبت ارشاد فرمایاکہ! ’’ یہ حصہ جنت کی کیاریوں میں سے
ایک کیاری ہے۔‘‘(موطا امام مالک )
یعنی مسجد نبوی ﷺ کا یہ حصہ جسے ریاض الجنہ کہا جاتا ہے۔ فی الحقیقت جنت کا
ایک ٹکڑا ہے اور قیامت کے دن یہ ٹکڑا جنت میں چلا جائے گا۔اس بابرکت حصے
میں حضور پر نور شافع یوم النشور ﷺ کا مصلیٰ بھی ہے ۔جہاں آپ امامت فرمایا
کرتے تھے۔حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے اس مقام پر قدم مبارک کی
جگہ چھوڑ کر دیوار بنوا دی تھی تاکہ آ پﷺ کی سجدہ گاہ پر لوگوں کے قدم نہ
آسکیں۔آج کل اس جگہ پر ایک خوبصورت محراب بنی ہوئی ہے جسے محراب نبوی ﷺ کہا
جاتا ہے۔
یہ پیاری پیاری کیاری تیر ے خانہ باغ کی
سرد اِس کی آب وتاب سے آتش سقر کی ہے
صفہ: قدیم مسجد نبویﷺ سے ملا ہوا وہ چبوترہ جہاں اصحاب صفہ شہر علم یعنی
حبیب اکرم ﷺ سے دین کی تعلیم حاصل کرتے تھے۔انتہائی بابرکت اور مقد س مقام
ہے۔
قبا شریف: مدینہ منورہ سے تین میل کے فاصلے پر آباد ہے۔حضورﷺ نے اس مقام پر
قیام فرمایا اور اپنے دستِ اقدس سے ’’مسجد قبا‘‘ کی بنیاد رکھی جو اسلام کی
تاریخ میں سب سے پہلی مسجد ہے۔ اس مسجد میں دو رکعت نماز ادا فرمانے کا
ثواب ایک عمرہ کی مانند ہے۔ احادیث نبویہ ﷺ سے ثابت ہے کہ آپ ﷺ ہر ہفتہ کو
قبا شریف تشریف لے جاتے کبھی سوار اور کبھی پیدل۔( بہارشریعت )
مسجد قبلتین: وہ مقدس مسجد ہے جہاں حضور پر نور شافع یوم النشور ﷺ کی خواہش
کے نتیجہ میں تحویل قبلہ کا حکم نازل ہوا۔ آپ ﷺ اس مسجد میں ظہر کی امامت
فرما رہے تھے کہ تیسری رکعت میں تحویل قبلہ کی آیت نازل ہوئی۔ اس وقت آپﷺ
کی اقتداء میں جماعت کے تمام لوگ بیت المقدس سے کعبہ کی طرف پھر گئے۔آیت
تحویل قبلہ 2ھ میں نازل ہوئی۔
جنت البقیع: مدینہ منورہ کا قبرستان ہے۔ اس میں دس ہزار صحابہ کرام رضوان
اﷲ علیہم اجمعین مدفون ہیں ۔علاوہ ازیں اہل بیت نبوت، آلِ محمد، امہات
المؤمنین ، تابعین وتبع تابعین کرام اور اولیاء کرام کی قبریں ہیں۔
حج شریف اور عمرہ شریف پر جانے والے ان مقامات کی زیارت ضرور کر کے اپنے
ایمان کو تازہ کریں۔ اﷲ تعالیٰ تمام مسلمانوں کو زیارت مکہ و مدینہ سے مشرف
فرمائے ۔آمین
|