الْمَنَّ ۔ قرآن اور سائنس کی روشنی میں

الْمَنَّ ۔ قرآن اور سائنس کی روشنی میں
از․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․ڈاکٹرمحمد اقتدار حسین فاروقی

الْمَن کا ذکر قرآن پاک میں تین مرتبہ کیا گیا ہے ۔ جنکی تفصیل اسطرح ہے:
(1)سورۃ البقرۃ II آیت نمبر 57۔۔۔۔ ترجمہ : ہم نے تم پر ابر کا سایہ کیا۔ من وسلویٰ کی غذا تمہارے لئے فراہم کی اور تم سے کہا کہ جو پاک چیزیں ہم نے تمہیں بخشی ہیں انہیں کھاؤ مگر تمہارے اسلاف نے جو کچھ کیاوہ ہم پر ظلم نہ تھا بلکہ انہوں نے اپنے آپ پر ہی ظلم کیا۔

(2) سور ۃالاعراف VIIآیت نمبر 160۔۔۔ترجمہ : اور ہم نے اس قوم کو بارہ گھرانوں میں تقسیم کرکے انہیں مستقل گروہوں کی شکل دے دی اورجب موسیٰ سے ان کی قوم نے پانی مانگا تو ہم نے اشارہ کیاکہ فلاں چٹان پر اپنی لاٹھی مارو۔ اس چٹان سے یکایک بارہ چشمے پھوٹ نکلے اور ہر گروہ نے اپنے پانی لینے کی جگہ متعین کر لی۔ ہم نے ان پر بادل کا سایہ کیا اور ان پر من وسلویٰ اتارا۔ کھاؤ وہ پاک چیزیں جو ہم نے تمہیں بخشی ہیں مگر اس کے بعد انہوں نے جو کچھ کیا تو ہم پر ظلم نہیں کیا بلکہ اپنے آپ پر ہی ظلم کرتے رہے۔

(3) سورہ طٰہ XX آیت نمبر 80۔۔۔ ترجمہ : اے بنی اسرائیل ہم نے تم کو تمہارے دشمن سے نجات دی اور طور کی دائیں جانب تمہاری حاضری کے لئے وقت مقرر کیا اور تم پر من وسلویٰ اتارا۔

المن کے لفظی معنی یوں تو احسان اور انعام کے ہیں لیکن اصطلاحی معنوں میں وہ ایک قسم کا شبنمی گوند ہے جس کو اﷲ تعالیٰ صحرائے سینا میں بھٹکنے والے اسرائیلیوں کے لئے غذا کے طور پر نازل فرماتا تھا ۔ یہ گوند درختوں کے پتوں پر جمع ہوجاتا تھا اور بنی اسرائیل روز اسے اکٹھا کرکے کھاتے۔ یہ واقعہ 1451قبل مسیح کا ہے جب کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام مصر سے اپنی قوم کے کئی لاکھ افراد کو فرعون کے پنجۂ ظلم سے نجات دلا کر سینا کے علاقے میں لے آئے تاکہ انہیں کنعان پہنچایا جاسکے۔

المن کی بابت زیادہ تر مفسرین کا خیال ہے کہ وہ کوئی غیر طبعی چیز نہ تھی بلکہ پودوں سے حاصل کردہ ایک شئے تھی جو بہت شیریں اور لذیذ تھی۔

مولانا عبدالماجد دریابادی کی رائے میں من ایک قدرتی غذا تھی جو بنی اسرائیل کو سینا کی مسافرت کے دوران بلا مشقت وتعب مل جاتی تھی۔ وہ یہ بھی فرماتے ہیں (نوٹ نمبر210) کہ :’’انزل سے مراد لازمی طور پر یہ نہیں ہوتی کہ وہ چیز کسی معجزانہ طریقہ پر اُتری ہو‘‘۔ مولانا نے مزید فرمایا ہے کہ اکثر لوگوں کے خیال میں ’’من‘‘ ترنجبین کے مرادف ہے۔

موضع القرآن میں من وسلویٰ کی بابت کہا گیا ہے کہ جب بنی اسرائیل فرعون سے نجات پاکر سینا کے جنگل میں داخل ہوئے تو اُن کے پاس کھانے کو کچھ نہ تھا۔ اس وقت ان کے لئے اﷲ تعالیٰ نے ’’من‘‘ فراہم کیا جو دھنیا کے مانند ایک میٹھی شئے تھی اور سلویٰ نازل کیا جو ایک پرندہ(بٹیر)کانام ہے، جسے وہ لوگ پکڑ لیتے اور کباب کرکے کھاتے تھے۔

مولانا ابوالکلام آزاد کے خیال میں من درخت کا شیرہ ہے جو گوند کی طرح جم جایا کرتا تھا خوش ذائقہ اورمقوی باہ ہوتا ہے۔علامہ محمد ثناء اﷲ عثمانی فرماتے ہیں کہ من سے مراد ترنجبین ہے اور سلویٰ سے مراد ایک پرند ہے جو بٹیر کے مشابہ ہوتا ہے۔

تفسیر حقانی، تفہیم القرآن، تفسیر عثمانی، اور بیان القرآن میں بھی من کو ایک شیریں گوند نما شئے ہی بتایا گیا ہے۔ لیکن اس پودہ کی نشاندہی نہیں کی گئی جس سے یہ گوند (منّ) حاصل ہوتا ہو یا جس پر یہ جم جاتا ہو۔ جناب عبداﷲ یوسف علی اپنی انگریزی تفسیر میں ضرور تحریر فرمایا ہے کہ ’’من‘‘ کا ذریعہ ٹمارکس نام کے پودے ہوا کرتے تھے۔ (نوٹ نمبر71)

مختلف تفاسیر کے روشنی میں یہ بات تو یقینا واضح اور عیاں ہوجاتی ہے کہ من ایک نباتاتی چیز تھی لیکن یہ کس پودے سے حاصل ہوتی تھی اوراس کی کیمیاوی ہیئت کیا تھی، یہ تفصیلات عام طور سے تفسیروں میں نہیں ملتی ہیں۔

ابو ریحان محمد ابن البیرونی (1050ء-973ء) نے غالباً پہلی بار اس رائے کا اظہار کیا کہ ’’حاج‘‘ نامی پودے سے حاصل کردہ گوند بنام ترنجبین کو اصلی من کا مترادف کہا جاسکتا ہے۔ تُرنجبین فارسی لفظ ترانگبین کا بگڑا ہوا رُوپ ہے۔ انگبین فارسی میں شہد کو کہتے ہیں گویا کہ ترانگبین وہی چیز ہے جس کو انگریزی میں Honey Dew کہا جاتا ہے۔ اس طرح ’’حاج‘‘ سے نکلا ہوا گوند بھی شہد کے مانند میٹھا اور مفید سمجھا گیا۔ البیرونی کی تحقیقات کے بعد کئی صدیوں تک کوئی سائنسی جائزہ ایسا نہیں لیا گیا، جس سے سینا اور عرب کے دوسرے علاقوں کے نباتات کی بابت صحیح معلومات فراہم ہوتیں 1822ء میں برکھارڈ نامی سائنسداں نے (جو بعد میں مصر میں شیخ برکات کے نام سے مشہور ہوا۔ اپنی کتاب Travels in Syria and Holy Land میں لکھا ہے کہ من کی پیداوار کے ذمہ دار کچھ خاص قسم کے کیڑے ہوتے ہیں جو بعض درختوں کی چھال میں سوراخ کردیتے ہیں اور ان سے شدید گرمی کے دوران ایک رطُوبت نکلتی ہے جورات کی ٹھنڈک میں درختوں پر جم جاتی ہے۔ برکھارڈ کے خیال کو تقویت اس وقت ملی جب 1829ء میں اہرن برگ اور ہیم پریش نامی سائنسدانوں نے ایک رپورٹ شائع کی اور بتایا کہ Cocus manniparus نام کا کیڑاصحرائے سینا کے ٹمارکس نامی پودوں پر پایا گیا جو من کی پیداوار کا ذمہ دار تھا۔ گویا کہ انیسویں صدی کے نصف ہی میں یہ بات واضح ہوگئی کہ سیناء کے درختوں پر من پیدا ہوتاہے جو بہت شیریں ہوتا ہے اس کے کچھ بعد ہی اس امر کا علم بھی ہوا کہ اس علاقے میں بسنے والے لوگ ان پودوں سے نکلے ہوئے گوند (من) کو مٹھائی کے طور پر کھاتے ہیں ۔

آج تک ہوئی تحقیقات کی بنیاد پر یہ بات کسی حد تک یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ جس من کا تذکرہ قرآن حکیم میں کیا گیا ہے وہ دو قسم کے پودوں سے حاصل ہوتا ہے، ایک تو وہ ہے جس کو عربی میں ’’الحاج‘‘ یا ’’عاقول‘‘ کہتے ہیں۔اس کا نباتاتی نام Alhagi maurorum دیا گیا ہے، یہ خاردار پودا ہوتا ہے اورعرب کے علاقوں میں اونٹ کی اچھی غذا ہے لہٰذا ’’شوک الجمل‘‘ بھی کہلاتا ہے۔ فارسی میں اسے خارش کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ چھوٹی جھاڑیوں کی شکل میں پایا جاتا ہے اور عموماً تین فٹ سے زیادہ بلندی نہیں پاتا ہے گو کہ اس کی جڑیں زمین میں دس پندرہ فٹ تک جاتی ہیں۔ یہ عرب کے علاوہ ایران، افغانستان اور ترکی میں بکثرت پایا جاتا ہے لیکن ’’من‘‘ کی پیداوار کے اعتبار سے ایران کاعلاقہ خراسان ہی اہمیت رکھتا ہے کیونکہ یہاں کے پودوں سے حاصل کیا گیا من، جو ترنجبین کہلاتا ہے، دنیا کے بازاروں کو سپلائی کیا جاتا ہے۔ ہندوستان میں ’’الحاج‘‘ کی جنس کا ایک پودہ کافی پایا جاتا ہے جس کو ’’جواسا‘‘ کہتے ہیں لیکن اس میں منّ پیدا نہیں ہوتا، جس کی اصل وجہ یہ ہے کہ ان پروہ کیڑے نہیں پائے جاتے ہیں جو میٹھی رطوبت کی پیداوار کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔

’’حاج‘‘ کے علاوہ ایک دوسرا پودہ جو حضر ت موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں صحراء سینا میں بڑی تعداد میں ملتا تھا اورجو اب بھی وہاں کسی قدر پیدا ہوتا ہے، وہ ’’طرفا‘‘ نامی پودا ہے جس کو نباتاتی سائنس کے اعتبار سے Tamarix mannifera نام دیا گیا ہے۔ یہ عربی میں ’’طرفا‘‘ کے علاوہ غاز اور فارسی میں ’’گاز‘‘ نام سے بھی جانا جاتا ہے اور اسی نسبت سے اس سے نکلا ہوا شیریں گوند گزانگبین، کزانجبین یا غزانگبین کہلاتا ہے۔ ہندوستان میں’’طرفا‘‘کی جنس کا ایک دوسرا پودہ بنام ’’جھاؤ‘‘دستیاب ہوا ہے اسے Tamarix gallica کہتے ہیں لیکن ان میں ’’من‘‘ کبھی بھی نکلتے نہیں دیکھا گیا ہے۔

’’حاج‘‘اور ’’طرفا‘‘ سے پیدا شدہ من کی تجارت آج کے دور میں بھی کسی حدتک ہوتی ہے ۔ گنے کی شکر عام ہوجانے کی بنا پر ان دونوں اقسام کے شیریں من کا استعمال مٹھائی بنانے کے کام میں تو نہیں ہوتا ہے لیکن طبی اہمیت کی بنا پر یونانی طریقۂ علاج میں اس کا استعمال ہنوز باقی ہے۔ یہ انتہائی فرحت بخش ہوتے ہیں معدہ اوردل کو تقویت پہنچاتے ہیں۔

قرآن کریم میں تینوں مرتبہ من کا ذکر سلویٰ یعنی بٹیر کے ساتھ ہوا ہے اوردو آیات میں یہ بھی ارشاد ہوا ہے کہ ’’ہم نے تم پر ابر کا سایہ کیا‘‘۔ گویا کہ حضرت موسیٰؑ کی قوم کو مٹھائی اور بٹیر کے گوشت سے نوازا گیا۔ جو ہر اعتبار سے ایک مکمل غذا تھی،ور نہ صرف شیریں چیز کھا کر کئی لاکھ افراد برسہا برس تندرست زندگی نہ گزارسکتے‘‘۔ ’’ابر کا سایہ‘‘ کرنے کا قرآنی حوالہ بھی بہت معنی خیز ہے۔ گویا کہ ریگستانی علاقے کے لاکھوں اشجار جومن پیدا کرتے تھے وہ سایہ دار نہ تھے۔ واضح رہے کہ ’’حاج‘‘ کا پودہ ایک چھوٹی سی جھاڑی کے مانند ہوتا ہے۔ لہٰذا اس کے سایہ دینے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا‘‘۔ ’’طرفا‘‘ بھی ایک چھوٹا درخت ہوتا ہے جس کی پتیاں باریک ہوتی ہیں، اور سایہ فراہم نہیں کرتیں۔ چنانچہ سیناء کے بیابان وریگستان میں ان پودوں کی تعداد بہت ہوگی لیکن سایہ کے اعتبار سے بیکارِ محض ، مزید برآں یہ پودے خاص طور سے ’’حاج‘‘ کے جھاڑی دار پودے سلویٰ یعنی بٹیر یا بٹیروں کی قسم کے پرندوں کی افزائش کے لئے نہایت موزوں پودے رہے ہوں گے۔

من کا ذکر بائبل میں بھی کئی بار کیا گیا جس کے متعلق مولڈنکے نے خیال ظاہر کیا ہے کہ وہ صرف شیریں گوند ہی نہ تھا بلکہ کچھ خاص قسم کی لائی کن (Lichen) اور الگی (Algae) کو بھی من کہا گیا تھا۔ ان کی نظر میں کتاب بروج میں جس من کا حوالہ دیا گیا ہے وہ یقینا میٹھی شئے تھی لیکن کتاب خروج اور کتاب گنتی کے ابواب میں جس من کی بابت کہا گیا ہے کہ وہ آسمان سے برستی تھی، وہ کوئی شیریں چیز نہ تھی بلکہ ایک خاص قسم کی کائی تھی، جس کو سائنسی اصطلاح میں Lichen کہتے ہیں۔ یہ سوکھ کر زمین سے جدا ہوجاتی تھی اور تیز ہواؤں کی مدد سے فضا میں اڑتی ہوئی دور دراز کے علاقوں پر برستی‘‘(گرتی) تھی۔ بنی اسرائیل اس ’’کائی‘‘ کو اکٹھا کر لیتے اور پیس کر اس کی روٹیاں یا پھلکیاں پکاتے اور سیر ہوکر کھاتے۔ مولڈنکے نے اپنے اس نظریہ کی وکالت میں 1854ء کے زبردست قحط کا تذکرہ کیا ہے کہ جب ایک زبردست ہوائی طوفان کی مدد سے Lecanora afinis نام کی لائی کن کئی سو میل کی دوری سے اڑتی ہوئی قحط زدہ علاقہ میں اس طرح برسی اورجمع ہوگئی کہ زمین پر اس کی تہیں جم گئیں۔وہاں کے باشندوں نے جو لائی کن کی غذائی خوبی سے خوب واقف تھے، خدا کی اس آسمانی رحمت ونعمت کاشکرادا کیا اوراس کی روٹیاں کھاکر فاقہ کشی سے بچ گئے۔ مو لڈنکے نے من کی ایک تیسری قسم بھی بیان کی ہے جس کو الگی (Algae) کہتے ہیں۔ یہ الگی رات میں شبنم کے ساتھ زمین پر نمودار ہوتی تھی اور صبح کو جمع کر لی جاتی تھی۔ جو بچ جاتی، وہ سورج کی گرمی کی تاب نہ لاکر ختم ہوجاتی تھی۔

مولڈنکے کے خیال میں من کا صرف میٹھی چیز ہونا اس لئے ممکن نہیں کیونکہ بیس لاکھ انسانوں کے لئے کم ازکم دو ہزار ٹن من درکار ہوگا اور اتنی مقدار کسی ایک علاقہ سے حاصل کرنا ناممکن رہا ہوگا۔ مزید یہ کہ چالیس سال تک لائی کن کی شکل میں من کا تیز ہواؤں کی مدد سے متواتر مہیا ہونا بھی سمجھ میں آنے والی بات نہیں ہے۔ اسی طرح الگی کے روپ میں من کا ہر موسم میں پیدا ہونا بھی قرین قیاس نہیں۔ انہی وجوہات کی بنا پر مولڈنکے نے اپنی رائے ظاہر کی کہ پورے امکانات اس بات کے ہیں کہ بنی اسرائیل من کے ساتھ بٹیروں کا گوشت بھی بھون کر کھاتے ہوں، کیونکہ وہ علاقہ بٹیروں کے لئے مشہور تھا۔ مولڈنکے نے اگر قرآنی آیات کا بھی مطالعہ کر لیا ہوتا تو ’’منّ وسلویٰ‘‘ کا نظریہ قائم کرنے میں دقت نہ ہوتی۔ یہاں ایک بات کی وضاحت ضروری ہے، وہ یہ کہ قرآن شریف کے ارشادات سے یہ تو ثابت ہوتا ہے کہ یہ دونوں غذائی اشیاء (منّ وسلویٰ) اسرائیلیوں کے لئے عام تھیں لیکن یہ کسی اور غذا کی نفی کو مستلزم نہیں (تفسیر ماجدی)۔ چنانچہ ہوسکتا ہے کہ شیریں ’’من‘‘ یعنی ترنجبین کے علاوہ لائی کن اورالگی بھی ان کی غذا رہی ہو یا پھر اور بھی دوسری اشیاء جو اُن کو سفر میں میسر آتی ہوں۔ یہ بھی قیاس کیا جاسکتا ہے کہ ہر وہ دکھنے والی شئے جسے انہوں نے پہلی بار صحراء سینا میں دیکھا ہو اس کو انہوں نے ’منّ‘کا نام دیا ہو کیونکہ سامی ،عبرانی اور عربی، زبان میں من کے معنی ’’کیا‘‘ یا ’’کون‘‘کے بھی ہیں۔ گویا کہ جب انہوں نے نئی چیز دیکھی تو حیرت سے کہا ’’منّ‘‘۔

رسُول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے ایک ارشاد کی روشنی میں بھی منّ کا ایک سے زیادہ قسم کی چیز ہونا ثابت ہوتا ہے۔ ایک حدیث کے مطابق آپ نے من کو ’’الکمأۃ‘‘ فرمایا ہے جس کے معنی اردو میں کمبھی اور انگریزی میں Mushroom کے ہیں۔ کچھ خاص قسم کی کمبھی کا غذائی طور سے استعمال بہت سے ممالک میں ہمیشہ سے ہوتا رہا ہے۔ سائنسی اعتبار سے کمبھی ، لائی کن اور الگی کا قریبی تعلق ہے ۔مختصر یہ کہ بنی اسرائیل کے لئے برسہا برس جو غذا فراہم کی جاتی رہی، اس میں شیریں گوند، کمبھی ،لائی کن (جوکاربوہائیڈریٹ کا ذریعہ ہیں) کے ساتھ بٹیریں (حیاتین اور چربی کا ذریعہ) کا شامل ہوتی تھیں جو سائنسی اعتبار سے ایک مکمل غذا ہے اور اسے کھا کر طویل عرصہ تک زندہ سلامت رہنا عین ممکن ہے۔
ترنجبین اور گزنجبین کے علاوہ دنیا کے مختلف ممالک میں درجنوں ایسے پودوں کی جنس (genus) اور ذاتیں (Species) پائی جاتی ہیں جن سے شیریں گوند حاصل کیا جاتا ہے۔ یہ سب انگریزی اصطلاح میں Manna کہلاتے ہیں۔ مثلاً جنوبی یورپ کا مشہور پودہ Fraxinus ornus ہے جس سے تجارتی من حاصل کیا جاتا ہے۔ اس کا اصل مرکز سسلی (Sicily) کا وہ پہاڑی خطہ ہے جو جبلِ منّ (Gibelman) کہلاتا ہے۔ کچھ سائنسدانوں نے اس من کو بھی بائبل کا من لکھا ہے۔ اسی طرح ایران میں Cotoneaster nummularia نام کا پودہ چٹانوں پر پایا جاتا ہے جس سے بہت شیریں گوند نکلتا ہے اور چٹان پر ٹپک کر جم جاتا ہے اسی لئے اسے ’’شیرخِشت‘‘ یعنی پتھر کا دودھ کہتے ہیں۔ ایران ہی میں ایک اور منّ کی قِسم پیدا ہوتی ہے جو Astragalus adscendens نامی پودوں پر ملتی ہے) ۔ اسی جنس کے پودے سے کتیرہ Tragacanth) (گوند دستیاب ہوتاہے۔ Quercus incana نام کا درخت بھی منّ کا ذریعہ ہے جو عراق میں کافی پایا جاتا ہے۔ ہندوستان میں مدار Calotropis gigantea سے کسی زمانہ میں سُکر تِگال نامی منّ حاصل ہوتا تھا جواب بازاروں میں کمیاب ہے۔ کچھ لوگ بانس کے درختوں (Bambusa arudinacea) سے حاصل کردہ شیریں بنس لوچن (اُردو، تباشیر) کو بھی من کہتے ہیں جو دُرست نہیں ہے۔آسٹریلیامیں ایک درخت کافی پایا جاتا ہے جس کا نام Mayoporum playtycarpum ہے۔یہ بھی منّ کا خاصا اچھا ذریعہ مانا جاتا ہے زیتون کے درختوں پر بھی منّ پایا گیا ہے۔

عام گوند (Gums) خواہ ببو ل کے ہوں یا کتیرہ کے یا صُمغ عربی، میٹھے نہیں ہوتے ہیں اور کیمیاوی اعتبار سے Polysaccharide کے زمرہ میں آتے ہیں جب کہ منّ (ترنجبین، گزنجبین، شیرخشت وغیرہ) Monosaccharide کا ذریعہ ہوتے یعنی ان میں فرکٹوز (Fructose) گلوکوز (Glucose) ملی زی ٹوز(Melizitose)، ڈلسی ٹال (Dulcitol) اور مینی ٹال (Mannitol) نام کی شکر ہوتی ہیں۔ اس طرح گوند اور منّ د ونوں ہی کاربوہائیڈریٹ ہیں، لیکن غذائی اعتبار سے گوند کی خاص اہمیت نہیں ہے جب کہ منّ بنام ترنجبن میں بھر پور غذائیت پائی جاتی ہے۔

ارشادات رسولؐ بسلسلۂ منّ
1- رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’کمبھی (الکماۃ) من کا ایک حصہ ہے اور اس کا پانی آنکھ کے لئے شفا ہے‘‘۔ (راوی، حضرت جابر۔ نسائی، راوی، حضرت ابو سعید خدری، ابن ماجہ)
2-میں نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا : ’’کہ کمبھی (الکماۃ) بھی من کی ایک قسم ہے اوراس کا پانی آنکھ کے لئے شفا ہے‘‘۔(راوی حضرت ابوسعیدخدری، بخاری، مسنداحمد)
3- رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’کمبھی (الکماۃ) المنّ کا حصہ ہے۔ من در حقیقت جنت سے ہے اس کا پانی آنکھوں کے لئے شفا ہے۔(راوی، حضرت ابی سعید، ابو نعیم)
4-’’ کمبھی (الکماۃ) اس من ّمیں سے ہے جو اﷲ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے لئے نازل فرمایا تھا۔ اس کا پانی آنکھوں کے لئے شفا ہے‘‘۔(راوی حضرت محمد بن زید، مسلم، ابن ماجہ)
5- رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا تمہارے فائدے کے لئے کمبھی (الکماۃ) موجود ہے۔ یہ من سے ہے اوراس کا پانی آنکھوں کے لئے شفا ہے‘‘۔ (راوی حضرت صہیب، ابن السنی، ابونعیم)
6- رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’جب جنت مسکرائی تو کمبھی (الکماۃ) زمین پر آگئی‘‘۔ (راوی حضرت عبداﷲ بن عباس، ابن القیم، الطب النبوی)
7- رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے اصحاب نے ایک روز ان کو مخاطب کرکے کہا کہ کمبھی (الکماۃ) زمین کی چیچک ہے اس پر رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’ کمبھی من ّ میں سے ہے۔ اس کا پانی آنکھوں کی بیماریوں کے لئے شفا ہے‘‘۔ (راوی حضرت ابو ہریرہ، ترمذی)۔ ابوہریرہ کہتے ہیں کہ اس کے بعد میں نے تین یا پانچ یا سات کمبھیاں لیں اور اس کا پانی نچوڑ کر ایک شیشی میں ڈال لیا پھر میں نے اپنی ایک لونڈی کی آنکھ میں ڈالا جس کی آنکھیں چندھی تھیں۔ اس پانی سے وہ شفایاب ہوگئی۔ (ترمذی)

نوٹ : ابن قیم الجوزی لکھتے ہیں کہ عربی میں (الکماۃ) کے معنی سانپ کی چھتری کے بھی ہیں اورعرب اکثر اس کو زمین کی چیچک کہا کرتے ہیں۔ وہ مزید لکھتے ہیں کہ مسیحی اور بو علی سینا نے ’’القانون‘‘ میں لکھا ہے کہ الکماۃ کا پانی آنکھ کو جلا بخشتا ہے۔ علماء کرام کے الکماۃ کے سلسلے میں متعدد اقوال ہیں۔ کوئی لکھتا ہے کہ اس کاپانی آنکھ کی دوسری دواؤں کے ساتھ ملا کر استعمال کیا جائے۔ کچھ کا قول ہے کہ اس کے پانی کو پکا کر آنکھ میں ڈالا جائے اور بعض کا کہنا ہے کہ اس کے پانی کو سرمہ کے ساتھ لگایا جائے۔ (ابن القیم الجوزی، الطب النبوی)۔

حالیہ تحقیقات بسلسلۂ من - عراق کے کرد علاقہ میں فی زمانہ من بڑے پیمانے پر اکٹھا کیا جاتا ہے ، ریگستانی کمبھی (Truffles) کو مراکش اور مصر میں طرفاس کا نام دیا گیا ہے اس کی ایک قسم سعودی عرب اور عمان میں زبیدہ کہلاتی ہے جب کہ نبیبیا میں نبا کا نام دیا جاتا ہے یہ غالباوہ چیز ہے جس کا ذکر حدیث نبوی میں آتا ہے اور جس کے پانی کو آنکھ کیلئے مفید بتایا گیا ہے۔

(ماخذ۔نباتات قرآن۔ ایک سائنسی جائزہ۔ از ڈاکٹر اقتدار فاروقی۔سدرہ پبلیشرز۔ شاہد اپارٹمینٹس۔ گولا گنج۔لکھنؤ۔226018 Email:[email protected]; Tel; 0522-2610683))


تأثرات - حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی۔ بعض پودوں کے تشخص میں انہوں نے کچھ نئی باتیں بتائی ہیں جن سے بعض گرہیں کھلتی ہیں اور بعض الجھنیں دور ہوتی ہیں۔ خاص طور پر سدرؔ اور کافور کی وضاحت اور تشخص میں انہوں نے نئی اور مفید باتیں لکھی ہیں

تأثرات۔۔مولانا محمد رابع حسنی ندوی، صدر آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ
ڈاکٹر محمد اقتدار حسین فاروقی صاحب نے قرآن مجید میں بتائی ہوئی متعدد اشیاء کے سلسلے میں بہت عالمانہ تحقیق کی ہے اور ایسی تحقیقات پیش کی ہیں جن سے قرآن مجید کی تفسیر کرنے والوں کی متعدد الجھنیں یکسر دور ہوجاتی ہیں اور قرآن مجید نے جو بعض گہرے حقائق بتائے ہیں ان سے دھندلکے کاپردہ اٹھ جاتا ہے۔ سدرہ، کافور اور زقوم کی تحقیق اس سلسلے میں خاص طور سے بطور مثال پیش کی جاتی ہیں

تأثرات۔۔ مولانا ڈاکٹر کلب صادق نائب صدر آل انڈیامسلم پرسنل لاء بورڈ
میں اس کتاب کے مطالعہ سے بہت متاثر ہوا میرے خیال میں اس موضوع پر کوئی کتاب ابھی تک اس عنوان سے تحریر میں نہیں ہے یا کم از کم میرے زیر مطالعہ نہیں آئی ہے۔کتاب کا اسلوب خالص تحقیقی ہے اور مصنف نے اس میں اتنی جفا کشی اور تندہی کی ہے جو بغیر’’ عشق‘‘ کے مشکل ہے

Dr. M.I.H. Farooqi
About the Author: Dr. M.I.H. Farooqi Read More Articles by Dr. M.I.H. Farooqi : 11 Articles with 21349 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.