جزیرہ پیل وورم کی کل آبادی تقریبا ایک ہزار نفوس پر
مشتمل ہے اور یہ سولر اور پن چکیوں سے توانائی حاصل کرنے کے حوالے سے ایک
تاریخ رکھتا ہے۔ اب جرمن حکام مقامی سطح پر اس سوچ کا پرچار کر رہے ہیں کہ
عام لوگوں کو صحت مند منافع کی ترغیب دے کر متبادل توانائی سے متعلق
کاروبار کو مزید ترقی دی جائے، نہ کہ ایسے منصوبہ جات بڑی کمپنیوں کے سپرد
کر دیے جائیں۔
جزیرہ پیل وورم کے میئر ژؤرگن فیڈرسن (Feddersen Juergen) کا کہنا ہے کہ
وہاں سن 1980 میں مختلف قسم کی پن چکیوں کے علاوہ شمسی توانائی کے پینل کی
آزمائش کی گئی تھی۔ فیڈرسن کے مطابق یہ اس وقت کیا گیا تھا، جب یہ
ٹیکنالوجی ابھی ابتدائی دور سے گزر رہی تھی۔ وہ مزید بتاتے ہیں کہ اس مرحلے
کے دوران ان کا جزیرہ متبادل توانائی کا حامل پہلا علاقہ بن گیا تھا۔
|
|
اگر جزیرے پر طائرانہ نگاہ ڈالی جائے تو یہ پیل وورم کسی طور پر بھی ایک
’ہائی ٹیک‘ جزیرہ دکھائی نہیں دیتا ہے۔ اس جزیرے پر صرف ایک پولیس افسر
تعینات ہے، ایک سپر مارکیٹ ہے اور صرف ایک ہی ٹریفک سگنل ہے جبکہ جزیرے کی
ساحلی پٹی پر نصف درجن پران پکڑنے والی کشتیاں کھڑی دکھائی دیتی ہیں۔
پیل وورم سے متبادل توانائی کے ذرائع سے حاصل ہونے والی اضافی بجلی کو زیر
سمندر سے گزرنے والی ایک کیبل سے ایکسپورٹ بھی کرنا شروع کر دیا ہے۔ اب ایک
نئے ریسرچ پراجیکٹ کے تحت اس جزیرے کو توانائی میں خود کفیل کر دیا جائے گا۔
جزیرے پر قائم شمسی توانائی کے مرکز میں شراکتی کمپنی ای آن ہینزے (E.ON
Hanse) نے دیگر مقامی اور حکومتی افراد کے ساتھ مل کر توانائی کو ذخیرہ
کرنے کے پہلوؤں پر غور و خوص شروع کر دیا ہے۔ پیل وورم پر انرجی پیدا کرنے
کے لیے ایک سمارٹ گرڈ اسٹیشن کو عملی شکل دینے کے کوشش کی جا رہی ہے۔ حکام
کے بقول یہ سمارٹ گرڈ اسٹیشن خود بخود طلب اور سپلائی کا توازن قائم کرے گا۔
|
|
اس جزیرے پر ماضی میں آنے والے تباہ کن سیلابوں اور سمندر کی سطح بلند ہونے
کی وجہ سے وہاں ماحولیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے خصوصی انتظامات کیے جا
چکے ہیں۔ یہ امر اہم ہے کہ پیل وورم سطح سمندر سے سات فٹ نیچے ہے۔ وہاں
سمندری پانی کو جزیرے پر آنے سے روکنے کے لیے خصوصی دیواریں تعمیر کی گئی
ہیں۔ صدیوں پہلے جب کوئی ان حفاظتی دیواروں کو نقصان پہنچاتا تھا تو اسے
سخت سزا دی جاتی تھی۔ اس جزیرے کی تاریخ کے ماہر والٹر فوہربیک کہتے ہیں کہ
ایسے افراد کو سزا کے طور پر انہی حفاظتی دیواروں میں زندہ یا مردہ دفن کر
دیا جاتا تھا۔ تاہم اب پانی کی بلند ہوتی ہوئی سطح سے نمٹنے کے لیے مہذب
اور جدید طریقے استعمال میں لائے جاتے ہیں۔
پیل وورم کے رہائشی کائے ایڈلفسن کہتے ہیں، ’’ہم موسمیاتی تبدیلیوں کے بارے
میں بہت اچھی طرح واقف ہیں۔ ہم بالکل سمندر میں رہتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ
پانی کی سطح میں اضافہ ہو رہا ہے۔‘‘ خبر رساں ادارے اے ایف پی سے گفتگو
کرتے ہوئے انہوں نے مزید کہا، ’’ ہم اکیلے ہی اس دنیا کو نہیں بچا سکتے ہیں
لیکن مستقبل کے ماحول کے لیے اپنا کردار بخوبی نبھا سکتے ہیں۔‘‘
|
|
اس جزیرے کے مقامی افراد نے حکومتی مراعات کی مدد سے متبادل توانائی کے
حصول کے لیے جو منصوبہ جات شروع کر رکھے ہیں، ان کی وجہ سے ضرر رساں گیسوں
کے سالانہ کی بنیادوں پر ہونے والے اخراج کو پانچ ہزار 500 ٹن کم کیا جاتا
ہے۔ اسی طرح حکومت رہائشیوں کو ماحول دوست الیکٹرانک آلات کے استعمال کی نہ
صرف ترغیب دیتی ہے بلکہ انہیں عوام کے لیے سبسڈی پر دستیاب بھی بنایا جاتا
ہے۔
جرمن حکومت کی کوششوں کی وجہ سے پیل وورم ایک صاف اورماحول دوست مقام کی
حیثت حاصل کرنے میں کامیاب ہو چکا ہے اور اسی لیے وہاں اب سیاحت کی صنعت کا
ایک اچھا مستقبل دیکھا جا رہا ہے۔ ہیمبرگ کی ایک سرمایا کار کمپنی نے حالیہ
برس ہی پیل وورم میں سیاحوں کے لیے ایک دفتر قائم کیا ہے، جہاں چار چھوٹی
مگر الیکٹرک کاریں بھی موجود ہیں۔ جو لوگ ماحول دوست تعطیلات منانا چاہتے
ہیں، وہ ان الیکٹرک کاروں میں بیٹھ کر پیل وورم بھر میں گھوم پھر بھی سکتے
ہیں۔ |
|