منتظر

میں جب اس سے ملا تو اس کی باتوں سے اخلاقیات سے اس کی معاشرتی سوچ سے بڑا متاثر ہواوہ ایک شخص نہیں بلکہ ایک خاندان تھا جس نے اپنے رویے سے اپنے حسن اخلاق سے تمام رشتے،ناطے ایک لڑی میں پرو رکھے تھے برادری میں ،پڑوس پر ،رشتے داروں میں کوئی بھی مسئلہ ہوتا تو وہ نہ صرف پیش پیش ہوتابلکہ ہر طرح سے معاونت بھی کرتا اسے کبھی اپنی زندگی سے اپنے حالات سے شکوہ نہ ہوتا وہ دن رات محنت مزدوری کر کے حالات کا مقابلہ کرتا جب بھی اسے حال احوال پوچھا جاتا تو وہ ،اﷲ کا احسان ہے ،شکر ہے اﷲ کا ،کہہ کر تمام باتوں کا جواب دیتا یہ کہنا بھی غلط نہ ہوگا کہ ایک اس کے سر پر نہ صرف بیوی بچے،بوڑھے ماں باپ،زندہ تھے بلکہ بہن بھائیوں کا بھی وہ واحد سہارا تھا وہ جو بھی کماتا سب میں بیٹھ کر کھاتا کسی انسان کو تو دور کی بات کسی جانور کو بھی اسے کوئی تکلیف نہ تھی مٹھی زبان ،نرم لہجہ،عاجزی، انکساری اس کا وطیرہ تھا دشمن بھی اس کے سامنے آکر اس کے رویے اور نرمی سے ریزہ ریزہ ہو جاتا وہ یہاں بھی جاتا اخلاقیات، انسانیت،بھائی چارے،کا درس دیتا اور خود بھی اس کا عملی نمونہ پیش کرتا ،اس کے چار بچے تھے وہ مالی حالات میں کمزور ضرور تھا مگر دل کا بادشاہ ہونے کی وجہ سے وہ اس عارضی دنیا کی عارضی ضروریات کو کبھی خاطر میں نہ لاتا اور خواہشات کو اپنے نفس پر حاوی نہ ہونے دیتا۔کبھی غلطی سے یا بھول کر بھی اس کی زبان سے کوئی سخت لفظ نکل جائے تو وہ رو رو کر اس کی اس آدمی سے معافی مانگتا جس سے وہ اونچی آواز میں بات کرتا۔چھ فٹ کا قد جوان زندگی کی تلخیوں کو ہنس کر سہنے والا طاہر لطیف واہ کنٹ میں ایک کرائے کے مکان میں اپنی مزدوری کے ساتھ پر سکون اور اﷲ کا عاجز بندہ بن کر زندگی بسر کر رہا تھا میری بہت دفعہ اس سے ملاقات ہوئی میں اکثر جگہ پر اس کی مثال دے کر لوگوں کو سمجھاتا کہ عاجزی اور انکساری اگر سیکھنی ہے تو اس بندے سے سیکھو جس پر زندگی میں ہر طرح کے دن آئے یہان تک کہ گھر میں فاقے بھی ہوں تو اس نے اﷲ کی رسی کو نہیں چھوڑا وہ پنڈی میں کسی کے پاس مرغیوں کا کام کرتا تھا وہ ڈرائیور بھی تھا وہ نہ صرف اپنی فیملی بلکہ بوڑھے ماں باپ کا بھی کفیل تھا ۔ایک دن مجھے اچانک فون آیا کہ طاہر لطیف کا گوجر خان کے قریب مرغیوں کی گاڑی چلاتے ہوئے ایکسیڈنٹ ہو گیا،میں نے نارمل لیا خیریت پوچھی اور جلد صحت یابی کی دعا کی پھر اپنی دنیا میں کھو گیا دو دن بعد رابطہ کرنے پر پتہ چلا کہ گاڑی دوسرا ڈرائیور چلا رہا تھا طاہر لطیف دن رات کام کی وجہ سے تھکا وہوا تھا وہ سویا ہوا تھا گاڑی کا جب ایکسیڈنٹ ہوا تو طاہر لطیف دروازے سے باہر دور پتھر پر جا لگا جس کی وجہ سے اس کی گردن کے نیچے والے تین چار مورے ٹوٹ گئے جسکی وجہ سے اس کا گردن کے نچے تمام جسم مردہ ہو چکا ہے وہ صرف دیکھ سکتا ہے بول سکتا ہے سن سکتا ہے باقی جسم کو کوئی حرکت نہیں دے سکتا ۔ایم آر آئی ہو تو پتہ چلا کہ کوئی معجزہ یا دعا اسے ٹھیک کر سکتی ہے کوئی ڈاکٹر نہیں وہ دس دن اسلام آباد کمپلیکس میں رہا پھر کچھ دن وہ اسلام آباد کی ہسپتال نرم میں رہا پھر ڈاکٹروں نے اسے گھر شفٹ کر دیا کہ اس کی کیر کرو اور دعا کرو بس۔وہ اس وقت گھر میں زندگی اور موت کی کشمکش میں زندگی کی سانسیں لے رہا ہے ہسپتال میں کچھ دوستوں نے اس کی معالی مدد کی تھی جس پر اس کی فیملی چل رہی ہے طاہر لطیف ایک اکیلا معزور نہیں ہوا، وہ اکیلا اس وقت زندگی اور موت کی کشمکش میں نہیں بلکہ اس کے ساتھ اس کے چار بچے،بیوی،اور بوڑھے ماں باپ جن کا وہ واحد سہارہ تھا وہ بھی معزور ہو گئے وہ بھی زندگی اور موت کے درمیان زندگی گزار رہے ہیں وہ نہ جی رہے ہیں نہ مر رہے ہیں طاہر لطیف کا نہ کوئی بھائی اس قابل ہے کہ اس کا علاج کرواسکے یا اس کے بچوں،ماں باپ کی ذمہ داری نبھا سکے اور نہ ہی کوئی رشتے دار ۔سب با مشکل اپنی زندگیوں کی گاڑی کو دھکا لگا رہے ہیں وہ اس معزوری کی حالت میں بھی مایوس نہیں وہ آج بھی یہی کہتا ہے کہ اﷲ کا شکر ہے اگر وہ میرے اس حال پر خوش ہے تو میں بھی خوش ہوں۔وہ آج بھی عاجزی اور انکساری کا پیکر ہے وہ چار پائی پر پڑا لحمہ لحمہ محتاجی کی زندگی گزار رہا ہے وہ نہ کھا سکتا ہے نہ پی سکتا ہے یہاں تک کہ وہ پیشاب کروانے تک کا محتاجہو گیا ۔اس کے معصوم بچے ،بوڑھے ماں باپ،بیوی اس کی چار پائی کے گرد ہر وقت بیٹھے بے بسی مجبوری کی تصویر بنے کسی معجزے کسی مسیحاکے منتظرِہیں۔ وہ لوگ ،دوست جو دیکھنے آتے ہیں کچھ مدد کر جائیں تو ان کی مہربانی ورنہ کوئی اور ذریعہ اور کوئی امید نہیں ان کے پاس سوائے دعاوں کے کوئی سہارہ نہیں۔طاہر لطیف کی زبان پر بس شکر ہے ،صبر ہے امید ہے۔کہ میں ٹھیک ہوں گا اﷲ مجھے اس امتحان اس ازمائش سے نکالین گے،(انشااﷲ)اس کے بچے جو زیر تعلیم تھے اب سکول جانے کے بجائے اپنے باپ کے پاس کھڑے کسی مسیحا کے منتظر دعائیں کر رہے ہیں ان کے بچوں کا کہنا ہے کہ پاپا ٹھیک ہو جائیں ہمیں اور کچھ نہیں چاہئے ،بچوں نے ماں باپ،بہنوں نے اپنے اپنے گردے بیچنے تک کی بات کی ،مگر طاہر اور اور اس کی فیملی اپنے مسلمان بھائیوں سے مایوس نہیں ہوئے،طاہر تو آج بھی یہ امید ہے کہ کوئی مسیحا آئے گا اور وہ اس کا اعلاج کروا کر واپس پہلے والی زندگی میں لے آئے گا،اگر کوئی ،صاحب استدات،یا مخیر،حضرات،رابطہ کرنا چاہئے تو۔03427839997 یا میرے ای میل ایدرس [email protected] رابطہ کر سکتا ہے۔ہو سکتا ہے آپ کی دعا آپ کی مدد اس خاندان کو خوشیاں لوٹا دے۔
 
iqbal janjua
About the Author: iqbal janjua Read More Articles by iqbal janjua: 72 Articles with 75013 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.