دنیا ایک شخص کو عزّت دینے کے لئے اس کے
پاس موجود دولت کو دیکھتی ہے۔ آسان لفظوں میں کہیں تو آج کے دور میں عزّت
ناپنے کا آلہ دولت ہے۔لوگوں کی اس ذہنیت پر شرم آتی ہے۔ وہ یہ نہیں دیکھتے
کہ اس نے جو دولت کمائی ہے وہ کس طریقے سے کمائی ہے۔نہ جانے کن معصوموں کا
حق مارا گیا ہے۔دولت کمانے کی یہی وہ خواہش ہے جس نے کالے دھن کا بازار گرم
کردیا ہے اور غریب کو امیر کے سامنے ہاتھ جوڑنے اور خوشامد کرنے کے لئے
مجبور کر دیا ہے۔
چادر کے مطابق پاؤں نہ پھیلانے کی وجہ سے ہاتھ پھیلانے کا سلسلہ شروع ہو
گیا ہے۔
دوسروں کا منہ لال دیکھ کر اپنا منہ نوچ کر لال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اس
کا نتیجہ ہمارے چہرے پر داغ کی شکل میں ہمارے سامنے نمایا ں ہو رہا ہے۔
حضرات خواہشات کی کثرت اور وسائل کی کمی نے ہمارے معاشرے کو گناہوں کی طرف
آمادہ کر دیا ہے۔ رشوت ، اسمگلنگ ، ناجائز منافع خوری ، Kidnapping جیسے
سنگین جرائم میں ہماری نوجوان پیڑھی لپٹی ہوئی نظر آرہی ہے۔ یہ غیر قانونی
طریقے سے کمائی ہوئی نا جائز دولت اچھی بھلی زندگیوں کو جہنّم بناتے جارہی
ہے۔مگر افسوس ! ہمارا نو جوان معاشرہ اس سے باہر نکلنے کی کوشش نہیں کر رہا
ہے حالات بد سے بد تر ہوتے جارہے ہیں اگر ایسے ہی چلتا رہا تو وہ دن دور
نہیں جب اﷲ کا عذاب ہم پر ٹوٹ برسے گا اور ہماری سُننے والا کوئی نہیں
ہوگا۔دنیا کے مختلیف سماجوں میں جب سے انسان کو اُسکی دولت کی بناء پر عزت
ملنے لگی اُس وقت سے ہر طرح کی اخلاقی برائیوں میں اضافہ ہونے لگا۔کیونکہ
ہر آدمی راتوں رات امیر بننے کا خواہش مند ہے وہ چاہتا ہے کہ وہ زیادہ سے
زیادہ دولت جمع کرکے خود کو صاحبِ عزّت بنالے۔ دولت جمع کرنے یا پیسہ کمانے
کی دوڑ میں اس بات کا ذرا سا بھی خیال نہیں ہے کہ دولت کس طرح کمانا چاہئیے۔
حرام و حلال کی کمائی کا جو فرق تھا وہ فرق بھی نگاہوں سے اوجھل ہوگیا ہے۔
ہر شخص پیسہ کمانے کا خواہاں ہے۔ خواہ لوٹ سے کمایا جائے خواہ غیر اخلاقی
طریقوں سے۔
دنیا ایک شخص کو عزّت دینے کے لئے اس کے پاس موجود دولت کو دیکھتی ہے۔ آسان
لفظوں میں کہیں تو آج کے دور میں عزّت ناپنے کا آلہ دولت ہے۔لوگوں کی اس
ذہنیت پر شرم آتی ہے۔ وہ یہ نہیں دیکھتے کے اس نے جو دولت کمائی ہے وہ کس
طریقے سے کمائی ہے۔نہ جانے کن معصوموں کا حق مارا گیا ہے۔دولت کمانے کی یہی
وہ خواہش ہے جس نے کالے دھن کا بازار گرم کردیا ہے اور غریب کو امیر کے
سامنے ہاتھ جوڑنے اور خوشامد کرنے کے لئے مجبور کر دیا ہے۔
ہماری خواہشیں دن بدن بے لگام ہوتی جارہی ہیں۔ ٹی ۔وی سیریل میں کام کرنے
والی لڑکیوں کے گلیمرGlamour ، قسم ہا قسم کی رنگا رنگ خوبصورت اور نظر
نواز ساڑیوں ، جوڑوں ، بال بنانے کے انداز ، میک اپ اور رہن سہن کے طریقوں
نے لڑکیوں کو حقیقت کی دنیا سے اُٹھا کرخوابوں کی غیر حقیقی دنیا میں پھینک
دیا ہے ہر لڑکی کی خواہش یہ ہوتی ہے کہ اُسکا شوہر فلاں ہیرو کی طرح ہو اور
لڑکے اس خواہش کا شکار ہوتے ہیں کہ اُن کی بیوی فلا ں ہیروئن کی طرح بے باک
محبت کا اظہار کرنے والی اور شرم و حیا کی تمام پابندیوں سے آزاد ہو۔یہ
پاگل نہیں جانتے کہ وہ کچھ وقت کے لئے میک اپ اور رنگ برنگے کپڑوں کے ساتھ
ہمیں بے وقوف بناتے ہیں ۔اسلام نے جس ماں کی گود کو بچّے کی پہلی درس گا ہ
قرار دیاآج کے معاشرے میں وہ ماں کی گود قناعت سے خالی ہو چُکی ہے۔ آج کا
معاشرہ انسانوں کو دین وایمان ، نیکی و شرافت ، تعلیم و تربیت ، اخلاق
وعادات ، کردار اور ضمیر کی کسوٹی پر نہیں پرکھتا بلکہ رہن سہن ، نمائشی
کپڑے ، بینک بیلنس ، عہدے اور سواری پر پرکھتا ہے۔جن کے پاس یہ چیزیں نہ
ہوں انہیں موجودہ سوسائٹی میں گری ہوئی نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے۔کل تک جن
چیزوں کو غیر ضروری سمجھا جاتا تھاوہ آج کی ضرورت بن گئی ہیں۔کلر ٹی وی ،
کار ، فریج ، موٹر سائکل ، قیمتی زیورات ، اونچی عمارتیں جس کے پاس نہیں
ہوتے وہ خود بخود اپنے آپ کو حقیر سمجھتے ہیں۔ اﷲ خیر کرے ہم پر۔۔۔
معاشرے میں عزّت اُنہی لوگوں کی ہوتی ہے جن کے بچّے سرکاری اسکولوں کی
بجائے انگریزی میڈیم اسکولوں میں ماہانہ ہزاروں روپئے دے کر پڑھتے ہوں۔ اُس
شخص کی عزّت کی جاتی ہے جو شادی ، ولیمہ اور مہندی کی رسم پر لاکھوں خرچ
کرے اور جھوٹی شان دکھائے۔ شادی کا Marriage Hall میں کیٹرنگ کے ساتھ ہونا
ضروری بن گیا ہے۔ اب شادیاں گھریلو چیز نہیں رہیں بلکہ نمائشی چیز بن گئی
ہیں۔اخلاقی معیار بالکل گر چُکا ہے۔ اخلاق کی کوئی قیمت ہی نہیں رہی اسی
لئے جھوٹ ، چوری ، ضمیر فروشی ، غدّاری ، فراڈ غبن سب لوگوں کی ضرورت بن
گئی ہے اب کوئی بُرائی بُرائی نہیں رہی کیونکہ خواہشات نے سب کو پاگل بنا
رکھا ہے۔ ہر شخص مزید آسائش ، مزید آرام حاصل کرنے کی کوشش میں بے اطمینانی
کا شکار ہو گیا ہے۔ ہمارا امیر طبقہ زیادہ امیر ہونے کے لئے پہلے سے موجود
خوشیوں سے بھی محروم ہوتا جارہا ہے غریب طبقے کے لوگ اپنی غُربت کو دور
کرتے کرتے پہلے سے زیادہ غریب ہوگئے ہیں۔ چادر کے مطابق پاوئں نہ پھیلانے
کی وجہ سے ہاتھ پھیلانے کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔چنانچہ غریب لوگ جلد سے
جلد امیر بننے کے چکّر میں لاٹریاں ، پلے ون ، لوٹو کھیل رہے ہیں جو کچھ
اُن کے پاس تھا زیادہ کی حوس میں اُسے بھی گنوا رہے ہیں دولت مند بننے کا
یہ شارٹ کٹ اُنہیں مزید غریب بنا رہا ہے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ خواہش ہی
ہم کو ذلیل کر رہی ہے۔ انسان خواہشات کو حد میں رکھے تو سکون کی زندگی بسر
کر سکتا ہے مگر ہم راتوں رات آسمان کو چھونے کی کوشش کر رہے ہیں۔ دوسروں کا
منہ لال دیکھ کر اپنا منہ نوچ کر لال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اس کا نتیجہ
ہمارے چہرے پر داغ کی شکل میں ہمارے سامنے نمایا ں ہو رہا ہے۔
بقول غالبؔ :
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے میرے ارماں لیکن پھر بھی کم نکلے |