پروفیسر مظہر ۔۔۔۔۔۔۔ سرگوشیاں
حضرت امام ابو حنیفہؓ کا قول ہے ’’روٹی کا ٹکڑا اور معمولی کپڑا اگر خیر و
عافیت سے ملتا رہے تو اُس عیش سے بہتر ہے جس کے بعد ندامت اُٹھانی پڑے ‘‘۔لیکن
ہمارے ہاں تو چادر دیکھ کر پاؤں پھیلانے کا سرے سے کوئی رواج ہی نہیں ۔ہماری
سیاسی ، سماجی ، معاشی اور معاشرتی زندگی کا کوئی پہلو ایسا نہیں جہاں
نمودو نمائش کو لازمۂ حیات نہ سمجھا جاتا ہو ۔ یوں تو سبھی محبِ وطن ہیں
لیکن اگر اعمال پہ نظر دوڑائی جائے تو وطنِ عزیز کی محبت کا کوئی پرتو ،
کوئی قرینہ ، کوئی سلیقہ نظر نہیں آئے گا ۔ ہمارے ہاں سیاست کاروبار میں
ڈھل چکی ہے اور رہبرانِ قوم اِس ’’عظیم کاروبار‘‘ سے بھرپور لطف اندوز ہو
رہے ہیں ۔ یہ الگ بات ہے کہ جب سیاسی طاقت چھِن جاتی ہے تو باقی ندامت ہی
ندامت ۔لیکن ہمارے مہربانوں نے تو ندامت کو بھی سیادت سمجھ لیا ہے ۔ اِس
قحط الرجال میں کوئی قلم ، کوئی زبان اور کوئی ہاتھ ایسا نظر نہیں آتا جو
ہمارے اِن ’’سیاسی کاروباریوں‘‘ کو صراطِ مستقیم کی تلقین کرتا نظر آئے ۔
لے دے کے الیکٹرانک میڈیا کا بھروسہ تھا لیکن وہاں بھی اب صرف کاروبار ہی
نظر آتا ہے ۔ آقاﷺ کا فرمان ہے ’’پیٹ سے بڑھ کر بدترین کوئی برتن نہیں ‘‘۔
مگر ہمارے ہاں تو حکمرانی ہی پیٹ کی ہے اور ہمارے اینکرز آتشِ شکم کی سیری
کے لیے ریٹنگ بڑھانے کے چکر میں وہ کچھ کہہ جاتے ہیں جِس کا حقائق سے دور
کا بھی واسطہ نہیں ہوتا ۔ریٹنگ کے چکر میں اب ہر نیوز چینل پہ تحقیق و
تفتیش بھی ہوتی ہے ، عدالتیں بھی لگتی ہیں اور جزا و سزا کا تعین بھی کیا
جاتا ہے۔
دوسری طرف اِس نفسا نفسی کے عالم میں کسی کے پاس اتنا وقت ہی نہیں ہوتا کہ
وہ نیوز چینلز پر کہی گئی باتوں کی تصدیق کر سکے ۔جس طرح ہمارے علمائے کرام
مساجد میں بیٹھ کر دین کی جو تشریح و تعریف کرتے ہیں ، مبتدی اُسی پر بغیر
سوچے سمجھے ایمان لے آتے ہیں اور اسی سبب دینِ مبیں فرقوں اور گروہوں میں
بٹ گیا ہے اسی طرح ہمارے اینکرز جو کچھ کہتے ہیں ، قوم اُسی پہ اعتبار کر
لیتی ہے ۔ معروف مورخ ابنِ خلدون نے کہا ’’جس ملک میں قبیلے بکثرت اور اہلِ
عصبیت بہتات کے ساتھ ہوتے ہیں وہاں سلطنت کو کامل استحکام نصیب نہیں ہوتا
‘‘۔ اگر ابنِ خلدون اِس دَور میں ہوتا تو یقیناََ وہ قبیلوں اور اہلِ عصبیت
کے ساتھ الیکٹرانک میڈیا کو بھی شامل کرتا ۔ تسلیم کہ وطنَ عزیز میں آج بھی
کچھ لوگ آبروئے صحافت کے علمبردار ہیں لیکن اِس بحرِ بے کنار میں بقدرِ
قطرۂ شبنم باقی سب ریٹنگ ہی ریٹنگ ۔
آزاد اور بیباک اینکرز یہ سمجھتے ہیں کہ اُن سے بڑھ کر کون ہے جو امورِ
مملکت بطریقِ احسن سر انجام دے سکے؟۔ سیاست ، ثقافت ، معاش ، معاشرت ، طِب،
سائنس ، ٹیکنالوجی اور امورِ داخلہ اور خارجہ کے اِن ماہرین کی صلاحیتوں سے
مستفید نہ ہونا حکمرانوں کی نا اہلی کے زمرے میں آتا ہے لیکن ہماری ہر
حکومت اِن کی صلاحیتوں سے بے بہرہ ہی رہی ۔ مشہور ایرانی شاعر ابنِ یمین
کہتا ہے ’’اے ابنِ یمین ! تُف ہے اُس مقام پر جہاں دو سو داناؤں کی قیمت
ایک احمق سے بھی کم ہو‘‘ ۔ ہمارے اینکرز کو بھی شاید یہی دُکھ ہے اور اسی
وجہ سے عالمِ غیض میں وہ خوش اخلاقی کا دامن چھوڑ کر کھری کھری سناتے رہتے
ہیں حالانکہ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ وجہ وجودِ کائینات ﷺ کا فرمان ہے کہ
’’جو خوش اخلاق ہو اُس کے لیے جنت کے اعلیٰ درجے میں ایک گھر کا میں ضامن
ہوں ‘‘۔
آجکل الیکٹرانک میڈیا کا موضوع کراچی اور اسلام آباد میں بلائی گئی آل
پارٹیز کانفرنسز اور وفاقی کابینہ کے غیر معمولی اجلاس پر تنقید و تنقیص ہے
لیکن ریٹنگ بڑھانے کے شوقین اینکرز کا دُکھ یہ ہے کہ اب تحریکِ انصاف سمیت
تمام سیاسی جماعتیں ایک ہی ایجنڈے پر متفق نظر آتی ہیں اور فوج بھی اُن کا
بھرپور ساتھ دینے کے لیے مستعد ہے اِس لیے کسی بھی ٹاک شو میں بلائے گئے
مہمان باہم جوتم پیزار نظر نہیں آتے اور ظاہر ہے کہ اگر مہمانوں کے مابین
تلخ کلامی نہیں ہو گی تو ریٹنگ کا بیڑا غرق ہو جائے گا ۔اِس ریٹنگ کو
بڑھانے کے لیے ہمارے کچھ اینکرز نے اب یہ راہ نکالی ہے کہ اِدھر اُدھر سے
غلط سلط مواد اکٹھا کرکے پروگرام ترتیب دینے شروع کر دیئے ہیں۔ پچھلے دنوں
دو معروف نیوز چینلز پر ریسکیو 1122 کی کارکردگی کے بارے میں ٹاک شوز
دیکھنے کا موقع ملا ۔ اِن ٹا ک شوز کو دیکھنے کے بعد میرے ذہن میں بنا ہوا
ریسکیو 1122 کی عظمتوں کا محل دھڑام سے نیچے آ گرا اور میں یہ سوچنے پر
مجبور ہو گیا کہ پاکستان میں کوئی ایک محکمہ یا ادارہ بھی ایسا نہیں جس کی
صلاحیتوں پر نازکیا جا سکے ۔لیکن جب میں نے حقائق کی جستجو کی تو پتہ چلا
کہ سچ وہ نہیں جو اِن اینکرزنے پیش کیا بلکہ سچ یہ ہے کہ یہ محکمہ چھوٹی
موٹی خامیوں کے باوجود آج بھی ڈی جی ریسکیو ڈاکٹر رضوان نصیر صاحب کی
سربراہی میں قومی خدمت کے جذبے سے سرشار ہو کر اپنی بھرپور صلاحتیں صرف کر
رہا ہے البتہ یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ محکمے کے اندر کچھ ایسی ’’کالی
بھیڑیں‘‘ گھُس آئی ہیں جو مستقبل میں اِس محکمے کے لیے زہرِ ہلاہل ثابت ہو
سکتی ہیں ۔
ڈاکٹر رضوان نصیر کا جُرمِ عظیم یہ ہے کہ اُنہوں نے پاکستان کی تاریخ میں
پہلی بار ’’پنجاب ایمرجنسی سروسز ‘‘ کی صورت میں ایک ایسا سیٹ اَپ ترتیب
دینے کی سعی کی جو خالصتاََ عوامی خدمت کے لیے تھا اور یہی نہیں بلکہ اُسے
بین الاقوامی معیار تک بھی لے گئے ۔ شاید اسی احساسِ جرم نے اُنہیں اینکر
کے سامنے انتہائی جذباتی بھی کر دیا ۔اینکرز صاحب جو سوالات کر رہے تھے اُن
کی معقولیت کا اندازہ یوں لگایا جا سکتا ہے کہ اُنہوں نے ایک سوال یہ بھی
کیا کہ ایمبولینسزکے اندر ’’وینٹی لیٹرز‘‘ کی کیا ضرورت تھی جب کہ اُنہیں
کبھی استعمال ہی نہیں کیا گیا ؟۔ ڈاکٹر صاحب نے بتکرار و اصرار یہ کہا کہ
وینٹی لیٹرز استعمال ہو رہے ہیں لیکن اینکر اپنی ضد پہ قائم رہے ۔مانا کہ
وینٹی لیٹر کے استعمال کی ضرورت کبھی پیش نہیں آئی لیکن اگر ضرورت پیش آ
جائے اور مریض وینٹی لیٹر کی عدم موجودگی کی بنا پر مَر جائے تو کیا
اینکرموصوف اُس کے قتل کی ذمہ داری قبول کرنے کو تیارہونگے ؟۔موصوف نے
محکمے سے نکالے گئے تین باغی ڈسٹرکٹ ایمرجنسی آفیسرز کی ملی بھگت سے مریض
کا بہانہ بنا کر ایک ایمبولینس منگوائی اور بعد ازاں اُس ایمبولینس کے اندر
موجود سامان کی ویڈیو بنا کر اپنے ٹاک شو میں دکھائی ۔سوال یہ ہے کہ کیا
پبلک پراپرٹی کے اِس غلط استعمال پر اینکر موصوف کے خلاف تادیبی کارروائی
نہیں ہونی چاہیے؟۔ اُنہوں نے باغی آفیسرز کے اِس تخمینے کوبھی تسلیم کر لیا
کہ وینٹی لیٹر ، کارڈیک مانیٹر اور Defibrillator کے علاوہ زندگی بچانے
والے بہت سے قیمتی سامان کی مالیت محض اڑھائی لاکھ روپے ہے لیکن اتنی زحمت
بھی گوارا نہیں کی کہ بازار سے اِن کی مالیت کا خود تخمینہ لگا لیتے ۔
اُنہوں نے یہ تو فرما دیا کہ بازار میں چائینہ سے منگوائی گئی ویگن بیس
بائیس لاکھ میں ملتی ہے جبکہ ڈاکٹر رضوان نصیر نے یہ ویگن 44 لاکھ میں
منگوائی لیکن یہ نہیں بتلایا کہ ویگن کو ایمبولینس میں تبدیل کرنے اور اُس
میں زندگی بچانے والے انتہائی قیمتی آلات کی انسٹالیشن پر کتنے اخراجات
ہوتے ہیں۔کیا ڈاکٹر رضوان نصیر صاحب کا قصور یہ ہے کہ اُنہوں نے باہر سے
کروڑوں روپے مالیت کی ایمبولینس منگوانے کی بجائے ویگن کی قیمت سمیت محض
چوالیس لاکھ میں ویگن کوایمبولینس میں تبدیل کرنے کی کامیاب سعی کرکے قیمتی
زرِ مبادلہ بچانے کی کوشش کی ؟۔ اینکر موصوف کو یہ گلہ بھی ہے کہ پچاسی
فیصد سامان کا ٹھیکہ ’’احمد میڈکس‘‘ کو کیوں دیا گیا ؟۔ سوال مگر یہ ہے کہ
اگر احمد میڈکس کے ریٹس سب سے کم تھے تو کیا ٹھیکہ زیادہ ریٹس والی کمپنی
کو دیا جاتا ؟۔ آخر میں صرف اتنی استدعا ہے کہ اگر کوئی محکمہ تا حال کرپشن
سے پاک ہے اور اپنی بہترین صلاحیتیں بروئے کار لا رہا ہے تو اُس کی
کارکردگی پر محض ریٹنگ بڑھانے کی خاطر اُنگلیاں اٹھا کر عوام کو گمراہ کرنے
کی کوشش نہ کی جائے ۔ |