قرآنِ حکیم ایک ایسی الہامی کتاب ہے جو لاریب فیہ کا دعوی
بھی کرتی ہے اور ساری دنیا کے سامنے اسے ایک چیلنج کے طور پر پیش بھی کرتی
ہے ۔اس کے اس دعوے کو کسی نے آج تک جھٹلانے کی جرات نہیں کی ۔ قرآن کا یہ
دعوی دو چار دنوں کی بات نہیں بلکہ یہ دعوی صدیوں پر محیط ہے ۔ان چودہ
صدیوں میں بے شمار انقلابات آئے ،بے شمار حا دثا ت رونما ہوئے، بے شمارتغیر
و تبدل واقع ہو ئے ، بڑی حیرت انگیز سائنسی ایجادات ہوئیں اور کمپیوٹر کی
ایجاد نے پوری دنیا کا چہرہ ہی بدل کر رکھ ڈالا لیکن قرآن کے دعوی کی صد
اقت اپنی جگہ پر پھر بھی بالکل مسلمہ اور اٹل رہی جسے کوئی بھی چیلنج نہ کر
سکا اور چیلنج کیا بھی کیسے جا سکتا ہے کیونکہ قرآنِ حکیم کلامِ خدا ہے اور
خدا کی پیدا کردہ مخلوق میں ابھی اتنا دم خم پیدا نہیں ہوا کہ وہ اپنے خالق
کے کلام کو چیلنج کرسکے۔قرآنِ مجید اپنے نفسِ مضمون میں ایمان، عبادات اور
بے شمار اقوام کے قصے کہانیوں اور ان کے اندازِ فکر سے بحث کرنے کے ساتھ
ساتھ انسان کے نفسیاتی پہلوؤں کو بھی نظر انداز نہیں کرتا۔ اس کے ہاں تیں
سوچوں کا ذکر بڑی شدو مد سے ہوتا ہے(۔۱۔ آباؤ اجداد کی گمراہ کن سوچ کی
پیروی۔۲۔۔سچائی سے انحراف کے نتائج و عواقب۔ خدا کے سامنے جوابدہی کے تصور
سے اغماض کی سزا ۔) مکی دور میں جب دعوتِ حق کا سلسلہ شروع ہو ا اور کفارِ
مکہ نے اس دعوت کو ٹھکرانے کا فیصلہ کیا تو مشرکین کی جانب سے جس بات کو
ایک مسلمہ اصول کے طور پر پیش کیا گیا وہ یہ تھا کہ یہ نئی دعوت ہمارے ان
خداؤں کی تضحیک کرتی ہے جو ہمیں دل و جان سے زیادہ عزیزہیں۔یہ نئی فکر
ہمارے آباؤ اجداد کے مذہب اور مسلک کے بھی خلاف ہے اور ہمیں اس مسلک کو
چھوڑ دینے کا حکم دے رہی ہے جس کے ہم صدیوں سے پیرو کار چلے آرہے ہیں لہذا
اس آواز کے سامنے سرِ تسلیم کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہو تا ۔ یہ ہمیں جس
چیز سے رک جانے کی دعوت دے رہی ہے اس پر تو ہمارے آباؤ اجداد ہزار ہا سالوں
سے عمل پیرا رہے ہیں لہذا یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم اپنے آباؤ اجداد کے مذہب
کو چھوڑ کر اس نئی دعوت پر لبیک کہہ دیں جس کی صداقت ہنوز ہم پر پوری طرح
آشکار نہیں ہے۔اس موقعہ پر قرآنِ حکیم نے یہ سوال بھی اٹھا یا کہ کیا تم
اپنے آباؤ اجداد کی فکر کا خود کو اس وقت بھی مقلد بناؤ گئے جب وہ کھلی
گمراہی میں ہوں۔ ۔
انسان کی عظمت اسی میں ہے کہ وہ سچائی کو تسلیم کرلے قطع نظر اس کے کہ اس
کو پیش کرنے والا کون ہے۔سوال یہ نہیں ہے کہ تمھارے آباؤ اجدادکس فکر کے
پیرو کار تھے بلکہ اہم سوال یہ ہے کہ کیا ان کی فکر سچائی پر مبنی تھی یا
وہ گمراہی اور بے راہ روی کی نقیب تھی؟اگر ان کی فکر گمراہی کی علمبردار
تھی تو تمھارا اس فکر سے خود کو علیحدہ کرنا انتہائی ضروری ہے کیونکہ
گمراہی کی فکر کبھی بھی برگ و بار پیدا نہیں کرسکتی۔یہ اعزاز اور کمال صرف
سچا ئی کو حاصل ہے کہ یہ اپنے ثمرات دکھا کر رہتی ہے۔ قر آنِ حکیم نے
مشرکین کی ہٹ دھرمی کی اس چشم کشاہ مثال سے انسا نیت کو یہ سمجھا نے کی
کوشش کی کہ دنیا میں جب کبھی بھی حق و صداقت کی آوز بلند کی جاتی ہے اور
معاشرے کو شر ،برائی اور نا ہمواریوں سے پاک کرنے کیلئے کوئی نیا فلسفہ اہلِ
جہاں کے سامنے پیش کیا جاتا ہے تو آباؤ اجداد کی پیروی کی یہی توضیح اسے رد
کرنے کا موجب بنتی ہے۔، صدیوں کے رسم و رواج کا حوالہ دیا جا تا ہے اور جو
کچھ تواتر سے ہوتا چلا آرہا ہوتا ہے اس کا بڑی مضبو طی سے دفاع کیا جا تا
ہے۔دنیا کا سارا علم اور ساری ترقی اپنی جگہ پر لیکن آباؤ اجداد کی حرمت،
تقدس اور عظمت اپنی جگہ بڑی قوی، مضبوط اور جاندار ہوتی ہے جو نئے افکار کو
،نئی روشنی کو اور نئی فکر کو روکنے میں سدِ راہ بن جاتی ہے۔ رجعت پسند سوچ
اور فکر کا حزیمت اٹھانا تو مسلمہ ہوتا ہے کیونکہ رجعت پسند سوچ وقت کی
رفتار اور نئے تقاضوں کاساتھ نہیں نبھا سکتی لہذا اس کا راہ سے ہٹنا تو اٹل
ہوتا ہے لیکن نئی سوچ کو قبول کرنا اور اس پر لبیک کہنا بھی بظاہر اتنا
آسان نہیں ہوتا ۔ان دونوں سوچوں میں شدید جنگ ہوتی ہے جس میں رجعت پسند سوچ
کے حامل افراد اپنا سارا زور لگاتے ہیں لیکن نئی سوچ ان سے پھر بھی رک نہیں
پاتی کیونکہ وقت کا فیصلہ رجعت پسند قوتوں کے خلاف ہوتاہے اور اسے نئی سوچ
کیلئے راستہ کھلا چھوڑنا پڑتا ہے۔اس ساری حقیقت کے باوجود جدید سوچ کے خلاف
مزاحمت اور ٹکراؤ ایک حقیقت ہوتی ہے اور اسے ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا
ہوا ہے۔کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ جنگ چند دنوں ، مہینوں اور سالوں کی
ہوتی ہے حالانکہ ایسا نہیں ہوتا یہ جنگ کئی صدیوں تک جاری رہتی ہے کئی
نسلیں اس میں کام آتی ہیں پھر کہیں جا کر ایک نیا معاشرہ تشکیل پاتا ہے جو
رجعت پسندانہ سوچ کو شکست دے کر ایک نئی دنیا آباد کرتا ہے ۔یورپ کے ہاں جو
عقلی تحریک صدیوں پہلے شرع ہوئی تھی اس میں بھی اسے کئی صدیوں کا سفر طے
کرنا پڑا تھا تب کہیں جا کر یورپ اس مقام پر متمکن ہوا جس پر آج وہ فائز
ہے۔اسے بھی رجعت پسند قوتوں سے محاذ آرائی کرنی پڑی، اسے بھی توہماتی سوچ
کا سامنا کرنا پڑاور اسے بھی صدیوں کے بیکار رسموں رواجوں کو ترک کرنا پڑا
لیکن بالآخر اس نے بڑے عزم و استقلال سے اس سوچ کو شکست دی جو علم کی دشمن
تھی ۔ علم کی روشنی اور عظمت نے اندھیروں اور جہالت میں ڈوبے ہوئے یورپ کو
دنیا کی سرداری پر فائز کر دیا اور دنیا کو اس کے سامنے سرنگوں ہونے پر
مجبور کر دیا۔ شاعرِ مشرق علامہ اقبال نے سچائی اور آباؤ اجداد کی اس جامد
اور گمراہ کن فکر کے انداز کے درمیان معرکہ آرائی کو جس خوبصورتی سے ایک
شعر میں سمو دیا ہے اس سے روح وجد میں آ جاتی ہے۔۔
آئینِ نو سے ڈرنا طرزِ کہن پہ اڑنا۔۔منزل کٹھن یہی ہے قوموں کی زندگی میں
قرآنِ مجید میں اقوامِ عالم کے واقعات سے انسانوں کو یہ سمجھانے کی کوشش کی
گئی ہے کہ جب بھی کسی قوم نے خدا کی سیدھی راہ کو چھوڑ کر اپنے جذبات کی
پیروی شروع کر د ی تو اس قوم کے ہاں ضعف ،کمزوری اور اضملال جنم لینا شرع
کر دیتا ہے جس سے وہ قوم بتدریج تباہی کی جانب بڑھتی جاتی ہے۔بظاہر وہ قوم
یہی سمجھ رہی ہوتی ہے کہ وہ ترقی کی جانب گامزن ہے لیکن ایسا ہو تا نہیں
کیونکہ ذ اتی جذبات کا جنون عدل و انصاف اور مستقل اقدار کا خون کرتا چلا
جاتا ہے جس سے معاشرے میں ناہمواریں جنم لینا شروع ہو جاتی ہیں جس سے پورا
معاشرتی ڈھا نچہ کمزور ہو تا چلا جاتا ہے اور پھر دنیا کی کوئی دوسری توانا
قوم اسطرح کی منتشر قوم پر غلبہ حاصل کر کے اسے اپنا غلام بنا لیتی
ہے۔سلطنتِ روما کی عظمتوں اور شان و شوکت کا اگر بنظرِ عمیق جائزہ لیں تو
ایک بات بالکل عیاں نظر آتی ہے کہ سلطنتِ روما کی ساری قوت و حشمت اس وجہ
سے زمین بوس ہو گئی تھی کہ اس کے ہاں شہوانی خو اہشات کی شدت نے ان کی ساری
توانائی کو سلب کر لیا تھا لہذا جب اسے خود سے زیادہ توانا اور مضبوط قوم
کا سامنا کرنا پڑا تھا تو اس کے قوای جواب دے گئے تھے ۔اسطرح کا وقت تو
ملتِ اسلامیہ پر بھی آیا تھا جب اس نے عیش و آرم ، لال و زر و جواہر کو ہی
اپنا مقصودِ حیات بنا لیا تھا تو وہ قومیں جو حرکت و عمل پر یقین رکھتی
تھیں اس پر غا لب آگئیں اور اسے محکومی اور غلامی کا سامنا کرنا پڑا
۔اسلامی دنیا کے حکمران اقتدار کے لئے باہمی جنگوں اور سر پھٹول میں مشغول
رہے ۔محلاقی سازشوں نے اس کی ترجیحات کو تباہ کر کے رکھ دیا۔لہو لعب اور
طاؤس رباب سے دلچسپی نے اس کے ساری صلاحیتوں کو زنگ آلود کر دیا۔ان کے لئے
اپنے حرم کو نت نئی حسیناؤں سے بھرنے کے علاوہ کوئی دوسری مصروفیت نہیں تھی
۔ریاست کیلئے کسی بھی حکمران کا انصاف پسند اور عوام دوست ہونا ضروری ہوتا
ہے لیکن اسلامی دنیا کے اکثر حکمرانوں میں اس وصف کا کہیں شائبہ بھی نہیں
تھابلکہ ان کی دلچسپیوں کا مرکز کچھ اور ہوتا تھا۔وہ قوم جسے تازہ دم گھوڑے
ہمہ وقت تیار رکھنے۔ کا حکم تھا اس کے حکمران سفید گھوڑیوں کی تاک میں رہتے
تھے اور اس روش کا نتیہجہ وہی نکلنا تھا جو نکلا۔ہلاکو خان کی آمد اور
بغداد کی تباہی مسلمان قوم کی اسی روش کا فطری نتیجہ تھا۔۔قوموں کے عروج کا
ایک زریں اصول اقبال کے ہاں ملتا ہے۔۔
صورتِ ِ شمشیر ہے دستِ قضا میں وہ قوم۔۔۔کرتی ہے جو ہر زماں اپنے عمل کا
حساب (علامہ اقبال) |