وسوہِ گناہ

گاڑیوں نے دھویں کے مرغولے جان بوجھ کر اس کی طرف پھینکنے شروع کر دئے تھے ۔ سامنے پڑی اینٹوں نے اسے گھورناشروع کردیاتھا۔اس نے بھی ہونٹ بھینچ کر ایک اینٹ کو ٹھڈا مار دیا تھا۔ اس کے ذہن پہ خیالات مکھیوں کی طرح بھنبھنارہے تھے۔

وہ سڑک کے کنارہ آہستہ آہستہ چل رہا تھا۔اس کا ذہن ایک جگہ پہ ٹک نہیں رہا تھا۔اس کے جسم میں توڑ پھوڑسی ہورہی تھی۔ اسے لگا کہ اس کا جسم اس کے ساتھ چلنے پہ راضی نہیں ہے مگرپھر بھی وہ اسے اٹھائے چل رہا تھا۔ سامنے کا پورا منظر پانی میں تیرتا ہوا محسوس ہو رہا تھا۔سامنے کی ساری چیزیں اس سے عجیب رویہ کے ساتھ پیش آرہی تھیں۔

’بزدل! بزدل!‘‘۔ بوہڑ کے درخت پہ بیٹھے پرندے اس پہ آوازیں کس رہے تھے۔’’ بے وقوف! بے وقوف!‘‘ سڑک پہ چلنے والی گاڑیوں کے انجن غرا رہے تھے۔

’’میں کہیں کسی اجنبی شہر میں تو نہیں آگیا۔۔میں گھر سے ہی نکلا ہوں ناں!!اوربیس سال سے میرا گھر ایک ہی ہے تو پھر یہ سارا کچھ آج عجیب کیوں ہے‘‘۔ اس نے دیوانوں کی طرح ادھر ادھر دیکھنا شروع کر دیا۔ اجو قصائی گوشت والے پھٹے پہ بیٹھا اسے گالیاں دے رہا تھا۔سامنے جاوید ویلڈنگ والا اسے بھرا بھلا کہہ رہاتھا۔دائیں طرف ناصر حلوائی بڑبڑا رہا تھا۔اس نے خالی خالی نظروں سے ان کی طرف دیکھا۔ آخر یہ گالی مسکراکر کیوں دے رہے ہیں۔۔۔؟؟ اس کے جی میں آیا کہ وہ جائے اور ان سے لڑ پڑے ۔ بڑی مشکل سے اس نے لڑکھڑاتے قدموں پہ قابو پایا اور آگے کی طرف بڑھ گیا۔

سامنے ’’طارق ہئیرڈریسر ‘‘ کا سائن بورڈ تھاجو بھدا منہ بنائے اسے چڑارہاتھا۔اس نے داخل ہونے کی کوشش کی مگر اس کے اندر کوئی تھا جو اسے روک رہا تھا۔ اس نے ماتھے پہ تیوری چڑھائی او ر دکان کے اندر داخل ہو گیا ۔ طارق حجامت بنانے میں مصروف تھا۔ سامنے کا شیشہ اس کی شکایتیں کرنے میں مصروف تھا۔ دروازہ کراہ رہا تھا ۔اس نے سرجھٹکا اور اپنے خیالات یکجا کرنے کی کوشش کی ۔

’’’’اگر میں اس کی حفاظت نہیں کر سکتا تو اسے اپنے ساتھ کیوں رکھوں۔۔‘‘خیالات کا اژدھا اب طاقتورہو چکا تھا۔وہ داڑھی ہاتھ میں پکڑے دیکھ رہا تھا۔

’’اس کی بے ادبی ....؟؟ اگر اس کا ادب نہیں کر سکتا کیوں رکھی ہے تو نے....؟؟‘‘۔ معاشرہ نفرت کے پودے کو پانی دیتاآیا تھا۔

’’’’یہ مقدس ہےاور میں گناہگار ہوں ، اسے رکھ کے گناہ....؟؟نہیں !!نہیں !! ‘‘۔اس نے کانوں کو ہاتھ لگادئے تھے۔ قینچی منہ کھولے ابھی تک اسے برا کہہ رہی تھی۔

’’ڈرپوک!!ڈرپوک‘‘ شیشہ کے آگے رکھے پاؤڈرکی ڈبیا کے لہجہ میں بھی طنز تھا۔

’’یار ! میں نے دس میں سے پانچ سوال حل کئے ہیں۔۔‘‘۔ خوشی کے یہ الفاظ میزائل کی رفتار سے اس کے کانوں سے ٹکرائے تھے۔ اس کاسرگھوم گیا،آنکھیں متکلم تلاش کرنے لگیں،کان کھڑے ہوگئے وہ دیوانہ وار پیچھے کی طرف مڑا۔ یہ پیچھے چند سٹوڈنٹ ہاتھ میں گتہ لئے بیٹھنے لگے تھے۔شاید پیپر کر کے آئے تھے۔

’’دس میں سے پانچ سوال.....پھر بھی .خوشی..۔۔۔؟؟؟وہ بھی دنیا کے امتحان میں۔۔؟؟..’’

’’ہاں ۔۔یہ دنیا بھی..... تو ایک ....امتحان گاہ ہے۔۔سوالات ہیں۔۔جنھیں ہم نے حل کرکے جانا ہے..اور وہاں پہ ہمارا نتیجہ آنا ہے ....چلو ....جو آتے ہیں وہ تو حل کرلوں ناں...یہ داڑھی بھی تو ایک سوال ہے جس کا میں نے جواب دینا ہے...کہ تو نے اپنے نبی ﷺکی شکل وصورت کیوں نہیں اپنائی؟..آپ ﷺ کے چہرے سا چہرہ کیوں نہیں بنایا؟اگر آج میں نے داڑھی منڈا دی تو کیا جواب دوں گا؟‘‘۔ اس نے طارق کو دیکھا جو شیو کر نے کے بعد بال پانی میں بہا رہا تھا۔

’’’’اور اگر یوں پوچھ لیا گیا کہ نہ صرف یہ کہ ان جیسا چہرہ نہیں بنایابلکہ ان کی مبارک سنت کو گٹروں اور نالیوں میں بہا دیا؟...تو ہوتا کون ہے میری نبیﷺ کی سنت کو نالیوں میں پھینکنے والا؟..تو ہوتا کون ہے میرے نبیﷺ کی سنت کو گٹروں میں بہانے والا؟ تو ہوتا کون ہے میرے نبیﷺ کی سنتوں کا مذاق اڑانے والا؟ کیا اس وقت یہ جواب کافی ہوگا کہ میں گناہ گار تھا،اس کا ادب نہیں کر سکتا تھا؟ .‘‘۔
’’ن..ن..نہ.نہ...نہیں...نہیں.‘‘اس کا جسم کانپ اٹھا تھا۔

’’’’داڑھی رکھنے پہ تجھ سے لوگ ناراض ہو رہے تھے، طعنے دے رہے تھے..اور...داڑھی منڈوانے پر تجھ سے میرا نبیﷺ ناراض ہو رہا تھا..تو توُنے لوگوں کو خوش کیا، میرے نبی ﷺ کو ناراض کیا؟۔ جا اب انہی لوگوں کے پاس..جن کے لئے تو نے یہ کیاتھا‘‘
’’’’آئیں یاسر! ‘‘۔ طارق حجامت بنا چکا تھا۔
’’ن..نن..ننہ..نہیں...‘‘۔ وہ باہر کو دوڑ چکا تھا۔
’’او سن.... دنیا والوں کی مانے گا تو مسلمان بھی نہیں رہے گا کل یہ کہیں گے کلمہ پڑھ کے گناہ....؟؟‘‘۔ ’’طارق ہئیر ڈریسر‘‘ کا بورڈچمک کر اسے کچھ سمجھارہاتھا۔

’’ہ..ہ.ہ....ہہ..ہاں....ہاں...‘‘۔ ساکت یاسر کے ہونٹ ہلے تھے۔وہ مسکراکرچل پڑا تھا۔ راستہ پہ دھمکی دار عناصر نے شرافت کا لبادہ اوڑھ لیا تھا۔ اجو قصائی گوشت والے پھٹے پہ بیٹھ کر اسے سلام کر رہا تھا۔ جاوید ویلڈنگ والا مسکرا کر گھر والوں کا حال پوچھ رہا تھا۔پرندے چہچہارہے تھے اور اسے آج یقین ہو گیا تھا کہ گناہ کے وقت ضمیر ملامت کرتا ہے۔۔...

M Umar Farooq Dervi
About the Author: M Umar Farooq Dervi Read More Articles by M Umar Farooq Dervi: 3 Articles with 2116 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.