قیام پاکستان کے بعد جب پاکستان کی طرف بہنے والی نہروں
کے ہیڈ ورکس بھارت میں آ گئے تو ایک نئے تنازعے نے جنم لیا جب معاملہ حد سے
بڑھا تو عالمی دنیا بھی اس طرف متوجہ ہوئی اور پاکستان اور بھارت کے درمیان
پہلی بار ورلڈ بینک کے تعاون سے ایک معاہدہ پانی کی تقسیم کے حوالے سے طے
پایا جسے ہم سندھ طاس کے نام سے جانتے ہیں جس کی رو سے پاکستان اور بھارت
میں پانی کی تقسیم کا فارمولہ طے پایا یعنی تین دریاؤں کا پانی بھارت کو
اور تین ہی پاکستان کے حصے میں دے دیے گئے اور اس کی رو سے پاکستان کو اپنے
پانی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے پانی کے ذخائر تعمیر کرنے کے لئے ورلڈ
بینک کے تعاون سے منگلا اور تربیلا میں دو بڑے زخائر تعمیر کرنے کے منصوبے
پر کام شروع ہوا آج منگلاڈیم کو یہ اعزاز حاصل ہوچکا ہے کہ یہ پاکستان کا
سب سے بڑا آبی زخیرہ بن چکاہے منگلاڈیم پاکستان نے ورلڈ بینک کے تعاون سے
تیار کیا اور اسے ورلڈ بینک کے تعاون سے بنایا اورپایہ تکمیل تک پہنچایا
منگلاڈیم بناتے ہوئے حکومت پاکستان ،واپڈا اور آزادکشمیر حکومت نے اجڑنے
والے ہزاروں اہلیان میرپور ، چکسواری اور ڈڈیال سے بہت سے وعدے کیے چند
وعدے پورے ہوئے اور اکثر؟؟؟ نسلیں مٹی میں مل گئیں مگر وہ وعدہ ہی کیا جو
وفا ہو سکے ان وعدوں میں ایک وعدہ یہ بھی تھا کہ اہل میرپور کو اس عظیم
قربانی کے اعتراف میں تاحیات بجلی مفت۔ فراہم کی جائے گی ان وعدوں میں ایک
وعدہ یہ بھی تھا کہ اجڑنے والے خاندانوں کو صحت تعلیم اور زندگی کی بنیادی
ضروریات رعایتی نرخوں پر فراہم کی جائیں گی اس کے علاوہ اور بھی بہت سی
باتیں کی گئی جو کہ صرف باتوں کی حد تک ہی رہی مگر ان پر عمل درآمد نہ ہونا
تھا اور نہ ہی ہوایہ وعدے گنواتے گنواتے شاید تحریر لامتناہی ہو جائے ۔
گزشتہ چالیس سال سے منگلاڈیم کو ہمیشہ تربیلا ڈیم کے بعد پاکستان کا دوسرا
بڑا آبی زخیرہ کہاجاتاتھا تربیلا ڈیم میں مکمل استعداد کے مطابق پانی جب
بھر لیاجائے تو اس کی مقدار 65لاکھ ایکڑ فٹ بنتی ہے آج منگلاڈیم 1239فٹ کے
لیول تک جا پہنچا ہے اور موجودہ لیول پر اس میں زخیرہ شدہ پانی کی مقدار
70لاکھ ایکڑ فٹ سے زائد ہوچکی ہے 1210فٹ سے بڑھا کر منگلاڈیم کو 1242تک
کیاگیااعدادوشمار کے مطابق اس ریزنگ کے بعد ہر سال منگلاڈیم سے وطن عزیز کو
بجلی اور پانی کی مد میں 60ارب روپے سے زائد کا کم از کم فائدہ ہوگا دیگر
فوائد کا تخمینہ ابھی لگانا باقی ہے جو کہ زراعت میں ہو گا منگلاڈیم بننے
کی صورت میں اہل علاقہ نے 1960کی دہائی میں پاکستانی تاریخ کی سب سے بڑی
مستقل ہجرت اختیار کی تھی اور آج 2013میں تقریبا ً 50سال بعد اہل میرپور کی
تیسری نسل نے ایک مرتبہ پھر ہجرت کا کرب برداشت کر رہی ہے ان کی اس قربانی
نے وطن عزیز کو روشنیوں سے سجانے کیلئے ایک مثال قائم کردی پاکستان کے تمام
صوبوں اور تمام علاقوں کے لوگوں کو اہل میرپور ،ڈڈیال اور چکسواری اور
دوسرے متاثرہ علاقوں نے دوسری مرتبہ یہ عملی پیغام دے دیا کہ یہ وطن اتنا
قیمتی ہے جس کیلئے ہم اپنے آباؤاجداد کی قبریں اپنی جائیدادیں اپنے کاروبار
اور سب سے قیمتی اپنی یادیں منگلاڈیم کے پانی کی نذر کرسکتے ہیں صرف اس
خواہش اورحسرت کیلئے کہ یہ وطن تاقیامت رہے ۔مون سون کے اس سیزن میں منگلا
جھیل کو بھرنے کا عمل شروع کیا تو بہت سے ایسے علاقے بھی متاثر ہوئے جن کی
نشاندہی منگلا اپ ریزنگ پروجیکٹ بنانے والوں نے نہیں کی تھی پانی کا لیول
بڑھنے سے جہلم ،سوہاوہ،گوجرخان ،کلر سیداں،کہوٹہ،ڈڈیال اور چکسواری کے
علاقے بری طرح متاثر ہوئے ان علاقوں کے متاثرہ لوگوں کو تو کسی قسم کا کوئی
معاوضہ بھی نہیں دیا گیا تھا اور نہ ہی ان کو بتایا گیا تھا کہ ان کے گھر
پانی کا لیول بڑھنے کی وجہ سے پانی کی نظر ہو جائیں گے لیکن اگر علاقے کا
جائزہ لیا جائے تو افسوس ہوتا ہے کہ لوگوں کے قیمتی مکان، کھیت کھلیان یہاں
تک کے سکول اورقبرستان تک پانی میں ڈوبے ہوئے ہیں اور لوگوں کا کوئی پرسان
حال نہیں قریبی آبادیوں کو تو طفل تسلیاں دی جا رہی ہیں کہ ان کو معاوضہ
ملے گا مگر کب ؟یہ کوئی نہیں جانتا علاقہ پہاڑی ہونے کی وجہ سے کئی جزیروں
میں بٹ چکا ہے اور لوگوں کو آمدورفت کے لئے کشتیوں کا سہارا لینا پڑ رہا ہے
تحصیل کلر سیداں ، کہوٹہ ،سوہاوہ اور گوجرخان کے کئی موضعات اس سے متاثر ہو
رہے ہیں ان علاقوں کی کثیر آبادی بیرون ممالک میں مقیم ہے جن کے تعاون سے
بے گھر ہونے والوں کی امداد کی جا رہی ہے مگر حکومتی سطح پر جس طرح کی سستی
اور سرد مہری دیکھائی جا رہی ہے اس کی مثال ملنا مشکل ہے اس حوالے سے
اہلیان علاقہ کا اگر دکھ درد سنا جائے تو جسم پر لرزہ طاری ہو جاتا ہے کہ
کس طرح یہاں کے مکینوں نے تعمیر وطن کی خاطر اپنے ابا و اجداد کی قبروں کو
پانی کی نظر ہوتے دیکھا ہو گا آج یہ متاثرہ لوگ اہل اقتدار سے یہ پوچھنے
میں حق بجانب ہیں کہ پاکستان کو روشن بنانے کے لئے دوسری بارقربانی دینے
والوں کے ساتھ ایسا سلوک آخر کیونکر کیا جا رہا ہے ۔
منگلاڈیم ریزنگ کا منصوبہ جنرل پرویز مشرف کے دور میں بنایاگیا اوراس پر
کام کا اغاز ہو ا جنرل پرویز مشرف کی حکومت اپنے اختتام تک پہنچی
اورپاکستان پیپلزپارٹی نے کام کرنا شروع کیا صدر پاکستان آصف علی زرداری
اور ان کے وزرائے اعظم سید یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف کی حکومت
پانچ سال پورے کرچکی ہے آزادکشمیر میں وزیر اعظم چوہدری عبدالمجید کی حکومت
قائم ہے اور پاکستان مسلم لیگ ن کے سربراہ میاں محمد نوازشریف وزیرا عظم
پاکستان کی حیثیت سے فرائض منصبی انجام دے رہے ہیں لیکن کیامتاثرین منگلا
کے دکھ درد کا مداوا کرنے والا کوئی نہیں؟ یہ وہ سوالات ہیں جو وہاں سے
اجڑنے والے ہر شخص کی زبان پر ہیں جن کے جوابات اہل اقتدار ہی دے سکتے
ہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت پاکستان ،حکومت آزاد کشمیر اور واپڈا
متاثرین کی آباد کاری اور ان کی فلاح و بہبود کے لئے ہر ممکن اقدامات
اٹھائے تاکہ ترقی اور خوشحالی کی خاطربغیر کسی اختجاج کے بے گھر ہونے والوں
کے گھروں کو پھر سے آباد کیا جا سکے ۔ |