سنا تھا کہ عرب کے بت پرست اپنے ہاں پیدا ہونے والی
بیٹیوں کو برداشت نہیں کرتے تھے۔ جو باتیں پہلے سننے کی حد تک تھیں آج وہ
دیکھنے کو مل رہی ہیں۔ گزشتہ دنوں دو تین ایسے واقعات منظر عام پر آئے
جنہوں نے دورجاہلیت کے بت پرستوں کی روایت کو تازہ کر دیا۔ ان میں سے لاہور
کے ایک سنگ دل اور سفاک باپ نے بیٹا نہ ہونے پرڈھائی سالہ بچی کودریا میں
پھینک دیا۔ رکشہ ڈرائیور عمر زیب کی جب پہلی بیٹی پیدا ہوئی تو وہ اپنی
بیوی سے ناراض تھا وہ بیٹی کو دیکھ کر رنجیدہ تھا، جب اس کے ہاں دوسری بیٹی
پیدا ہوئی تو اس نے پہلی بچی کو اپنے ہاتھوں دریا میں پھینک دیا۔ دوسرا
واقعہ پڑوسی ملک بھارت کی ریاست مدھیہ پردیش میں رونما ہوا جہاں ایک شخص نے
اپنی چھ سالہ معصوم اور اکلوتی بیٹی کا سر کلہاڑی کے وار سے الگ کر دیا۔
قتل کے ملزم نے پولیس کو اس گھناونے عمل کا جواز بتاتے ہوئے کہا کہ اسکے
خواب میں درگا دیوی نے آ کر ان کی بیٹی کی قربانی کی مانگ کی تھی۔ تیسری
افسوس ناک خبر لاہور میں کم سن بچیوں کے ساتھ بدفعلی کی ہے۔
مذکورہ چند مثالوں اور ان جیسے آئے روزرونما ہونے والے واقعات کے پیچھے بہت
سے اسباب ہیں۔ پاکستان اور ہندوستان میں لڑکیوں کے قتل اور خواتین پر تشدد
کا ایک بڑا سبب نرینہ اولاد ہے۔ ایسے لوگ جو دین سے دور ہیں جہالت پر مبنی
یہ جرائم ان ہی سے سرزد ہوتے ہیں۔ نئی بہو کے گھر میں آتے ہی سب یہ مطالبہ
اس کے سامنے رکھ دیتے ہیں کہ ہمیں تو بیٹا ہی چاہیے۔ حالانکہ کوئی بھی صاحب
عقل اس بات کو سمجھ سکتا ہے کہ بیٹا پیدا کرنے میں عورت کا کوئی کمال ہے نہ
بیٹی کی پیدائش میں عورت کا کوئی قصور۔ اس کے باوجود اگر اس مظلوم عورت کے
ہاں بیٹی پیدا ہو جائے تو ماں اور بیٹی دونوں کی زندگی اجیرن بنا دی جاتی
ہے۔ بعض دفعہ بیٹی کی پیدائش پر یہ عذاب اور سختی قتل اور طلاق کی نوبت بھی
لے آتی ہے۔
ایسے افراد جو بیٹے کی خواہش میں اپنی بچیوں اور بیویوں کو قتل کر دیتے ہیں
انہیں چاہیے کہ وہ قرآن مجید میں سورۃ الشوریٰ کی آیات مبارکہ 49، 50 کا
ترجمہ و تفسیر ضرور پڑھ لیں۔ جس میں اﷲ تعالیٰ نے واضح طور اس بات کو بیان
کر دیا ہے کہ بیٹے یا بیٹیاں دینا اﷲ تعالیٰ کے علاوہ کسی کے اختیار میں
نہیں ہے، اﷲ تعالیٰ جس کو چاہے بیٹے دیتا ہے اور جس کو چاہیے بیٹیاں دیتا
ہے اور چاہے تو بیٹے اور بیٹیاں دونوں دے سکتا ہے اور جس کو وہ کچھ بھی نہ
دے یہ اس کی مرضی ! انسان قدرت کے اختیار میں کوئی تبدیلی نہیں لا سکتا۔ اﷲ
تعالیٰ اپنے فضل سے جو بھی عطا فرمائے اسی کو اپنے لیے اعزاز سمجھنا چاہیے
اور اگر اﷲ تعالیٰ اولاد نہ بھی دیں تو اس پر بھی انسان کو صبر کرنا چاہیے
یقینا اس صبر پر اس کو اجر ملے گا۔
دوسری بات کہ جن کو اﷲ تعالیٰ نے بیٹیاں دی ہیں وہ ان کو بوجھ نہ سمجھیں۔
انہیں یہ بات سوچنی چاہیے کہ آج دنیا میں جتنے بھی مردوں کا وجود ہے وہ
عورت ہی کے بدولت ہے اگر آپ بچیوں کو قبول ہی نہیں کریں گے تو نسل انسانی
کیسے پھلے پھولے گی ؟ اسلامی نقطہ نظر سے بھی نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے
بچیوں کے متعلق دور جاہلیت کے تصور کو ختم کیا۔ عورت کو معاشرے میں ایک
اعلیٰ مقام دیا اور اسے وراثت میں بھی حصہ دار قرار دیا۔ نبی صلی اﷲ علیہ
وسلم نے بیٹیوں والے والدین کو یوں خوشخبری دی ہے۔صحیح مسلم میں فرمانِ
نبویؐ ہے ’’جس کو اﷲ تعالیٰ نے دو بیٹیاں عطا کیں اور اس نے ان کی اچھی
پرورش کی تو میں اور وہ شخص قیامت کے دن اس طر ح جنت میں ہوں گے۔'' پھر آپ
صلی اﷲ تعالی علیہ واٰلہ وسلم نے اپنی دونوں انگلیاں ملاکر دکھائیں۔
اکثر ایسے واقعات کی خبریں دیکھنے میں آتی ہیں کہ فلاں شخص نے اپنے اتنے
بچوں کو قتل کر کے خود کشی کر لی۔ یا گھریلو حالات سے تنگ آ کر دریا میں
چھلانگ لگا دی ، یا بچوں سمیت ٹرین کے سامنے لیٹ گیا۔ ایسا کیوں ہوتا ہے ؟
ایسے واقعات اس وقت رونما ہوتے ہیں جب انسان کا ایمان کمزور ہوتا ہے۔ وہ رب
کے بجائے اپنے آپ کو بچوں کا کفیل سمجھنے لگ جاتا ہے۔ جب انسان کی خواہشات
زیادہ ہو جائیں پھر وہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر رنجیدہ ہو جاتا ہے۔ ایسا شخص
جو قدرت نے اس کو دیا اس پر راضی نہیں رہتا بلکہ ہر وقت قدرت سے شاکی ہی
رہتا ہے۔ بالآخر یہ مایوسی اس کو انتہائی قدم اٹھانے پر مجبور کر دیتی ہے۔
ایسے افراد اپنے بچوں کو اس لیے قتل کر دیتے ہیں کہ ان کو روٹی کہاں سے
کھلائیں گے ، ان کے لیے اﷲ تعالیٰ نے سورۃ الاسراء آیت نمبر 31میں یہ پیغام
دیا ہے کہ ’’تم اپنی اولادوں کو فقر اور مال کی کمی کی وجہ سے قتل نہ کرو،
ہم تم کو بھی کھلاتے ہیں اور ان کو بھیـــ‘‘۔
جنسی جرائم اور معاشرے میں پھیلنے والی بے راہ روی کا ایک بڑا سبب مخلوط
تعلیم بھی ہے۔ جدید تعلیم کی آڑ میں پاکستانی کلچر کو مغرب زدہ کیا جا رہا
ہے اور اس وقت یورپی ممالک کے بڑے بڑے ادارے اور این جی اوز پاکستان کو
فروغ تعلیم کی مدد میں کروڑوں روپے دی رہی ہیں۔ یہ نظام تعلیم دیگر خرابیوں
کے ساتھ مغربی تہذیب کے رنگ کو بھی لا رہا ہے۔ جس کی وجہ سے معاشرے میں
بیگاڑ پیدا ہو رہا ہے۔ معروف برطانوی ریڈیو نے اپنی ویب سائٹ پر بچیوں کی
تعلیم پر پڑنے والی منفی اثرات کو بیان کرتے ہوئے ایک سبب مخلوط نظام تعلیم
کو بھی قرار دیا ہے۔ رپورٹ میں پنجاب میں سرکاری سطح پر تعلیم فراہم کرنے
والے لڑکے اور لڑکیوں کے پرائمری اسکولوں کو آپس میں ضم کرنے کے باعث
والدین نے بچیوں کی بڑی تعداد کو ان مخلوط تعلیمی اداروں سے نکال لیا ہے
کیوں کہ پاکستان کا معاشرہ مذہبی سوچ کا حامل ہے اور مخلوط نظام کی وجہ سے
پیدا ہونے والی خرابیوں کے باعث یہ نظام تعلیم پاکستانی معاشرے کو قابل
قبول نہیں۔ ایسی خرابیوں کے تدارک اور ہماری نوجوان نسلوں کے تحفظ اور
تربیت کے لیے ضروری ہے کہ آزادانہ ماحول میں مخلوط تعلیم کے طریقہ کار کو
ختم کیا جائے، اگر اس کو ختم نہیں بھی کیا جارہا تو لڑکوں اور لڑکیوں کو
اسلامی اقدار و تعلیمات سے روشناس کروایا جائے ۔ انہیں یہ بتایا جائے کہ
اسلام میں جائز وناجائزتعلقات کی حدود و قیود کیا ہیں اور کون سے کام گناہ
اور غیر شرعی کہلائیں گے۔ اگر ایسی خرابیوں کی تعلیم اور اس کے نتیجے میں
پیدا ہونے والی خرابیوں کا بتایا جائے تو بہت سی برائیاں اس طرح ختم ہو
سکتی ہیں۔
معاشرے میں جرائم کی بڑھتی ہوئی شرح کا ایک بڑا سبب ہمارا الیکٹرانک میڈیا
بھی ہے۔ جو عورت کو اس کا صحیح مقام تو نہیں دلا سکا ۔ البتہ عورت کو صرف
تفریح کا ذریعہ بنا کر پیش کیا ہے۔ الیکٹرانک میڈیا شب و روز جنسی جرائم ،
قتل ،اغواء اور ایسے ہی دیگر موضوعات کو بڑی تفصیل اور سنسنی کے ساتھ پیش
کر رہا ہے۔ یوں ہر جرم کی جزئیات دینے سے جرائم کا خاتمہ ہونے کے بجائے
دیگر افراد کو بھی برائی کی جانب جانے کی ایک نئی راہ دکھائی جا رہی ہے۔
الیکٹرانک میڈیا پہلے دن رات فحاشی وعریانی کو دکھاتا ہے۔ لوگوں کی جنسی
بھوک کو بڑھا کر انہیں انسان سے حیوان بنا رہا ہے اور پھر جب اس کے ردعمل
میں کوئی سانحہ یا کسی سے جرم سرزد ہوتا ہے تو مزید سنسنی پھیلانے کے لیے
بات کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتا ہے۔ یوں ٹی وی کے سامنے بیٹھا شخص یہی سمجھتا
ہے کہ ملک میں اس وقت ہر جگہ بس یہی جرم ہو رہا ہے۔ہندوستان اور پاکستان
میں خواتین اور کم سن بچوں و بچیوں پر ہونے والے جنسی حملوں کا سبب
انٹرٹینمنٹ کے نام پر دیکھی جانے والی فلمیں بھی ہیں۔ فلمی مناظر کو جب لوگ
عملی زندگی میں لاگو کرنے کی کوشش کریں گے تو اس کا یہی ردعمل ہو گا جیسا
کہ آج کل بھارت اور پاکستان میں آئے روز جنسی جرائم کی صورت میں دیکھا جا
سکتا ہے۔
بچوں کے اغواء اور جنسی زیادتی کے واقعات والدین کی غفلت اور لاپرواہی کی
وجہ سے بھی رونما ہوتے ہیں۔ والدین اگر بچوں کی صحبت، ان کے گھر سے باہر
نکلنے اور باقی سرگرمیوں پر نظر رکھیں تو بھی منفی سوچ رکھنے والے لوگوں کی
حوصلہ شکنی ہو سکتی ہے۔ یہ بات والدین کے علم میں ہونی چاہیے کہ ان کی
اولاد کا کا اٹھنا بیٹھنا کیسے افراد کے ساتھ ہے ۔ اس کا لباس کیسا ہے۔ وہ
ٹی وی پر کیا دیکھ رہا ہے، انٹرنیٹ کیسے استعمال کر رہا ہے۔ اس کے موبائل
کا مصرف کیا ہے۔ اسکول میں اس کے ساتھ آنے جانے والے افراد کیسے ہیں وہ کن
گاڑیوں میں سفر کر رہا ہے۔ لیکن جب والدین بچوں کی جانب سے لاپرواہ ہوجاتے
ہیں اور انہیں اس بات کا خیال ہی نہیں ہوتا کہ ہمارا بچہ یا بچی کھیلنے
کہاں جاتا ہے۔ تو ایسے سانحات پھر رونما ہو ہی جاتے ہیں۔ کیوں کہ بچے اچھے
برے افراد میں تمیز نہیں کر سکتے، وہ کسی بھی چیز کی لالچ میں آ کر کسی کے
بہکاوے میں آ سکتے ہیں۔ لہٰذا والدین کی بھی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ
اپنے بچوں کا اچھی طرح خیال رکھیں۔ ان کو سمجھانے ، اچھے برے کی تمیز
کروانے میں ہرگز غفلت سے کام نہ لیں۔
بچوں کے قتل میں کبھی کبھی جاہل اور گمراہ لوگوں کی اندھی تقلید بھی سبب بن
جاتی ہے۔ جیسا کہ ریاست مدھیہ پردیش میں جس طرح بچی کو قتل کیا گیا اس میں
بچی کے والد کی اعتقادی کمزوری سبب بنی۔ ہندوستان میں تو دیوی دیوتاؤں کو
خوش کرنے کے لیے بچوں کو بھینٹ چڑھانے کا عمل بہت زیادہ کیا جاتا ہے۔ تاہم
ایک اسلامی ملک میں بسنے والے برائے نام مسلمان بھی ایسے موجود ہیں جو اپنے
جائز و ناجائز کاموں کی تکمیل کے لیے اپنے یا کسی کے کمسن پھول کی جان لینے
سے گریز نہیں کرتے۔ اس معاملے میں زیادہ کردار ان لوگوں کا ہوتا ہے جو خواہ
کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں ، لیکن وہ مذہبی رہنماء نہیں بلکہ شیطان کے
چیلے ہوتے ہیں خواہ وہ کسی پیر یا عامل کے روپ میں ہوں یا کسی سادھو پا ،
پنڈت یا پادری کے روپ میں ، حوس کے پجاری ایسے لوگ شیطان کی خوشنودی کے لیے
معصوم بچوں کے ساتھ زیادتی اور پھر اس گناہ کو چھپانے کے لیے ان پھولوں کو
مسل کر قتل جیسا بھیانک کام کرتے ہیں۔ پاکستان میں ایسی بے شمار مثالیں
موجود ہیں کہ جب کسی عورت نے اپنی گود ہری کرنے کے لیے کسی پیر فقیر کے
کہنے پر کسی دوسرے کے بچے کا خون کر دیا ۔ جبکہ ایسے افراد کی جانب سے بچوں
کو جنسی حوس کا نشانہ بنانے کے واقعات بھی اکثر رونما ہوتے رہتے ہیں۔
ہندوستان میں حالیہ دنوں میں آسارام نامی ایک بہت بڑا ہندومت کا رہنماء اسی
طرح کے جرم کی پاداش میں گرفتار کیا گیا۔ جبکہ پاکستان میں موجود مزار بھی
ایسے ہی لوگوں کا گڑھ بنے ہوئے ہیں جیسے ہندوستان میں پنڈتوں کے روپ میں
جنسی درندنے موجود ہیں۔
معاشرے میں پھیلے جرائم میں کمی نہ آنے کی ایک بڑی وجہ ملک میں لاقانونیت
اور شرعی سزاؤں کا نہ ہونا ہے۔ اسلام نے انسان کی عزت اور اس کے مال کی
حفاظت کے لیے بڑے سخت قوانین بنائے ہیں۔ اگر ایسے جرائم میں ملوث افرادکے
خلاف قانون حرکت میں آ جائے یا ایسے افراد کو سرعام شرعی قوانین کے مطابق
سزائیں ملنی شروع ہو جائیں ،پاکستان کے کسی چوک چوراہے میں کسی چور کا ہاتھ
کٹ جائے، زانی کو رجم کر دیا جائے یا کوڑے لگیں یا کسی ڈاکو کو اس کے کیے
کی سزا مل جائے تو یہ عناصر پھر سب کے لیے نشان عبرت بن جائیں، یوں دوچار
لوگوں کے ہاتھ کٹیں دو چار رجم ہو جائیں لیکن پھر کوئی جرم کرنے کی ہمت
نہیں کرے گا۔ لیکن یہاں شریعت سے خائف لبرل اور سیکولر قسم کے لوگ جو شرعی
سزاؤں کو انسانیت کے منافی اور ظم سمجھتے ہیں کبھی شرعی سزاؤں کے نفاذ کی
بات نہیں ہونے دیں گے۔ ایسے لوگوں سے گزارش ہے کہ پھر وہ جرائم کے خلاف بھی
شور نہ مچائیں، احتجاج نہ کریں بلکہ یہ سب کچھ سہتے جائیں اور اس جمہوری
نظام کی آبیاری کریں جس میں پہلی بات تو یہ ہے کہ کوئی مجرم اثر رسوخ کی
وجہ سے گرفتار نہیں ہوتا اور اگر گرفتار ہو بھی جائے تو بھاری رشوت دے کر
ملزم پولیس کا تحفظ حاصل کر سکتا ہے جبکہ مظلوم پولیس کے عتاب کا نشانہ بن
جاتے ہیں۔ پھر ایسے میں یہ افسوس کا مقام نہیں بلکہ …………یہ خود کشی اور
اپنی تباہی کا وہ دلفریب انداز ہے جو ہم نے اپنے لیے خود منتخب کیا ہے۔ |