عیدالاضحیٰ کی آمد کے ساتھ ہی ملک بھر کے مختلف شہروں میں
کانگو وائرس کے مریضوں میں اضافہ دیکھنے میں آتا ہے- کانگو وائرس بیمار اور
لاغر جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہوتا ہے-
بیمار جانوروں کی کھال پر چپکے پسو کسی کو بھی کاٹ لیں تو اس میں کانگو
وائرس متحرک ہوجاتا ہے-
ماہرین طب کے مطابق جیسے ہی وائرس خون میں شامل ہوتا ہے متاثرہ شخص کو تیز
بخار ہونا شروع ہوجاتا ہے جس کو ہیمر جیک فیور بھی کہا جاتا ہے-
|
|
مریض کے ناک٬ مسوڑوں سمیت اندرونی اعضا سے خون رسنا شروع ہوجاتا ہے اور اس
کے پلیٹ لیٹس اس حد تک کم ہوجاتے ہیں کہ یہ جان لیوا ثابت ہوسکتا ہے-
یہ وائرس متاثرہ جانور کے خون کے ذریعے بھی پھیلتا ہے- قصاب یا کوئی شخص
متاثرہ جانور ذبح کرلے تو وہ اس کا باآسانی شکار بن سکتا ہے-
جانوروں کے بیوپاری یا قصاب کے جسم کے کسی زخمی حصے پر متاثرہ جانور کا خون
لگ جائے تو یہ وائرس زندگی کو دیمک کی طرح کھا جاتا ہے-
صفائی کے ناقص انتظامات کی وجہ سے جانوروں میں موجود خطرناک پسو اس بیماری
میں اضافے کا سبب بن رہے ہیں-
ماہرین طب کا کہنا ہے کہ اس وائرس سے بچنا ہے تو احتیاط ضروری ہے- جانور کو
ذبح کرتے ہوئے مخصوص لباس ہو٬ دستانوں کا استعمال کیا جائے جبکہ جانوروں کا
مکمل میڈیکل چیک اپ کرایا جانا چاہیے-
|
|
حالیہ دنوں میں اسلام آباد کے پمز اسپتال لائے گئے مریض بھی متاثرہ گائے کو
ذبح کرنے کے باعث کانگو وائرس کا شکار ہوئے- باپ اور تینوں بیٹے قصاب تھے
اور ان کا تعلق ایبٹ آباد سے تھا-
کانگو وائرس دُنیا کے جن علاقوں میں پایا گیا ہے ان میں افریقہ، ایشیا،
مشرقِ وسطیٰ اور مشرقی یورپ شامل ہیں۔
پاکستان میں کانگو وائرس
2002 ء کے اوائل کی بات ہے کہ آزاد کشمیر کے بعض علاقوں، راولپنڈی، اسلام
آباد اور کراچی کے مختلف علاقوں میں کانگو وائرس نے دہشت پھیلا دی۔ اُس وقت
اس وبائی مرض کے وجہ سے کم از کم 7 افراد ہلاک ہو گئے، جن میں ایک نوجوان
لیڈی ڈاکٹر اور 4 کمسن بچے بھی شامل تھے۔
کہا جاتا ہے کہ کانگو وائرس کی پہلی شکار آزاد کشمیر کے علاقے باغ کی سلمیٰ
بیگم تھی جو 6 فروری 2002 ءکو ایک مقامی کلینک پر معمولی بخار کی شکایت کے
ساتھ گئی، جب 9 فروری کو اس کے بخار میں کوئی خاطر خواہ کمی واقع نہیں ہوئی
تو 11 فروری کو اسے مین ڈریسنگ سینٹر لے جایا گیا جہاں پر اس کے جسم سے
شدید قسم کا اخراجِ خُون شروع ہو گیا، صُورتحال کی سنگینی کے پیش نظر
ڈاکٹروں نے اسے ہولی فیملی ہسپتال راولپنڈی بھجوا دیا، 12 فروری کو اسے
راولپنڈی بھیجا گیا جب کہ 13 فروری کو اس کی موت واقع ہو گئی۔
|
|
کانگو وائرس کی وجہ سے موت کا پاکستان میں یہ پہلا واقعہ تھا۔ ڈاکٹروں کے
مطابق یہ مریضہ کانگو وائرس کا شکار ہو کر زرد بخار میں مبتلا ہوئی جس کی
وجہ سے وہ جانبر نہ ہو سکی اور ایک ہفتے کے اندر اندر اس کی موت واقع ہو
گئی۔ بعد ازاں ہولی فیملی ہسپتال کی لیڈی ڈاکٹر فرزانہ جس نے سلمیٰ کا علاج
کیا تھا، وہ بھی دو ہفتے کے بعد 25 فروری کو موت کی آغوش میں چلی گئی۔ اس
کے بعد اس مرض کی دہشت نے پورے مُلک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور خاص کر
ڈاکٹرز اور نرسیں اس مرض کی دہشت کا زیادہ شکار ہوئے۔
کانگو وائرس کی علامات
کانگو وائرس عموماََ جسم میں داخل ہونے کے بعد 14 دن کے اندر اندر علامات
ظاہر کر دیتا ہے، اور عموماََ مریضوں میں جو علامات ظاہر ہوتی ہیں وہ درج
ذیل ہیں:
1۔ ابتدا میں معمولی بخار کی علامت ظاہر ہوتی ہے۔
2۔ عموماََ مریض پٹھوں میں درد کی شکایت کرتے ہیں۔
3۔ گردن میں درد اور کھنچاؤ کی علامات بھی ظاہر ہو سکتی ہیں۔
4۔ بخار کے ساتھ مریض کو شدید کمر درد کی شکایت ہوتی ہے۔
5۔ متلی، قے اور گلے کی سوزش بھی نمایاں علامات ہیں۔
6۔ متلی قے کے بعد مریض کو پیٹ میں شدت کا درد اٹھتا ہے اور دست لگ جاتے
ہیں۔
7۔ مرض کے کچھ دن رہنے کے بعد مریض کا مُوڈ بدلنے لگتا ہے اور عموماََ مریض
غضب ناک ہو جاتے ہیں۔
8۔ پیٹ کا درد عموماََ دائیں طرف بالائی حصے میں ہوتا ہے۔
9۔ مریض کا جگر بڑھا ہوا ہوتا ہے۔
10۔ بیماری کے پانچویں دن مریض کا جگر، گردے اور پھیپھڑوں کا فعل متاثر
ہونے لگتا ہے۔
11۔ خُون کا جائزہ لینے سے پلیٹ لیٹس کی تعداد میں کمی آ جاتی ہے اور خُون
میں جمنے کی صلاحیت کم ہونے لگتی ہے۔
12۔مریض کی جِلد کے مساموں سے خُون رِسنے لگتا ہے خاص کر مسوڑھوں، ناک اور
اندرونی اعضاء سے خُون خارج ہونے لگتا ہے۔
اگر ایسی علامات کسی مریض میں دیکھیں تو فوری طور پر اسے مناسب طبی مرکز
میں داخل کروا دیں اور مریض کے نزدیک محفوظ طریقے سے جائیں ۔ |