قضا مقدر ہو تو احتیاط و تدبیر
بھی تاثیر کھو دیتی ہے‘ یہ درست ہے کہ موت اٹل حقیقت ہے اور دنیا میں آنے
والے ہر انسان کا مقدر ہے انسان دنیا میں چاہے جتنی بھی ترقی حاصل کرلے
دنیا بھر کی دولت سمیٹ لے اپنا دامن مادی دولت کی خوشیوں سے بھر لے لیکن
آخر کو اسے یہ دنیا چھوڑ کر چلے جانا ہے ہم انسان یہ جانتے بوجھتے کہ موت
کو تو آنا ہی آنا ہے ہم موت سے نظر چراتے زندگی گزار دیتے ہیں اور یہی نظر
اندازی انسان کو اپنے مقصد حقیقی سے بےنیاز کر دیتی ہے
انسان خود کو دنیا کے جھمیلوں میں اس حد تک الجھا کر رکھتا ہے کہ اسے اپنی
موت یا اپنی آخرت کے بارے میں سوچنے کا موقع بھی نہیں ملتا اور سفرآخرت سر
پر آن کھڑا بھی ہوتا ہے یہ دنیا جسے ہم حقیقت سمجھتے ہیں محض خواب و سراب
کی دنیا ہے جب دنیا چھوڑ جانے کا وقت آتا ہے تب اس خواب کی حققت سمجھ میں
آتی ہے کہ
'خواب تھا جو کچھ کے دیکھا جو سنا افسانہ تھا'
لیکن اس وقت تک بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے حقیقت تو وہ ہے جسے ہم خواب سمجھ
کر مسلسل نظر انداز کرتے چلے جاتے ہیں ‘جیو اور جینے دو‘ کا مقولہ درست
لیکن جینے کے ساتھ ساتھ مرنے کو بھی یاد رکھا جائے تو زندگی بھی سدھر جائے
اور عاقبت بھی سنور جائے انسان کو حقیقت پسند ہونا چاہیئے اور یہی حقیقت
پسندی ہے کہ انسان اپنے حصّے کی بھرپور زندگی بھی جی لے اور اپنی موت کے
بعد کے سفر کا سامان بھی کر لے کہ انسان کی اصلی اور ابدی زندگی تو موت کے
بعد ہی شروع ہوتی ہے
'موت اک ماندگی کا وقفہ ہے
یعنی آگے چلیں گے دم لے کے'
ہم انسان دنیا کی ہر آسائش حاصل کرنا چاہتے ہیں اور دنیاوی ساز و سامان کو
جمع کرنے کی تگ و دو میں ہر جائز و ناجائز حربہ استعمال کرتے ہیں اپنی
زندگی کا بہت سا قیمتی وقت اسی تگ و دو میں ضائع کردیتے ہیں انسان کے لئے
مادی ضروریات کا پورا کرنا بہت ضروری ہے لیکن اپنی بے جا خواہشات کو بلا
وجہ اپنی ضروریات سمجھنا سراسر غلط ہے انسان جس قدر لالچ اور حرص کرتا ہے
اسی قدر زندگی گراں ہوتی چلی جاتی ہے یہ بات بعید از قیاس ہے کہ جب انسان
جانتا ہے کہ یہ زندگی چند روزہ اور دنیا میں انسان کا قیام انتہائی مختصر
ہے تو پھر وہ کیوں ناحق اپنی جان ہلکان کرتا ہے اپنی جوانی، اپنا وقت، اپنی
توانائیاں اور آخر کار اپنی زندگی کو کیوں اس عارضی قیام گاہ کے پیچھے دن
بدن برباد کرتا چلا جاتا ہے
سامان حیات اسی قدر ہونا چاہیے کہ جو ہماری زندگی بہتر طور سے گزر سکے اور
سامان حیات کا بوجھ انسانی زندگی پر اس قدر گراں بھی نہ گزرے کہ جس کا بوجھ
ہمارے ناتواں کاندھے اٹھا ہی نہ سکیں جس قدر سامان جمع کریں گے اسی
قدر اسے چھوڑ کر جاتے ہوئے دکھ ہوگا کہ جب انسان اپنی آخری آرام گاہ اور
اپنی مستقل قیام گاہ کی سمت روبہ سفر ہوتا ہے تو دنیا میں جمع شدہ مال اس
کے ساتھ نہیں جاتا بلکہ وہ سامان ساتھ جاتا ہے کہ جو اس نے مرنے کے بعد کی
سہولت کے لئے اکٹھا کیا ہوتا ہے اپنا اعمال نامہ ساتھ لے جاتا ہے
کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم دنیاوی مال و متاع جمع کرنے میں اس قدر غرق ہوجائیں
کہ ہمیں اپنے ابدی ٹھکانے کے آرام و آسائش کا سامان جمع کرنے کا موقع ہی نہ
ملے اور ہمیں بےچارگی، لاچاری اور مجبوری کے عالم میں کف افسوس ملتے بیش
قیمت وبیش بہا دنیاوی سامان کی موجودگی میں بھی خالی ہاتھ اس جہان سے
سدھارنا پڑے جہاں سب کو ایک نہ ایک دن لازمی جانا ہے
بہتر یہی ہے کہ ایسی تدبیر اختیار کی جائے جس سے دنیا بھی سدھر جائے اور
آخرت بھی سنور جائے اور اس کا یہی ایک حل ہے کہ انسان خواب و خیال کی دنیا
میں رہتے ہوئے بھی ہر معاملے میں حقیقت پسندی سے کام لے اور اپنے حسن تدبیر
سے خود کو دنیا میں کامیاب اور آخرت میں اپنے رب کے حضور سرخرو انسان کا
درجہ حاصل کر سکے اور یہ اسی صورت ممکن ہے کہ انسان اپنی زندگی کو اپنے
خالق کی مرضی کے تابع رکھتے ہوئے اپنے تمام دینی و دنیاوی معاملات سرانجام
دیتا رہے کوئی وجہ نہیں کہ انسان کو دنیا سے جاتے وقت حسرت و یاس کے عالم
میں خالی ہاتھ جانا پڑے
ہم پر اللہ کی خاص عنایت اور خاص کرم ہے کہ اس نے ہمیں اپنے پیارے نبی کی
سنت اور اپنے پاک کلام کی صورت میں نور ہدایت بخشا ہے تو پھر کیوں نہ ہم
اپنے تمام دینی و دنیاوی معاملات کو اسوہء حسنہ اور کلام پاک کی تعلیمات کی
روشنی میں بخوبی انجام دے کر دنیا و آخرت دونوں جہانوں کی سعادتیں سمیٹ
لینے کی تدبیر کریں اور ' مقدر کے سکندر' بن جائیں کہتے ہیں کہ ہر انسان
دنیا میں روتے ہوئے آتا ہے اور تقدیر کے ہاتھوں انسان کو بارہا رونا بھی
پڑتا ہے لیکن جو انسان حقیقت پسندی سے کام لیتے ہوئے اپنی زندگی کو قرآن و
سنّت کے مطابق بسر کرتا ہے اسے دنیا سے وقت رخصت رونا نہیں پڑتا بلکہ وہ
دنیا سے جاتے ہوئے ہنشا ہوا جاتا ہے اور وہی 'مقدر کا سکندر' کہلاتا ہے |