معاشرے کی تباہی میں موبائل فون کا کردار

بیسویں صدی بلا شبہ سائنس اور ٹیکنالوجی کی صدی تھی، اس صدی نے نوع انسانی کو بے شمار اور بے مثال ایجادات سے نواز ا، جبکہ اکیسویں صدی نے ان ایجادات کو ترقی کی معراج پر پہنچا دیا ہے اور آج یہ عالم ہے کہ بیسویں صدی کی ان ایجاتات کمپیوٹر، ای میل، فیکس، انٹرنیٹ اور موبائل فون سے ہر خاص و عام استعفادہ کررہا ہے، خصوصاً موبائل فون کے استعمال نے جہاں فاصلوں کو انتہائی حد تک سمیٹ دیا ہے وہیں موبائل کمپنیوں کی طرف سے روز افزوں نئے نئے برانڈز اور نئے نئے پیکیجز نے نئی نسل کو موبائل فوبیا کا شکار کررکھا ہے، سستے ترین کال پیکیجز اور موبائل انٹرنیٹ کی بدولت نوجوان نسل جسے کسی بھی قو کا سرمایہ قرار دیا جاتا ہے وہ اس بری طرح اخلاقی پستی اور بے راہ روی کا شکار ہورہی ہے جس کے انجام کا تصور ذہن میں آتے ہی کلیجہ منہ کو آنے لگتا ہے۔ ویسے تو انسان ہے ہی خطاء کا پتلا جو عمر کے کسی بھی حصے میں بہک سکتا ہے مگر پندرہ سے پچیس سال عمر تو انتہائی بے وقوفی کی عمر ہوتی ہے، عمر کے اس حصے میں بہک جانا معمولی کام ہے اور موبائل فون کا سب سے زیادہ اثر اسی طبقے پر ہورہا ہے، ہر لڑکے اور لڑکی کے ہاتھ میں موبائل فون سستے ترین کال پیکیجز اور اُبھرتی ہوئی جوانی کا خماراور پھر کریانہ سٹورز، شاہراہوں پر فروخت ہونے والی سموں کی بھرمار ایک ہندسے کے بھی فرق سے ملنے والی رانگ کال اور مردانی و نسوانی آوازوں کے تصادم سے چلنے والے معاملات اس حد تک پہنچ رہے ہیں کہ گھروں کے گھر زندہ درگور ہورہے ہیں، اس کیساتھ ساتھ موبائل انٹرنیٹ کا استعمال بھی جنسی جرائم کا بہت بڑا موجب ہے کیونکہ ناپختہ ذہنوں کے مالک نو عمر لڑکے جب انٹرنیٹ کی مدد سے موبائل نیٹ پر فحش اور غلط قسم کی چیزیں دیکھتے ہیں تو وہ اپنے آپ پر قابو نہیں رکھ پاتے اور جنسی تسکین کے لیے کسی بھی حد سے گزر جاتے ہیں، معاشرے میں آئے روز ہونے والے جنسی جرائم کی ایک بہت بڑی وجہ موبائل انٹرنیٹ کا بے تحاشا پرچار اور استعال ہے، بلاشبہ موبائل اور انٹر نیٹ جدید دور کی ایک بہت بڑی ایجاد ہے جس نے نسل انسانی بے شمار ثمرات سے مستفید کیا ہے مگر ڈپریشن اور مسائل میں گھرے پاکستانی معاشرے میں یہ تباہی و بربادی کا موجب بن کر منظر عام پر آتی ہے، اگر حکومت جرائم کی شرح میں کمی اور کمسن بچیوں اور خواتین کی عصمت کو مزید پامالی سے بچانا چاہتی ہے تو اسے اس پہلو کو بھی مدنظر رکھتے ہوئے اقدامات کرنے چائیں۔

Mushtaq Ahmed Sh
About the Author: Mushtaq Ahmed Sh Read More Articles by Mushtaq Ahmed Sh: 5 Articles with 3599 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.