سرکاری ملازمت ۔۔۔PIA

پاکستان ائیر لائن کا آغاز 1946ء میں "اورئینٹ ائیر ویز"کے نام سے ہوا بعد ازاں پاکستان کے معرضِ وجودمیں آتے ہی اس کمپنی نے نئے نویلے ملک میں اپنا کام شروع کردیا، چند خساروں کے بعد اس کا بوجھ حکومت کے کندھے پر ڈالنے کے لئے اسے 1955ء میں اسے ضم کر کے" پاکستان ائیر لائن "کا نام دیا گیا اور اس کے چند نئے روٹزبھی متعارف ہوئے جن میں "کراچی سے ڈھاکہ "کافی معروف روٹتھا۔60ء کی دہائی میں اس کمپنی نے ائر مارشل نور خان کی قیادت میں ترقی کی طرف رخ کیا اورپھر 70ء کی دہائی کے آغاز میں مشرقی اور مغربی پاکستان کی علیحدگی سے پیدا ہونے والی کشیدگی میں PIA کے کچھ تیارے بھارتی جنگی طیاروں نے مار گرائے۔ 80ء کی دہائی میں پہلی خاتون پائلٹ بننے کاتاج ملیحہ سمیع کے سر پہ سجا اور اسی دوران "پاکستان ائیر لائن" نےEMIRATEکی ابتدا ء کے لئے انہیں دو جہازوں کے ساتھ ساتھ تکنیکی اور انتظامی تربیت بھی فراہم کی،کسی کے گمان میں بھی نہ تھا کہ تربیت حاصل کرنے والے استادوں سے اونچی اوڑان پکڑیں گے۔90ء کی دہائی میں کافی جہاز در آمد ہوئے اور "پاکستان ائیر لائن" اٹک اٹک کر گہرے سانس لیتی رہی، اور کچھ ممالک میں نئی ائیر لائنز کی معاونت کا کام بھی جاری رہا۔بعد میں آنے والی دہائیوں میں اس کمپنی کی تنزلی میں تسلسل رہااور بلندیوں میں اڑنے والے جہاز اس کمپنی کوآسمان کی بلندی کی طرف لے جانے میں نا کام رہے اور منافع میں مسلسل پستی آتی گئی ۔

آج قومی ایئر لائن کے پائلٹ کے افسوس ناک واقعے نے ملک کی نیک نامی کے گرتے سنبھلتے عَلم کو ایک شرمناک جھٹکا دیا۔کچھ دن پہلے ایک دوست سے مل بیٹھنے کا اہتمام ہوا، موصوف کے والد بھی پی آئی اے میں تکنیکی شعبہ میں ملازمت اختیار کئے ہوئے ہیں ،باتوں باتوں میں ان کے والد کے ایک ساتھی کا ذکر بھی ہوا جن کا نام تو میرے حافظے سے خارج ہوچکا البتہ موصوف کے بارے ہونے والی کچھ چیدہ چیدہ باتیں ابھی بھی میرے حافظے کا حصہ ہیں۔موصوف ( میرے ساتھی کے والد کے دوست) اپنی حرکتوں کے باعث ادارے میں اپنا کافی چرچہ جمائے ہوئے ہیں۔یہ سرکاری ملازم ہیں ،جس کام کے کی یہ تنخواہ لیتے ہیں اس کام میں کوتاہی آنے کا اندیشہ غالب رہتا ہے البتہ یہ ادارے اور اپنے وسیع تر مفاد کے لیے ایک اور کام بھی کرتے ہیں، جس میں کاہلی کی گنجائش نہیں آنے دیتے وہ کام ہے"صفائی " موصوف ٹشو پیپر سے لی کر صابن تک سب صاف کردیتے ہیں ۔ اور ایسی عمدگی سے یہ صفائی کرتے ہیں کہ ان کی صاف شدہ اشیاء کا سراغ لگاناجیسے سیف الملوک کی گہرائی ماپنے کے مترادف ہے ۔خواہ سرکاری خزانے سے خریدی جانے والی کوئی بھی چیزہو یا اِن کے اپنے پیسوں سے خریدی گئی کوئی چیز یہ دونوں میں فرق نہیں گردانتے، دونوں چیزوں کے خود کو یہ اکیلے ہی مالک سمجھتے ہیں۔ البتہ ان کے ساتھ کام کرنے والے ساتھی اور میرے دوست کے والد کبھی کبھی کافی تنگ آجاتے ہیں، اور سمجھانے کی کوشش بھی کرتے ہیں مگر مجال ہے ان کے کان پر کبھی جوں بھی رینگی ہو، ظاہرہے بیل کے سامنے بین بجا کر مایوسی کے علاوہ اور کیا ملتاہے

ہمارے ملک میں غالباََ ہرنوجوان اس خواہش کا اسیر ہے کہ اسے کسی اچھی سرکاری کمپنی جیسا کے,RAILWAY,WAPDA,POLICE PIAوغیرہ میں ملازمت مل جائے اور وہ مغل بادشاہوں کی طرح ہاتھی پر بیٹھ کر ٹھنڈا ہُقہ پیتا جائے اور اِس ٹھنڈے کام کا معاوضہ اسے ATM سے نکلنے والے گرم نوٹوں کی صورت میں ملتا رہے۔سرکاری نوکری کے مداح اور خواہشمند حضرات کا تعلق اکثر و بیشتر جدی پشتی کاہلوں کے قبیلے سے ہوتا ہے۔ جن کا پسندیدہ مشغلہ تیز پتی والی چائے پی کر سونا ہوتا ہے۔ اگرچہ تیز پتی والی چائے ڈرائیور حضرات اپنی آنکھیں کھلی رکھنے کے لئے پیتے ہیں ، مگر اس خطے میں ایک ایسی مخلوق بھی ہے جسے ایسی چائے پی کر بھی نیند آجاتی ہے اس مخلوق کو عرفِ عام "سرکاری ملازم" کہا جاتا ہے۔ سرکار کی نوکری سے ملنے والے وظیفہ جات،منصبات اور مراعات کا باریک بینی سے مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کی اصل تنخواہ سے زیادہ تو ان کے ALLOWNCE اور دیگر سہولیات ہوتی ہیں ، خلاصہ یہ کے دنیا میں جنت کے مزے لوٹنے کا واحد طریقہ کار مجھے تو سرکاری ملازمت نظر آتا ہے۔کچھ فرقتھا تو شاید شرابِ طہور کا جس کا وعدہ رب نے بہشت کے باسیوں کے لئے کر رکھا ہے، اب نہ جانے کتنا پختہ یقین تھا ہمارے اِس پائلٹ کو کہ سرکاری ملازم کا جنت میں داخلہ قطعاََ ممنوع ہے،کہ سوچا دنیا میں شراب نوش کئے لیتے ہیں آخرچائے نے بھی تو مست ہی کرنا ہے آج شراب کو بھی موقعہ دے دیتے ہیں۔

خیر۔۔میری دعا ہے میرے ملک کی ہر نجی یا سرکاری کمپنی میں کام کرنے والا ہر فرد اسے اپنا گھر سمجھے اور اس اپنے خاندان کی خدمت کے ساتھ ساتھ اس ملک کی خدمت بھی کرے اور اس مٹی کی قیمت کو سمجھے ۔ آمین
Zubair Khan
About the Author: Zubair Khan Read More Articles by Zubair Khan: 4 Articles with 2779 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.