گوکہ اب علاحدہ ریاست تلنگانہ کے قیام میں بظاہر کوئی
رکاوٹ نہیں ہے تاہم سرمایہ داروں کی حامی منموہن سنگھ حکومت سے یہ بعید از
امکان بھی نہیں ہے کہ آندھرا کے بڑے سرمایہ داروں کی خاطر تلنگانہ کی
علاحدگی کا فیصلہ واپس لے لیا جائے یہاں ریاست کی ’’تقسیم‘‘ کا لفظ ہم نے
یوں استعمال نہیں کیا ہے کہ ’’تقسیم‘‘کی اصطلاح از خود غلط و گمراہ کن جو
خطہ یا علاقہ شروع سے ایک ہوا اس کو علاحدہ حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے
جیسے بہار کو تقسیم کرنے سے جھار کھنڈ وجود میں آیا جبکہ 1953 عمر میں قائم
ہونے والی ریاست آندھرا کو علاقہ تلنگانہ سے ملاکر آندھراپردیش کا وجود عمل
میں آیا تھا۔ اس لئے تلنگانہ کی علاحدگی کو تقسیم کہنا غلط ہے۔ اس طرح
علاحدہ تلنگانہ کا جواز مضبوط ہوتا ہے کیونکہ یہ کسی ریاست کی تقسیم کا
نہیں بلکہ ایک علاقہ کی علاحدگی کا سوال ہے اس لئے تلنگانہ کی علاحدگی پر
ساحلی اضلاع (آندھرا) اور رائل سیما کی مرضی کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ اگر
لنگانہ قائم ہوتا ہے تو یہاں مسلمانوں کے مستقبل کا سوال بھی اہم ہے۔
تاریخی اعتبار سے بھی تلنگانہ اپنے صدر مقام حیدرآباد کے ساتھ ہمیشہ علاحدہ
حیثیت کا حامل رہا ہے ہاں یہ اور بات ہے کہ دوسرے علاقے مختلف اوقات میں
تلنگانہ کے ساتھ شامل رہے ہیں۔ ’’نظام‘‘ کہلانے والے حکمرانوں کی آصفجاہی
مملکت آزادی کے وقت قائم تھی تلنگانہ اس کا اہم اور کلیدی حصہ تھا۔ مرہٹی
بولنے والے (5) اضلاع کنڑی بولنے والے (3) اضلاع کے ساتھ تلنگانہ کے (9)
اضلاع پر ریاست حیدرآباد قائم تھی۔ آزادی سے قبل حیدرآباد مسلمانوں کی
سیاسی قوت، اسلامی تہذیب اور اردو کا سب سے اہم مرکز سقوط حیدرآباد کے بعد
آصفجاہی سلطنت کا تو خاتمہ ہوگیا لیکن بھارت کا حصہ ہونے کے باوجود ریاست
کی تہذیب و تمدن پر اسلامی تہذیب کی چھاپ، ریاست کی (22یا 23) فیصد مسلم
آبادی، سرکاری ملازمتوں میں (61) فیصد باوجود مرحوم حضور نظام عثمان علی
خاں کی حکومت کے خاتمے کے بعد بھی کئی اعلیٰ وکلیدی عہدوں پر مسلمان
براجمان تھے۔ حیدرآباد اپنی ’’شیروانی بریانی تہذیب‘‘ کی وجہ سے ’’مہا
سبھائی‘‘ (آج اسے ’’بھاجپائی یا ہندوتوا‘‘ ذہنیت کہا جاتا ہے۔ اس دور میں
ہندومہاسبھا مثل سنگھ پریوار تھی)ذہنیت کے کانگریس قائدین کے لئے حیدرآباد
کی ریاست ناقابل برداشت تھی۔ 1953ء میں جب پوٹی سری راملو کی مرن برت کی
وجہ سے موت واقع ہوئی تو تب کی ریاست مدراس (موجودہ ٹاملناڈو) کی تلگو
بولنے والوں کے علاقوں پر مشتمل ریاست ’’آندھرا‘‘ کا قیام عمل میں آیا۔ اس
کے بعد ریاستوں کی لسانی بنیادوں پر تنظیم جدید کے لئے ’’فضل علی کمیشن‘‘
قائم کیا گیا۔ اس کمیشن کی سفارشات میں (یہ بھی شامل تھا کہ نہ صرف علاحدہ
تلنگانہ کے قیام بلکہ ریاست حیدرآباد کو سہ لسانی اور ممبئی (موجودہ
مہاراشٹرا) کو دو لسانی ریاستوں کی حیثیت سے برقرار رکھا جائے۔ بمبئی و
گجرات کو ملاکر دو لسانی ریاست بنائی بھی گئی تھی (بعد میں گجرات کو ممبئی
سے الگ کردیا گیا) حیدرآباد کی ریاست کی برقراری تو دور کی بات تھی تلنگانہ
کو علاحدہ ریاست کی حیثیت سے بھی برقرار رکھنے کی مخالفت کی گئی ۔ اس کی
اہم وجہ یہ تھی تلنگانہ کا شہر حیدرآبادی مسلمانوں کا عظیم مرکز تھا۔ اضلاع
میں مسلمانوں ، اردو اور اسلامی تہذیب کا خاصہ زور تھا۔ تلنگانہ کے عوام کی
مرضی کے خلاف علاقہ تلنگانہ کو مدراس سے الگ کرکے بنائی گئی ریاست آندھرا
کے ساتھ ملا کر آندھراپردیش کا قیام عمل میں آیا۔ تلنگانہ کے نہ صرف
کانگریسی بلکہ کمیونسٹ (راشٹرا کی) قائدین کے تعصب، مسلم دشمنی ’’شیروانی
بریانی تہذیب‘‘ کو ختم کرنے کی خواہش کے علاوہ تلگو بولنے والوں کی وسیع
اور متحدہ ریاست کے قیام کا جذبہ بھی کام کررہا تھا اور شہر حیدرآباد اور
تلنگانہ کے وسائل کو لوٹنے کے لئے آندھرا کے سرمایہ داروں کی دولت یا رشوت
نے بھی بڑا کام دکھایا تھا۔ یکم نومبر 1956ء کو آندھراپردیش کا قیام عمل
میں آیا۔ علاقہ تلنگانہ کے عوام کی تسلی کے لئے صرف اتنا تھا کہ دس پندرہ
سال بعد ان کے پاس علاحدہ ہونے کا اختیار بہر حال تھا۔ اور دل کو بہلانے کے
لئے شریفانہ معاہدہ کے تیقنات تھے لیکن یہ سب محض فریب بلکہ سراب تھا۔
آندھرا پردیش کے قیام کے بعد ہی آندھرائی علاقہ کے حاکموں اور سرمایہ داروں
نے وہ لوٹ مار مچائی کہ اس کی تفصیل میں جانا غیر ضروری ہے۔ سرکاری
ملازمتوں، عہدوں پر ترقی صرف آندھرا والوں کا حق قرار پایا ۔ صنعت و تجارت
کی مراعات سے تلنگانہ والے دور رکھے گئے۔ شہر حیدرآباد، حیدرآباد کے اطراف
و اکناف کی اراضیات پر غاصبانہ قبضے ہوئے یا ان کو کوڑیوں کے مول خرید لیا
گیا۔ زندگی کے ہر شعبہ میں تلنگانہ والوں کو عمداً پسماندہ بنادیا گیا۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ آندھراپردیش میں تلنگانہ کے مسلمان سب سے زیادہ نقصان
میں رہے۔ اگر آندھرائی حکمران ظلم و استحصال سے کام نہ لیتے تو اور
مسلمانوں سے خاص طور پر ایسا سلوک نہ کیا جاتا جن سے ان کی ملی شناخت،
صلاحیت، مجموعی ترقی پر اثر پڑا تو تلنگانہ کا مسلمان بری طرح پس ماندگی کا
شکار نہ ہوتا۔ ہوا یہ ہے کہ جو سلوک تلنگانہ کے عوام کے ساتھ ہوا اس سے بہت
زیادہ خراب تلنگانہ کے مسلمانوں سے ہوا ۔ 1956ء میں سرکاری ملازمتوں میں
مسلمانوں کا فیصد 42 سے زیادہ تھا۔ تلنگانہ کے بہت سارے مسلمان مہاراشٹرا
اور کرناٹک منتقل ہوگئے۔ مسلم آبادی کا فیصد تلنگانہ میں گھٹ گیا۔ سرکاری
ملازمتوں میں فیصد صرف (2تا3) رہ گیا۔ اردو زبان والے تلگو کے فروغ کے
حوالے سے حاشیے پر لگادئے گئے۔ یوں تو اردو کا خاتمہ جامعہ عثمانیہ سے سقوط
حیدرآباد (1948) کے بعد ہی شروع ہوگیا تھا لیکن آندھراپردیش میں جامعہ
عثمانیہ سے اردو کا خاتمہ حتمی طور پر ہوگیا (جس جامعہ اور اردو کو مولانا
آزاد نے بہ حیثیت وزیرتعلیم حکومت ہند بچانے کی کوشش نہ کی اس کو بھلا اور
کون بچاتا؟) سرکاری دفاتر اور عدالتوں میں بھی 1956ء تک اردو کا خاصہ چلن
تھا لیکن آندھرائی حکمرانوں نے سب ختم کردیا۔ مسلم اوقات کی قیمتی اراضیات
پر حکومت نے لوگوں کو غاصبانہ قبضے دلادئیے۔ خانگی اراضیات بھی سرکاری
دھاندلیوں سے محفوظ نہ رہیں۔ آج ان اراضیات کی مالبیت کروڑوں میں ہے۔
’’لینڈ سیلنگ‘‘ کے نام پر مسلمانوں کو خاص طور پر نشانہ بنایا گیا۔ نہ صرف
حیدرآباد بلکہ تلنگانہ کے دوسرے شہروں میں اردو، اردو یا مسلم تہذیب کو
منصوبہ بند طریقوں سے ختم کیا گیا۔ مجھے ان مسلمان قائدین پر حیرت ہوتی ہے
جو یہ جانتے ہوئے بھی متحدہ آندھرا پردیش کی تائید کرتے ہیں کہ آندھراپردیش
میں مسلمانوں کے ساتھ سب سے زیادہ نا انصافی اور حق تلفی ہوئی ۔ تعلیم،
تجارت، روزگار معاشی و سیاسی او ر سماجی میدانوں میں پسماندگی کا شکار
بنایا گیا یوں اردو اضلاع تلنگانہ اور دیگر اضلاع میں دوسری سرکاری زبان ہے
لیکن اس کا کوئی فائدہ اردو کو نہیں ہوا۔ ملازمتوں اور تعلیمی اداروں میں 4
فیصد ریزرویشن کا قانونی موقف تا حال اور عدالت عظمیٰ (سپریم کورٹ) کے
فیصلے پر منحصر ہے۔ تلنگانہ کا مسلمان متحدہ آندھراپردیش کو آزماچکا ہے اور
ہر لحاظ سے مایوس ہوا۔
آندھرا کے علاقوں میں تلنگانہ کی مخالفت کا کوئی جواز نہیں ہے۔ علاحدگی کی
تائید اور مخالفت کا حق صرف تلنگانہ کے عوام کو ہے۔ تلنگانہ کے عوام کا
علاحدگی کے مطالبہ کی آندھرا والوں کی مخالفت کا مطلب یہ ہے کہ وہ ظلم و
جبر دھاندلیوں اور لوٹ مار کے مواقع کھونا نہیں چاہتے ہیں۔ آندھرا کے
سرمایہ داروں کا دباؤ 1956ء سے پہلے سے کام کررہا ہے۔ 1969ء کی تلنگانہ
تحریک کو آندھرائی سرمایہ داروں کی خاطر منصوبہ بندسازش کے ذریعہ
اندراگاندھی نے ناکام بنایا تھا جبکہ ایک ایسی تحریک (جس کو آزادی کے بعد
ملک کی سب سے طاقتورتحریک مانا جاتا ہے) اندراگاندھی نے چناریڈی کو تحریک
میں داخل کیا جنہوں نے قیادت ہاتھ میں لے کر تلنگانہ عوام سے غداری کرکے
تحریک کو سبوتاج کیا اور بدلے میں اترپردیش کی گورنری حاصل کی کیونکہ
(الیکشن کمیشن نے ان کو انتخابی دھاندلیوں کی وجہ سے نااہل قرار دے کر
سیاسی بیروزگار بنادیا تھا)
علاحدہ تلنگانہ تحریک کا المیہ یہی رہا ہے کہ اس کی قیادت کمزور اور مفاد
پرست رہی ہے۔ بہر حال مجوزہ ریاست کی آبادی 5.3 کروڑ ہے۔ مسلمانوں کی آبادی
(تقریباً13) فیصد ہوگی۔ لوک سبھا کے (17) اور اسمبلی کے (119) ارکان ہوں
گے۔ شہر حیدرآباد کی مسلم آبادی 41 فیصد سے زیادہ ہے۔ سارے تلنگانہ میں
اردو کا خاصہ چلن ہے۔ حیدرآباد کو اگر تلنگانہ سے الگ کردیا گیا تو تلنگانہ
بغیر روح کے جسم کی طرح رہ جائے گا۔ حیدرآباد کو مرکزی زیر انتظام علاقہ
بنانا تلنگانہ سے نا انصافی ہی نہیں بلکہ صریح دشمنی ہے۔ تلنگانہ کو دونوں
ریاستوں کا مشترکہ صدر مقام مستقلاً بنانا بھی تلنگانہ کے مفاد میں نہیں
ہے۔ گزشتہ چند سال کے دوران تلنگانہ تحریک کے خلاف انتظامیہ نے جس سختی کا
مظاہرہ کیا تھا وہ سختی سیما آندھرا کے احتجاجیوں کے خلاف مفقود ہے۔ وزیر
اعلیٰ کرن کمارریڈی اور دیگر وزرأ کی سیماآندھرا احتجاجیوں کو درپردہ حمایت
حاصل ہے تو دوسری طرف اس تحریک کے روحِ رواں آندھرائی سرمایہ دارہیں جو
احتجاج کو منظم کرنے کے لئے پیسہ پانی کی طرح بہارہے ہیں اور تلگوذرائع
ابلاغ احتجاج کو شدید بتارہے ہیں اور انتہائی مبالغے سے کام لے رہے ہیں۔
مفاد پرستی پر مبنی یہ تحریک درحقیقت عوامی نہیں ہے۔
تلنگانہ میں مسلمانوں کا موقف یا مستقبل کیا ہوگا؟ یہ سوال اہم ہے لیکن
قابل غور بات یہ ہے کہ ملک بھر میں مسلمانوں کے مستقبل سے تلنگانہ کے عوام
کا مستقبل علاحدہ نہ ہوگا تاہم بعض وجوہات کے سبب یہ قدرے مختلف اسی طرح
ہوسکتا ہے جس طرح کے کیرالا کے مسلمانوں کا ہے ۔ کیونکہ چھوٹی ریاستوں میں
اگر مسلم آبادی قابل لحاظ ہوتو وہ ایک سیاسی قوت بن سکتے ہیں۔ تلنگانہ کی
119ارکان پر مشتمل ریاستی اسمبلی میں ریاست کی مسلم آبادی مختلف اندازوں
اور 2001ء کی مردم شماری کے مطابق 13 تا18 فیصد ہے کئی حلقوں (خاص طور پر
حیدرآباد میں) کئی حلقوں میں مسلمانوں کو اکثریت حاصل ہے تو 10 تا15 حلقوں
میں مسلم ووٹ کو فیصلہ کن حیثیت حاصل ہے اس طرح یہ طئے ہے کہ مسلمان اگر
سیاسی تدبر اور خاص طور پر اتحاد سے کام لے کر اپنے ووٹ تقسیم نہ ہونے دیں
تو 119 ارکان کی اسمبلی میں ان کو بادشاہ گر کا موقف حاصل ہوسکتا ہے اور
مجلس اتحادالمسلمین تلنگانہ میں وہی موقف حاصل کرسکتی ہے جو کیرالا میں
مسلم لیگ کو حاصل ہے۔ دوسری طرف مجلس اتحادالمسلمین علاحدہ تلنگانہ کی
مخالفت بھی کرتی رہی ہے۔ اس کا خیال ہے کہ علاحدہ تلنگانہ میں بی جے پی کا
غلبہ ہوگا۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ این ڈی اے دورِ حکومت میں سارے ملک میں بی
جے پی کا غلبہ تھا تو ہم نے کیا کرلیا تھا؟ ایک چھوٹی ریاست میں جہاں
مسلمانوں کو فیصلہ کن موقف حاصل ہے وہاں کسی کو اپنی مسلم دشمنی دکھانا
آسان نہ ہوگا نیز اصل بات تو یہ ہے کہ تلنگانہ کے کانگریسی قائدین
’’ہندوتوا‘‘ پر عمل کرسکتے ہیں۔ مسلمانوں سے تعصب برت سکتے ہیں۔ اس خدشہ کو
نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے ۔ تاہم اس تناظر میں یہ بات اہم ہے کہ اگر
مسلمان اپنی سیاسی قوت کو مجتمع اور متحد کرلیں تو کانگریس ہو یا کوئی اور
جماعت ہو اس کو مسلمانوں سے بناکر رکھنا ہوگا اور یہ موقف فی الحال مجلس یا
ایم آئی ہی حاصل کرسکتی ہے۔ بی جے پی سے زیادہ فائدہ ایم آئی ایم کو ہوسکتا
ہے۔ آندھرائی حکمرانوں نے بہر حال مسلمانوں سے ایسا کوئی اچھا سلوک بھی
نہیں کیا ہے کہ مسلمان متحدہ ریاست کا راگ الاپیں!
مسلمانوں کا ایک اورمسئلہ تلنگانہ میں انتہائی قیمتی اوقاتی جائیدادوں کا
تحفظ اور بازیابی ہے۔ آندھرا کے کانگریسی قائدین نے اپنے دورِ اقتدار میں
جن اوقای جائیدادوں کو ہڑپ کیا ہے کیا ان کی بازیابی آسان نہ ہوگی۔ شہر
حیدرآباد میں ہی نہیں بلکہ تلنگانہ کے اضلاع میں مسلم اوقاتی جائیدادوں سے
مسلمانوں کو محروم کردیا گیا ہے۔ ان دھاندلیوں کا ازالہ مسلمانوں کے لئے بے
حد اہم ہے۔ علاحدہ تلنگانہ میں کیا یہ ممکن ہوگا ؟ یہ سوال بہت اہم ہے
کیونکہ اوقافی جائیدادوں کی بازیابی آسان یوں نہیں ہے کہ ان جائیدادوں پر
آندھرائی ہی نہیں بلکہ باہر کے سرمایہ داروں نے کروڑوں روپیوں کی سرماہ
کاری کررکھی ہے۔ ان کی بازیابی کی کوشش کے لئے مسلم وقف بورڈ نے قانونی
چارہ جوئی کی تو خود حکومت آندھراپردیش سرمایہ داروں کے ساتھ فریق بنی ہوئی
ہے۔ فی الحال یہ مقدمہ عدالت عظمیٰ میں زیر دوران ہے۔
علاحدہ تلنگانہ میں متحدہ آندھراپردیش کے مقابلے میں اردو اور اردو تہذیب
کا موقف بلاشبہ بہتر رہے گا۔ آندھراکے لوگوں کی بہ نسبت تلنگانہ عوام کو
اردو سے دلچسپی اور رغبت ہے۔ علاحدہ تلنگانہ میں اردو کو فروغ حاصل ہوگا۔
دہشت گردی کے بہانے مسلمانوں سے ظالمانہ سلوک ملک بھر کی پولیس کا وتیرہ
رہا ہے۔ ٹی ڈی پی (جو این ڈی اے میں شامل تھی کے دور میں حیدرآباد کی پولیس
جو جانبدار او رمسلم دشمن تو کانگریسی دور میں ہی تھی) کو دہشت گردی میں
مسلمانوں کو ملوث کرنے ان کو ہراساں کرنے، انکاونٹر کے بہانے قتل کرنے بے
وجہ گرفتار کرنے جسمانی اور ذہنی اذیت دینے کی ترغیب اور تربیت دی گئی ان
کی ذہنیت خراب کی گئی۔ سوال یہ ہے کہ اس ذہنیت کو کس طرح بدلا جائے گا؟
مسلمانوں کے لئے فرقہ پرستوں سے نمٹنے سے زیادہ مشکل پولیس سے نمٹنا ہے۔
علاحدہ تلنگانہ میں اگر مسلمان اپنی سیاسی طاقت بڑھاکر کیرالا کی طرح
’’بادشاہ گر‘‘ کا موقف حاصل کرلیں تو ان کا مستقبل روشن اور محفوظ ہی نہیں
انشاء اﷲ تعالیٰ مستحکم ہوگا۔ |