لاہور میں کچھ افراد نے پانچ برس کی معصوم
سی پھول جیسی بیٹی کو درندگی کا نشانہ بنایا اور پھر مسلے ہوئے پھول کی طرح
پھینک کر چل دیے۔ جس کی سی سی ٹی وی فوٹیج منظر عام پر تو آئی مگر تاحال
کسی درندے کی کوئی گرفتاری عمل میں نہ آسکی۔ ادھر کشمیر میں پولیس نے کی
کارروائی کرتے ہوئے ایک مغوی بچی کو بازیاب کرالیا۔ بچی کا تعلق کراچی سے
تھا جسے اغوا کاروں نے اغوا کے بعد فروخت کیا تھا۔ اس قسم کے چند دیگر
واقعات جو روز روز اخبارات کی زینت بن رہے ہیں․․․․ ہمارے معاشرے پر سوالیہ
نشان بن چکے ہیں۔ ایک ایسا معاشرہ جس کے اچھے اور اعلیٰ ماضی کے ناصرف اپنے
بلکہ پرائے بھی معترف تھے۔ جس کی مثالیں رہتی دنیا میں دی جاتی رہیں گیں۔
جس معاشرے میں حوا کی بیٹی اکیلے حج کرکے آجاتی مگر اس کی طرف کوئی میلی
آنکھ سے بھی دیکھنے کو توہین سمجھتا تھا۔ جس معاشرے کے پروان چڑھنے والی
بیٹیوں کو عائشہ، فاطمہ، زہرا رضی اﷲ عنھن جیسے عظیم ناموں سے یاد کیا جاتا
ہے۔
مگر اسلام کے نام لیواؤں نے لفظ اسلام کی چھتری تلے اس حوا کی عظیم بیٹی پر
ظلم کے ایسے پہاڑ توڑ ڈالے جس کا تذکرہ کرنے سے قلم، زبان لرز اٹھتے ہیں۔
ایسے واقعات کی تاریخ رقم کر ڈالی جس کو لکھتے ہوئے دل دھل جاتا ہے۔ ایک
وقت تھا جب لڑکی کی پیدائش پر ماتم ہوتا تھا․․․․․․․․ لوگ اپنے بال نوچتے․․․․․․․
اور بالآخر اسے گڑھا کھود کر خود اپنے ہاتھوں سے گھڑے میں گاڑ دیتے تھے۔
مگر اس وقت کو تاریخ جہلا کے نام سے جانتی ہے۔ اسلام سے قبل لوگ اپنی بچیوں
کو زندہ درگور کردیتے تھے۔ جس کی سب بڑی وجہ غیرت ہوا کرتی تھی۔ کچھ لوگ
اپنے بچوں کو کھانے اور اخرجات کے باعث قتل کردیتے تھے۔ تاہم بچیوں کوپیدا
ہوتے ہی قتل کردینا مشرکین مکہ کا شیوا تھا۔
بچیوں کو زندہ درگور کرنے جیسے تمام واقعات جہالیت اولیٰ میں وقوع پذیر
ہوتے تھے۔ تاہم اسلام کی نشر وع و اشاعت کے بعد جہالت کے اندھیرے جھٹ گئے۔
مگر آج پھر جہالت ثانیہ سر اٹھا رہی ہے۔ مسلم بچیوں کو مختلف انداز میں
درگور کیا جارہا ہے۔ کسی کو زندہ تو کسی کو ماں کے پیٹ میں ہی قتل کردیا
جاتا ہے۔ مگر کچھ ایسی بدقسمت ہیں جن کی زندگی کو ایسے اجاڑہ جاتا ہے جو
جسم کی حد تک تو زندہ ہوتی ہیں مگر ان کی روح مردہ ہوتی ہے۔ ان کو زندگی
میں ہی درگور کردیا جاتا ہے۔ لاہور کی سنبھل بھی ان درندوں اور ماؤں بیٹیوں
کی عصمت اور ان کی عزت سے آری افراد کی درندگی کا شکار بنی۔ سنبھل کے ساتھ
ناروا سلوک کرنے والے ظالموں کی تصاویریں تو منظر عام پر آگئیں، ان کے خاکے
تو گورنمنٹ نے بنا کر شائع کردیے تاہم ان کی گرفتاری ایک الگ مرحلہ ہے۔
ہمارے معاشرے میں اس قسم کے واقعات بچیوں پر بہت برے اثرات مرتب کررہے ہیں۔
ان سے بچیوں کی تعلیم، مستقبل کی منصوبہ بندیوں پر نمایاں اثرات پڑیں
گے۔بچیوں اور خواتین کے ساتھ جو رویہ اور برتاؤ اہل مغرب میں پایا جاتا ہے
اس کو مشرق کی دوشیزہ کبھی برداشت نہیں کرپائے گی۔ مغرب میں خواتین
کاروباری اشتہار کی صورت اختیار کرچکی ہے۔ جہاں ہر بورڈ اور چوک چراہے پر
عورت کے مول لگتے ہیں۔ عورت بازار میں بکتی ہے تو کہیں کلبوں کی زینت بنتی
ہے۔ آوارہ اور بے ہنگم معاشرے میں عورت کی حیثیت ایک پالتو جانور سے بد تر
ہے۔ وہاں پر مائیں تو بنتی ہیں مگر ان کے قدموں کے تلے جنت کا تصور نہیں
ملتا، بہنیں تو ہوتی ہیں مگر ان غیرت مند بھائی کہیں نظر نہیں آتے۔ ازدواجی
زندگی تو ہے مگر خاوند کے بغیر، عورتیں راتیں تو بسر کرتی ہیں مگر مختلف
اشخاص کے ساتھ۔ ایسے معاشرے میں عورت کی عزت اور عصمت کی کیا صورتحال ہے
الامان ۔
مگر عورت کی عزت کا مسئلہ اب اہل مغرب کا نہیں بلکہ ہمارے پڑوسی ملک بھارت
کا بھی مشترکہ مسئلہ بن چکا ہے۔ بھارت میں گینگ ریپ جیسے واقعات نے وہاں کی
ناریوں کے رونگھٹے کھڑے کردیے ہیں۔ آئے روز نت نئے واقعات نے بھارتی سینا
کے لئے پریشانی کا نیا باب رقم کردیا ہے۔بھارتی معاشرے میں عورت کی عزت
پہلے بھی بہت ڈیٹ تھی مگر اب اس کے ساتھ اس کے اپنوں نے جو حشر کیا ہے وہ
ناقابل افسوس امر بن چکا ہے۔
مگر آج وطن عزیز میں رونما ہونے والا یہ دلدوز واقعہ جس نے معصوم سنبھل کی
زندگی کے لیے نہ ختم ہونے والا مسئلہ بنا دیا ہے وہیں ملک کی باقی بیٹیوں
کے لئے بھی پریشانی کا باعث بن رہا ہے۔ ہماری بیٹیاں جو کبھی یہ سوچ کر
اپنے گھروں سے بے دھڑک نکلتی تھیں کہ تمام مسلم اور پاکستانی ان کے بھائی
ہیں۔ تمام بھائیوں کی وہ ایک بہن ہے اور اپنی بہن کی چادر کا تحفظ اس کے
بھائی کی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔
ذرا سوچئے! آج کچھ ہم اپنی بہن، بیٹیوں اور خواتین کے ساتھ کررہے ہیں، کہیں
ایسا نہ ہو کہ آنے والے دنوں میں ہمارے لئے یہ مسئلہ بن جائے۔ باہر لگائی
ہوئی یہ آگ خدا نا خواستہ ہمارے اپنے گھروں میں محسوس ہو۔ والدین اور گھروں
کے سربراہوں کو اپنی ذمہ داری کا احساس کرنا ہوگا۔ انہیں مجرمانہ خاموشی
اور احساس ذمہ داری سے نظروں کو چرانے کی بجائے سوچنا ہوگا کہیں ایسے
واقعات میں ان کی تو کوئی غلطی نہیں ہے۔ والدین اپنی بچیوں کو غیر محفوظ
کیوں کررہے ہیں․․․․․․․․․؟ اس قسم کے واقعات کے پیچھے چند کمیاں اور
کوتاہائیاں برتی جارہی ہیں۔ جیسے اپنے بچوں کو اکیلا نہ چھوڑا جائے، ایسے
عناصر کو محلوں اور علاقوں میں ہرگز نہ آنے دیا جائے جو اس قسم کی غلیظ
حرکتیں کرتے ہیں۔ اگر کوئی کسی بھی شخص کو نازیبا حرکتیں کرتا ہوا دیکھے
اپنے بڑے کے مطلع کرے، محلوں میں بڑوں سے ایسے آوارہ گردوں کے بارے میں
شکایات درج کرائیں جائیں اور پھر ان کے والدین کو سختی سے سمجھایا جائے۔ آج
اگر ایسی پالیسیاں تشکیل نہ دی گئیں تو کل کلاں ہمیں کسی اور بھیانک حادثہ
کا شکار ہونا پڑ سکتا۔ اﷲ تمام بیٹیوں اور بہنوں کو اپنی حفظ و امان میں
رکھے۔ |