روشنیوں کے شہر کی حکایات پر روشنی

کچھ لوگ خصلتاََ کھانے کے شوقین واقع ہوتے ہیں ، میرا اور میرے چند احباب تعلق بھی انہی خاص لوگوں سیہے ۔ اس کھانے کے شوق کی تسکین پانے کے لئے سب سے پہلا قدم کھانے پینے کیے لئے کسی عمدہ جگہ کا انتخاب کرناہوتا ہے ۔جگہ کے انتخاب کے لئے زیادہ تگ و دو کی ضرورت نہیں ہوتی ، بس کسی ہٹے کٹے بڑی توند والے جوان کو پکڑو اور اُس کے پسندیدہ کھانیوں کی دوکان کا پتہ پوچھ لو، میرا تجربہ کہتا ہے ناکامی نہیں ہوگی۔ کراچی میں برنز روڈ کھانے پینے کے حوالے سے کافی معروف ہے، چناچہ؂ آج علی الصبح میرے ہمراہ میرے کچھ دوست FRESCO سے حلوہ پوری کا ناشتہ کرنے ہاکس روڈ سے برنز روڈ کی طرف نکل پڑے۔

ٖٖFRESCO پہنچے تو ایک دوست نے انکشاف کیا کہ اس دوکان کے وارث ہمارے صدرِ پاکستان ممنون حسین صاحب ہیں ۔حلوہ پوری منگوانے کے بعد یہ سن کر کافیتردد ہوا کے یہاں پوری الگ ملتی ہے اور حلوہ الگ۔ ہم ٹھہرے لاہوری ناشتے کے عادی جو ایک پوری کے ساتھ ایک تھال حلوہ بھی اڑا جاتے ہیں،سن کر مزید عجیب لگا کے حلوہ کے اخراجات الگ دینا ہوں گے اور پوری کا خرچہ الگ۔خیر ہم نے کھانا شروع کیا اور اختتام پر میں نے بہت معصومیت سے بہرے سیشکوہ کیا، "اے بھائی صاحب ، لاہور میں تو حلوہ، پوری کے ساتھ ہی ملتا ہے" ۔ اس بہرے کی صاف رنگ و صورت سے تاثر ہے کہ غالباََ وہ بہرہ لاہور کا ہیپیدائشی تھا ، یکا یک بول اٹھا ــ" صاحب ،لاہور کی کیا بات کرتے ہو، لاہور میں بھلا کبھی بلاخبر دوکانیں بند ہوتی ہیں؟ لاہور میں دوکانوں میں کبھی بھتہ خور آتے ہیں؟ لاہور میں روزانہ کبھی یوں سڑکوں پر آگ ہوتی ہے؟ بھائی جان ،کراچی اور لاہور کا کوئی مقابلہ نہیں ، یہاں ہر دوسرا آدمی بھتہ خور ہے یا تو چور۔یہاں لاہور مت ڈھونڈو۔"

دیسی حلوے اور پوری کا ناشتہ کرنے کے بعدہم کراچی کینٹ ریلوے سٹیشن کی طرف چل دیے،جہاں ریزرویشن آفس سے ہمیں لاہور کے لئے پانچٹکٹ خریدنا تھیں، خوش قسمتی سے قراقرم کی ریزرویشن کی قطار آج کافی ننھی منھی سی تھی اور جلد ہی ہم ریزرویشن آفیسر کے آمنے سامنے ہوگئے ۔یہ آفیسر بہت مطمئن او رخوش لباس تھا اور بظاہر بڑی دلجمعی سے اپنا کام سر انجام دے رہا تھا۔ہم دو دوتین ستوں کو کھڑکی کے پاس دیکھ کر بولنے لگا کے یہاں رش نہ لگاؤ ، میں بوڑھا اور کند ذہن آدمی ہوں میرے سر میں درد ہونا شروع ہوجاتا ہے اور کبھی تو غلط ٹکٹ بھی بنا دیتا ہوں ، لہٰذا ایک ایک آدمی ہی کھڑکی میں رو نما ہو۔اس کی بات سن کر ایک دوست کے علاوہ باقی دوستوں نے سوچا ہماری ٹکٹخراب نہ بنا دے ،تو وہ کھڑکی سے تھوڑا دور کھڑے ہوگئے ،البتہ فاصلہ اتنا تھا کے اس آفیسر کی ہمارے دوست سے کی جانے والی گفتگو بآسانی ہماری سماعت سے ٹکرا رہی تھی، ہم نے کچھ یہ باتیں سنی۔" بہت اچھی جگہ میں نے آپکی سیٹ رکھی ہے ، میں آپکو الگ الگ Cabin میں بھی ڈال سکتا تھا ، مگرمیں نے آپ کا بہت خیال رکھا ہیــ اور ایک ہی جگہ پانچ اکٹھی سیٹیں دے دی ہیں ـ" اس آفیسر کی باتیں سن کرمیں بہت متاثر ہوا کہ ہمارے ملک میں اتنے خوش اخلاق آفیسر بھی موجود ہیں،اور سوچنے لگا،اگرچہ اس ملک کے حالات بہتکڑوے ہیں مگر ابھی بھی لوگوں کی زبان شیریں ہے ۔ اب جب ٹکٹ بن کر آیا تو دوست نے اصل ماجرا بتایا کے ہمیں دور بھگانے اور اکیلا اکیلا کھڑکی میں بلانے کیپسِ پردہ کیا اغراض و مقاصد تھے، در اصل وہ آفیسر 1520 روپے کی ٹکٹ 1540 روپے میں فروخت کر رہا تھا،اس گھٹیا فعل کا علم کم از کم لوگوں کو ہو اور کوئی شور نا مچائے اس ڈر سے وہ ایک ایک مسافر کو لوٹ رہا تھا،اور ہماری پانچ ٹکٹ کی بدولت اس آفیسر نے 100 روپے کی حرام کمائی اپنی جیب میں ڈال لی تھی۔اس بے ایمانی کو دیکھ کر میں کافی برہم ہوا اور دوستوں کو کہا کہ ہم اس کو حرام نہیں کھانے دیں گے، جس پر دوستوں نے کہا اس سے لڑنے اور یہاں ہنگامہ آرائی کرنے سے زیادہ بہتر ہے اس کے حق میں دعا کر دی جائے۔

کراچی کے بگڑتے ہوئے حالات اور مقامی ٹرانسپورٹ میں آئے دن ڈاکہ زنی کے پیشِ نظر عوام کی کثیر تعداد رکشہ پر سفرہی مناسب سمجھتی ہے،میں اپنے دوستوں کے ہمراہ صدر بازار میں کراچی میں ہی کسی رکشہ کا انتظار کر رہا تھا کہ ایک عورت رکشہ سے اتری ،کچھ کرایہ دیا اور چلتی بنی۔تھوڑی دیر بعد وہ رکشہ والا اپنے رکشہ سے اترا، اور بھاگتا ہوا اس بوڑھی عورت کو آوازیں دینے لگا، مجھے لگا شاید وہ بوڑھی عورت پیسے کم دے کر گئی ہے مگر تھوڑی دیربعد آرزو ہوئی کے جا کر دیکھوں آخر معاملہ کیا ہے ،قریب جا کر پتہ چلا کہ وہ بوڑھی عورت 20 روپے کا نوٹ دینے کی بجائے غلطی سے 5000 روپے دے کر چلی گئی،اس غلطی کی وجہ شاید اس بوڑھی عورت کی قلیل نظری تھی یا شاید ان دونوں نوٹوں کے رنگوں کی مماثلت ؂۔خیر مجھے اس رکشہ والے کی ایمان داری پر رشک آگیا اور مجھے یقین ہوگیاکہ اس ملکمیں کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جن کا ایمان سستا نہیں ، جن کی ہڈیوں میں حلال گودا ہے اور جن کا خون سفید نہیں ہوا ہے۔
اﷲ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں سورۃ بقرہ کی آیت ۱۷۲میں ارشاد فرماتا ہے۔
کلو من طیبت ما رزقنکم واشکرو ﷲ ان کنتم تعبدون
یعنی پاکیزہ چیزیں کھاؤ جو ہم نے تم کو عطا کی ہیں اور اﷲ کی نعمتوں کا شکر ادا کرو
حضرت علیؓ کا قول ہے کہ " ایمان کی قیمت جنت ہے اوراسے اس سے کم قیمت پر نہیں بیچنا چاہئے" ہمارے ہاں کچھ لوگ چند پیسوں کے عوض اپنا ایمان بیچ دیتے ہیں اور دنیا میں ذلت کے ساتھ ساتھ آخرت کی رسوائی کا سامان بھی اکٹھا کرلیتے ہیں ۔ رشوت خوری ، بھتہ خوری ، چوری ،ڈاکہ زنی ، شراب نوشی ، زنا غرض سب برائیاں در اصل ایمان کی کمزوریوں کا ہی نتیجہ ہیں ۔
خیر۔۔میری دعا ہے کہ اﷲ میرے سب ہم وطنو کو پختہ ایمان نصیب فرمائے ۔آمین
Zubair Khan
About the Author: Zubair Khan Read More Articles by Zubair Khan: 4 Articles with 2737 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.