عید قربان - تسلیم و رضا کی لازوال داستان

ماہِ ذُوالحجہ! سال بھرکے بعدجب آتاہے توجذبۂ ایثاروقربانی اپنے ہمراہ لاتا ہے۔سال کے اس آخری مہینے کامقدس چاند جوں ہی طلوع ہوتاہے،تسلیم و رضاکی لازوال داستان کی یاد بھی اپنے ہمراہ ساتھ لاتاہے۔اس ماہِ مقدس کی دس،گیارہ اوربارہ تاریخ کوعالمِ اسلام کے کروڑوں صاحب ِنصاب مسلمان اسوۂ ابراہیمی اوراسوۂ اسماعیلی کوتازہ اورزندہ کرنے کیلئے قربانی کرتے ہیں۔

عیدقربان!صاحبانِ ایمان کا ایک عظیم اورمقدس مذہبی تہوارہے،جوہرسال ماہِ ذوالحجہ کی دس،گیارہ اوربارہ تاریخ کوبڑی عقیدت ومحبت،ذوق وشوق خوشی ومسرت،شان وشوکت ،جوش وخروش اور جذبہ ایثاروقربانی کے ساتھ منایا جاتا ہے۔اﷲ تعالیٰ کی راہ میں اپناتن،من اوردھن قربان کرنے کے عہدکی تجدیدہوتی ہے اوریہی مسلمانوں کی عیدہوتی ہے۔حضرت ابراہیم علیہ السلام اوران کے عظیم فرزندارجمندحضرت اسماعیل علیہ السلام کامقدس ذکرقیامت تک فضا ؤں اورہوا ؤ ں میں گونجتارہے گا۔ قرآن وحدیث میں مرقوم رہے گااورآسمانوں کی رفعتوں، بلندیوں اور زمین کی وسعتوں اور گہرائیوں میں ہرسال تازہ اورزندہ ہوتارہے گا۔

قرآنِ مجیدمیں جابجاعظیم باپ اورعظیم بیٹے کاحسین وجمیل تذکرہ بکھرااورنکھرا پڑا ہے۔کہیں آتش ِنمرودکاٹھنڈاہونے کاامرہورہاہے،کہیں خواب کابیان ہے، کہیں اس کی تعبیرکاسامان ہے․․․کہیں صاحب زادے کی بشارت ہے، کہیں اس کی سعادت کابیان ہے۔کہیں تسلیم ورضاکی لازوال داستان ہے۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام!اﷲ تعالیٰ کے بڑے جلیل القدرپیغمبراوررسول ہیں، آپ کالقب ’’خلیل اﷲ‘‘ہے ․آپ نے پرچمِ توحیدکی سربلندی کیلئے خدائی کا دعویٰ رکھنے والے جھوٹے نمرودایسے طاغوت سے جہادکیا، اورآگ کے بھڑکتے ہوئے شعلوں میں بے خطرکود پڑے۔آپ کعبتہ اﷲ کے بانی اور ابوالانبیاء ہیں۔ اﷲ تعالیٰ کی شان کہ بہت عرصہ تک آپ کے گھرمیں کوئی فرزند نہیں تھااور آپ فرزندصالح کی تمنامیں بارباراپنے ربِ کریم کے دربارمیں دعائیں مانگتے رہتے اوریوں دعاء کرتے رہے۔
رَبِّ ھَبْ لِیْ مِنَ الصَّالِحِیْنo
ترجمہ:’’اے میرے پروردگار!مجھے نیک اورصالح فرزندعطاء فرما‘‘۔(القرآن)

دردمنددل اور اخلاص کے ساتھ مانگی ہوئی آپ کی دعاء بارگاہِ خداوندی میں مقبول ہوئی اوربڑھاپے کی عمرمیں آپ کی اہلیہ محترمہ حضرت ہاجرہ رضی اﷲ عنہا کے بطن اطہرسے آپ کے فرزندارجمندحضرت اسماعیل علیہ السلام پیداہوگئے۔

ظاہرہے کہ جوبچہ بڑی دعاؤں اورمرادوں اورتمناؤں کے بعدملاہوگاوہ ماں باپ کی نظروں میں کتناعزیز اورکس قدرپیاراہوگا۔حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے اس فرزندجمیل وجلیل سے بہت زیادہ محبت فرمانے لگے۔جب حضرت اسماعیل علیہ السلام کی عمرسات برس(اورایک روایت میں تیرہ برس)کی تھی اورآپ بہت ہی ہونہاراورحسین وجمیل تھے،توماہِ ذوالحجہ کی آٹھویں تاریخ کی رات میں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خواب میں دیکھاکہ ایک اﷲ تعالیٰ کا فرشتہ یہ حکمِ خداوندی سنارہاہے کہ اے ابراہیم علیہ السلام!اپنے بیٹے کی قربانی کرو!آپ فوراً سمجھ گئے کہ میرے فرزند اسماعیل علیہ السلام کی قربانی کاحکم ہے۔

چنانچہ آپ میدانِ تسلیم و رضاکے شاہ سواربن کراپنے لختِ جگر،نورِنظرفرزندحضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی کیلئے تیارہوگئے۔یہ خواب مسلسل تین دن تک آتے رہے۔چنانچہ دس(10)ذوالحجہ کی صبح آپ نے اپنی بیوی حضرت ہاجرہ رضی اﷲ عنہاسے فرمایاکہ:’اے نیک بخت ہم سفر!آج تمہارے لخت ِجگرکی ایک بہت بڑے شہنشاہ کے دربارمیں دعوت ہے۔یہ سن کرمحبت کی پیکرماں نے فرطِ مسرت سے اپنے نور نظر فرزند کونہلادھلاکرعمدہ اورنفیس پوشاک پہناکراوراپنے لعل کودولہابناکراس کی انگلی باپ کے ہاتھ میں پکڑادی۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام نے چھری اوررسی لی اوروادیٔ مِنیٰ کی طرف روانہ ہوگئے۔بعض تاریخی اورتفسیری روایات سے معلوم ہوتاہے کہ اس موقع پر شیطان مردودنے تین مرتبہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کوبہکانے کی کوشش کی اورہربار حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اُسے سات سات کنکریاں مارکر بھگادیا۔اس لئے آج تک ’’ایام حج‘‘میں وادیٔ مِنیٰ میں تین جمرات پراسی محبوب عمل کی یادگار شیطان کوکنکریاں مارکرمنائی جاتی ہے۔

جب شیطان یہاں سے مایوس ہوگیاکہ توپھروہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ورغلانے لگااورقریب جاکر کہنے لگاکہ:
’’اے اسماعیل!تجھے تیرے والدذبح کرنے کیلئے لے جا رہے ہیں‘‘۔
حضرت اسماعیل علیہ السلام نے فرمایا:’’کیوں؟ ‘‘۔
شیطان نے کہا:’’وہ سمجھتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ نے انہیں ایسا کرنے کاحکم دیاہے‘‘۔
حضرت اسماعیل علیہ السلام نے فرمایاکہ:
’’اگراﷲ تعالیٰ میری جان کی قربانی قبول فرمالے توتومیری خوش نصیبی کی اورکیا معراج ہوگی؟میں تویہی کہوں گاکہ:
جان دی،دی ہوئی اسی کی تھی
حق تویہ ہے کہ حق ادانہیں ہوا

بالآخرجب دونوں باپ بیٹے یہ انوکھی اورنرالی عبادت انجام دینے کیلئے قربان گاہ (وادیٔ منیٰ) میں پہنچے توحضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے فرزند ارجمند حضرت اسماعیل علیہ السلام سے کہاکہ: اے میرے بیٹے!میں نے خواب میں دیکھاہے کہ میں تمہیں ذبح کررہا ہوں،پس اس بارے میں خوب سوچ لو کہ تیری کیارائے ہے؟۔
سعادت مند بیٹے نے بڑاپیاراورتاریخی جواب دیاکہ:
اے اباجان! آپ کوجوحکم دیاگیاہے،اُسے آپ بلاخوف وخطرپوراکریں،مجھے آپ ان شاء اﷲ!صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے‘‘۔
ڈاکٹرعلامہ اقبال اس دلآوَیزمنظرکویوں بیان کرتے ہیں۔!
یہ فیضانِ نظرتھا یاکہ مکتب کی کرامت تھی
سکھائے کس نے اسماعیل کوآدابِ فرزندی
اورحفیظ جالندھری کے الفاظ میں:
سعادت مندبیٹاجھک گیافرمانِ باری پر
زمین وآسمان حیران تھے اس طاعت گزاری پر

پھرحضرت اسماعیل علیہ السلام نے اپنے والدمحترم سے یوں عرض کی کہ:اے اباجان!میری قربانی دینے سے پہلے آپ میری تین وصیتیں قبول فرمائیں:
1……میری پہلی وصیت یہ ہے کہ آپ قربانی کرنے سے پہلے میرے ہاتھ پاؤں کورسی سے باندھ دیجئے تاکہ بہ وقت ِذبح میراتڑپنادیکھ کرآپ کوبہ تقاضائے پدری مجھ پرکہیں رحم نہ آجائے اورہم اس سعادت سے محروم ہوجائیں۔
2……دوسری وصیت یہ ہے کہ آپ مجھے منہہ کے بل لٹائیں،کہیں ایسانہ ہوکہ میرادل سینے میں دھڑکناشروع کرے اورآپ کاہاتھ جنبش کرکے رک جائے۔
3……تیسری وصیت یہ ہے کہ میری قربانی کرنے کے بعدجب آپ میری والدہ کے پاس جائیں تو اُن سے میراسلام عرض کردیجئے گا،اوراگرمیری قمیص میری والدہ کے پاس لے جاناچاہیں تولے جائیں شایداس سے انہیں کچھ تسلی ہوجائے۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے نورِنظراورفرزنددل بندکی یہ معصومانہ باتیں سنیں توآپ کی آنکھیں پُرنم ہوگئیں،اورآپ نے اپنے معصوم صاحبزادے کی مقدس پیشانی کو چوما۔اس کے بعدحضرت اسماعیل علیہ السلام کے ہاتھ پاؤں کورسی سے خوب باندھ کرایک پتھرکی چٹان پراوندھے منھ لٹادیااور اپنی آنکھوں پرپٹی باندھ کراپنے لخت ِجگرکے گلے پرچھری رکھ دی۔

تسلیم ورضاکایہ عدیم المثال منظر آج تک چشمِ فلک نے نہیں دیکھاہوگا ۔ تیز چھری حضرت اسماعیل کے حلقوم پرپہنچ کرکُندہوگئی،دو مرتبہ ایساہی ہوا تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جوشِ غضب میں چھری کوایک پتھرپردے مارا۔ اسی چھری نے پتھرکو ٹکڑے ٹکڑے کردیا۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام نے چھری سے کہا:’’تونے پتھرایسی سخت چیز کوکئی ٹکڑے کردیامگرمیرے اسماعیل کاگلاتوریشم سے بھی زیادہ نرم ہے،اس کوکیوں نہیں کاٹا؟چھری نے بہ زبانِ حال کہا:
اے ابراہیم !میں کیاکروں،اگرایک مرتبہ مجھ سے خداکاخلیل کہتاہے کہ کاٹ؛توسترمرتبہ ربِّ جلیل فرماتا ہے کہ مت کاٹ!جب خلیل خودربِّ جلیل کاحکم مان کراپنے بیٹے کوقربانی کیلئے لٹائے بیٹھاہے،تومیں اس کے حکم سے کیسے انکارکرسکتی ہوں۔بہ قول حفیظ جالندھری!
زمین سہمی پڑی تھی آسمان ساکن تھابے چارہ
نہ اس سے پیشتردیکھاتھایہ حیرت کانظارہ

آخرکارحضرت ابراہیم علیہ السلام کے اس جذبہ اخلاص وایثاراورقربانی پر رحمتِ پروردگارکو ایساپیارآگیاکہ حضرت جبرائیل علیہ السلام کویہ حکم دیاکہ اے جبرائیل جنت سے ایک نہایت خوب صورت مینڈھا (دُنبہ)لاکرحضرت اسماعیل علیہ السلام کی جگہ لٹادواورجناب اسماعیل کواٹھاکراُن کے ہاتھ پاؤں کی رسیاں کھول دو۔چنانچہ حضرت جبریل علیہ السلام نے ایک بہشتی مینڈھا لاکرلٹادیا اور خداوندقدوس نے حکم دیاکہ اے ابراہیم اب چھری چلاؤ،چنانچہ اب کی بارچھری چلائی توچھری چل گئی اورایک عظیم قربانی ہوگئی مگرجب اپنی آنکھوں سے پٹی کھول کردیکھاتویہ عجیب وغریب منظرنظرآیاکہ ایک نہایت فربہ (موٹاتازہ) اور حسین وجمیل مینڈھاذبح پڑاہواہے اورحضرت اسماعیل علیہ السلام ایک طرف کھڑے مسکرارہے ہیں۔

اسی وقت حضرت جبرائیل علیہ السلام نے’’اﷲ اکبر،اﷲ اکبر‘‘کانعرہ بلندکیا اورحضرت اسماعیل علیہ السلام نے ’’لاالہ الااﷲ واﷲ اکبر‘‘پڑھااورحضرت ابراہیم علیہ السلام نے’’ اﷲ اکبروﷲ الحمد‘‘کاکلمہ ادا فرمایا اوراُدھراﷲ تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ ِاقدس سے یوں آوازآئی،جیساکہ قرآنِ پاک میں ہے:
’’اورہم نے پکارااے ابراہیم!بے شک تو نے خواب سچ کردکھایا،بلاشبہ ہم نیکوکاروں کو یوں ہی اجرعطاء کرتے ہیں،درحقیقت یہ بہت بڑاامتحان تھااورہم نے ایک بہت بڑاذبیحہ دے کر اُنہیں بچالیااورہم نے اُن کا ذکرِخیربعدمیں آنے والوں میں باقی رکھااورابراہیم پرہماراسلام ہو‘‘۔(سورۃ الصافات)

اﷲ تعالیٰ کوحضرت ابراہیم علیہ السلام اورحضرت اسماعیل علیہ السلام کی یہ ادااتنی پسندآئی کہ تمام امت مسلمہ قیامت تک جانورذبح کرکے اس کی یادتازہ کی جاتی رہے گی۔
 
Moulana Nasir Khan Chishti
About the Author: Moulana Nasir Khan Chishti Read More Articles by Moulana Nasir Khan Chishti: 58 Articles with 195496 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.