قرآنی کافور۔۔ایک سائنسی جائزہ

قرآن میں کافور کی بابت فرمایا گیا ہے کہ
اِنَّ الْاَبْرَارَ یَشْرَبُوْنَ مِنْ کَاْسٍٍ کَانَ مِزَاجُھَا کَافُوْرًاO
ترجمہ : نیک لوگ (جنت میں) شراب کے ایسے ساغر پئیں گے جن میں آب کافور کی آمیزش ہوگی۔
سورۃ الدہر کی اس آیت میں جنت کے مکینوں کے لئے ایسی شراب کاذکر ہوا ہے جس میں کافور کامزہ ہوگا۔ اسی سورۃ کی ایک دوسری آیت (نمبر17) میں فرمایا گیا ہے کہ جنت کی شراب میں سونٹھ یعنی زنجبیل کی آمیزش ہوگی۔

تفسیر ماجدی میں کافور کے فوائد بیان کرتے ہوئے تحریر ہوا ہے کہ دنیا کی کسی چیزسے بھی جنت کی کسی نعمت کوتشبیہ دی جاتی ہے، تو وہ اس کی حسن وخوبی کے لحاظ سے ہوتی ہے نہ کہ کسی ضرر اور قبح کے لحاظ سے۔ مولانا ماجد کی نظر میں دنیا کی کافور میں اگر کچھ مضرتیں ہوں بھی توجنت کی کافور پر ان کا کیا اثر، ٹھیک اسی طرح جیسے دنیاکی مشروبات کے سکر کا مطلق اثر شراب جنت کے لذّت وسرور پر نہیں۔
تفہیم القرآن میں کہاگیا ہے کہ کافور ملا ہوا پانی نہ ہوگا بلکہ ایک ایسا قدرتی چشمہ ہوگا، جس کے پانی کی صفائی، ٹھنڈک اور خوشبو کافور سے ملتی جلتی ہوگی۔

تفسیر حقانی میں ارشاد ہوا ہے کہ جنت میں شراب طہور کا پیالہ پینے کو ملے گا جس میں چشمۂ کافور کی آمیزش ہوگی یا اس کا مزاج کافوری ہوگا، کوئی گرمی اور سوزش نہ ہوگی تاکہ حشر کی سب گرمی دور ہوجائے۔

بیان القرآن میں فرمایا گیا ہے کہ وہ کافور دنیا کا کافور نہ ہوگا بلکہ جنت کا کافور ہوگا۔ جناب یوسف علی نے کافور کو انگریزی لفظ Camphor کا ہم معنی بتایا ہے (نوٹ نمبر5835) اور لکھا ہے وہ ٹھنڈک پہنچاتا ہے، تازگی دیتا ہے اورمشرق میں ایک ٹانک ہے۔ ان کے خیال میں اگر تھوڑی سی کافور کسی چیز میں ملا دی جائے تووہ چیز خوشبو اورمزہ کے لحاظ سے قابل قبول ہوگی۔ جناب پکٹہال اورجناب عبداللطیف نے قرآن پاک کے انگریزی ترجموں میں لفظ کافور ہی تحریر کیا ہے۔

لسان العرب میں کافور کے کئی معنی دئے گئے ہیں اور ابن درید کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ عرب قفور اور قافور بھی کہتے ہیں ۔اس کوایک ایسا پودہ بتایا گیاہے جس کی کلیاں اخوان کی کلیوں کی طرح ہوتی ہیں۔ اس کے سوا کافور کے معنی اس شے کے بھی بتائے گئے ہیں جو ہرنؔ کے جسم سے دستیاب ہوتی ہے۔ المنجد میں کافور کوایک خوشبودار گھاس نیز کھجور کے شگوفہ کاغلاف اورخوشہ انگور نکلنے کی جگہ بتایا گیا ہے۔

لغات القرآن میں کافور سے مراد اس خول کی دی ہے جو شگوفہ کو اپنی آغوش میں چھپائے ہوتاہے۔ مزید برآں یہ ایک دوا کانام بھی ہے جوحدت کم کرتا ہے۔ اس کو سفید تیز خوشبودار تلخ مادہ بھی بتایا گیا ہے جودرخت کافور سے رس کر جم جاتا ہے۔ یہ درخت بحر ہند کے بعض جزیروں میں پیدا ہوتاہے۔ مولانا سید سلیمان ندوی کی رائے میں کافور کا تعلق ہندوستانی لفظ کپور یاکرپور سے ہے۔

اس سے قبل کہ جنت کے ضمن میں جس کافور کا ذکر قرآن پاک میں ہوا ہے اسکی حقیقت اور ہیئت معلوم کرنے کی سعی کی جائے مناسب ہوگا کہ پہلے آج کے کافور بہ معنی Camphorکی تاریخ پر ایک نظر ڈالی جائے اور پتہ چلایا جائے کہ دنیا کافور سے کب اورکیسے واقف ہوئی اور عربوں کواس کا علم کس دور میں ہوا۔

زمانۂ قدیم سے کافور کا ذریعہ دو بالکل مختلف نباتاتی خاندان کے پودے رہے ہیں ایک توملیشیا کادرخت ہے جو Dryobalanops aromaticaکہلاتا ہے اس کاخاندان Dipterocarpaceae ہے۔ دوسرا ذریعہ جاپان اور جاپان کا دراز قد پیڑ ہے جس کو Cinnamomum camphoraکہتے ہیں۔ یہ Lauraceae خاندان سے تعلق رکھتا ہے۔ ملیشیائی کافور درخت کی چھال سے رستا ہے اور جم جاتا ہے جس کوکھرچ کر نکال لیا جاتا ہے، جب کہ چینی کافور حاصل کرنے کے لئے درخت کی لکڑی کو پانی میں جوش دے کر عرق کو جما لیتے ہیں۔ ہندوستان میں کافی عرصہ قبل، پہلے ملایا کا کافور لایا گیا جوہندوستانی زبان میں کپوریا کرپور کہلایا۔ یہ بہت قیمتی ہوتاتھا۔ پھر کئی سو سال بعدیعنی غالباً بارہویں یا تیرہویں صدی عیسوی میں چینی کافور ہندوستانی بازاروں میں فروخت ہونے لگا جونسبتاً ارزاں تھاملایا کے کافور کو بھیم سینی کپور یا قیصوری کپور اور کبھی کبھی فضوری کپور کہاجاتا تھا جب کہ چینی کافور صرف کپور کہلاتا تھا۔

عربوں کے ہندوستان سے پرانے تجارتی تعلقات رہے ہیں جو اسلام سے قبل بھی تھے اوراسلام کے بعد بھی، بلکہ اسلام کے بعد ان میں تیزی سے اضافہ ہوا۔ چنانچہ یہ عین ممکن ہے کہ کافی عرصہ قبل عربوں نے ہندوستان کے توسط سے کافور سے واقفیت حاصل کر لی ہو اور اس کی تجارت کرتے ہوں۔ لیکن اصل سوال یہ ہے کہ عربوں کو کافور کا علم کب اور کس دور میں ہوا۔ یہ بات تو یقینی اورحتمی طور سے نہیں کہی جاسکتی ہے کہ مصر، یونان، روم وغیرہ کی پرانی تہذیبوں میں ایک بھی حوالہ ایسا نہیں ملتا ہے جس سے یہ ثابت ہو سکے کہ براہِ راست یابالواسطہ وہاں کے عوام یا خواص حضرت عیسیٰؑ سے قبل یا پھر کئی سو سال بعد تک کافور سے واقف رہے ہوں۔ مصر کے تہذیبی عجائب، عمارات اور Mummies میں مختلف اقسام کی خوشبودار اشیاء کے استعمال کا ثبوت تو ملتا ہے جن میں قابل ذکر لوبان، (عربی، لبان، انگریزی Frankincense)۔ روغن بلسان (Balsam) اورمر مکی (Myrrh) ہیں، لیکن کوئی ایسی چیز، نشانی یا حوالہ نہیں پایا گیا جس میں کافور کاشائبہ بھی ہو۔ یہ بات ذہن نشین ہونی چاہئے کہ عرب جن چیزوں کی تجارت ہندوستان سے کرتے تھے ان سب کومصر کے بازاروں میں فراہم کرتے تھے جہاں سے کافی اشیاء یونان تک لے جائے جاتی تھیں۔

یونان کے طبی ادب میں جس سونٹھ یعنی زنجبیل کا ذکر ملتا ہے اس کو ہندوستان سے یونان پہنچانے کا سہراعربوں کو جاتا ہے۔ اسی طرح دیگر ہندوستانی عطریات، مسالے اور موتی وغیرہ کے تذکرے اورحوالے مصرویونان کے قدیم ادب میں ملتے ہیں لیکن کافور کا کوئی ذکر نہیں پایا جاتا ہے۔ یونان اور روم کے معروف دانشوروں اور مفکروں میں سے کسی ایک نے بھی کافور کاذکر نہیں کیا ہے۔ ارسطو، افلاطون، پلائنی (Pliny)، ڈائس کورائڈ (Discorides)، تھیوفراسٹس (Theophrastus) اور ہیروڈوٹس (Herodotus) جیسے عالموں نے اپنی کسی تصنیف میں کافور کا حوالہ نہیں دیا ہے۔ حکیم جالینوس کی تصنیفات میں بھی کافور کا بیان نہیں پایا جاتا ہے۔

جارج واٹنے کافور کی تاریخ کاجائزہ لیتے ہوئے لکھا ہے کہ پہلی مرتبہ ایک مشہور عرب طبیب حکیم اسحاق ابن عمان نے نویں صدی عیسوی میں ملایا کی کافور کی طبی اہمیت پر روشنی ڈالی ہے۔ یہ وہی دور ہے جب مشہور جغرافیہ داں خردازبہ نے اپنی کتاب میں کافور پر تبصرہ کیا ہے۔ مولانا سید سلیمان ندوی نے بھی لکھا ہے کہ نویں صدی میں ایک عرب سیاح نے بتایاکہ عرب لائی جانے والی ہندوستانی پیداوار میں آبنوس، بید، عود، کافور، لونگ، جوزبوا اور قسم قسم کی عطریات ہوتی تھیں۔ برخلاف اس کے 14؁ھ میں جس سیاح نے حضرت عمرؓ کوجن ہندوستانی درآمدات کی تفصیل بتائی تھی اس میں کافور کا نام نہ تھا۔

مسٹر فلپ ہٹی نے تاریخ عرب کی انگریزی تصنیف میں عراق اورایران کے باب میں لکھا ہے کہ اسلام کے ظہور میں آنے کے زمانے تک عرب کافور سے ناواقف اور لاعلم تھے اور ا س کے ثبوت میں وہ واقعہ بیان کیا ہے کہ جب حضرت سعد بن وقاص کی قیادت میں 637ء میں عراق وایران فتح کر لیا گیا تو کچھ عرب سپاہیوں کوایک بستی میں کافور ملا۔ جس سے پہلے وہ واقف نہ تھے، لہٰذا نمک سمجھ کر کھانے میں ڈال لیا۔ اسی واقعہ کو ابن الطقطقی (الفخری) نے حضرت سعد کے باب میں زیادہ تفصیل سے بیان کیا ہے اور لکھا ہے کہ کافور پانے کا واقعہ مدینہ میں حضرت عمر کو سنایا گیا۔ روایت یوں بیان ہوئی ہے :
’’کسی عرب کو وہاں (عراق وایران کی مہم کے دوران) ایک چمڑے کی تھیلی ملی جس میں کافور تھا، اس نے اپنے ساتھیوں کو لا کر دیا۔ ان سبھوں نے اسے نمک سمجھ کر کھانے میں ڈالا، اس سے قبل وہ کافور کے مزہ سے واقف نہ تھے اور نہ ان کو یہ علم تھا کہ یہ کیا ہے‘‘۔

انہوں نے اس کافور کو دو درہم کے عوض خرید لیا۔ یہ واقعہ تاریخ طبری میں بھی درج ہے

مندرجہ بالا دی گئی کافور کی تاریخ سے یہ بات عیاں ہوجاتی ہے کہ چھٹی صدی تک عرب کافور سے بالکل ناواقف تھے۔ اورغالباً ہندوستان میں بھی یہ کوئی عام استعمال کی چیز نہ تھی۔ اسلام کے ظہور میں آنے کے فوراً بعد عربوں کے لئے علم کے خزانے کھل گئے اور سائنس کے ہر شعبہ میں انہوں نے زبردست پیش رفت کی۔ علم طب کی ترقی تو مسلمانوں کاایک عظیم کارنامہ سمجھا جاتا ہے۔ ساتویں اور آٹھویں صدی عیسوی ہی میں یونانی اور ہندوستانی زبانوں میں لکھی گئی اہم سائنسی اورطبی موضوعات کی کتابوں کے عربی میں تراجم ہوئے اور نباتاتی دواؤں کے استعمال کوایک ایسی شکل دی گئی جس سے بعد میں ساری دنیا مستفید ہوئی۔ علم کی ترقی کے اسی دور میں عربوں کوایران کے ذریعہ ہندوستان کے کافور کی طبی اہمیت کا اندازہ ہوا۔ اور پھر عربوں کے توسط سے ساری دنیا میں کافور کو ایک اہم دوا کے طورپر تسلیم کیا جانے لگا۔ لیکن عربوں نے اور نہ ہی یورپین اقوام نے کافور کو عطریات میں شامل کرکے غذا یا مشروبات میں استعمال میں لانے کی کوشش کی کیونکہ یقینا وہ کافور کے اندرونی استعمال کے نقصانات سے واقف تھے۔

ملایا کا کافور اس وقت تک بہت کمیاب اور قیمتی رہاجب تک کہ چینی کافور بین الاقوامی طور پر بازاروں میں نہ آگیا۔تیرہویں صدی میں مارکوپورلو نے جب ملایا کا سفر کیا تو اسے وہاں کافور پیدا کرنے والے درختوں Dryobalanops aromatica کودیکھنے کا موقع ملا۔ اس زمانے میں بھی کافور کی قیمت سونے کی قیمت کے برابر تھی۔ چینی کافور غالباً پندرہویں صدی کے اواخر یا سولہویں صدی کے اوائل میں یورپ لایا گیا۔
اب اگر کافور کی تاریخ مختصراً بیان کی جائے توکہاجاسکتا ہے کہ ہندوستان کا کرپور (کپور)ایران میں کافور کہلایا اور ایران ہی کے ذریعہ ساتویں اور آٹھویں صدی میں عرب اس سے نسبتاً مانوس ہوئے اور جب انہوں نے اس کی طبی خصوصیات کو پرکھ لیا تو نویں صدی تک وہ شہرت عطا کردی جس کاسلسلہ آج تک چلا آرہا ہے۔ بو علی سینا کے بتائے ہوئے کافوری علاج ساری دنیا میں تسلیم کر لئے گئے۔

کافور ایک نہایت تیز بو اور تلخ مزہ کی نباتاتی شئے ہے۔ ملایا کی کافور کی اصل جز d-borneol ہے جب کہ چینی کافور کاجز2-camphanoneہے یہ دونوں کیمیاوی اجزاء toxicہوتے ہیں اورغذا میں قطعا استعمال نہیں کئے جاسکتے ہیں ۔

کافور کا استعمال متلی، چکر اور شدید پیٹ کادرد پیدا کرسکتا ہے۔ فالج کا بھی اثر ہوسکتا ہے۔ اسی لئے کافور سے بنی دواؤں کے استعمال میں احتیاط لازم ہے۔ کہا جاتا ہے کہ کافوری دواؤں کو بچوں سے بچا کر رکھنا چاہئے کیونکہ غلطی سے استعمال سے ان کی ہلاکت ہوسکتی ہے۔ کافور کااصل استعمال خارجی طور سے لگائے جانے والے مرہموں میں ہوتاہے۔ ایسے مرہم دردکش ہوتے ہیں اور Fibrositis neuralgia جیسے نہ جانے کتنے امراض میں نہایت کار آمد ثابت ہوتے ہیں۔ غذا اور مشروبات میں کافور کا ملانا نہ توطبی اعتبار سے صحیح ہے اور نہ مزہ کے اعتبار سے۔ دنیا کے کسی علاقہ اور کسی دور میں کافور کو پانی، مشروبات اور غذا میں استعمال نہیں کیاگیا جب کہ دوا کے طور پر اس کے خارجی اورداخلی استعمال کی افادیت مسلم ہے۔

کافور کی تاریخ اور سائنسی خصوصیات کی روشنی میں دو باتیں ابھرکر سامنے آتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ بعثتِ نبویؐ کے زمانہ میں عرب عوام جوقرآنی آیات کے مخاطب اول تھے، کافور سے مانوس نہ تھے۔ دوسرے یہ کہ جب ساتویں صدی عیسوی میں یا اس کے بعد وہ اس سے مانوس ہوئے بھی تو عطر (خوشبو) یا غذائی اشیاء کی حیثیت سے نہیں بلکہ نہایت مفید دوا کے طور پر۔ اب اگر ان تاریخی اور سائنسی وطبی نتائج کو سچ مان لیاجائے تواس بات کے امکانات اجاگر ہوجاتے ہیں کہ قرآنی آیت (سورۃ الدہر) میں جس کافور کا ذکر ہوا ہے وہ موجودہ ملیشیائی یا چینی کافور نہیں ہے بلکہ ایسی خوشبو اورعطر کا نام ہے جوعربوں کوبہت پسندرہی ہوگی اوروہ اس سے بہت مانوس رہے ہوں گے۔ بالکل اسی طرح جیسے کہ وہ ادرک (زنجبیل) کے شوقین تھے چنانچہ غذا اور مشروبات میں اس کو ملاتے تھے۔ اسی لئے سورۃالدہر کی آیت نمبر 17میں اﷲ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا کہ جنتیوں کو سونٹھ ملی شراب سے نوازا جائے گا۔ یہ امر ذہن نشین رہناچاہئے کہ قرآنِ پاک میں جن نباتات، اثمار یا نباتاتی اشیاء کاذکر کیاگیا ہے ان سب سے قرآن پاک کے مخاطب اول خوب واقف تھے۔ مثلاً پھلوں میں انگور، زیتون، انار کھجور او رانجیر کا ذکر ہے لیکن آم یا امرود وغیرہ کا کوئی تذکرہ نہیں ہے جو ان کے لئے مہیا ہونے والے پھل نہ تھے۔ یہی بات ان سارے نباتات کی بابت کہی جاسکتی ہے جن کے حوالے مختلف آیات میں ملتے ہیں۔ صرف ایک دوزخ کازقوم غالباً ایسادرخت ضرور ہے جس کے ہیبت ناک اور زہریلے ہونے کی اطلاع منکروں کو دی گئی تاکہ ان میں ڈر پیدا ہو اور وہ گناہوں سے پرہیز کریں۔ حالانکہ زیادہ واقفیت نہ ہونے کی بنا پر اسلام دشمن عناصر نے ایک واویلا مچادیا اور ابو جہل نے تویہاں تک کہہ دیاکہ زقوم حقیقتاً کھجور ہے جسے وہ اوراس کے ساتھی جہنم میں کھائیں گے۔ غرض کہ ان تفصیلات کے تحت یہی نتیجہ اخذ کیاجاسکتا ہے کہ کافور یقینا کوئی ایسی چیز تھی جس کی خوشبو اور شربتی خوبیوں کا عرب اچھی طرح علم رکھتے تھے۔

اب اہم سوال یہ ہے کہ قرآنی لفظ کافور کاتعلق اگر موجودہ کافور سے نہیں ہے توپھر وہ کیا ہے۔ اس مسئلہ کے حل کیلئے ہمیں بائبل کی کتاب Song of Soloman- (باب اول) کی آیت نمبر ۱۴پر غور کرنا ہوگا۔ اس آیت میں ایک لفظ آیا ہے جس کاتلفظ عبرانی زبان میں کافیر (Kopher) کوفیر یا کوفر (Copher) بتایا گیا ہے۔ مذکورہ آیت میں حضرت سلیمانؑ فرماتے ہیں :
’’میرے لئے محبوب ایسا ہے جیسے کہ باغ کے لئے کافیر (یاقافیر) کاخوبصورت گچھا‘‘۔

مولڈنکے نے لکھاہے(74) ہے کہ شروع کے انگریزی اوردیگر یوروپین زبانوں میں بائبل کے تراجم میں اس لفظ کو Camphire کا ہم معنی سمجھاگیا لیکن بعد ازاں جب نباتاتی تاریخ اور عبرانی ویونانی زبان میں نباتات کے ناموں کاجائزہ لیا گیا تو پتہ چلا کہ زمانہ قدیم میں حِنا یعنی مہندی کو عبرانی زبان میں کافیر اور یونانی زبان میں کوفرس کہتے تھے۔ یہ بھی علم میں آیا کہ مہندی کادرخت حضرت سلیمان کے زمانے میں سارے عرب علاقوں اورمصر میں عام طور سے پیدا ہوتا تھا جو اپنی پتیوں اورخوشبودار پھولوں کی وجہ سے بڑی اہمیت کا حامل تھا۔ برخلاف اس کے کافیر بہ معنی Camphor کا سلیمانی دور میں کوئی وجود نہ تھا اور نہ کوئی تصور۔ ان حقائق کی روشنی میں آج جتنے بھی بائبل کے اہم تراجم ہیں ان میں کافیر کاترجمہ حناکیا گیا ہے۔ Jastrow Version - Moffat Version- Goodspeed Version اس کی چند اہم مثالیں ہیں ۔

یہاں ڈائس کورائڈس کاحوالہ دینا بھی بہت ضروری ہے۔ وہ اپنے زمانے کا ایک جید عالم گزرا ہے اس نے طبی اور نباتاتی سائنس پر جو کتابیں لکھی ہیں ان کو آج بھی ساری دنیا میں قدر کی نظر سے پڑھا جاتا ہے اور پودوں کی تاریخ بیان کرنے میں ان کا حوالہ دیا جاتا ہے۔ ان تصنیفات میں (جن کادور پہلی صدی عیسوی کاہے) مہندی کے لئے جس لفظ کا بار بار استعمال کیاگیا ہے وہ کوفراس ہی ہے۔(61،34)۔

اب قابل غور وفکر بات یہ ہے کہ قرآنی لفظ کافور منبع سنسکرت لفظ کرپور ہے جیسا کہ اکثر علماء کا خیال ہے یا پھر قرآنی کافور کی بنیاد عبرانی اوریونانی زبان کے الفاظ کافیر اور کوفراس ہیں۔ راقم الحروف کی ناچیز رائے میں تاریخی اور سائنسی دلائل اس بات کو بہت واضح کردیتے ہیں کہ قرآن کریم کا بیان کردہ کافور ہندوستانی کرپور یا کپور نہیں ہوسکتا ہے لہٰذا اس لفظ کی بنیاد عبرانی اور یونانی زبان کے وہ الفاظ ہیں جن کے معنیٰ حنا یعنی مہندی کے ہیں۔ اس حقیقت سے کون واقف نہیں کہ عربی اور عبرانی زبانوں کامنبع اور بنیاد قدیم سامی زبان ہے اسی لئے نہ جانے کتنے عربی الفاظ عبرانی الفاظ سے ملتے جلتے اور ہم وزن ہیں۔ یہی نہیں بلکہ یونانی اوردوسری عجمی زبانوں کے الفاظ بھی عربی میں مستعمل ہوگئے اورعربی زبان کاحصہ بن گئے اور قرآن پاک میں جگہ پاگئے۔ حافظ سیوطی اور دوسرے بہت سے علماء نے اس حقیقت کو تسلیم کیا ہے۔ نباتات کے ناموں کے اعتبار سے یہ نظریہ اور بھی واضح ہوجاتاہے۔

قرآن مجید میں ارشاد ہوئے کئی نباتات کے نام ان عبرانی ناموں کے ہم وزن ہیں، جن کا ذکر مقدس انجیل اورتوریت میں ہواہے۔ ذیل کی چند مثالیں ملاحظہ ہوں :

نمبر شمار
اشیاء
قرآنی نام
بائبل کانام
1
مسور
عَدَس
Adasha
2
انار
رُمَّان
Rimmon
3
زیتون
زیتون
Zaith
4
انگور
عِنب
Enav
5
ککڑی
قِثَّاء
Kishuim
6
ترنجبین
منّ
Man
7
پیاز
بَصل
Belsal
8
انجیر
تین
Teenah

اب اگر غور کیا جائے کہ قرآن مجید اور مقدس بائبل کے یہ سارے الفاظ ایک دوسرے کے ہم معنی اور ہم وزن ہیں تو کیا ممکن نہیں ہے کہ حنا (مہندی) کے لئے بائبل کا لفظ کافیر(یونانی کوفراس) اور قرآن پاک کا لفظ کافور ایک ہی ہو۔کچھ بعید نہیں کہ ’’کافور‘‘ عربی میں مہندی کے لئے حنا کے ساتھ زمانہ قدیم میں استعمال ہوتا رہا ہو اورجب موجودہ کافور، جواصل میں فارسی لفظ ہے اور سنسکرت لفظ کرپور کادوسرا روپ ہے۔ ساتویں یا آٹھویں یا نویں صدی میں عرب میں عام طور پر پہنچایا جانے لگا توعربی لفظ کافور بہ معنی حنا فارسی لفظ کافور بہ معنی Camphor سے منسلک ہوگیا ہو اور مہندی کے لئے صرف حنا رہ گیا ہو۔ اسٹائن گاس کی شہرت یافتہ ڈکشنری میں کافور کو فارسی لفظ ہی بتایا گیا ہے۔ نباتات اور نباتاتی اشیاء کے ناموں میں ایسی تبدیلیاں دنیا کی ساری زبانوں میں ہوتی رہی ہیں ساتویں صدی میں ایران اورعراق پر اسلامی اقتدارکے بعد عربی اور فارسی زبانوں کا اثر ایک دوسرے پر کافی پڑنے لگاتھا۔ بہت سے فارسی الفاظ عربی میں اورعربی الفاظ فارسی میں مستعمل ہوگئے۔ آٹھویں صدی میں عربوں کے توسط سے طبی سائنس کوزبردست فروغ حاصل ہوا اور فارسی لفظ کافور بہت عام ہوگیا۔ یہ وہی دور ہے جب قرآن کریم کے تراجم فارسی میں کئے جانے لگے اور تفاسیر کا مفید سلسلہ شروع ہوگیا۔ ظاہر ہے کہ اس سے قبل عربی میں قرآن پاک پر جتنا بھی لکھاگیا ہوگا اس میں کافور کے لفظ کی وضاحت کی ضرورت محسوس نہ کی گئی ہوگی۔

مندرجہ بالا دی گئی تاریخی اور سائنسی حقائق کی بنیاد پر اب اگر قرآنی کافورکو حنا (مہندی) تسلیم کر لیا جائے تو بات بالکل صاف اور واضح ہوجاتی ہے، حناء یعنی Lawsonia inermis عرب علاقوں کا معروف پودہ ہے جو کسی زمانہ میں اپنی پتیوں اور خوشبودار پھولوں کی بنا پر وہاں کے سماج میں بڑی اہمیت رکھتا تھا۔ پھولوں سے عطر حنا حاصل کیاجاتا تھا جو اپنی خوشبو اوردل ودماغ کو فرحت پہنچانے میں بے مثل سمجھا جاتا تھا شادی بیاہ، مذہبی رسومات اوردعوتوں میں عطر حناء کا استعمال ضروری سمجھا جاتا تھا۔ امراء اور روساء کے شاہی غسل خانوں میں وہ پانی فراہم ہوتا تھا جس میں حنا کے پھول ملے ہوتے تھے،مصر میں جنازہ کو محفوظ کرنے کے لئے لوبان وغیرہ لگاتے اور خوشبو کے لئے عطر حنا چھڑکتے تھے۔ حنا کی پتیوں سے خضاب بنا اورعورتوں کے ہاتھ پیر اور چہرے کو حنائی رنگ سے سجانا عربوں میں بہت عام تھا۔ عطر حنا کی تاثیر سرد ہوتی ہے لہٰذا خوشبو اور ٹھنڈک کے اعتبار سے اس کی آمیزش اورملاوٹ پانی اور شراب کو فرحت وسرور کا مزید ذریعہ بنادیتی ہے۔

کافور کا ذکر کئی احادیث میں آیا ہے لیکن کسی بھی حدیث میں اس کی نہ تو تاثیر بیان ہوئی ہے اورنہ ہی اس کوایک دوا بتایا گیا ہے۔ اسی طرح طب نبوی کے ضمن میں کافور کو نہیں شامل کیا گیا ہے۔ گویا کہ احادیث کی روشنی میں بھی یہ یقین کے ساتھ نہیں کہا جاسکتا کہ جس کافور کا ذکر رسول خدانے فرمایا ہے وہ آج کا کافور (Camphor) ہوگا۔ کئی احادیث کے بموجبرسولؐ اﷲ نے جنازہ کو غسل دینے کے بعد کافور لگانے کی ہدایت فرمائی۔ ایک موقع پر آپؐ نے خود ہی ایک جنازہ پر غسل ہوجانے کے فوراً بعد ’’کافور‘‘ لگایا۔ ظاہر ہے کہ حضورؐ کے زمانے میں حجاز اور نجد میں کافور بہ معنی Camphor کا عام طور سے اس قدر دستیاب ہونا کہ اسے تجہیز وتکفین میں استعمال کیا جائے نہ تو قرین قیاس لگتا ہے اور نہ ہی سائنس کی تاریخ اس کی شہادت دیتی ہے۔ برخلاف اس کے کافور بمعنی عطر حنا کا عام طور سے ملنا اور مختلف مواقع پر بہ آسانی میسر ہونا قرین قیاس ہی نہیں بلکہ یقینی کہا جاسکتا ہے۔ یہاں یہ بھی ملحوظ رہے کہ مصر وغیرہ میں اسلام سے قبل بھی جنازہ پر عطر حنا لگایا جاتا تھا۔ اس موقع پر یہ بات پھر دہرائی جاسکتی ہے کہ تیرہویں صدی تک ملایا کے کافور کی قیمت سونے کے برابر تھی چنانچہ ایسی قیمتی چیز کا ساتویں صدی میں، خاص طور سے عرب میں، عام طور سے استعمال ممکن نہ تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلامی طب کے فروغ کے نتیجہ میں کافور صرف قیمتی دواؤں میں استعمال ہوتا رہا، حتیٰ کہ تیرہویں صدی کے بعد جب چینی کافور ہندوستان اورعرب کے بازاروں میں دستیاب ہونے لگا تو یہ کافی ارزاں ہوگیا اور مختلف موضوعات میں اس کا استعمال شروع ہوگیا۔

آج کل تو کافور بہت ہی سستا ہوگیا کیونکہ یہ تارپین کے تیل سے بنایا جانے لگا ہے اور پلاسٹک کی صنعت میں اس کی کافی کھپت ہو گئی ہے۔

جارج واٹنے کافور پر اپنے تحقیقی مقالہ میں لکھا ہے کہ یونان، مصر اورعرب کی جتنی بھی تصنیفات اسلام سے قبل کی ملتی ہیں ان میں کافور کا ذکر نہیں ملتا ہے صرف ایک حوالہ اس لفظ کا ملتا ہے اور وہ ہے عربی کے مشہور شاعر امرؤالقیس کا ایک شعر۔ اس شعر میں لفظ ’’کافور‘‘دیاگیا ہے۔ جارج واٹ نے مذکورہ شعر نہیں تحریر کیا ہے اور نہ ہی اس کے معنی دئے ہیں،لیکن اصل بات یہ ہے کہ امرؤالقیس کی شاعری میں لفظ ’’کافور‘‘ کاہونا اس بات کی دلیل نہیں بن سکتا کہ اس کا اشارہ Camphor کی جانب ہو-ہوسکتا ہے کہ کافور کے نام سے عطر حنا کی بات کی گئی ہو۔

لسان العرب میں العجاج (762ء) اورالرّاعی(738ء) کے چند اشعار حوالے کے طور پر دئے گئے ہیں جن میں کافور لفظ ملتا ہے۔ ان شعراء کا دور امرؤالقیس کے تقریباً دوسو سال بعد کا ہے جب کہ اسلام کی سائنسی ترقی بالعموم اور طبی ترقی بالخصوص کی داغ بیل ڈالی جاچکی تھی لہٰذا اس وقت ہوسکتا ہے کہ کافور (Camphor) کا علم مفکروں اور عالموں اور شاعروں کوہوچکا ہو یاپھر اس زمانے کے شعراء نے بھی کافور بہ معنی حنا کے ہی لئے ہوں۔ ویسے بھی عربی اور فارسی شاعری میں خوشبو اور لطافت ورنگینی کے لئے حنا کا ذکر کیاجاتا رہا ہے۔

موجودہ علم کے پس منظر میں ایک اورامر قابل توجہ ہے وہ یہ کہ انگریزی زبان کی سبھی اہم لغات انیسویں صدی کے اواخر میں اور بیسویں صدی کے اوائل میں شائع ہوئی ہیں ان میں Camphor کے معنی جہاں ملایا اور چین کے کافور کے دئے ہیں وہاں ایک معنی حنا کے بھی دئے ہیں۔ اسی طرح بائبل سے متعلق جتنی لغات اور تحقیقات کی کتابیں ہیں سب میں کافور (کافیر) کے معنی حناء کے ہی دئے گئے ہیں۔

فرانس سے شائع ہونے والی (1871ء) کتاب (45)La Botaniqu de la Bible میں کافور کو فرانسیسی میں HENNI کہا گیا ہے۔ حیرت اس بات کی ہے کہ انیسویں صدی اور بیسویں صدی کے مفسرین قرآن کی نظر سے یوروپین زبانوں کی ڈکشنریاں اوربائبل پر تحقیقاتی کتابیں کیسے رہ گئیں۔ بہر حال راقم سطور کی ناچیز رائے میں سورۃ الدہر کی آیت میں بیان شدہ لفظ ’’کافور‘‘ کے معنی حناء (حنا) ہوسکتے ہیں۔ لیکن حتمی طور سے یہ طے کرنا کہ قرآنی کافور موجودہ Camphor ہے یا عطر حنا ان دانشوروں اور مفکروں کاکام ہے جو عربی زبان پر قدرت رکھتے ہیں اور مذہب اسلام اوراس کی تاریخ کے مستند عالم ہیں۔

واضح رہے کہ بعض قرآنی الفاظ کے معنی تومختلف اخذ کئے جاسکتے ہیں اور ایسا کیا بھی گیا ہے لیکن الفاظ کے اختلافی مفہوم سے قرآنِ کریم کے پیغام میں ذرّہ برابر بھی فرق نہیں آتا ہے۔ چنانچہ ’’مِزَاجُھَاکَافورًا‘‘ کامفہوم ٹھنڈک بخشنے والا جام بھی ہوسکتا ہے، صاف وشفاف پانی کا چشمہ بھی کہاجاسکتاہے اورحنا کی خوشبو والا شربت بھی لیکن ان میں سے کوئی بھی مطلب ومعنی اس پیغام میں فرق نہیں لاتا ہے جس کے ذریعہ اﷲ تعالیٰ نے متقیوں کے لئے جنت میں بہترین مشروبات فراہم کرنے کاوعدہ فرمایا ہے۔
ارشادات رسولؐ بسلسلۂ حنا اورکافور
1- رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا دنیا وآخرت میں خوشیوں کی سردار حنا کی کلی (فاغیہ) ہے۔ (سیدالریاحین فی الدنیاوالآخرۃ الفاغیہ) (راوی، حضرت عبداﷲ بن بریدہ، شعب الایمان)
2- رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے نزدیک سب سے پسندیدہ خوشبو حنا کی کلی (فاغیہ) تھی۔ (حضرت انس بن مالک، شعب الایمان)
3- رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اﷲ کے نزدیک درختوں میں نہایت پیارہ پودہ مہندی (حنا) کاہے۔ (بخاری)
4- جب کبھی نبی کریمؐ کو زخم ہوتا یا کانٹا چبھتا تو آپؐ اس پر حناکا لیپ فرماتے۔ (راوی، حضرت ام سلمیٰ، ترمذی، مسند احمد)
5- رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سے جب کسی نے درد پا کی شکایت کی تو حنا لگانے کی بات کی (کہا)۔ (راوی حضرت ام سلمیٰ، ابوداؤد)
6- رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا تمہارے پاس حنا موجود ہے۔ یہ تمہارے سروں کوپرنورکرتی ہے۔ (حضرت واثلہ، ابن عساکر)
7- رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ایک خاتون سے فرمایا ’’(پہچان کے لئے) تم کم از کم اپنے ناخن حناء سے رنگ لیتیں‘‘۔ (راوی، حضرت عائشہ،ابوداؤد)
8- رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ’’یہ (حنا) جوانی کو بڑھاتی ہے اورحسن میں اضافہ کرتی ہے‘‘۔ (راوی حضرت انس بن مالک، ابو نعیم)
9- ناک میں قسط الہندی ڈالنا۔ یہ دریائی ہوتی ہے۔ اسے کست بھی کہتے ہیں۔ جیسے کافوراور قافور۔ (باب 405۔کتاب الطب، بخاری)
10۔ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی ایک صاحبزادی کاانتقال ہوا تو آپ باہر آئے اور فرمایا کہ ’’تین یاپانچ یا اس سے زیادہ بار اسے نہلاؤ۔پانی اور سدر سے او ر آخر میں کافور (قافور) چھڑکو (لگاؤ)۔ (راویہ ،حضرت ام عطیہ، کتاب الجنائز، بخاری)

(ماخذ۔نباتات قرآن۔ ایک سائنسی جائزہ۔ از ڈاکٹر اقتدار فاروقی۔سدرہ پبلیشرز۔ شاہد اپارٹمینٹس۔ گولا گنج۔لکھنؤ۔226018 Email:[email protected]; Tel; 0522-2610683))

تأثرات - حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی۔ بعض پودوں کے تشخص میں انہوں نے کچھ نئی باتیں بتائی ہیں جن سے بعض گرہیں کھلتی ہیں اور بعض الجھنیں دور ہوتی ہیں۔ خاص طور پر سدرؔ اور کافور کی وضاحت اور تشخص میں انہوں نے نئی اور مفید باتیں لکھی ہیں

تأثرات۔۔مولانا محمد رابع حسنی ندوی، صدر آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ

ڈاکٹر محمد اقتدار حسین فاروقی صاحب نے قرآن مجید میں بتائی ہوئی متعدد اشیاء کے سلسلے میں بہت عالمانہ تحقیق کی ہے اور ایسی تحقیقات پیش کی ہیں جن سے قرآن مجید کی تفسیر کرنے والوں کی متعدد الجھنیں یکسر دور ہوجاتی ہیں اور قرآن مجید نے جو بعض گہرے حقائق بتائے ہیں ان سے دھندلکے کاپردہ اٹھ جاتا ہے۔ سدرہ، کافور اور زقوم کی تحقیق اس سلسلے میں خاص طور سے بطور مثال پیش کی جاتی ہیں
تأثرات۔۔ مولانا ڈاکٹر کلب صادق نائب صدر آل انڈیامسلم پرسنل لاء بورڈ

میں اس کتاب کے مطالعہ سے بہت متاثر ہوا میرے خیال میں اس موضوع پر کوئی کتاب ابھی تک اس عنوان سے تحریر میں نہیں ہے یا کم از کم میرے زیر مطالعہ نہیں آئی ہے۔کتاب کا اسلوب خالص تحقیقی ہے اور مصنف نے اس میں اتنی جفا کشی اور تندہی کی ہے جو بغیر’’ عشق‘‘ کے مشکل ہے

Dr. M.I.H. Farooqi,
About the Author: Dr. M.I.H. Farooqi, Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.