جادو،ٹونہ،آسیب،نظرِبد،نفسیاتی اور روحانی مسائل وامراض
ابتدائے آفرینش سے بنی نوعِ بشری کولاحق ہیں، لیکن آج کل کچھ زیادہ ہی پوری
دنیا میں یہ چیزیں عام ہوگئی ہیں،مختلف مذاہب،ادیان اور تہذیبوں میں ان سے
بچاؤاور خلاصی کے اپنے اپنے طریقے اورٹوٹکے ہیں،قرآن وسنت نے اس میں
انسانیت کی بھر پور رہنمائی کی ہے،کلامِ پاک اور حدیث میں وارد ادعیۂ
ماثورہ ،طب نبویﷺ میں منقول مختلف دوائیں اور اعمالِ صالحہ وذکراذکار کے
ذریعے علاج بھی ثابت ہے، بدقسمتی سے مستند علماء واطباء کے بجائے یہ کام
زیادہ ترنااہل لوگ اورباطنی علوم بالکل ناواقف عامل انجا م دے رہے ہیں، یہ
لوگ’’مرض بڑھتاگیا جوں جوں دواء کی‘‘کے مصداق ہیں،کمزور عقیدے کے لوگ ،خاصکر
مصائب زدہ خواتین ان کے دامِ تزویرمیں بڑی آسانی سے پھنستی ہیں،بسا اوقات
یہ ایسی نازیباجنسی ومالی سکینڈلزاور حرکات کے مرتکب ہوجاتے ہیں کہ اﷲ کی
پناہ ،مگر آٹے میں نمک کے برابر کچھ مخلص ،ہمدرداور اہلیت رکھنے والے لوگ
بھی ہیں۔
اسی حوالے سے اور بعض دیگرامور کے متعلق گزشتہ دنوں ہماراایک سفرتھا، جہاں
شامزئی ٹرسٹ انٹرنیشنل کے زیر اہتمام اسلام آباد میں منعقدہ ’’روحانی
اجتماع‘‘ میں شرکت کا موقع ملا،کراچی سے مفتی رحمان الدین شامزئی،پیر یاسر
عرفات المعطر،ڈاکٹر ناظر حسین اور سید عامر علی رفقائے سفرتھے،اسلام آباد
ایئر پورٹ سے سیدھے ہم دس بجے اجتماع گاہ پہنچے،لاہور ،گجرانوالہ،سیالکوٹ ،مظفر
آباد،مانسہرہ،مردان ،سوات اور پشاور جیسے دور دور شہروں سے بھی مریض آئے
ہوئے تھے،تلاوت ِ کلامِ پاک اور نعت ِرسول ِمقبولﷺکے بعدحضرت مفتی نظام
الدین شامزئی شہید کے برادرِخورد اور دنیائے عملیات کے ماہرمفتی رحمان
الدین کے روحانی علوم اور علاج کے سلسلے میں افتتاحی اور مفصل خطاب کے
بعدبطورِ مہمان خصوصی احقر کو دعوت خطاب دی گئی،ہم نے استشفاء
بالقرآن،روحانی علاج اورطب نبویﷺ کی ضرورت ،اہمیت،افادیت اورتاثیر پر قرآن
وسنت کے تناظر میں بات کی،ان تینوں عنوانات پرکلام اﷲ،سیرت نبویﷺ اور سیر
الصحابہؓ میں سے چیدہ چیدہ مثالیں پیش کیں،ان کا باہمی ربط اور جوڑبیان
کیا،جدید دنیا اوربالخصوص مصرمیں ان طرق ِعلاج وتداوی پر جوتحقیقات ہوئی
ہیں،ان کا ماحصل سامعین کے گوش گزار کیا، ڈاکٹر ناظر حسین نے طب نبویﷺ میں
اپنی اسپیشلائزیشن کی وجہ سے صرف اسی موضوع پر اپنے تجربات اور جدید سائنس
کی تحقیقات پر خاصی دلچسپ اور مدلل گفتگو فرمائی،استغفار،درودشریف،اور دیگر
ذکرواذکار میں سائنسی تجربات سے محسوسات اور مشاہدات کی شکل میں ثابت شدہ
تاثیرات کی انگنت امثال بیان کیں، آخر میں شامزئی صاحب اور ڈاکٹر صاحب نے
دیر تک حاضرین و ناظرین کے سوالات کے جوابات دئے، اس موقع پر ہم نے ڈاکٹر
صاحب کے لیے اپنی جامعہ ’’عریبک لینگویج اوپن یونیورسٹی پاکستان‘‘ کی طرف
سے طب نبویﷺ میں اعزازی ڈاکٹریٹ کی ڈگری کا اعلان بھی کیا،یوں یہ
مبارک،پررونق اور روح پرور اجتماع پیر یاسر عرفات المعطرکی پر سوز دعاؤں سے
تقریبا تین بجے سہ پہر اختتام پذیر ہوا،المعطر ایک’’درود نیٹ ورک‘‘ بھی
چلاتے ہیں،جہاں روزانہ کم از کم ایک لاکھ مرتبہ مختصر ترین درود شریف:(صلی
اﷲ علیہ وسلم)پڑھاجاتاہے اور پڑھنے والا ہر فرد نیٹ ورک کے تمام ساتھیوں کے
لئے اﷲ تعالی کے یہاں قبولیت میں زوداثردعاء الغائب للغائب کے طور پر
100بار درود شریف کی سعادت حاصل کر کے دعا کر تاہے،نکتے کی بات یہ ہے کہ
کوئی بھی اس نیٹ ورک کا حصہ بن سکتاہے ۔نبی کریم ﷺکی رسالت کے تین بنیادی
مقاصد تھے ۔تلاوت آیاتِ کلامِ پاک،تعلیم ِ کتاب وحکمت اور تزکیۂ نفوس ،یہ
تینوں فرائضِ نبوّت امت مسلمہ پر بھی بطور فرضِ کفایہ عائد ہیں ،اکابر امت
نے ان تینوں فرائض کی ادائیگی میں پوری توجہ اور کوشش مبذول فرمائی ،
چنانچہ حضرت مولانا سیّد سلیمان ندوی رحمۃ اﷲ علیہ ’’مولانا محمد الیاس ؒ
اور ان کی دینی دعو ت‘‘ کے مقدمے میں لکھتے ہیں ـ:
ــ’’ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان تینوں فرائض کو بحسن وخوبی انجام
دیا ،اورلوگوں کو احکام الہی اور آیات ربانی پڑھ کر سنائیں ، اور ان کو
کتاب الہی اور حکمت ربانی کی باتیں سکھائیں ،اور اسی پر اکتفانہ کیا ،بلکہ
اپنی صحبت فیض تاثیر اور طریقۂ تدبیر سے پاک وصاف بھی کیا ، نفوس کا تزکیہ
فرمایا، قلوب کے امراض کا علاج کیا ،اور برائیوں اور بدیوں کے زنگ اور میل
کو دور کرکے اخلاق ِانسانی کو نکھارا اور سنوارا،یہ دونوں ظاہری اور باطنی
فرض یکساں اہمیت سے ادا ہوتے رہے ،چنانچہ صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین
اور ان کے بعد تابعین اور پھر تبع تابعین کے تینوں طبقوں تک یہ دونوں ظاہری
وباطنی کام اسی طرح توأم اور جُڑے رہے ، جواستاذ تھے وہ شیخ بھی تھے اور جو
شیخ تھے وہ استاذ بھی تھے ،وہ جو مسند درس کو جلوہ دیتے تھے ،وہ خلوت کے شب
زندہ دار اور اپنے ہم نشینوں کے تزکیہ وتصفیہ کے بھی ذمہ دار تھے ،ان تینوں
طبقوں میں استاذ اور شیخ کی تفریق نظر نہیں آتی تھی۔
اس کے بعد وہ دور آنا شروع ہو اجس میں اہل تدریس باطن کے کورے اور اہل باطن
کے روشن سلسلے ظاہر سے عاری ہونے لگے ،اور عہد بہ عہد ظاہر وباطن کی یہ
خلیج بڑھتی ہی چلی گئی تاآنکہ علوم ظاھر کیلئے مدارس کی چہاردیواری اور
تعلیم وتزکیۂ باطن کے لئے خانقاہوں اور باطوں کی تعمیر عمل میں آئی ،اور وہ
مسجد نبوی ۔۔علی ٰصاحبہ الصلاۃ والسلام ۔۔ جس میں یہ دونوں یکجا تھے ،اس کی
تجلیات مدرسوں اور خانقاہوں کے دوحصوں میں تقسیم ہوگئیں ،جس کا نتیجہ یہ ہو
اکہ مدارس سے علمائے دین کی جگہ علمائے دنیا نکلنے لگے اور باطن کے مدعی
علم وشریعت کے اسرار وکمالات سے جاہل ہوکر رہ گئے ۔
تاہم اس دور کے بعد بھی ایسی مستثنی ہستیاں پیدا ہوتی رہیں جن میں نور
نبوّت کے یہ دونوں رنگ بھرے ہوئے تھے ،اور غور سے دیکھۓ تو معلوم ہوگا کہ
اسلام میں جن بزرگوں سے فیوض پہنچے اور پھیلے ،وہ وہی تھے جو ان دونوں کے
جامع تھے ، امام غزالی رحمۃ اﷲ علیہ جن سے علوم معقول ومنقول نے جلوہ پایا،
علم حقیقت نے بھی انہی کے ذریعہ ظہور پایا ۔حضرت شیخ سہروردی رحمۃ اﷲ علیہ
ایک طرف شیخ طریقت ہیں تو دوسری طرف مدرسہ نظامیہ کے مدرّس ،حضرت شیخ عبد
القادر جیلانی رحمۃ اﷲ علیہ امام وقت اور شیخ طریقت دونوں ہیں ،یہاں تک کہ
وہ لوگ جن کو علمائے ظاہر سمجھا جاتاہے ،جیسے حضرات محدثین : امام بخاری
رحمۃ اﷲ علیہ ، احمد بن حنبل رحمۃ اﷲ علیہ ،سفیان ثوری رحمۃ اﷲ وغیرہ وہ
بھی اس جامعیت سے سرفراز تھے ،متوسطین میں علامہ ابن تیمیہ رحمۃ اﷲ علیہ
اور حافظ ابن رقیم رحمۃ اﷲ علیہ کو ناواقف باطن سے خالی سمجھتے ہیں
،حالانکہ ان کے احوال وسوانح ان برکات باطنی سے لبریز تھیں ،ابن قیم رحمۃ
اﷲ علیہ کی ’’مسالک السالکین ‘‘ وغیرہ کتابیں پڑھیے تو اندازہ ہوگا کہ وہ
آرائش ظاہر اور جمال باطن دونوں سے آراستہ تھے ۔
ہندوستان میں جن بزرگوں کے دم قدم سے روشنی پھیلی ،وہ حقیقت میں وہی تھے جن
کی ذات میں مدرسہ اور خانقاہ کی جامعیت تھی، کہ وہ اسوۂ نبوّت کے قریب
ترتھے ،اس لئے ان کا فیض بعید سے بعید ترحصے تک پھیلتا چلاگیا،آسمان دلی کے
مہر وماہ اور تارے شاہ عبدالرحیم رحمۃ اﷲ علیہ سے لے کر شاہ اسماعیل شہید
رحمۃ اﷲ علیہ تک کو آپ ایک ایک کرکے دیکھیں تو ظاہر وباطن کے علوم والوں کی
یکجائی کانظارہ آپ کوہر جگہ ہوگا،اور اس سے ان کی علمی وروحانی برکات کی
وسعت کی حقیقت آشکارا ہوجائے گی۔وہ علوم کی تدریس میں ’’یعلمھم الکتاب
والحکمۃ ‘‘ کا جلوہ دکھاتے تھے ،اور حجروں میں بیٹھ کر ’’یزکیھم ‘‘ کی جلوہ
ریزی فرماتے تھے ،پھر ان کے بعد ان کے فیوض وبرکات کے جوحامل ہوئے ،نشاندہی
کی چند اں ضرورت نہیں ، ان سے دنیا کو فیض پہنچا اور دین کی اشاعت ،تبلیغ
او رقلوب کے تزکیہ وتصفیہ کا جوکام انجام پایا،وہ بھی ظاہر وباطن کی اسی
جامعیت کے آئینہ دارتھے اور آئندہ بھی سنن الہیہ کے مطابق دین کا فیض جن سے
پھیلے گا ،وہ وہی ہوں گے جن سے مدرسیت اور خانقاہیت کی دوسوتیں ایک چشمہ بن
کر بہیں گی ،آنکھوں کا نور ، شب بیداری سے بڑھتاہے ، اور زبان کی تأثیر ذکر
کی کثرت سے پھیلتی ہے ،رات کے راہب ہی اصل میں دین کے سپاہی ثابت ہوئے ہیں
، سوانح وتراجم کا سیزدہ صد سالہ دفتر اس دعوت کا شاہد ہے ،زبان کی روانی
اور قلم کی جولانی ، دل کی تابانی کے بغیر سراب کی نمود سے زیادہ نہیں
،خواہ وہ اس وقت کتناہی تابناک نظرآتاہو، مگر وہ مستقل اور مستقبل میں وجود
سے محروم ہے‘‘ ۔بہرحال عوام کو چاہئے کہ عملیات ہوں یا اوراد واذکار،شریعت
ہو یا طریقت اس کے ماہرین سے رجوع کیا کریں، تاکہ ظاہر وباطن میں ہر طرح کے
فواائد وفیوضات سے مستفید ہوں۔ |