کہتا ہوں وہی بات سمجھتا ہوں جسے حق
نہ ابلہِء مسجد ہوں ،نے تہذیب کا فرزند
کہتے ہیں کہ کسی علاقے میں دہشت گردی زوروں پر تھی اور ظالم اور سفاک لوگ
بے گناہ انسانوں کو کتوں کی طرح ہلاک کر رہے تھے تو وحشت اور بربریت کے اس
ماحول سے بھاگتے ہوئے ایک کتے نے بیٹھے ہوئے ایک اور کتے سے کہا کہ بھاگ
پگلے بھاگ، ورنہ آدمی کی موت مارا جائے گا۔ اور یہ بات آج کل کے حالات پر
بالکل ُفٹ آتی ہے۔ لہذا اس نے ٹھیک ہی کہا تھا۔
دیکھو، تمام نبی، رسول، امام ، ولی، گرو، اوتار اور مفکر انسانوں کو صحیح
انسان بنانے، اُن کو خدا کی پہچان کرانے اور اُن کا خدا سے رابطہ جوڑنے آئے
تھے۔سب نبیوں،رسولوں، اماموں، ولیوں، گرووَں، اوتاروں کا ایک ہی مقصد تھا
کہ بندوں کو خدا کی پہچان کرائی جائے، معاشرے کی اصلاح کی جائے، تمام
انسانوں کو صحیح انسان بنایا جائے اور انہیں باہمی پیار محبت، انصاف ، اصول
قانون کی پابندی، رواداری اور اعتدال کے ساتھ زندگی گزارنا سکھایا جائے۔
اور دنیا کو جنگ و جدل، فسادات اور لاقانونیت سے پاک، امن و سکون کا گہوارہ
بنایا جائے۔ لیکن اُن کے بعد آنے وا لے لوگوں نے اپنی خود پسندی، خود غرضی
اور اپنے اپنے مفادات کی خاطر مختلف فرقے بنالیے۔ اور دولت اور اقتدار پر
گروہی اجارہ داری قائم کر لی۔ اور یوں نبیوں، رسولوں، اماموں، ولیوں،
گرووَں، اوتاروں اور مفکروں کا مشن ختم ہو کر رہ گیا۔ اور دنیا پھر سے
دوبارہ جنگ و جدل، فسادات، لاقانونیت اور جرائم کا گڑھ بن گئی اور زندگی
پھر سے جہنم کا نمونہ بن گئی۔
دیکھو، انسان ایک معاشرتی حیوان ہے اور اُسے زندگی گزارنے کےلیے آپس میں مل
جل کر رہنا اور ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہونا پڑتا ہے۔ ایک دوسرے کے
ساتھ رحم و کرم، انصاف اور حسنِ ا خلاق کا برتاوَ کرنا پڑتا ہے تاکہ زندگی
امن و سکون کے ساتھ گزر سکے۔ لیکن کچھ جاہل، وحشی، خود غرض اور ظالم فطرت
انسان دوسروں کی زندگی کو اپنی خودغرضیوں، برائیوں اور مجرمانہ ذہنیت کی
وجہ سے ٰعذاب بنا دیتے ہیں۔ اس لیے نبیوں، رسولوں، گرووَں، اوتاروں نے
شریعتیں بنائیں اور مفکروں نے قانون، اصول بنائے تا کہ ان جرائم پیشہ افراد
کو سخت سزائیں دے کر کنٹرول کیا جا سکے اور قانون اصول کے ذریعے جرائم کا
خاتمہ کیا جا سکے اور دنیا کو امن کا گہوارہ بنا کر زندگی کو پرُسکون اور
جنت کا نمونہ بنایا جا سکے-
دیکھو، نبیوں،رسولوں، اماموں، ولیوں، گرووَں، اوتاروں نے اپنے اپنے زمانے
اور اپنے اپنے حالات کے مطابق معاشرے کی اصلاح کیلئے اپنے اپنے طریقے سے
اپنے اپنے مذہب بنائے، شریعتیں بنائیں، اور ٹھیک ٹھیک قوانین بنائے تاکہ
انسان صحیح انسان بنے اور اب بھی تمام مذاہب اور فرقوں والے اپنے اپنے
دلائل دیتے اور خود کو صحیح ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن مجھے جنابِ
عیسٰی علیہ السلام کی یہ بات بہت پسند ہے کہ میں قربانی نہیں مانگتا چاہتا
بلکہ رحم مانگتا چاہتا ہوں۔ اور آپ نے اپنی زندگی میں اپنی یہ بات ثابت کر
دکھائی کہ آپ نے اپنی سزائے موت پر ذرہ بھر بھی احتجاج نہ کیا اور نہ ہی
کسی سے کوئی بدلہ مانگا۔ اس لیے آپ کی وفات کے بعد آپ کا مذہب بڑی تیزی سے
پھیلا۔ کیونکہ آپ نے عدم تشدد اور معافی کا طریقہ اپنایا تھا۔ اسی طرح
بھارت کے مہاتما گاندھی نے بھی عدم تشدد اور اہنسا کا اصول اپنایا گو کہ اس
میں خود اُنہیں اپنی جان سےبھی ہاتھ دھونے پڑے۔ اسی طرح حضرت محمدصلی اللہ
علیہ و آلہ والسلم نے بھی اپنے صحابہ سے پیار محبت سے رہ کر اور غیروں سے
رواداری کا اصول اپنا کر دکھایا اور اُنہیں معاف کیا۔ اور ذاتی معاملات میں
کبھی کسی سے انتقام نہ لیا۔ نیز فرمایا کہ جو کسی پر رحم نہیں کرتا، اس پر
رحم نہیں کیا جاتا۔نیز آپ نے اپنے ایک صحابی حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ
سے فرمایا: میں کسی کے متعلق اپنے دل میں مَیل نہیں رکھتا، یہ میرا طریقہ
ہے۔ جو بھی میرے طریقے پر چلے گا وہ جنت میں جائے گا۔ اے ابوہریرہ، تم بھی
کسی کے متعلق اپنے دل میں میل نہ رکھو، تم بھی جنت میں جاوَ گے۔ اس لیے
ہمیں بھی امن سکون حاصل کرنے کیلئے تحمل و بردباری، عفو و درگزر اور صلح کل
کا اصول اپنانا ہو گا۔
دیکھو، دنیا میں امن قائم کرنے کیلئے اقوامِ متحدہ بہت اچھا اور اہم کردار
ادا کر رہی ہے جس میں زیادہ تر غیر مسلم شامل ہیں۔ سوچو کہ بچوں کو تعلیم
نہ دلوانا، اُن سے مشقت لینا اور معصوم بچیوں کے ساتھ جنسی تشدد کرنا،
عبادت گاہوں، درسگاہوں، جنازوں، اور بھرے بازاروں میں خود کش بم دھماکے
کرنا، کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال کر کے بے گناہ لوگوں کو قتل کرنا کہاں
کی انسانیت ہے۔ حالانکہ تمام دین مذاہب انسانوں میں صحیح انسانیت اور تہذیب
پیدا کرنے آئے تھے۔ کیونکہ اگر سونے سے "سونا پن" ہی نکال لیا جائے تو وہ
ایک ادنٰی دھات ہی بن کر رہ جاتا ہے۔ اسی طرح اگر انسانوں میں شرفِ انسانیت
ہی نہ رہے تو وہ جنگل کے وحشی اور درندے بن کر رہ جاتے ہیں۔ اگر چہ تمام
مذاہب، ہندو، سکھ، بدھ مت، تاوَمت، عیسائی، یہودی، مسلمان، پارسی وغیرہ
مشرق میں ہی آئے تھے اور مشرق والوں ہی نے دنیا کو خدا کی پہچان کرائی اور
انسانیت کی تہذیب سکھائی ہے لیکن آج کل مشرقی لوگوں کی نسبت مغربی لوگ، خاص
طور پر امریکہ، یورپ کے عیسائی لوگ انسانیت کی بھلائی میں پیش پیش ہیں اور
وہ دنیا بھر کے انسانوں کے دکھ درد کو اپنا دکھ درد سمجھتے اور زلزلوں،
طوفانوں، جنگوں، اور وباوَں میں دوسروں کی مدد کرتے ہیں۔ اور قرآن مجید کی
سورۃ المائدہ کی آیات ۸۲ -۸۴ اور سورۃ بنی اسرائیل کی آیات ۱۰۷-۱۰۸ کا یہی
مطلب ہے کہ وہ نرم دل ہوتے ہیں۔
یہی ہے عبادت، یہی دین و ایماں
کہ کام آے دنیا میں انساں کے انساں
ہند میں حکمتِ دیں کوئی کہاں سے سیکھے
نہ کہیں لذتِ کردار ہے نہ افکارِ عمیق
میں اُٹھا مدرسہ و خانقاہ سے نمناک
نہ محبت، نہ معرفت، نہ عفت ،نہ نگاہ
فقط و السلام۔ الداعی الی الخیر۔
بانی ءتحریک انسانیت:
طالب حسین بھٹی، ایڈووکیٹ،
میلسی، ضلع وہاڑی، پنجاب، پاکستان |