اتباع ۔۔۔۔یا۔۔۔۔ عشق؟؟؟

محمدؐ ۔۔۔۔ کیسا میٹھا نام ہے کہ لب پہ آتے ہی مٹھاس گھل جاتی ہے اور جسم و روح کا رواں رواں سرشار ہوجاتا ہے۔ محمدؐ ۔۔۔۔ جن کے تذکرے پر قلب و نظر آستانِ عقیدت پر سجدہ ریز ہو جاتے ہیں۔ محمدؐ ۔۔۔۔ جن کا ذکر دلوں کی تابندگی اور فرحت کا باعث ہے۔ محمدؐ ۔۔۔۔ جن کا آستانِ حیات ہر لمحے مردہ دلوں کو حیاتِ جاوداں بخش رہا ہے۔ اگر ہمارے عمل ان کے عمل کے مطابق ہو جائیں تو ہماری زندگی کی تاریک راتیں سحر کے اجالے میں تبدیل ہو جائیں گی۔
محمدؐ ۔۔۔۔۔۔۔۔ مجموعہ ہے
م: مہربانی
ح: حمد
م: محبت
م: مروت
د: درد مندوں کے لیے دوا،دعا

کون ہے اس جہاں میں جو آپکی عظمتوں کا معترف نہیں؟ کئی غیر مسلم آپؐ کو خراجِ تحسین پیش کر چکے ہیں۔

مگر آپکی توصیف وثنا کا حق ربِ کائنات کے سوا کون ادا کر سکتا ہے؟ کوئی ہے؟ نہیں کوئی نہیں ہے۔

آپؐ عرب کے ظلم و نا انصافی کے تپتے ہوئے ریگ زار میں ابرِ کرم بن کر آئے۔آپؐ کی آمد سے عرب کا صحرا نخلستان میں تندیل ہو گیا یہاں ایسے پھول کھلے جن کی مہک سے ساری دنیا معطر ہو گئی ۔ آپؐ کی آمد سے تقدیرِ عرب کی تاریک شب صبح کے جانفزا اجالے میں تبدیل ہو گئی۔ جہالت کے اندھیرے چھٹ گئے اور علم کی ایسی شمع جلی جس سے سارا عالم جگمگا اٹھا۔

غرض کہ وہ عرب معاشرہ جسکی کوئی کل سیدھی نہ تھی، جہالت پہ فخر کیا جاتا،شراب نوشی اور جوا عام تھا، بے ہودہ اور لغو شاعری کا رواج تھا۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر قتل و غارت گری کا بازار گرم ہو جاتا اور یہ سلسلہ پشت ہا پشت چلتا۔ بت پرستی عام تھی، کعبہ شریف میں تین سو ساٹھ بت رکھے تھے۔غلاموں اور عورتوں کو کوئی حقوق حاصل نہ تھے۔ بیٹی کی پیدائش پر باپ منہ چپھائے پھرتا۔ بیٹیوں کو زندہ در گور کر دیا جاتا۔گویا اس عرب میں انسانیت آخری ہچکیاں لے رہی تھی،عربوں کی بر ائیوں کے بوجھ تلے کراہ رہی تھی۔ آپؐ کی تعلیمات کی بدولت تیئس سال کے قلیل عرصے میں دنیا کا سب سے مہزب اور متمدن معا شرہ بن گیا۔ عرب معا شرے میں ایسا انقلاب رونما ہوا جس نے دنیا کی کایا پلٹ کے رکھ دی۔

عرب معا شرے کو آپؐ نے ایسے آفاقی قوانین سے روشناس کرایا جس سے عرب معاشرے کا شمار دنیا کے بہترین معا شروں میں ہونے لگا۔علم کی روشنی چہار سو پھیل گئی۔خون کے پیاسے اہلِ عرب بھائی بھائی بن گئے۔ مساوات و اخوت کی عمدہ مثالیں دیکھنے کو ملیں۔توحید کا پر چار ہوا۔ غلاموں اور عورتیں کے حقوق مقرر کیے۔ بیٹیوں کو وجئہ ڑحمت قراردیا گیا۔ مزہبی رواداری کو فروغ ملا۔رفاہ عامہ کے کام کیے گئے۔ باہم دست و گریبان رہنے والے یک جان و یک قالب ہو گئے۔

یہ سب کیونکر ممکن ہوا؟یہ سب ممکن ہوا آپؐ کے نرمیِ گفتار کی بدولت ،،، آپؐ کی شفقت و محبت کی بدولت،،، آپؐ کی امانت داری و سچائی کی بدولت،،، آپؐ کی عاجزی و انکساری کی بدولت،،، آپؐ کی صبر و شکر گزاری کی بدولت،،، آپؐ کی پیغامِ حق پہنچانے کی سچی لگن اور سچی تڑپ کی بدولت۔۔۔ آپؐ کے کردار کی خوبیاں کیا کسی کے احاطہء تقریرو تحریر میں آ سکتی ہیں؟ ـــــ ناممکن۔

مگر درج بالا بیان کی گئیں آپؐ کی خوبیوں میں سے کوئی ہم میں موجود ہے؟؟؟ ہم کیسے امتی اور پیروکار ہیں اپنے نبیؐ کے جن کی خوبیاں غیر تو اپنائے اور ہم نہ اپنائیں؟؟؟ کیوں ہماری سیرت و کردار آپؐ کے کردار کے سانچے میں نہیں ڈھل جاتی؟؟؟ کیوں ـــ آخرکیوں؟ کیوں ہم محبت کا دم تو بھرتے ہیں محبت کے تقاضوں پر پورا نہیں اترتے؟؟؟ کیا کوئی جواب ہے ہمارے پاس؟

خاموشی ـــــــــــ شرمندہ خاموشی ـــــــــــــ ندامت بھری خاموشی۔ وہ خاموشی جس میں ندامت کا احساس تو ہے مگر عمل کا جذبہ نا پید و مفقود۔۔۔۔۔۔۔۔

کیا ہم آپؐ سے عشق کے خالی دعوے کرنے سے عاشق بن سکتے ہیں؟؟؟ خام خیالی ہے ہماری۔

جیسے جیسے تقریر آگے بڑھ رہی تھی، احمد کی آواز بلند ہوتی جا رہی تھی ایک درد اور تڑپ اسکے لہجے سے عیاں تھی۔ ہال میں اتنی خاموشی تھی کہ سوئی گرنے کی آواز بھی سنی جاسکتی تھی۔

بلفرض اگر یہاں ہم اپنے آپ کو عاشق باور کروا بھی لیں تو کیا میدانِ حشر میں ہم آپؐ کے عاشقوں کی صف میں کھڑ ے ہوں گے، سچے عاشقوں کی صف میں؟؟؟آپؐ سے ہمارا عشق ثبوت مانگتا ہے۔ کیا ثبوت ہے ہمارے پاس؟ یہی خام دعوے ــــــ یہی بے عملی؟؟؟

نہ ہم اتباع کے مفہوم سے واقف ہیں نہ عشق کے ـــــ محبت بغیر اتباع کے بے کار ہے اور اتباع بغیر عشق کے لا یعنی۔ ہم اتباع اور عشق دونوں میں خام ہیں۔ ہم عشق کا دعوی تو کرتے ہیں مگر اتباع نہیں کرتے۔ اگر ہم اتباع کرتے ہیں تو عشق کیوں نہیں کرتے ہیں؟

افسوس ـــــ کیسے عاشق ہیں ہم کہ عشق کا ثبوت نہیں رکھتے۔

یہ سیرتِ مصطفٰیؐ کانفرنس کا منظر تھا۔ہال میں تل دھرنے کی جگہ نہ تھی۔ نامی گرامی مقررین اپنا سکہ بیٹھا چکے تھے۔ حاضرین نے بھی داد دینے میں کنجوسی سے کام نہیں لیا تھا۔ کانفرنس میں ایلیٹ کلاس موجود تھی۔ مقررین نے ایسی باتیں کہنے سے گریز کیا جو ان پر گراں گزرتیں۔ احمد نے تمام مقررین کی تقاریر سنیں مگر وہ کچھ مضطرب دکھائی دے رہا تھا۔ بالاخر وہ اٹھا اور اسٹیج کی طرف بڑھا۔ اسٹیج سیکرٹری نے اسے روکنے کی کوشش کی مگر عزم کے سامنے ہار مان گیا۔ احمد نے ایک طائرانہ نگاہ کانفرنس کے شرکا پر دوڑائی مگر تکلیف کی ایک لہر سارے جسم میں دوڑ گئی۔یہ سیرت النبیؐ کانفرنس تھی جہاں خواتین و حضرات فرائض و سنتوں سے انحراف کیے ہوئے تھے۔ جہاں مقررین بھی حاضرین کی غلط روش کو درست قرار دے رہے تھے۔ یہاں کون اسکے صاف اور سادہ الفاظ کو سننا پسند کرتا۔ حاضرین دنگ تھے اور مقررین دم بخود اس نوجوان کو دیکھ رہے تھے۔ احمد جانتا تھا کہ حاضرین پر اسکی باتیں ناگوار گزر رہی تھیں مگر اسے تو اپنا فرض نبھانا تھا۔ اسکے والدین نظریں چرا رہے تھے وہ کیا کرتے انکا بیٹا تھا ہی ایسا ــ سب سے انوکھا ــــ سب سے عجیب۔

احمد نے تقریر ختم کی اسٹیج سے اترا اور ہال سے باہر نکل گیا۔ اس نامعلوم مقرر کو کوئی نہیں جانتا تھا۔ اس نے کبھی تقریر نہیں کی تھی۔ مگروہ درد، کسک،تڑپاور سوز سے مالا مال تھا۔ اگرچہ اسکی تقریر کو لوگوں نے سراہا نہیں تھا مگر اسکی تقریر لوگوں کے ذہنوں پر انمٹ نقوش چھوڑ گئی تھی۔

Dua
About the Author: Dua Read More Articles by Dua: 2 Articles with 2008 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.