زید اپنے بیڈروم گیا اور بیوی سے کہنے لگا۔
زید : جلد تیار ہو جاؤ۔ ورنہ شادی کے لئے ہم لیٹ ہو جائیں گے۔
پروین : بس ، تھوڑی دیر میں باہر آرہی ہوں۔
زید : تم ویسے ہی بہت خوبصورت ہو۔ اب جلدی چلو ۔
پروین : جی۔
پروین صبح سے پریشان تھی ۔ کیونکہ اُسکے پانچ تولے کا نیکلیس (Necklace)
زُلیخا (ساس) نے مانگ لیا تھا۔حالانکہ وہ ہار پروین پہننے والی تھی۔یوں تو
زُلیخاکے پاس دو چار ہار اور تھے مگر وہ جان بوجھ کر اُسکا دل دُکھا رہی
تھی۔پروین کمرے سے تیار ہو کر نکلی۔ تو اُسکی نظر زُلیخا کے گلے پر
پڑی۔اپنے نیکلیس کو دیکھ ہی رہی تھی کے زُلیخا شروع ہوگئی۔
زُلیخا : ہوگئیں تیار ۔ دو تین گھنٹے تو تمہیں تیار ہونے میں کم لگتے ہیں۔
زید : بات کاٹتے ہوئے۔ چلو امّی بہت دیر ہورہی ہے۔
زُلیخا نے پروین کا جینا حرام کر رکھا تھا بات بات پر اُسے ٹوکتی تھی۔
پروین کا دل جل گیا تھا۔ اُس نے دانت پیستے ہوئے دل ہی دل میں کہا تھا کے
اِنکے گلے سے نیکلیس چوری ہو جائے اور سب ان کو لان تان کریں۔پروین کو زید
سے بڑی محبت تھی اور زید بھی اِسکا بڑا خیال رکھتا تھا اس وجہ سے پروین اب
تک گھر ٹِکی ہوئی تھی ورنہ کب کی چلی جاتی۔زید کی محبت نے اُسے زلیخا سے
زبان درازی سے روکے رکھا تھا۔جب بھی دل بھر آتا اکیلے میں رو دھو کر صبر کر
لیتی۔
ایک سال پہلے ہی پروین کی شادی ہوئی تھی۔ پروین ایک اچھے خاندان کی لڑکی
تھی۔ اس کے والد حیدرعلی، تحصیلدار آفس میں ہیڈ کلرک تھے۔ بڑے ایماندار
تھے۔ اخراجات اور آمدنی کی کھینچا تانی کے باوجود گھر گِرہستی اچھی طرح سے
چلا رہے تھے۔ایک لڑکا ، دو لڑکیاں، بیوی اور بوڑھی ماں کے علاوہ دو بیاہی
بہنیں بھی تھیں۔جو اکثر بھائی کے گھر آتی تھیں۔اور انہیں کچھ نہ کچھ دے کر
ہی سسرال بھیجنا پڑتا تھا۔ پروین بچوں میں سب سے بڑی تھی۔ چھوٹی بہن شائستہ
دسویں جماعت میں تھی اور بھائی وسیم آٹھویں جماعت میں۔ ماں باپ کو اعلیٰ
تعلیم دلانے کا شوق تھااور بچّے بھی بڑے ذہین تھے۔ پروین نے کالیج میں
داخلہ لے لیا تھا ۔ وہ جانتی تھی کہ اُسکے ابّو کن مشکلات سے دو چار ہو کر
اُسے کالیج میں پڑھا رہے ہیں۔وہ اپنے ابّو کے خوبصورت چہرے پر پریشانیوں کے
بل ہمیشہ دیکھتی۔ امّی (زینت) کیا کرتی۔کم پڑھی لکھی تھی۔ پروین ہر وقت
اپنے ماں باپ کے بوجھ کو بانٹنے کی کوشش کرتی رہتی۔ اِسکا ارادہ تھا کے وہ
بی۔ اے پاس کرکے سِول سروِس امتحان کی تیاری کرے اور افسر بنے۔
ایک دن پروین نے اپنے ابّو سے کہا۔
پروین : ابّو ، آپ دیکھنا ایک دن میں سِول سروِس کی امتحان پاس کرکے افسر
بنوں گی۔
حیدر علی : بیٹی ، تم ضرور افسر بنو گی۔
پروین : سنجیدہ ہو کر ، ابّو میں افسر بن کر آپ کا بوجھ ہلکا کروں گی۔
زینت : بوجھ تو بیٹے بانٹتے ہیں۔ بیٹیاں تو خود ماں باپ پر بوجھ ہوتی ہیں۔
پروین : مُنہ پُھلا کر بولی ۔ غلط سوچ ہے آپکی ۔ آپ دیکھئے گا میں ابّو کا
بوجھ کیسے بانٹتی ہوں۔
حیدر علی : زینت سے مخاطب ہو کر ۔ میری بیٹی میرے لئے بوجھ نہیں ہے اور تم
آئندہ سے ایسی بات مت کرنا۔
زینت : کبھی نہیں کہوں گی۔ میری دونوں بیٹیاں میری دو آنکھیں ہیں۔
حیدر علی : پروین کی پیٹ تھپکتے ہوئے ، میری بیٹی افسر بھی بنے گی اور اپنے
ابّو کا نام روشن بھی کرے گی۔
پر افسوس ! ہر کسی کو مکمل جہاں نہیں ملتا ، کسی کو زمیں تو کسی کو آسماں
نہیں ملتا کے مصداق نہ تو اُس نے اپنی تعلیم مکمل کی اور نہ ہی اپنے ابّو
کا بوجھ بانٹا۔ہوا یوں کہ ایک دن وہ اپنی سہیلی گلزار کی شادی پر چلی گئی۔
اِس کا شادی پر جانا ہی اِ سکے خواہشوں پر پانی پھیر گیا۔گلزار کے والد شہر
کے نامور امیروں میں سے تھے۔شادی کا انتظام بڑے ہو ٹل میں کیا تھا۔ شہر کی
بڑی بڑی ہستیاں وہاں موجود تھیں۔پروین کو ان سب چیزوں سے کیا لینا تھا۔ وہ
تو بس اپنی سہیلی کے شادی میں خوبصورت جوڑا پہن کر آگئی۔حُسن اُسنے ورثے
میں پایا تھا۔ذرا سا سج دھج جاتی تو سب کی آنکھوں کا نور بن جاتی۔ میک اپ
سے اِسے دلچسپی نہ تھی اور نہ دوسروں کی طرح جگمگاتے زیور ، آرٹیفیشل
جیولری پہننے کا اِسے شوق تھا۔لیکن سب کچھ نہ ہوتے ہوئے بھی اُسکی سادگی
میں اتنا کچھ تھا کے دولہے کے ساتھ آئے ہوئے اُسکے عزیز دوست زید کی نظر
اُس پر پڑگئی اور ایسی پڑی کہ واپس لوٹنا بھول گئی۔ بہت سی لڑکیاں وہاں پر
میک اپ کے ساتھ ، قیمتی جوڑوں میں آئی ہوئی تھیں مگر پروین کی خوبصورتی نے
زید کو اُسکا دیوانہ بنا دیا۔وہ جتنی دیر وہاں رہا اُسے صرف وہی نظر آئی۔
پروین کو پتہ بھی نہ تھا کہ کوئی اُسکی زلف کا شکار ہو گیا ہے۔
کہتے ہیں کے اگر انسان کسی چیز کو سچّے دل سے چاہے تو کائنات کی ہر شئے
اُسے اُس سے ملانے کے لئے لگ جاتی ہے اور زید بھی پروین سے سچّی اور پاک
محبت کرتا تھا۔ شادی کے کچھ دنوں بعد زید نے اپنے دوست آصف کے ذریعہ پروین
کا پتہ لگا لیا۔
آصف : مِڈل کلاس فیملی ہے مالی طور پر تمہارے ہم پلّہ نہیں۔
زید : مجھے اُسکی دولت سے نہیں لڑکی سے شادی کرنی ہے۔
آصف : کوئی قدم اُٹھانے سے پہلے سوچ لو۔
زید : وہ سب چھوڑو۔ لڑکی شریف ہے یا نہیں۔
آصف : لڑکی اور اُسکے گھر والوں کی شرافت ؟ یوں سمجھ لو محلّے میں اُن سے
زیادہ معزز کوئی نہیں۔
زید : پھر ٹھیک ہے۔ میں امّی سے بات کروں گا۔
اتنا کہہ کر زید وہاں سے گھر کی طرف روانہ ہوا۔ گھر میں زُلیخا اور زید کی
بڑی بہن عائشہ ، جنکی شادی پانچ سال پہلے ہو چُکی تھی اور ابھی تک اولاد سے
محروم تھی۔ آئی ہوئی تھی۔ سب مل کر چائے کی چُسکیاں لے رہے تھے۔اور اتفاق
سے زید کی شادی کے تعلق سے شہر کے مالدار لڑکیوں کا ذکر کر رہے تھے۔ زید
بھی ان میں شریک ہوگیا۔ تھوڑی دیر تو وہ سُنتا رہا پھر ہمت جُٹائی اور بڑی
بہن سے کہنے لگا۔
زید : میں نے لڑکی دیکھ رکھی ہے۔
عائشہ : کیا ؟ چونک کر۔ کسی سے محبت کرتے ہو ؟
زید : نہیں۔
عائشہ : پھر۔
زید : میرے دوست کی شادی میں دیکھا تھا۔ میں نے پتہ بھی لگا لیا۔ پاس کے
محلّے میں رہتے ہیں۔ لڑکی اچھے اخلاق کی مالک ہے اور لوگ اُنکے خاندان کی
بڑی عزت کرتے ہیں۔
عائشہ : واہ بھائی ! تم تو چھپے رُستم نکلے ۔لڑکی بھی دیکھ لی اور پتہ بھی
لگالیا۔
زُلیخا کو اِس بات پر بڑی حیرت ہوئی۔ وہ اپنے بیٹے کی شادی اپنی پسند سے
کرنا چاہتی تھی۔ اور چاہتی تھی کے اُسکی شادی کسی مالدار گھرانے میں ہو۔
اُسے ایسی بہو چاہئے تھی جس کے شانداراور قیمتی جہیز کے چرچے لوگ برسوں
کریں۔ مگر یہاں تو بازی اُلٹ گئی تھی۔ زُلیخا نے بُرا سا چہرہ بنایا اور
خاموش رہی۔ کئی دن بحث چلی ۔ لیکن زید اپنی بات پر اڑا رہا آخر کارگھر
والوں کو اس کی بات ماننی پڑی۔چنانچہ زُلیخا ، عائشہ اور اُسکے شوہر مل کر
پروین کے گھر گئے۔گھر تو بہت چھوٹا تھا۔ فِکر میں تھے کے لڑکی کیسی ہوگی۔
اتنے میں پروین کی امّی اُسے لے کر باہر آئیں۔پروین جو حُسن کی ملِکہ تھی
اُسمیں کیا نُقص نکالتی۔پہلی نظر میں تینوں نے اُسے پسند کر لیا۔مگر زُلیخا
کو اب بھی جہیز کی فِکرتھی۔ بحرِ کیف لڑکی پسند کرلی۔پروین کے ابّو اور
امّی بہت خوش ہوئے۔ اپنی بیٹی کی قسمت پر رشک کرنے لگے۔کیونکہ زید کے گھر
والے شہر کے بڑے امیروں میں سے تھے۔اور وہ بھی اچھی شخصیت کا مالک تھا۔پھر
کیا تھاشادی کی تیاریوں میں لگ گئے۔رکھی رکھائی پونجی تو تھی نہیں۔ کچھ
بینک سے قرض لیا اور ایک عام سا جہیز تیار کیا جسمیں پانچ تولے کا نیکلیس ،
دس جوڑے ، فرنیچر شامل تھے۔
پروین اپنی قسمت پر جھوم اُٹھی۔ اتنا اچھا گھر ، ٹوٹ کر چاہنے والا شوہر ہر
کسی کو نہیں ملتا۔ لیکن خوشی کا یہ نشہ زیادہ دن نہ رہا۔معمولی جہیز کو زید
کی امّی کیسے بھُلا سکتی تھی وہ اندر ہی اندر بھڑاس نکالنے کی تلاش میں
تھی۔ زید کے گھر سے باہر نکلتے ہی پروین پر ٹوٹ پڑتی، ہمیشہ اُسکے ماں باپ
کو بُرا بھلا کہتی۔ پروین صبر کرتی۔ زید شام کو آفس سے تھک کر گھر آتا اپنے
شوہر کی تھکان دیکھ کرچاہنے کے باوجود بھی وہ اپنا درد اُس سے نہ کہتی۔ زید
اُس سے بڑی محبت کرتا تھا۔ شوہر کی محبت سے ساس کے زخمی نشانوں کو دھونے کی
کوشش کرتی۔ مگر دن بدن معاملہ بڑھتا گیا۔ اب اُس سے صبر نہ ہوتا۔ پھر ایک
دن اُس نے سارا قصہ سُنایا۔ زید چُپ ہوگیا ، کرتا بھی کیا ایک طرف ماں تو
دوسری طرف بیوی۔ تھوڑی دیر بعد پروین سے کہنے لگا تم ذرا ذرا سی بات کو دل
پر مت لو۔ امّی دل کی بُری نہیں ہیں۔ میں ہر وقت تمہارا ساتھ دوں گا ۔ تم
ان باتوں کو ہنس کر سہہ لیا کرو۔ میں موقع دیکھ کر امّی سے بات کروں گا۔
لیکن معصوم موم کی طرح نازل دل رکھنے والی لڑکی پتھر کا کلیجہ کہاں سے
لاتی۔ جو والدین کی بے حُرمتی سہے جاتی۔ بس یہ حالات چل ہی رہے تھے کہ اﷲ
نے اُس پر رحم کی نظر کردی۔ کہتے ہیں عورت تبھی مکمل بنتی ہے جب وہ ماں
بنتی ہے۔ قدرت نے اِسے بہترین تحفے سے نوازا۔ اِس کے اندر تخلیق کا عمل
شروع ہوا۔ اِس کی جان میں ایک نئی جان پرورش پانے لگی۔گھر میں یہ خوش خبری
سُن کر سبھی بہت خوش ہوئے ۔خاص کرساس زُلیخا۔ جو اب تک بہو سے دور دور رہتی
، قریب ہونے لگی۔کیونکہ بیٹی کی شادی کو ۵ سے ۶ سال ہو گئے تھے اور وہ
اولاد سے محروم تھی۔ اب بہو کی خوشخبری سے آنگن میں بچّوں کی گونج سُنائی
دینے والی تھی۔ ساس بہو دونوں مل کر اکثر چیک اپ کے لئے لیڈی ڈاکٹر کے پاس
جاتے۔ ایک دن ہمیشہ کی طرح دونوں چیک اپ کے لئے گئے۔لیڈی ڈاکٹر پروین کو
اندر لے گئیں۔چیک اپ کے بعد باہر آئیں۔ اور کہنے لگیں۔۔
لیڈی ڈاکٹر : سب کچھ نارمل (Normal) ہے تم بس خوش رہا کرو۔ قدرت تمہیں اپنے
انمو ل تحفے سے نواز رہی ہے اور تمہارا بھی فرض ہے کے تم اچھا کھانا کھاؤ۔
خوش رہو ۔ تاکہ آنے والا مہمان تندرست رہے۔ تمہیں کوئی پریشانی ہے ؟
پروین : جی ، ایسی کوئی بات نہیں۔
لیڈی ڈاکٹر : پھر کِھلنے کی بجائے تم بُجھتی جارہی ہو۔ ہر بار چیک اپ کے
لئے آتی ہو مگر پہلے سے زیادہ پریشان نظر آتی ہو۔
زُلیخا : ڈاکٹرنی صاحبہ ، اگلی بار یہ آپکے پاس خوشی خوشی آئے گی۔ یہ میرا
وعدہ ہے آپ سے۔
وہاں سے دونوں گھر واپس ہوئے۔ زُلیخا اندر ہی اندر یہ سمجھ گئی تھی کہ بہو
کی پریشانی کا سبب کون ہے ۔اگلے دن شام کے وقت عائشہ بھی گھر آئی ہوئی تھی۔
اُسنے بھی ماں کو سمجھایا کہ تم اُسے ہزار بار ٹوکتی رہتی ہو اور وہ بے
چاری چُپ چاپ سہتے جاتی ہے اب تو اُسے خوش رکھا کرو۔ لے دے کر ہم ایک بھائی
اور ایک بہن ہیں۔ میری گود تو ابھی تک سونی ہے اﷲ میرے بھائی کو باپ کی
سعادت مندی دے رہا ہے تو تم شکر کرو۔زُلیخا کو احساس تو ہو چُکا تھا مگر
بیٹی کی باتوں نے اُسے اور شرمسار کر دیا۔زُلیخا ، پروین کے کمرے میں گئی۔
وہ سوئی ہوئی تھی ساس کی آہٹ پاکر بستر سے اُٹھنے لگی۔ زُلیخا اُسکے قریب
گئی اور رونے لگی۔ پروین تعجب میں پڑگئی۔ اور پوچھنے لگی۔
پروین : کیا ہو اماں جی ؟
زُلیخا : کچھ نہیں بیٹی۔ تو مجھے دادی بننے کا سُکھ دے رہی ہے اور میں تجھے
دُکھ پہ دُکھ دے رہی ہوں۔میں خود جانتی ہوں کہ جہیز اچھی بات نہیں۔ پر میری
ضِد، کہ میرے بیٹے نے میری پسند سے شادی نہیں کی، اور وہ غُصہ میں تجھ پر
نکال رہی تھی۔ بیٹی مجھے معاف کردے۔
پروین : آپ کیسی بات کر رہے ہیں ماں جی ۔ آپ مجھ سے بڑی ہیں۔
زُلیخا : بیٹی انسان بڑا اعمال سے بنتا ہے۔ اور تیرا صبر مجھ سے بڑا ہے۔
پروین : جی نہیں ماں جی ۔ آپ ہر اعتبار سے مجھ سے بڑی ہیں۔
یہ کہتے ہو ئے سا س اور بہو لِپٹ کر رونے لگیں۔ زُلیخا کے آنسوؤں سے اُسکے
دل کی کڑواہٹ نکل گئی۔ اب اُسکا دل صاف ہو گیا۔ پروین بھی عورت کا دل رکھتی
تھی بیتی باتوں کو بُھلا دیا۔ زید کو گھر آتے ہی اندازہ ہوگیا کے ماں اور
بیوی میں صُلح ہو گئی ہے۔ وہ بہت خوش ہوا۔تھوڑے دنوں بعد پریوں جیسی بیٹی
ہوئی۔ بالکل پروین کا عکس تھی۔
سچ ہی کہتے ہیں کہ قدرت ہمیشہ خوشی اور غم دینے کے لئے بہانے ڈھونڈتی ہے۔
اور شاید پروین کے لئے اُسکا ماں بننا ہی اُسکے لئے وردان ثابت ہوا۔ |