ہم چونکہ ہندووں کے ساتھ رہتے رہے ہیں.اور ہندووں کا کلچر
ہی ہماری معاشرتی زندگی میں ہے.ہندووں کا ذات پات کا نظام ہمارے نزدیک قابل
نفرت ہے لیکن عملا ہم ادنی اور اعلی کے چکر میں پڑے ہوئے ہیں.ہمارے شادی
بیاہ میں آج بھی اسلامی طرز کو بری طرح مسلا جاتا ہے.ڈھول ڈھمکے کرنا,گانا
ناچنا ہمیں آج بھی عزیز ہے.اس پر مستزاد یہ کہ ہماری عورت حیا کی چادر کو
چاق کر چکی ہے اسے اپنی اور اپنے گھرانے کی عزت کی کوئی فکر نہیں ہے. وہ
ایسا لباس پہننا چاہتی ہے جسکی اسلام اجازت نہیں دیتا.چند بے لگام نام نہاد
عورتوں کے نام پر بنائی جانے والی تنظیمیں محض عورتوں کے حقوق کے عنوان سے
عورت کوبرقع اور چادر سے نکال رہی ہیں. کھلا اور ڈھیلا ڈھالا لباس جو ہماری
ثقافت کا نمائندہ تھا اب اسے دقیانوسی جیسے القابات سے نوازا جاتاہے.بوائے
فرینڈ رکھنا ایک کلچر بن چکا ہے.رہی سہی کسر موبائل فون نےنکال دی ہے.رابطے
آسان ہوگئے ہیں.پارلیمنٹ میں ایسے قوانین بن رہے ہیں جو قرارداد مقاصد کا
منہ چڑاتے نظر آتے ہیں.نوادرات جو کسی ملک کا اہم اثاثہ ہوتیں ہیں اور ان
کا تحفظ ایک اہم فریضہ سمجھا جا تا ہے لیکن ان سے کوڑے کرکٹ کا سا سلوک کیا
جا تا ہے. اپنے آباء کے رہنے سہنے کے طریقہ کار اور تہذیب کو پرانا ماڈل
قرار دے کر استھزاء و ٹھٹھہ کی نذرکر دیا جا تا ہے.بھائی چارہ و رواداری کا
خاتمہ کسی ناسور کی طرح کیا جا رہا ہے.مادہ پرستی اور دولت کمانے کی ہوس نے
لوگوں کو معاشرتی طور پر اپاہج کر دیا ہے.اس کے علاوہ کوئی میوزیم,لوک ورثہ
کی بڑے پیمانے پر تعلیم نہیں دی جا رہی.
ایک طے شدہ سازش کے تحت مختلف مکاتیب فکر کو ایک دوسرے سے دست وگریباں کر
دیا گیا ہے.اغیار نے ہماری ثقافت و پہچان کو ختم کرنے کے لیے ہمیں کھیل کود
میں لگا دیا ہے.بڑوں کا ادب و احترام معدوم ہوتا جا رہا ہے.تعلیمی نصاب میں
بچوں کو مخرب الاخلاق کہانیاں اور قصے پڑھائے جاتے ہیں جن کا ہماری نسل پر
انتہائی برا اثر مرتب ہو رہا ہے.میڈیا کی وار نے تو ہمارے نوجوان طبقے سے
دین کی نعمت چھین لی ہے.مسلم ثقافت کے رنگ ماند پڑنے لگے ہیں.جو ماں ذکر و
فکر میں مشغول اپنی اولاد کی تربیت کیا کرتی تھی اب وہ سٹار پلس کر ڈرامے
میں اپنے آپ کو ایک لازمی فریضہ سمجھ کر الجھا چکی ہے. ہمارے مربین و
مصلحین بھی اس جہت میں کم توجہ دے رہے ہیں جو واعظ اس لادینت کے خلاف با ت
کرتےہیں ان کو مکمل طور پر پاگل ڈکلیئر کر دیا جا تا ہے اور انہیں جاہل اور
کم علم کہا جا تا ہے.
ہماری تعلیمی نظام میں اتنی سکت ہی نہیں ہے کہ وہ ایک صالح اور دیندار
قیادت و سیادت پیدا کر سکے.ہمارے کئی ایک پی.ایچ.ڈیز ایسے ہیں کہ وہ دین کی
الف ب سے بھی واقف نہیں ہیں.ہمارے طالب علم کو اس بات کی کوئی فکر نہیں کہ
ملک میں کیا کچھ ہورہا ہے؟ اور اس کاد سد باب کیسے کیا جائے؟ وہ ایک نام
نہا د گوشت پوست کا ڈھانچہ ہونے کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہیں.انہیں ملک و
ملکی سالمیت سے کوئی غرض نہیں ہے.ہر ایک طالب علم اپنے آپ کو ان تمام باتوں
سے مبراء خیال کرتا ہے.اور اس کے مطابق ایک فر د کچھ نہیں کرسکتا.آج کل کے
دانشور محمد بن قاسم جیسے دلیر اوربہادر سپہ سالار کی کہانی کو خارج از
نصاب کرنا چاہتے ہیں اور ریپا چینی کی بیٹی کے عنوان سے آنے والی فالتو
مغربی بکواس اپنی نسلوں میں دیکھنے کے خواہ ہاں ہیں-
ہماری قومی زبان اردو ہے لیکن نسل نو کو انگلش کا گرویدہ بنایا جا رہا
ہے.اس کے برعکس دنیاکی زندہ قومیں اپنی ثقافت کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے
کےلیے اپنی زبان کا سہارا لیتیں ہیں.چین جو کہ کم بیش آدھی دنیا ہے میں
چائنیز زبان میں ہی تمام تعلیم دی جاتی ہے.ان کے ملکی سفیر جہاں بھی
جاتےہیں وہ اپنی زبان میں بات کر نے پر فخر محسوس کرتےہیں.مگر ہم گھر میں
مادری زبان,سکول میں انگلش سیکھنے کے لیے اردو ترجمہ کا سہارا لیتےہیں.آج
حالت یہ ہے کہ اردو جو کہ عربی و فارسی کے بعد دنیا کی بہترین اور مھذب
زبان ہے کو پس پشت ڈال لیا گیا ہے.اور اس کی انتہائی ناقدری کی ہے.ایک بڑا
علمی خزانہ ہم نے کھو دیا ہے.ہماری موجودہ نسل کو اردو دیکھ کر پڑھتے ہوئے
اس طرح جھٹکے لگتے ہیں جیسے کوئی مردہ عالم نزع میں ہو.اس سے بڑھ کر ہماری
کم عقلی و ثقافت سے نا بلدی اور کیا ہو گی. میڈیا کے ہاتھوں میں یرغمال
ہمارے عوام ہر اعتبار سے پس رہے ہیں.انہیں مسلسل اندھیر وں کی نذر کر دیا
گیا ہے.اور انہیں اپنی ثقافت کو کھونے کا کوئی ملال و غم نہیں ہے.ان اس بات
کا بالکل بھی احساس نہیں کہ ایک منظم منصوبہ بندی کے تحت ہم سے ہماری پہچان
چھینی جارہی ہے.
بقول شاعر مشرق
وائے نادانی متاع کاررواں جاتا رہا
کاررواں کے دل سے احساس ضیاع جا تا رہا |