پیش کار نے اسکرین پر ایک
سلائڈ(Slide ) دکھائی اور تمام حاضرین سے سوال پوچھا! اس میں کیا نظر آرہا
ہے؟سیمینار میں سب گم سم بیٹھے اسکرین کو دیکھے جا رہے تھے ۔نیلی اسکرین کے
درمیان میں ایک سیاہ دھبہ بنا ہوا تھا اور پیشکار نے تمام لوگوں سے پوچھا
کہ کیا نظر آرہا ہے؟ سب نے کہا! ایک سیاہ دھبہ نظر آرہا ہے۔ کافی دیر کے
بعد جب پیشکارنے اصرارکیاکہ آپ کو صرف ایک سیاہ دھبہ ہی نظر آرہا ہے؟ تو
کچھ نے کہا! نیلا رنگ بھی ہے۔
ان دو سطروں کو دوبارہ غورسے پڑھیے اور سوچیے کہ اس پر نیلا رنگ اتنا نمایا
ں تھا لیکن پھر بھی لوگوں نے سیاہ دھبے کو ہی کیوں دیکھا اور بتایا؟کیوں
لوگ مکھی کی طرح زخم پر ہی بیٹھنے کو تیار ہو گئے؟ ہمارے آس پاس ہونے والے
واقعات کا جائزہ دو طرح سے لیا جا سکتا ہے مگر زیادہ تر لوگ ایک رخ پر ہی
کیوں سوچتے ہیں۔ سوچ بیج کی مانند ہوتا ہے اور دماغ حد سے زیادہ زرخیز زمین
ہے جہاں اس بیج سے کئی عمل وقوع پذیر ہوجاتے ہیں جبکہ منفی سوچ رکھنے والا
شخص ماہرینِ نفسیات کے مطابق جلد اس دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے۔
نیک گمان کرنا اور رکھنابھی عبادت ہے۔ (ابو داؤد)
دن بھرہمارا واسطہ ایسی خبروں اور ایسے لوگوں سے پڑتا ہے جن کو ملک میں
بگاڑ کے سوا کچھ دکھائی نہیں دیتا جو اپنی جاب، تعلیمی نظام، عدالتوں کے
بارے میں، سیاست اور اصولوں کے حوالے سے انتہائی منفی پروپیگنڈا بولتے نہیں
تھکتیمثلاََایسے لوگوں کواور باالخصوص ہمارا بے لگام میڈیاکوکچھ ایسی باتیں
ہی کیوں نظر آتی ہیں ۔
دھماکوں میں ہزاروں لوگ مر گئے۔
اس ملک میں تو جینا ہی مشکل ہو گیا ہے۔
۴۰ فیصد لوگ ایک ہی وقت کا کھانا کھا پاتے ہیں ۔
۳۵ فیصد لوگ بے روزگار ہیں۔
جعلی ڈگریوں والوں نے تو ملک تباہ کر دیا ہے۔
کارخانوں سے لوگوں کو نکالا جا رہا ہے۔
طلاق کی شرح ۲۱ فیصد ہو چکی ہے۔
سب چینلز تو فحاشی اور عریانی ہی دکھارہے ہیں۔
بسوں اور ٹرینوں کے حادثے بڑھ گئے ہیں وغیرہ وغیرہ۔
جبکہ ہمارے معاشرے میں ایسی ایسی مثبت چیزیں موجود ہیں کہ عقل دنگ رہ جائے
یعنی اسی تصویر کا دوسرا رخ مثلاََ؛
کروڑوں لوگ بخدا زندہ ہیں ۔
۶۰ فیصد لوگ بھرپور کھانا کھاتے ہیں۔
۶۵ فیصد لوگ روزگار پے لگے ہوئے ہیں اور اپنے خاندانوں کی کفالت کر رہے ہیں
۔
ایماندار لوگ بھی ہیں جو پوری محنت سے پڑھتے بھی ہیں اور نمایاں مقام بھی
حاصل کیے ہوئے ہیں۔
کئی کارخانے نئے کھل رہے ہیں اور اس میں کئی لوگوں کو روزگار بھی ملے گا۔
۷۹فیصد لوگ احسن ازدواجی زندگی گزار رہے ہیں۔
ہزاروں بسیں، سینکڑوں ٹرینیں لاکھوں لوگوں کو ان کی منزلِ مقصودپر روزانہ
پہنچا رہی ہیں ۔
کئی چینلز اسلامی اور قرآنی معلومات دکھا رہے ہیں وغیرہ وغیرہ۔
میرے ایک دوست نے بڑی اچھوتی کہانی سنائی جو ہمیں معاشرے کی ایک بھیانک سوچ
کی ترجمانی کرتی نظر آتی ہے۔ پرانے وقتوں کی بات ہے ایک بادشاہ نے اعلان
کیا کہ آج رات تمام صاحبِ حیثیت دودھ کا ایک ایک پیالہ دربار کے پاس حوض
میں ڈالیں گے تاکہ غریب رعایا کوتقسیم کیا جا سکے مگر تمام لوگوں نے یہ سوچ
کر اس میں ایک پیالہ دودھ نہیں ڈالا کہ چلو میراپڑوسی ڈال دے گا۔ صبح حوض
خالی تھا ۔ یہ صرف اور صر ف ایک سوچ تھی ۔منفی سوچ جس نے انہیں اس کام سے
روکے رکھا۔ بدقسمتی سے ہمارا معاشرہ بھی ہر بات کو دوسروں پر ڈال کر چین کی
نیند سونا چاہتا ہے۔ منفی سوچ تباہ کن نتائج لاتی ہے لہذا ہم ان سے بچنے کی
راہ تلاش کریں تاکہ ہمارا معاشرہ دوبارہ زندہ و جاوید ہو جائے اس کے لیے
صرف اپنی توجہ کو تبدیل کریں۔ آپ اسی وقت مثبت سوچ کی طرف قدم اٹھا چکے ہوں
گے۔ اﷲ ہمارا حامی و ناصر۔ |