چھ سو روپے ، ایس ایس پی غلام اکبراور جرنلسٹس کالونی

حضرت مولانا محمد یوسف کاندھلوی ؒ اپنی تصنیف حیات الصحابہ ؓ میں تحریر کرتے ہیں کہ حضرت معاویہ بن ابی سفیان ؓ فرماتے ہیں حضور ﷺ نے ایک مرتبہ (مرض الوفات میں )فرمایا مختلف کنوؤں سے سات مشکوں میں (پانی بھر کر )میرے اوپر ڈالوتا کہ (مجھے کچھ افاقہ ہو جائے اور )میں لوگوں کے پاس باہر جا کر انہیں وصیت کروں، چنانچہ (پانی ڈالنے سے حضور ﷺ کو کچھ افاقہ ہوا تو )حضور ؐ سرپرپٹی باندھے ہوئے باہر آئے اور منبر پر تشریف فرما ہوئے پھر اﷲ کی حمد و ثناء بیان کی پھر فرمایا اﷲ کے بندوں میں سے ایک بندے کو یہ اختیار دیا گیا کہ یا تو وہ دنیا میں رہ لے یا اﷲ کے ہاں جواجروثواب ہے اسے لے لے۔ اس بندے نے اﷲ کے ہاں کے اجر و ثواب کو اختیار کر لیا(یہاں اس بندے سے مراد خود حضور ﷺ ہیں اور مطلب یہ ہے کہ آپ ؐ اس دنیا سے جلد تشریف لے جانے والے ہیں) حضور ﷺ کے اس فرمان کا مطلب حضرت ابو بکر ؓ کے علاوہ اور کوئی نہ سمجھ سکا اور اس پروہ رونے لگے اور عرض کیا ہم اپنے ماں باپ اور آل اولاد سب آپ پر قربان کرتے ہیں حضور ﷺ نے فرمایا(اے ابوبکرؓ!) ذرا آرام سے بیٹھے رہو (مت رو ) میرے نزدیک ساتھ رہنے اور مال خرچ کرنے کے اعتبار سے لوگوں میں سب سے افضل ابن ابی قحافہ (یعنی حضرت ابو بکر ؓ ) ہیں۔ مسجد میں جتنے دروازے کھلے ہوئے ہیں سب بند کر دوصرف ابو بکر ؓ کا دروازہ کھلا رہنے دو کیونکہ میں نے اس پر نور دیکھا ہے۔

قارئین آج سے چند روز قبل ہمارے محسن ڈاکٹر حاجی محمد صابر مغل نے ہمیں فون کیا اور ہم سے پوچھا کہ ایس ایس پی غلام اکبر کہاں تعینات ہیں ہم نے بتایا کہ مختلف علاقوں میں ٹرانسفر ہوتے ہوتے آج کل ’’شاہین ‘‘ کا ٹھکانہ بھمبر میں ہے۔ اس پر ڈاکٹر حاجی محمد صابر مغل کہنے لگے کہ میں ان سے ملنا چاہتا ہوں اس ملاقات میں آپ میرے ساتھ چلیے ہم نے اشتیاق سے پوچھا کہ جناب حاجی صاحب خدا خیر کرے آپ کو محکمہ پولیس کے سپرنٹنڈنٹ سے کیا کام پڑگیا اس پر انہوں نے بتایا کہ 1970کی دہائی میں وہ بریڈ فورڈ برطانیہ میں بس چلایا کرتے تھے اور اس بس کی سواریوں میں موجودہ ایس ایس پی غلام اکبر اور ان کے ساتھی سٹوڈنٹس شامل ہواکرتے تھے اور یہ تمام سٹوڈنٹس انتہائی شرارتی تھے اور ان کی شرارتوں کا سب سے بڑا نشانہ ڈرائیور ہونے کی حیثیت میں اور میرا ساتھی کنڈکٹر ہوا کرتے تھے۔ ڈاکٹر حاجی محمد صابر مغل نے کہا کہ ’’ٹاہنگ بریڈ فورڈ‘‘ برطانیہ کے سکول میں پڑھنے والے یہ بچے بالکل میرے بچوں جیسے تھے اور ان کی شرارتوں سے عاجز ہونے کے ساتھ ساتھ میں لطف اندوز بھی ہوا کرتا تھا میرے ذہن میں ایک برطانوی کشمیری شہری ہونے کی حیثیت سے یہ سوال پیدا ہوا ہے کہ برطانیہ میں پڑھنے والا یہ بچہ آزاد کشمیر کے محکمہ پولیس میں آ کر ایس ایس پی کی حیثیت سے ملازمت کرتے ہوئے کیا محسوس کرتا ہے کیونکہ برطانیہ میں نظام بالکل سیدھا ہے وہاں صورتحال ایسی ہے کہ کوئی بھی فرد کسی بھی مشکل میں مبتلا ہو تو اگر اسے محکمہ کا کوئی اہلکار مل جائے تو وہ یہ سمجھتا ہے اس کی مشکل اور مصیبت ختم ہو گئی ہے جبکہ بد قسمتی سے وطن عزیز میں کچھ ایسا ماحول پایا جاتا ہے کہ ایک نارمل انسان عام زندگی گزارتے گزارتے محکمہ پولیس کے کسی بھی فرد سے ملے تو اسے یہ خدشہ پیش آ جاتا ہے کہ کوئی مصیبت نہ پڑ جائے ’’ نہ ان سے دوستی اچھی نہ ان سے دشمنی اچھی‘‘۔ ڈاکٹر حاجی محمد صابر مغل کہنے لگے کہ میں ایس ایس پی غلام اکبر کو سلام بھی پیش کرنا چاہتا ہوں کہ وہ برطانیہ کے عیش وعشرت کو چھوڑکر محکمہ پولیس کی ’’چیلنجنگ جاب‘‘ کر رہے ہیں۔ قصہ مختصر ڈاکٹر حاجی محمد صابر مغل کے ہمراہ ہم بھمبر کی جانب چل دیئے اور ایس ایس پی غلام اکبر کے دفتر پہنچے چائے پانی کے بعد گفتگو کا سلسلہ شروع ہوا تو ہم نے اپنے ’’صحافتی تجسس‘‘ کو بے لگام چھوڑا اور سوالات کی بھرمار کر دی۔ ’’آن دا ریکارڈ ‘‘معلومات کے مطابق غلام اکبر ڈڈیال کے نواحی علاقہ چھپڑاں بھلوٹ میں دسمبر 1957میں پیدا ہوئے ان کے والد محترم عبدالرحمن برطانیہ کے شہر بریڈفورڈ میں عرصہ دراز سے محنت مزدوری کی غرض سے مقیم تھے۔ چار سال کی عمر میں غلام اکبر برطانیہ چلے گئے اور وہاں جا کر انہوں نے برطانوی سکول میں تعلیم حاصل کرنا شروع کی۔ اے لیول کا امتحان پاس کرنے کے بعد اپنے والد محترم کی خواہش ان کے سامنے آ گئی ان کے والد محترم کی خواہش تھی کہ ان کا بیٹا وطن واپس جائے اور وطن کی خدمت کرے تعلیم حاصل کرنے کے دوران والدین نے ان کی دینی تربیت کا خصوصی خیال رکھا تھا۔ اپنے والد محترم کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے برطانیہ میں تعلیم حاصل کرنے اور اعلیٰ ترین مناصب حاصل کرنے کے مواقع کو پس پشت ڈال کر غلام اکبر ڈڈیال واپس آئے اور محکمہ پولیس میں اے ایس آئی کی حیثیت سے نوکری شروع کر دی۔ غلام اکبر کو پہلی تنخواہ ملی تو وہ ’’چھ سو روپے ‘‘ تھی غلام اکبر اپنے والد محترم کو بڑی قربانی کے بعد ملنے والی ’’قلیل تنخواہ‘‘ کا بتایا اور ’’بلیک میلنگ‘‘ شروع کر دی۔ والد محترم نے ان کی تسلی کے لیے خطیر رقم برطانیہ سے انہیں بھیج دی خیر اس جملے کو باپ بیٹے کا پیار سمجھیے یا راقم کی طرف سے لگایا گیا ’’محکمہ پولیس پر الزام ‘‘ سچ یہی ہے۔ ڈڈیال سے میرپور ، کوٹلی، بھمبر، راولاکوٹ، مظفرآباد اور باغ تک تبادلوں کا سفر جاری رہا اور غلام اکبر ہنسی خوشی ٹرانسفرز قبول کرتے رہے اس دوران ترقی کا سفر بھی جاری رہا اور غلام اکبر کو اقوام متحدہ کی امن قائم کرنے والی فورس میں کام کرنے کا موقع بھی ملا۔ پہلے مرحلے میں بوسنیاہرزگوینا میں جب سربیا کی طرف سے حملہ کیا گیا تو غلام اکبر اقوام متحدہ کی طرف سے’’ پیس کیپنگ ‘‘ فورس کا حصہ بنے اور وہاں پر محکمہ پولیس کی ٹریننگ کی ذمہ داریاں ادا کیں بعدازاں وطن واپس آئے اور ایک مرتبہ پھر مختلف اضلاع میں ٹرانسفرز کا سفر جاری رہا۔ غلام اکبر کو صدر آزاد کشمیر عبدالرحمن کے چیف سیکیورٹی آفیسر ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہوا۔ ایس ایس پی کی حیثیت سے ان کی ترقی بھی ہوئی بوسنیا کے علاوہ غلام اکبر نے انڈونیشیاء کے علاقے مشرقی تیمور میں بھی اقوام متحدہ کی طرف سے فرائض انجام دیئے ۔ 2002میں غلام اکبر کی والدہ محترمہ دنیا سے تشریف لے گئیں اور 2005میں ان کے والد محترم اس جہان فانی سے کوچ کر گئے۔

قارئین ایس ایس پی غلام اکبر محکمہ پولیس میں وہ چمکتا ہوا ستارہ ہیں جو اہل وطن اور برطانیہ میں آباد تارکین وطن کے لیے روشن مثال ہیں۔ محکمہ پولیس میں ہم ایک ایسے ڈی آئی جی کو بھی جانتے ہیں کہ جن کے متعلق یہ واقعہ مشہور ہے کہ کوٹلی میں ایس ایس پی کی حیثیت سے تعیناتی کے دوران موسم گرما میں انہیں فریج کی ضرورت تھی اور انہوں نے اپنے جونیئر افسر کے ہمراہ جا کر بازار سے قسطوں پر فریج خریدا کیونکہ ایس ایس پی کی حیثیت ملنے والی ’’ حق حلال کی تنخواہ‘‘ سے وہ فریج خریدنا افورڈ نہیں کر سکتے تھے۔ غلام اکبر کی یہ خوش قسمتی سمجھیے یا بد قسمتی کہ ان کے والدمحترم ساری زندگی ان کی پہلی تنخواہ ’’چھ سو روپے ‘‘ کو یاد رکھتے ہوئے ہمیشہ ان کی ’’جذباتی بلیک میلنگ ‘‘ کا شکار رہے اور حتیٰ الامکان ان کی ’’مالی امداد ‘‘ کرتے رہے۔ ہم نے غلام اکبر سے پوچھا کہ آپ بتائیے کہ آزاد کشمیر کے مختلف اضلاع میں تعیناتیوں اور تبادلوں کے دوران آپ نے سب سے مشکل کونسے لوگ پائے اور سب سے اچھے تعاون کرنے والے کس علاقے کے لوگ تھے۔ اس پر غلام اکبر مسکرائے اور کہنے لگے اﷲ کو حاضر و ناظر جان کر کہتا ہوں کہ آزاد کشمیر کے تمام علاقوں کے لوگ انتہائی اچھے اور تعاون کرنے والے ہیں۔ میرپور سے لے کر مظفرآباد تک اور راولاکوٹ سے لے کر بھمبر تک کے کشمیری انتہائی محب وطن اور قانون کی پاسداری کرنے والے لوگ ہیں۔ صرف ان لوگوں کو اس اعتماد کی ضرورت ہے کہ سرکاری سیٹ پر بیٹھنے والا کوئی بھی افسر دیانت دار اور اپنے کام کو سمجھنے والا ہے۔ ڈاکٹر حاجی محمد صابر مغل نے اس موقع پر سوال کیا کہ بھمبر میں ہم نے ایک عجیب منظر دیکھا ہے کہ ٹریفک میں خلاف معمول بہت زیادہ ترتیب اور نظم و ضبط موجود ہے اور ہیلمٹ کا استعمال بہت زیادہ کیا جا رہا ہے جبکہ یہاں کے متعلق یہ غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ یہاں کے لوگ قانون کی پاسداری کرنے میں کچھ مختلف واقع ہوئے ہیں اس پر ایس ایس پی غلام اکبر کہنے لگے کہ بھمبر کے لوگ قانون کا احترام کرنے والے اور اس حوالے سے انتظامیہ سے مکمل تعاون کرنے والے ہیں۔ ڈپٹی کمشنر چوہدری محمد طیب اور میں نے مل کر بھمبر میں ٹریفک کے حوالے سے پہلی مرتبہ ’’پائلٹ پروجیکٹ ‘‘شروع کیا ہے اور اس کے نتائج حیران کن ہیں۔ عام شہریوں سے لے کر سیاسی حلقوں تک اور انجمن تاجران سے لے کر مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے رضاکارانہ انداز میں اس مہم میں ہماری مدد بھی کر رہے ہیں اور جہاں پر ہمیں ان کے تعاون کی ضرورت پڑتی ہے وہ بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ اس مرحلے پر ہم نے ڈاکٹر حاجی محمد صابر مغل کا وہی سوال ایس ایس پی غلام اکبر کے سامنے رکھ دیا کہ ان کی پہلی تنخواہ چھ سو روپے اگر کیلکولیٹ کی جائے تو برطانیہ کے حساب سے ماہانہ تنخواہ دو گھنٹے کے اندر کمائی جا سکتی ہے وہ کیا محسوس کرتے ہیں کہ برطانوی کشمیری شہری ہوتے ہوئے وہ برطانیہ میں مالی لحاظ سے بھی شاندار مستقبل بنا سکتے تھے اور سماجی اعتبار سے بھی اعلیٰ ترین مقام حاصل کر سکتے تھے جبکہ آزاد کشمیر میں محکمہ پولیس کے ایک ایس ایس پی کی سرکاری تنخواہ برطانیہ کے حساب سے ’’ نہ ہونے کے برابر ‘‘ ہے۔ اس پر غلام اکبر مسکرائے اور کہنے لگے کہ میں نے اپنے مرحوم والد کی خواہش کا احترام کیا اور مجھے اﷲ تعالیٰ نے حق حلال کے اندر رہتے ہوئے سکون قلب کی دولت عطا فرمائی۔ میری بیٹی نے قائداعظم یونیورسٹی میں ٹاپ کرتے ہوئے گولڈ میڈل حاصل کیا اور اسی طرح میرا بیٹا اور دیگر بیٹیاں بہترین تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ آزاد کشمیر کے مختلف اضلاع میں تعیناتیوں کے دوران میں نے ہمیشہ یہ کوشش کی کہ حق و سچ کا ساتھ دوں اور میں نے اﷲ تعالیٰ کی مدد کو شامل حال ہوتے ہوئے دیکھا۔ ڈاکٹر حاجی محمد صابر مغل نے پر نم آنکھوں کے ساتھ ایس ایس پی غلام اکبر کے ہاتھوں کو چوما اور کہنے لگے کہ’’ہم برطانوی کشمیریوں کو آپ پر فخر ہے‘‘

قارئین ایس ایس پی غلام اکبر کی یہ کہانی آپ کے سامنے پیش کرنے کا ایک انتہائی واضح مقصد ہے وقت اچھا ہو یا برا گزر جاتا ہے انسان کا کردار اور اس کے کردار کے چھوڑے ہوئے نقوش باقی رہ جاتے ہیں۔ محکمہ پولیس میں ایس ایس پی غلام اکبر جیسے آفیسر نہ صرف محکمہ پولیس کے لیے باعث افتخار ہیں بلکہ پوری کشمیری قوم کے لیے ایک مثال ہیں کہ دنیا کے عیش و عشرت اور مال و دولت کو ٹھوکر مارتے ہوئے اپنے والد محترم کی خواہش کا احترام کرنے والا یہ انسان ایک ’’رول ماڈل ‘‘ کی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔ ویلڈ ن ایس ایس پی غلام اکبر ویلڈن ۔

قارئین یہاں پر ہم آج کے کالم کے دوسرے حصے کا اختصار کے ساتھ ذکرکرتے چلیں آزاد کشمیر کے سب سے بڑے پریس کلب کشمیر پریس کلب میرپور میں گزشتہ دنوں ایک انوکھی تقریب رکھی گئی اس انوکھی تقریب میں آزاد کشمیر کے قائمقام وزیراعظم چوہدری محمد یٰسین مہمان خصوصی تھے۔کشمیر پریس کلب میرپور میں ہونے والی اس تقریب میں سٹیج پر صدر پریس کلب سید عابد حسین شاہ،سیکرٹری جنرل سجاد جرال، ایڈمنسٹریٹر بلدیہ الحاج غلام رسول عوامی، لبریشن سیل کے ڈائریکٹر ندیم قاسمی، پریس کلب کے سابق صدر ارشد بٹ قائمقام وزیراعظم آزاد کشمیر چوہدری محمد یٰسین کے ساتھ تشریف رکھتے تھے۔ جبکہ حاضرین محفل میں راقم کے ہمراہ پریس کلب کے ایک سو زائد ممبران موجود تھے اور یہ موقعہ ’’تاریخی لمحہ ‘‘ کہا جائے تو بیجا نہ ہو گا۔ ’’بلیک میلنگ یابیگنگ مافیا‘‘ کے الزامات کے پتھر اکثر اوقات ہم صحافیوں پر پھینکے جاتے ہیں اور معاشرے کا رویہ جرنل ازم اور جرنلسٹس کی جانب کچھ ایسا ہے کہ کوئی بھی شریف آدمی اپنے بچے کو ڈاکٹر انجینئر ز سے لیکر دنیا جہاں کے ہر پیشے میں بھیجنے کیلئے تیار ہوتاہے لیکن جرنلسٹ بنانے کا عندیہ کبھی نہیں دیتا مزے کی بات سمجھیے یا ماتم کامقام کہیے کہ معاشرے کا یہی رویہ ’’دین اور تعلیم ‘‘ کے ساتھ بھی ہے گھر کے لائق ترین بچوں کو دنیا جہاں کے پروفیشنز میں بھیجا جاتاہے لیکن بظاہر نکمے اور معذور بچوں کو مدرسوں میں داخل کردیاجاتاہے اور دنیاوی تعلیم میں جو بچہ کامیابی حاصل نہیں کرپاتا اسے محکمہ تعلیم میں بھرتی کرلیاجاتاہے سوچو ں کے اسی انحطاط کی وجہ سے آج معاشرہ ’’ فرقہ پرست مولویوں ،نالائق اساتذہ اور الزام اور طعن وتشنیع کانشانہ بنے صحافیوں ‘‘ سے بھرا پڑا ہے اس کے باوجود آج بھی ایسے علماء کرام موجود ہیں جو علم کی شمع اپنے خون سے جلا رہے ہیں ایسے اساتذہ رول ماڈل ہیں جو اپنے سٹوڈنٹس کو اپنی اولاد سمجھ کر ان کی دنیاوی واخلاقی تربیت کا فریضہ سرانجام دے رہے ہیں اور ایسے صحافی بھی موجود ہیں جو دنیاوی لالچ اور حرص وہوس کو ٹھکرا کر سچ کی آواز بنتے ہوئے اپنی جان کی بازی لگا کر مظلوم کا ساتھ دے رہے ہیں اور اسی وجہ سے آج پاکستان دنیا کے دس خطرناک ترین ممالک میں شامل ہوچکا ہے جہاں کے صحافی غیر محفوظ ترین ماحول میں صحافتی فرائض انجام دے رہے ہیں آزاد کشمیر کی تاریخ میں پہلی مرتبہ میرپور میں ’’ جرنلسٹس کالونی ‘‘ میڈیا ٹاؤن بنایاگیا ہے میرپور میں کام کرنے والے ورکنگ جرنلسٹس کیلئے یہ بہت بڑی حوصلہ افزائی کامقام ہے اس کا تمام تر کریڈٹ ہمارے خیال میں موجودہ صدر کشمیر پریس کلب سید عابد حسین شاہ ،جنرل سیکرٹری سجاد جرال اور ان کی پوری ٹیم کو جاتاہے لیکن سید عابد حسین شاہ نے سپاسنامہ پیش کرتے ہوئے صحافیوں کیلئے بنائی جانے والی اس کالونی کا کریڈٹ مختلف شخصیات کو دیا سید عابد حسین شاہ کے مطابق اس کالونی کی پہلی منظوری سابق وزیر اعظم سربراہ مسلم لیگ ن آزادکشمیر راجہ فاروق حیدر خان نے دی جبکہ سابق وزیر اعظم قائد مسلم کانفرنس سردار عتیق احمد خان نے اس کیلئے جگہ کی منظوری دی ،موجودہ وزیر اعظم آزادکشمیر چوہدری عبدالمجید نے اپنا کردار اداکیا اور آخر کار قائمقام وزیر اعظم چوہدری محمد یٰسین کو یہ اعزاز نصیب ہوا کہ انہوں نے آزادکشمیر کی سب سے پہلی جرنلسٹس کالونی کے قیام کے بعد باضابطہ طور پر الاٹمنٹ آرڈرز صحافیوں میں تقسیم کیے سابق صدور کشمیر پریس کلب میرپور حافظ محمد مقصود ،ارشد بٹ ،محمدامین بٹ ، سید سرفراز کاظمی ،صوفی نذیر احمد چوہدری ،سردار جمیل صادق اور دیگر نے اس موقعہ پر خطاب کرتے ہوئے آزادکشمیر کے دیگر اضلاع میں بھی صحافیوں کیلئے رہائشی کالونیاں بنانے کا مطالبہ کیا یہاں پر راقم ’’انصار نامہ ‘‘ کے توسط سے ارباب اقتدار سے مطالبہ کرتاہے کہ اخبارفروش یونین ،خبریں کمپوز کرنے والے دوستوں اور میڈیا فوٹو گرافر ایسوسی ایشن کے ممبران کیلئے رہائشی کالونیاں بنائے ریاست ایک ماں کے جیسی ہوتی ہے اور اس کیلئے تمام افراد بچوں کی طرح ہوتے ہیں اور دنیا میں ہم دیکھا ہے کہ جوبچہ کمزور مالی حیثیت رکھتاہے ماں باپ اس کا سب سے زیادہ خیال رکھتے ہیں ہمیں امید ہے کہ آزادکشمیر اور پاکستان میں بھی ریاست ایسی ہی محبت کرنے والی ماں بن کر سامنے آئے گی ویلڈن عابد شاہ ،ویلڈن سجاد جرال ،ویلڈن موجودہ حاضرسروس وزیرا عظم ،قائمقام وزیر اعظم اور سابق وزرائے اعظم ۔۔۔۔

آخر میں حسب روایت لطیفہ پیش خدمت ہے

علامہ اقبال ؒ بچپن ہی سے شوخ طبعیت رکھتے تھے 11سال کی عمر میں ایک مرتبہ وہ سکول دیر سے پہنچے اُستاد جی پوچھا اقبال کیابات ہے تم دیر سے کیوں آئے ہو اس پر اقبال ؒ نے بے ساختہ جواب دیا ’’جی ہاں اقبال ہمیشہ دیر سے آتاہے ‘‘

قارئین 600روپے کی پہلی تنخواہ حاصل کرنے والے ایس ایس پی غلام اکبر ،سوا روپے سے دیہاڑی لگانے والے ڈاکٹر حاجی محمد صابر مغل اور جرنلسٹس کالونی کی کہانیاں ثابت کررہی ہیں کہ دیر ہی سے سہی لیکن حق اور سچ پر قائم رہیں تو اقبال آ ہی جاتاہے ۔

Junaid Ansari
About the Author: Junaid Ansari Read More Articles by Junaid Ansari: 425 Articles with 336953 views Belong to Mirpur AJ&K
Anchor @ JK News TV & FM 93 Radio AJ&K
.. View More