مدارس دینیہ نے اپنا تعلیمی
سلسلہ جاری رکھتے ہوئے ہمیشہ معاشرے کی فلاح و اصلاح کے لیے مختلف اقدام
کیے ہیں۔کیونکہ معاشرے کامدارس سے گہرا اور براہِ راست تعلق ہی معاشرے کی
کامیابی کا ضامن ہے۔ مضبوط اورخالص دینی مزاج کا حامل معاشرہ وجود میں لانے
کے لیے معاشرے کو تربیت یافتہ افراد فراہم کرنا انتہائی ضروری ہے اور ایسے
افراد تیار کرکے معاشرے کو فراہم کرنا جوان کی دینی ضرورت کو ہرلحاظ سے
پورا کریں، انہی مدارس دینیہ کی ذمہ داری ہے۔اسی ذمہ داری کو پورا کرنے کے
لیے مدارس میں طلبہ کی خطیبانہ صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کے لیے ہفتہ واری
بزم ادب منعقد کرنے کی روایت بہت پرانی ہے۔ اس بزم کے لیے اکثر جمعرات کا
دن مقرر کیا جاتاہے۔اس کا مقصد یہ ہوتاہے کہ طلبہ میں تقریر و خطابت کی
ہچکچاہٹ کو دور کرکے ان میں ایسا ملکہ پیدا کیا جائے کہ وہ اچھے انداز میں
اپنی بات عوا م تک پہنچا سکیں ۔اس قسم کی بزم میں مدارس کے طلبہ کو اپنی
بات بہتر انداز میں لوگوں تک پہنچانے کے لیے تقریر و بیان کے تمام اسلوب
سکھائے جاتے تھے۔ جن میں درس قرآن و درس حدیث کا طریقہ، جمعہ کے خطاب کا
طریقہ، اصلاحی بیان کا طریقہ، جلسہ عام کے خطاب کا اور کئی دوسرے طریقوں سے
ان کو روشناس کرایا جاتا تھا۔ طلبہ ان تمام اصنافِ خطابت پر مکمل دسترس
حاصل کرلیتے تھے جس سے ان میں اپنی تقریر سے عوام کے دلوں میں گھر کرلینے
کا گُر ہاتھ لگ جاتاتھا۔اس سے ایک طرف تو عوام ان کا خطاب دلجمعی سے سنتے
تھے اور دوسری طرف اس اقدام سے معاشرے کا منبر و محراب سے تعلق مضبوط سے
مضبوط تر ہوتا جاتا تھااور جس معاشرے کا منبر و محراب کے ساتھ تعلق گہرا ہو
تو وہاں دنیا کی کوئی طاقت معاشرے سے پختہ دینی مزاج و سوچ کو نکالنے میں
کامیاب نہیں ہوسکتی۔یہی وجہ ہے کہ ماضی میں بہت سی اقوام نے مختلف منصوبہ
بندیوں کے ساتھ مسلمانوں سے ان کا دینی تشخص چھننے کی کوشش کی لیکن ہزارہا
کوششوں کے باجود ان سے ان کا دین نہ چھین سکے، اس کی وجہ یہ تھی کہ ان کے
معاشرے میں منبر ومحراب کا کردار انتہائی مضبوط اور طاقتور تھا۔جب تک منبر
و محراب کا معاشرے کے ساتھ تعلق مضبوط رہا اس وقت تک کوئی بھی طاقت
مسلمانوں کے دینی معاملات میں دخل اندازی کی کوشش نہ کرسکی اور نہ ہی
معاشرے نے کبھی کسی نااہل اور نام نہاد اسکالروں کا منبر پر قبضہ کرنے کی
اجازت دی۔ لیکن اب کچھ عرصے سے معاشرے اور منبر کا تعلق کمزور ہوتا جارہا
ہے۔ ایک طرف تو نام نہاد دانشور و اسکالر منبر کے وارث بن بیٹھے ہیں، جن کو
سننے والوں کی تعداد میں تو روز بروز اضافہ ہورہا ہے جبکہ دوسری طرف مدارس
میں ایک طویل عرصہ علم دین حاصل کرنے والوں کو سننے والوں کی تعداد دن بدن
کم ہوتی جاررہی ہے۔
اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ اکثر مدارس نے طلبہ کو خطاب و بیان سکھانے کے
لیے اپنے اکابر سے چلی ہوئی ہفتہ واری بزم کے سلسلے کو ہی خیرباد کہہ دیا
ہے۔ بہت ہی کم مدارس میں طلبہ کی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کے لیے اب بھی
ہفتہ واری بزم کا انعقاد کیا جاتا ہے۔رفتہ رفتہ تمام مدارس سے یہ روایت ختم
ہوتی جارہی ہے۔اگر کچھ مدارس میں اس سلسلے کے کچھ نقوش باقی بھی ہیں تو ان
مدارس میں بھی بزم ادب پر مکمل توجہ نہیں دی جاتی۔اس طرح ان کی نگرانی نہیں
کی جاتی جس طرح کی جانی چاہیے اور نہ ہی طلبہ کو تقریر و خطاب کی تمام
انواع سکھانے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ اب صرف یہ ہوتا ہے کہ مدارس کے اکثر
طلبہ جلسوں میں جن خطباءکی تقاریر سنتے ہیں انہی کی نقل کرتے ہیں، ہر طالب
علم کسی مخصوص انداز کو سیکھنے پر مکمل توجہ دے کر اس پر دسترس حاصل کرلیتا
ہے، اس انداز کا تعلق صرف جلسے کی حد تک تو ٹھیک ہے لیکن ہر جگہ یہ انداز
کارآمد ثابت نہیں ہوسکتا۔ جب طلبہ کرام صرف ایک ہی انداز میں کامیابی حاصل
کرتے ہیں تو انہیں کوئی دوسری طرح سے بیان کرنا آتا ہی نہیں، وہ جہاں بھی
بیان کرتے ہیں اسی ایک مخصوص انداز میں کرتے ہیں۔ جس کو جلسے کے علاوہ عوام
کی اکثریت پسند نہیں کرتے اور رفتہ رفتہ خطیب صاحب کی تقریر سننے سے ہی کنی
کترانے لگتے ہیں۔اب تو اکثر مساجد میں جمعہ کے دن ایسا ہوتا ہے کہ خطیب
صاحب ایک ڈیڑھ گھنٹہ تقریر کرتے رہتے ہیں کوئی سننے کے لیے نہیں آتا۔ جب
تقریر ختم ہوجاتی ہے اور جمعہ کی نماز کا وقت آن پہنچتا ہے تو اس آخری وقت
میں نمازی حضرات مسجد میں آتے ہیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ اکثر خطباءحضرات جمعہ
کے بیان کے لیے مکمل تیاری کرکے نہیں آتے ہیں بلکہ خطیب صاحب جمعہ کے دن
بھی اپنے مخصوص انداز میں رٹی رٹائی تقریر دیر تک کرتے رہتے ہیں۔جو کوئی
ایک بار سننے کے لیے وقت پہ آجاتا ہے تو آئندہ وہ نماز جمعہ سے پہلے نہیں
آتا۔ حالانکہ ہونا تو یہ چاہیے کہ ہر خطیب کو جمعہ کے دن ہونے والے خطاب کے
لیے بھرپور تیاری کرنی چاہیے اور اپنے مخصوص انداز سے ہٹ کر مختصر وقت کے
لیے خطاب کرنا چاہیے جس سے لوگ اکتاہٹ کا شکار نہ ہوں۔ان چیزوں کا خیال
رکھنا بھی خطباءحضرات کی ذمہ داری ہے۔تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ بیانات میں
شرکت کریں۔دوسری طرف ورثاءانبیاءنے درس قرآن دینا چھوڑ دیا ہے،کیونکہ طلبہ
کو درس قرآن کا طریقہ بتایا نہیں جاتا، اس لیے اکثر طلبہ درس قرآن دے نہیں
سکتے۔ ہر سال ہزاروں فضلاءمدارس سے فارغ ہوتے ہیں لیکن درس قرآن دینے والوں
کی تعداد اتنی کم ہوتی ہے شاید ان کو ہاتھ کی انگلیوں پر گنا جاسکے۔انہی
تمام چیزوں کو دیکھتے ہوئے آج بہت سے نام نہاد دانشور اور اسکالروں نے
منبروں پر براجمان ہوگئے ہیں جن کا مبلغ عمل چند اردو کی کتابوں کے سوا کچھ
نہیں، ان کے بیانات اور درس قرآن میں شریک ہونے والے لوگوں کی تعداد بھی
ہزاروں میں ہوتی ہے۔اس کی وجہ یہی ہے کہ وہ مدارس کے خطباءحضرات کی
کمزوریوں کو نہیں دہراتے ، اپنے بیان کو بہتر سے بہتر انداز میں کرنے کی
کوشش کرتے ہیں۔ ہر طرح سے تیاری کر کے آتے ہیں اور موقع کی مناسبت سے بہت
ہی دھیمے اورموثر انداز میں بیان کرتے ہیں۔ وہ کوئی زیادہ لمبی تقریر نہیں
کرتے ہیں کہ جس سے کسی کو کوئی اکتاہٹ ہو۔ان کے بیان میں نہ تو حد سے زیادہ
جوشیلا پن ہوتا ہے اور نہ ہی زوردار نعرے بازی۔وہ حضرات اس بات کو سمجھ چکے
ہیں کہ ہر بات ہر انداز میں ہر جگہ نہیں کہی جاسکتی۔ اس بات کو سامنے رکھتے
ہوئے وہ بیانات کرتے ہیں جس سے ان کے بیانات سننے والوں کی تعداد دن بدن
بڑھ رہی ہے اور ان کے بیانات میں دلچسپی پیدا ہوتی ہے۔ ہمارے فضلاءکرام ان
باتوں کو نظر انداز کرتے ہیں تو ان کو سننے والوں کی تعداد دن بدن کم ہورہی
ہے۔اگر دینی مدارس کو دوبارہ معاشرے کے ساتھ تعلق مضبوط کرنا ہے تو مدارس
کے طلبہ کو بیان کی ہر نوع کی مکمل تربیت دینے کے لیے مدارس میں مکمل
رہنمائی میں ہفتہ واری بزم کے انعقاد کا سلسلہ دوبارہ سے بھرپور انداز میں
شروع کرنا ہوگا۔ |