صحت اور تعلیم ،ایم بی بی ایس میڈیکل کالج میرپور اور مسٹ

حضرت مولانامحمد یوسف کاندھلویؒ اپنی تصنیف حیات الصحابہ ؓ میں تحریر کرتے ہیں حضرت اسماعیلؒ کہتے ہیں کہ ہم لوگ حضرت حسن ؒ کے پاس عیادت کے لیے گئے۔ ہماری تعداد اتنی زیادہ تھی کہ سارا گھر بھر گیا تو انہوں نے اپنے پاؤں سمیٹ کر فرمایا ہم لوگ حضرت ابو ہریرہ ؓ کی عیادت کرنے گئے ہماری تعداد اتنی زیادہ تھی کہ سارا گھر بھر گیا۔ انہوں نے اپنے پاؤں سمیٹ کر فرمایا ہم لوگ حضور ﷺ کی عیادت کرنے گئے اور ہماری تعداد اتنی زیادہ تھی کہ سارا گھر بھر گیا آپ ﷺ پہلو کے بل لیٹے ہوئے تھے جب آپ ؐ نے ہمیں دیکھا تو اپنے پاؤں سمیٹ لیے اور فرمایا میرے بعد تمہارے پاس بہت لوگ علم حاصل کرنے آئیں گے تم انہیں خوش آمدید کہنا اور ان سے سلام اور مصافحہ کرنا اور انہیں خوب سکھانا۔ حضرت حسن کہتے ہیں اﷲ کی قسم ! ہمیں تو ایسے لوگ ملے جنہوں نے نہ تو ہمیں خوش آمدید کہا اور نہ ہم سے سلام اور مصافحہ کیا اور نہ ہمیں سکھایا بلکہ جب ہم ان کے پاس گئے تو ہمارے ساتھ جفا کا معاملہ کیا (حضرت حسن بصریؒ صحابہ ؓ کے بعد والے لوگوں کی شکایت کر رہے ہیں)

حضرت ام درداء ؓ فرماتی ہیں کہ جب بھی حضرت ابو درداء ؓ کوئی حدیث بیان کرتے تو ضرور مسکراتے تو میں نے ان سے کہا مجھے اس بات کا ڈر ہے کہ اس طرح لوگ آپ کو بیوقوف سمجھنے لگیں گے۔ انہوں نے فرمایا حضور ﷺ جب بھی بات فرماتے تو ضرور مسکراتے۔

حضرت عبداﷲ بن عمرو ؓ فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ کا اپنی مسجد میں دو حلقوں پر گزر ہوا۔ ایک حلقہ والے دعا میں اور اﷲ سے راز و نیاز کی باتوں میں لگے ہوئے تھے اور دوسرے حلقہ والے دینی علم سیکھ سکھا رہے تھے۔ حضور ﷺ نے فرمایا دونوں حلقوں والے خیر پر ہیں لیکن ایک حلقہ والے دوسرے سے بہترہیں یہ تو اﷲ سے دعا کر رہے ہیں اور اس سے راز و نیاز میں لگے ہوئے ہیں۔ اگر اﷲ چاہے گا تو ان کو دے گا اور اگر چاہے گا تو نہیں دے گا۔ یہ دوسرے حلقہ والے سیکھ رہے ہیں اور جسے نہیں آتا اسے سکھا رہے ہیں اور مجھے تو سکھانے والا ہی بنا کر بھیجا گیا ہے پھر آپؐ آ کر ان کے پاس بیٹھ گئے۔

حضرت ابو بکر بن ابی موسیٰ ؒ کہتے ہیں کہ حضرت ابو موسیٰ ؓ عشاء کے بعد حضرت عمر بن خطاب ؓ کے پاس آئے۔ حضرت عمر ؓ نے پوچھا کیسے آنا ہوا؟ حضرت ابو موسیٰ ؓ نے کہا آپ سے کچھ بات کرنا چاہتا ہوں۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا اس وقت؟ حضرت ابو موسیٰ ؓ نے کہا ہاں ایک ضروری دینی مسئلہ ہے چنانچہ حضرت عمر ؓ ان کے پاس بیٹھ گئے اور دونوں بہت دیر تک باتیں کرتے رہے۔ جب باتوں سے فارغ ہوئے تو حضرت ابو موسیٰ ؓ نے کہا اے امیر المومنین! تہجد کی نماز پڑھ لیں۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا ہم تو نماز میں ہی تھے۔

قارئین آج کا کالم انتہائی حساس نوعیت کے دو معاملات پر آپ کے سامنے چند گزارشات رکھنے کے ساتھ ساتھ چشم کشا انکشافات رکھتا ہے۔ آج سے کچھ عرصہ قبل ہم نے استاد محترم راجہ حبیب اﷲ خان کے ہمراہ ایف ایم 93کے مقبول ترین پروگرام ’’لائیو ٹاک ود جنید انصاری‘‘ میں دو عظیم شخصیات سے تعلیم کے حوالے سے گفتگو کی۔ یہ دو شخصیات پاکستان میں جوہری پروگرام کے خالق ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور پاکستان میں اعلیٰ تعلیم اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے سرسید احمد خان ڈاکٹر عطاء الرحمن تھے۔ ان دونوں شخصیات نے تعلیم کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے ہماری اور ہمارے لاکھوں سامعین کی معلومات میں گراں قدر اضافہ کیا۔ ان شخصیات کا ایجوکیشن کے حوالے سے ویژن اس نوعیت کا تھا کہ ہمیں یوں لگا کہ جیسے پاکستان اور آزاد کشمیر کو ضرورت ہے کہ وطن میں ’’ایجوکیشن ایمرجنسی‘‘ نافذ کر دی جائے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان مایہ ناز جوہری سائنسدان کا خیال تھا کہ اعلیٰ معیار کی تعلیم حاصل کیے بغیر ہم باوجود ایٹمی طاقت ہونے کے دنیا کی اقوام میں سر اٹھا کرچلنے کے کبھی بھی قابل نہیں ہو سکتے۔ جبکہ ڈاکٹر عطا ء الرحمن بھی اس حوالے سے انتہائی متفکر تھے ۔ ڈاکٹر عطاء الرحمن کا یہ کہنا تھا کہ ہمیں تعلیم کے حوالے سے چار درجوں کو دیکھنا ہوگا۔ پرائمری، سیکنڈری، ٹیکنیکل اور ہائر ایجوکیشن کی سطح پر ہمیں لائق ترین اساتذہ ، یکساں اور معیاری نصاب تعلیم کے ساتھ ساتھ غریب ترین اور اہل ترین سٹوڈنٹس کی حوصلہ افزائی کے لیے خصوصی اقدامات اٹھانا ہوں گے۔ اس حوالے سے ڈاکٹر عطاء الرحمن نے ملائشیا کی مثال پیش کی کہ جہاں پر ڈاکٹر مہاتیر محمد نے آج سے تیس سال قبل قومی بجٹ کا تیس فیصد تعلیم پر خرچ کرنے کے لیے مختص کر دیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ آج ملائشیا پچاس سے زائد اسلامی ممالک میں 87فیصد سے زائد ہائی ٹیک پراڈکٹس ایکسپورٹ کر رہا ہے جبکہ دیگر 56کے قریب اسلامی ممالک ملکر بھی 13فیصد سے زائد ایکسپورٹ نہیں کر پا رہے۔ جبکہ اس کے برعکس پاکستان میں صورتحال یہ ہے ہم اپنے بجٹ کا 1.8فیصد تعلیم پر خرچ کرتے ہیں اور اس کے بعد یہ توقع رکھتے ہیں کہ ہمارے ’’نوزائیدہ شاہین‘‘ ستاروں پر کمندیں ڈالنے سے لے کر پہاڑوں کی چٹانوں پر بسیرا کرنے جیسے کار ہائے نمایاں انجام دے پائیں گے۔ ڈاکٹر عطاء الرحمن نے استاد محترم راجہ حبیب اﷲ خان اور راقم کے سوالات کے جوابات دیتے ہوئے انتہائی دکھی لہجے میں بتایا کہ میں نے ہائر ایجوکیشن کمیشن کے چیئرمین ہونے کی حیثیت سے پاکستان اور آزاد کشمیر بھر سے تین ہزار سے زائد لائق ترین اور غریب ترین سٹوڈنٹس کو منتخب کر کے دنیا بھر کی اعلیٰ ترین یونیورسٹیز میں پی ایچ ڈی کرنے کے لیے بھیجا کہ یہی چمکتے ستارے تعلیم حاصل کرنے کے بعد وطن واپس آ کر انقلاب برپا کر دیں گے۔ لیکن بدقسمتی سے حکومت کی تبدیلی کے ساتھ ہی ترجیحات بدل گئیں اور ان سٹوڈنٹس کے سکالر شپس روک دیئے گئے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ یہ بچے اپنی تعلیم پوری کرنے کے لیے بھیک مانگنے پر مجبور ہو گئے۔ میں نے اپنے ضمیر کے ہاتھوں تنگ آ کر ہائر ایجوکیشن کمیشن سے استعفیٰ دے دیا۔ ہم نے ڈاکٹر عطاء الرحمن سے پوچھا کہ آپ کے ایچ ای سی کے چیئرمین بننے سے پہلے پاکستان بھر میں پی ایچ ڈی سکالرز کی تعداد تین ہزار سے کم تھی۔ جو گزشتہ پچاس سالوں کی محنت کا نتیجہ تھا لیکن ڈاکٹر عطاء الرحمن کی محنت کی نتیجے میں پانچ سالوں میں پاکستان میں پی ایچ ڈی سکالرز کی تعداد 8ہزار کے قریب پہنچ گئی آپ یہ بتائیے کہ یہ سب کامیابیاں اپنی جگہ آپ نے آزاد کشمیر جیسے کم ترقی یافتہ علاقے کو کیا تحفہ دیا اس پر ڈاکٹر عطاء الرحمن نے بے ساختہ قہقہہ لگایا اور ہنستے ہوئے کہنے لگے جناب میں نے آزاد کشمیر کو ’’میرپور یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی ‘‘ کا تحفہ دیا اور اس تحفے کے ساتھ ساتھ کثیر فنڈز بھی اس کے لیے مختص کیے۔

قارئین یہ سب تمہید اس لیے ضروری تھی کہ آپ کے ذہنوں میں تعلیم کی اصل اہمیت اجاگر ہو یہ پس منظر بیان کرنے کا مقصد آج کے کالم کے موضوع کے ساتھ ہے۔ میرپور یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی سابق صدر آزاد کشمیر راجہ ذوالقرنین خان کی مخلصانہ مصاعی کا نتیجہ ہے مسٹ کے قیام کے لیے راجہ ذوالقرنین خان نے جو کردار ادا کیا وہ مستقبل کا مورخ ہی درست انداز میں بیان کر پائے گا مسٹ اپنے قیام سے لے کر اب تک وہ ’’ٹائیٹینک‘‘ ثابت ہوئی ہے کہ جو بھی اس کا کپتان بنا اسے ڈبو گئی اور مسٹ کے اپنے حالات اس نوعیت کے ہیں کہ اس وقت پاکستان کی 27یونیورسٹیاں جو سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں کام کر رہی ہیں ان میں مسٹ کو نیچے سے پہلے نمبر پر آنے کا اعزازاور سرٹیفکیٹ ہائر ایجوکیشن کمیشن نے حال میں عنایت کیا ہے۔ حال ہی میں بدحالی اور بے حالی کا یہ نمونہ عطا کرنا بتا رہا ہے کہ ڈاکٹر عطاء الرحمن کے عطا کردہ تحفے کے ساتھ کس نوعیت کا سلوک کیا گیاہے۔ انجینئر نائب حسین کو ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد برطرف کیا گیا ان سے قبل ڈاکٹر حبیب الرحمن جو آزاد کشمیر یونیورسٹی کے وائس چانسلر بھی تھے اس یونیورسٹی کی ڈرائیونگ سیٹ پر تشریف رکھتے تھے۔ انجینئر نائب حسین کی برطرفی کے بعد عارضی طور پر ڈاکٹر محمد سرور کو وائس چانسلر مقرر کیا گیا اور اس دوران ہائی کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں ’’سرچ کمیٹی‘‘ تشکیل دی گئی۔ یہ سرچ کمیٹی 13افراد پر مشتمل تھی اس سرچ کمیٹی کے چیئرمین قائداعظم یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر معصوم یوسف ذئی تھے جبکہ ڈیرہ اسماعیل یونیورسٹی کے وائس چانسلر ، ہائر ایجوکیشن کمیشن کے ایگزیکٹو ڈائرکٹر ڈاکٹر مختار سمیت دیگر انتہائی اہم پروفیشنلز اس سرچ کمیٹی میں شامل تھے۔ اس سرچ کمیٹی نے ابتدائی مرحلے میں 48کے قریب درخواستیں وصول کیں اور ان کو شارٹ لسٹ کرتے ہوئے 9افراد کی ایک لسٹ بنائی ، دوسرے مرحلے پر مسٹ کے آرڈیننس کی روشنی میں شارٹ لسٹنگ کرتے ہوئے چار افراد کی ایک لسٹ صدرآزاد کشمیر چانسلر یونیورسٹی سردار حاجی محمد یعقوب خان کو پیش کر دی۔ یہ چار منتخب افراد ڈاکٹر حبیب الرحمن، ڈاکٹر محمد سرور، ڈاکٹر زید حامد اورپروفیسر ڈاکٹر کلیم عباسی تھے۔ حالیہ اطلاعات کے مطابق صدر آزاد کشمیر سردار یعقوب خان ان چار افراد میں سے کسی ایک فرد کا انتخاب اپنی صوابدید پر کر سکتے ہیں۔ راقم ریڈیو آزاد کشمیر ایف ایم 93کے سٹیشن ڈائریکٹر اور ڈپٹی کنٹرولر ریڈیو پاکستان کے ہمراہ آج اتفاق سے ’’چائے پینے کی نیت ‘‘ لے کر آزاد کشمیر کے سب سے بڑے پریس کلب ’’کشمیر پریس کلب میرپور ‘‘ پہنچا اور جب ہال میں قدم رکھا تو دیکھا کہ پریس کلب کے صدر سید عابد حسین شاہ ، جنرل سیکرٹری سجاد جرال، سینئر صحافیوں الطاف حمیدراؤ و دیگر کے ہمراہ فرینڈ زآف میرپور کے صدر چوہدری محمد صدیق ، جنرل سیکرٹری سردار شفیق اور میرپور بار ایسوسی ایشن کے صدر سردار اعجاز نذیر ایڈووکیٹ بھی تشریف رکھتے ہیں۔ ’’اہلاً و سہلاً مرحبا حبیبی ‘‘کے بعد ہم پر انکشاف ہوا کہ ہماری ’’چائے پینے کی سازش‘‘ کامیاب نہیں ہو سکتی کیونکہ زیر بحث موضوع انتہائی حساس نوعیت کا ہے۔ فرینڈ ز آف میرپور کے احباب یہ خیال رکھتے تھے کہ مسٹ کا وائس چانسلر سرچ کمیٹی کی سفارشات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے کسی اور شخصیت کو مقرر کیا جا رہا ہے۔ اس حوالے سے ہم نے سٹیشن ڈائریکٹر چوہدری محمد شکیل کی ہدایات کی روشنی میں اپنے ٹاک شو کا موضوع یہی رکھ لیا۔ ’’ لائیو ٹاک ود جنید انصاری‘‘ میں استاد محترم راجہ حبیب اﷲ خان کے ہمراہ جب گفتگو شروع کی اور فرینڈز آف میرپور کے جنرل سیکرٹری سردار شفیق خان کو بولنے کا موقع دیا تو ان کا موقف یہ تھا کہ صدر آزاد کشمیر سردار حاجی محمد یعقوب خان چوتھے نمبر پر آنے والے ڈاکٹر کلیم عباسی کوعلاقہ پرستی کی وجہ سے پہلے نمبر پر آنے والے ڈاکٹر حبیب الرحمن پر ترجیحی دے رہے ہیں اور اس کا نتیجہ مسٹ کے لیے انتہائی بھیانک ثابت ہو سکتا ہے۔ اس حوالے سے ڈپٹی اپوزیشن لیڈر چوہدری طارق فاروق نے گفتگو کرتے ہوئے یہ تاریخی جملہ ہوا کے دوش پر ادا کر دیا کہ ’’جو بھی شخص میرٹ کو پامال کرے گا وہ خود پامال ہو کر رہ جائے گا‘‘

قارئین ہماری اپنی تحقیقات کے مطابق اور اپنی کھال بچانے کے لیے وہی پرانا جملہ دوہراتے ہوئے کہ ’’دروغ بر گردن ِ راوی ‘‘ ہم آپ کو بتاتے چلیں کہ ڈاکٹر کلیم عباسی بھی ہمارے لائق ترین اساتذہ میں شامل ہیں اور زرعی یونیورسٹی راولاکوٹ میں بی ایس سی آنرز کرنے کے دوران ہم نے ان کی شخصیت کو انتہائی قریب سے دیکھا ہے ڈاکٹر کلیم عباسی نے 1999میں Soil Scienceمیں برطانیہ سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی اور نائٹروجن ٹرانسفارمیشن کے حوالے سے ریسرچ کی ان کی عالمی سطح کی پبلکیشنز کی تعداد ایک سو سے زائد ہے۔ وہ ڈین زراعت بھی رہے اور آج کل پونچھ یونیورسٹی میں ڈین فیکلٹی آف بیسک اینڈ ایپلائڈ سائنسز ہیں اور ان کے ایڈمنسٹریٹو تجربے کا دورانیہ آٹھ سال سے زائد ہے۔ اسی طریقے سے ڈاکٹر حبیب الرحمن ہمارے محسنوں اور دوستوں میں سے ایک ہیں ڈاکٹر حبیب الرحمن ساڑھے چار سال آزاد کشمیر یونیورسٹی کے وائس چانسلر رہے اور ان کے دورمیں آزاد کشمیر یونیورسٹی پاکستان کی تمام’’میڈیم سائز‘‘ یونیورسٹیوں میں پانچویں نمبر تھی ا س حوالے سے آپ کو بتاتے چلیں کہ جن یونیورسٹیوں میں سٹوڈنٹس کی تعداد دس ہزار سے زائد ہو انہیں بڑی یونیورسٹیاں کہا جاتا ہے ، جن یونیورسٹیوں میں سٹوڈنٹس کی تعداد پانچ ہزار سے زائد اور دس ہزار سے کم ہو انہیں میڈیم یونیورسٹیاں کہا جاتا ہے اور جن یونیورسٹیز میں سٹوڈنٹس کی تعداد پانچ ہزار سے کم ہو انہیں چھوٹی یونیورسٹیوں کے درجے میں رکھا جاتا ہے۔ ڈاکٹر حبیب الرحمن کے دورمیں آزاد کشمیر یونیورسٹی نے بے مثال ترقی کی اور مسٹ کے وائس چانسلر کی حیثیت سے انہوں نے 80ملین روپے کے بجٹ سے شروعات کرتے ہوئے دو سو ملین بجٹ منظور کروایا اور یونیورسٹی چھوڑتے وقت دو ارب روپے کا پی سی ون منظوری کے لیے پیش کیا۔

قارئین صدر آزاد کشمیر کا صوابدیدی اختیار اپنی جگہ ، ہماری ایک نالائق شاگرد کی حیثیت سے استاد محترم پروفیسر ڈاکٹر کلیم عباسی سے نیاز مندی اور محبت اپنی جگہ اور سابق وائس چانسلر آزاد کشمیر یونیورسٹی پروفیسر ڈاکٹر حبیب الرحمن سے دوستی کا رشتہ اور تعلق اپنی جگہ، ہم آج کے کالم کی وساطت سے ’’بابائے قوم‘‘ الحاج سردار محمد یعقوب خان سے گزارش کرتے ہیں کہ لٹی پٹی کشمیری قوم کے حال پر رحم فرماتے ہوئے وہ فیصلہ کیجئے جو میرٹ اور انصاف پر مبنی ہو۔ جس سے تعلیمی ادارے ترقی کریں اور ہم بھی اس مقام پر پہنچیں کہ اقوام عالم ہمارا نظارہ جب بھی کریں ان کے سروں کی ٹوپیاں زمین پر گر جائیں بالکل اسی طرح جس طرح آج کل انکل سام اور دیگر ترقی یافتہ ممالک کی ترقی کو دیکھتے ہوئے ہماری سروں کی ٹوپیاں روزانہ نیچے گر جاتی ہیں۔

قارئین دوسری بات مختصراً آپ سے کہتے چلیں میڈیکل کالجز کی ایک زنجیر آزاد کشمیر میں قائم ہو چکی ہے مظفرآباد میں میڈیکل کالج کام کر رہا ہے، راولاکوٹ میں بھی میڈیکل کالج میں کلاسز کا آغاز ہو چکا ہے اور میرپور میں محی الدین اسلامک میڈیکل کالج پرائیویٹ شعبے میں اور محترمہ بے نظیر بھٹو شہید میڈیکل کالج میرپور سرکاری شعبے میں کام کر رہے ہیں۔ امید یہ تھی کہ جب میڈیکل کالجز آزاد کشمیر قائم ہوں گے تو یہاں کی غریب آبادی اور مفلوک الحال عوام کو ’’ٹرشری لیول‘‘ کی سہولیات ملیں گی۔ پروفیسر عبدالرشید میاں ایم بی بی ایس میڈیکل کالج کے پرنسپل ہیں اور ان کے ٹو آئی سی مہربان اور مشفق آرتھوپیڈک پروفیسر ڈاکٹر اشرف نظامی ہیں۔ میڈیکل کالج میں درجنوں پروفیسرز تعلیمی خدمات سرانجام دے رہے ہیں اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ’’عدالتوں میں زیر بحث ڈویژنل ہیڈ کوارٹر ہسپتال میرپور‘‘ ،کشمیر انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی اور سٹی ہسپتال میرپور سمیت وہ تمام ادارے جو ان میڈیکل کالجز نے ٹیچنگ ہسپتال کے طور پر ظاہر کرتے ہوئے پی ایم ڈی سی سے رجسٹریشن حاصل کی۔ ان تمام ہسپتالوں میں یہ انتہائی قابل پروفیسرز کام کرنا شروع کریں۔ بصورت دیگر یہ تمام اربوں روپے کی مالیت کی ایکٹویٹی عوام کے خون پسینے کی کمائی ضائع کرنے کے مترادف ہو گی۔ امید ہے کہ تمام اتھارٹیز اس انتہائی حساس مسئلے کی جانب توجہ دیں گی۔ تعلیم اور صحت ترقی یافتہ ممالک کی ترجیحات میں پہلے نمبر پر ہوتی ہیں بد قسمتی سے مسٹ کی نیچے سے اول آنے والی درجہ بندی کی طرح تعلیم اور صحت بھی ہماری قومی ترجیحات میں نیچے سے پہلے نمبر پر آ رہی ہیں۔
آخر میں حسب روایت ادبی لطیفہ پیش خدمت ہے
معروف شاعر قتیل شفائی سے ایک شاعر نے طنزیہ لہجے میں پوچھا ۔
’’کیوں صاحب سنا ہے آپ مشاعرے میں گا کر پڑھتے ہیں‘‘ ۔
قتیل شفائی نے برجستہ جواب دیا
’’تو جناب آپ کیا رو کر پڑھتے ہیں‘‘۔

قارئین ہماری آج کی ’’انصارنامہ‘‘ کی گزارشات کو چاہے گانا سمجھیے اور چاہے رونا ، ہم نے دیانت دار اور سچائی سے جو سمجھا وہ سب سچ سچ آپ کے سامنے پیش کر دیا رہے نام اﷲ کا۔ ۔۔

Junaid Ansari
About the Author: Junaid Ansari Read More Articles by Junaid Ansari: 425 Articles with 374535 views Belong to Mirpur AJ&K
Anchor @ JK News TV & FM 93 Radio AJ&K
.. View More