6۔ تقبیلِ حجرِ اَسود : حبیبِ
خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ادا دُہرائی جاتی ہے:-
حجرِ اسود کی شرف و فضیلت کا ایک سبب یہ ہے کہ اسے حضرت جبریل علیہ السلام
جنت سے لے کر آئے تھے۔ (1) انبیاء کرام حکمِ اِلٰہی کے تحت حجرِ اَسود کا
بوسہ لیتے اور اِستلام کرتے تھے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے
جد الانبیاء سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی سنت پر عمل کرتے ہوئے اپنے مبارک
ہاتھوں سے حجرِ اسود کو حرمِ کعبہ کے اندر نصب فرمایا اور اپنے مقدس لبوں
سے اسے بوسہ دیا۔ چنانچہ حجرِ اَسود کا استلام اور بوسہ مناسک حج میں شامل
کردیا گیا۔ آج مسلمان صرف اِس لیے اس کا استلام کرتے اور بوسہ لیتے ہیں کہ
تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایسا کیا تھا۔ اِس اَمر کی
تائید سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے قول سے بھی ہوتی ہے۔ ایک مرتبہ
سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ طواف کرتے ہوئے حجرِ اَسود کے سامنے کھڑے
ہوگئے اور اسے فرمانے لگے :
1. أرزقي، أخبار مکة وما جاء فيها من الآثار، 1 : 62، 64، 325
2. ابن أبي شيبة، المصنف، 3 : 275، رقم : 14146
3. ابن الجعد، المسند : 148، رقم : 940
4. فاکهي، أخبار مکة في قديم الدهر وحديثه، 1 : 91، رقم : 25
5. هيثمي، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، 3 : 242
إني أعلم أنک حجر، لا تضر ولا تنفع، ولولا أني رأيت النبّي صلي الله عليه
وآله وسلم يقبّلک ما قبّلتک.
’’میں جانتا ہوں بے شک تو ایک پتھر ہے جو نفع پہنچا سکتا ہے نہ نقصان۔ اگر
میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تجھے بوسہ دیتے ہوئے نہ
دیکھا ہوتا تو میں تجھے کبھی بوسہ نہ دیتا۔‘‘
1. بخاري، الصحيح، کتاب الحج، باب ما ذکر في الحجر الأسود، 2 : 579، رقم :
1520
2. بخاري، الصحيح، کتاب الحج، باب الرمل في الحج والعمرة، 2 : 582، رقم :
1528
3. بخاري، الصحيح، کتاب الحج، باب تقبيل الحجر، 2 : 583، رقم : 1532
4. مسلم، الصحيح، کتاب الحج، باب إستحباب تقبيل الحجر الأسود في الطواف، 2
: 925، رقم : 1270
5. ابن ماجه، السنن، کتاب المناسک، باب إستلام الحجر، 2 : 981، رقم : 2943
6. نسائي، السنن الکبري، 2 : 400، رقم : 3918
7. أحمد بن حنبل، المسند، 1 : 46، رقم : 325
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا یہ قول ان الفاظ کے ساتھ بھی مذکور ہے :
إنما أنت حجر، ولولا أني رأيت رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم قبّلک، ما
قبّلتک.
’’(اے حجرِ اَسود!) تو محض ایک پتھر ہے۔ اگر میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم کو تجھے چومتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو میں تجھے کبھی نہ
چومتا۔‘‘
1. مالک، الموطا، کتاب الحج، باب تقبيل رکن الأسود في الاستلام، 1 : 367،
رقم : 818
2. أحمد بن حنبل، المسند، 1 : 53، رقم : 380
یہ کلمات ادا کرنے کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حجرِ اَسود کو بوسہ
دیا۔
ان روایات سے ثابت ہوتا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے پیشِ نظر تقبیلِ
حجرِ اَسود کا مقصد صرف حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت کی
یاد تازہ کرنا تھا، اور یہی سنت تاقیامت جاری رہے گی۔
7۔ قیامِ مقامِ اِبراہیم سیدنا اِبراہیم علیہ السلام کی یاد دلاتا ہے:-
لغت کی رو سے مقام قدم رکھنے کی جگہ کو کہتے ہیں۔ (1) مقامِ ابراہیم کے
تعین کے بارے میں مختلف اَقوال ہیں : جمہور علماء و مفسرین کے نزدیک حضرت
جابر بن عبد اﷲ، حضرت عبد اﷲ بن عباس اور قتادہ رضی اللہ عنھم و دیگر کے
قول کے مطابق مقامِ ابراہیم اُس پتھر کو کہا جاتا ہے جسے لوگ اب مقامِ
ابراہیم کے نام سے پہچانتے اور اس کے نزدیک طواف کی دو رکعت ادا کرتے ہیں۔
صحیح ترین قول بھی یہی ہے۔ (2) اِس کی وضاحت امام بخاری (194۔ 256ھ) کی
بیان کردہ اس روایت سے ہوتی ہے جس میں ہے کہ تعمیر کعبہ کے وقت حضرت
اسماعیل علیہ السلام پتھر لاتے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام ان پتھروں کو
جوڑ کر دیواریں بنا رہے تھے۔ جب دیواریں بلند ہوگئیں تو وہ اِس پتھر کو
لائے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام اِس پتھر پر کھڑے ہو کر تعمیر کرنے لگے۔
(3) ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حضرت
اسماعیل علیہ السلام کے لائے ہوئے پتھر اُٹھانے سے ضعف لاحق ہوا تو وہ اِس
پتھر پر کھڑے ہو کر تعمیر کرنے لگے اور یہ پتھر کعبہ کے عمارت کے اِرد گرد
گھومتا رہتا یہاں تک کہ تعمیر مکمل ہوگئی۔(4)
1. فراهيدي، کتاب العين، 5 : 232
2. فيروز آبادي، القاموس المحيط، 4 : 170
3. ابن منظور، لسان العرب، 12 : 498
4. زبيدي، تاج العروس من جواهر القاموس، 17 : 592
(2) 1. طبري، جامع البيان في تفسير القرآن، 1 : 537
2. قرطبي، الجامع لأحکام القرآن، 2 : 112
3. رازي، التفسير الکبير، 4 : 45
4. آلوسي، روح المعاني في تفسير القرآن العظيم والسبع المثاني، 1 : 379
5. عسقلاني، فتح الباري، 1 : 499
(3) 1. بخاري، الصحيح، کتاب الأنبياء، باب يزفون : النسلان في المشي، 3 :
1235، رقم : 3184
2. عبد الرزاق، المصنف، 5 : 110، رقم : 9107
3. طبري، جامع البيان في تفسير القرآن، 1 : 550
4. ابن کثير، تفسير القرآن العظيم 1 : 178
5. قزويني، التدوين في اخبار قزوين، 1 : 105
(4) 1. أزرقي، أخبار مکة و ماجاء فيها من الآثار، 1 : 58
2. أزرقي، أخبار مکة و ماجاء فيها من الآثار، 2 : 33
حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بارگاہِ
رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں عرض کیا :
يا رسول اﷲ! لو اتخذت من مقام إبراهيم مصلي.
’’یا رسول اﷲ! کاش آپ مقامِ ابراہیم کو نماز کی جگہ بنالیں۔‘‘
اس پر درج ذیل آیت نازل ہوئی :
وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰهيْمَ مُصَلًّي.
القرآن، البقرة، 2 : 125
’’اور ابراہیم (علیہ السلام) کے کھڑے ہونے کی جگہ کو مقامِ نماز
بنالو۔‘‘(1)
(1) 1. بخاري، الصحيح، کتاب التفسير، باب قوله : و اتخذوا من مقام إبراهيم
مصلي، 4 : 1629، رقم : 4213
2. ترمذي، الجامع الصحيح، أبواب التفاسير، باب ومن سورة البقرة، 5 : 206،
رقم : 2960
3. ابن ماجه، السنن، کتاب إقامة الصلاة و السنة فيها، باب القبلة، 1 : 322،
رقم : 1008
4. نسائي، السنن الکبري، 6 : 289، رقم : 10998
5. ابن حبان، الصحيح، 15 : 319، رقم : 6896
6. أحمد بن حنبل، المسند، 1 : 36، رقم : 250
اس حکم کی تعمیل میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مقامِ
اِبراہیم کے پیچھے نماز ادا کی۔ حضرت جابر بن عبد اﷲ رضی اﷲ عنہما روایت
کرتے ہیں کہ جب ہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ بیت اﷲ پہنچے تو آپ
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اِستلامِ رکن کیا، پھر طواف کے تین چکروں میں
رمل کیا اور چار میں معمول کے مطابق طواف کیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم مقامِ ابراہیم پر آئے اور آیت (وَاتَّخِذُواْ مِن مَّقَامِ
إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى)۔ تلاوت فرمائی، اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے
مقامِ ابراہیم کو اپنے اور بیت اﷲ کے درمیان کیا اور دو رکعت نماز پڑھی۔
مسلم، الصحيح، کتاب الحج، باب حجة النبي صلي الله عليه وآله وسلم ، 2 :
887، رقم : 1218
پس سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ جیسے جلیل القدر صحابی کی خواہش پر اﷲ
تعالیٰ نے قرآن حکیم میں اس پتھر کو مقامِ نماز بنا لینے کا حکم فرمایا جس
پر کھڑے ہو کر سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے کعبہ کی تعمیر کی تھی اور اس
پتھر کو یہ شرف ملا کہ سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے اپنا
مقامِ نماز بنایا۔ اِس طرح قیامت تک بیت اﷲ کا طواف کرنے والے تمام
مسلمانوں کے لیے واجب قرار پا گیا کہ جب تک وہ اس مقام پر دو رکعت نماز نہ
ادا کر لیں ان کا طواف مکمل نہیں ہوگا۔ (اگر مقام ابراہیم پر نماز کی جگہ
نہ ملے تو دوسری جگہ پر بھی نماز ادا کی جاسکتی ہے، لیکن اَفضلیت اسی کو
حاصل ہے۔)(1) پس تعمیرِ کعبہ میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نشانی کے طور
پر مقامِ ابراہیم ہمیشہ مسلمانوں کی عقیدتوں کا مرکز رہے گا اور وہ اِس
مقام پر نوافل ادا کرکے حضرت اِبراہیم علیہ السلام کی تعمیرِ کعبہ کی یاد
مناتے رہیں گے۔
1. سرخسي، کتاب المبسوط، 4 : 12
2. کاساني، بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع، 2 : 148
3. سمرقندي، تحفة الفقهاء، 1 : 402
4. ابن نجيم، البحر الرائق شرح کنز الدقائق، 2 : 356
جاری ہے۔۔۔ |