اسلامی نظریاتی کونسل ایک حکومتی ادارہ ہے جسے آئین
پاکستان کے آرٹیکل 224 تا 231 کے تحت قانونی و آئینی تحفظ حاصل ہے۔ اس
ادارے کا قیام یکم اگست 1962ء کو عمل میں آیا۔ اس ادارے کا مقصد قرآن و سنت
کی روشنی میں حکومت پاکستان اور پارلیمنٹ کی مختلف مسائل میں رہنمائی کرنا
ہے۔ حکومت پاکستان کوئی بھی قانون بنانے سے پہلے اسے اسلامی نظریاتی کونسل
کو بھیج کر رائے طلب کرسکتی ہے کہ آیا یہ قانون قرآن و سنت سے متصادم تو
نہیں اور مزید اس میں کیا ترمیم و اضافہ کیا جاسکتا ہے جس سے اس کی افادیت
میں اضافہ ہوسکے۔ دستور کی اسلامی دفعات کے تحت کونسل کو یہ استحقاق بھی
حاصل ہے کہ وہ ملک میں رائج کسی بھی قانون کا قرآن و سنت کے احکام کی روشنی
میں جائزہ لے اور اس سے متعلق اپنی رائے اور سفارشات پارلیمنٹ کو پیش کرے۔
جب یہ ادارہ قائم ہوا تھا تو اس کے اراکین کا علم و تقویٰ ایک ضرب المثل کی
حیثیت رکھتا تھا۔ محترم پروفیسر علامہ علاؤالدین صدیقی، جسٹس محمد افضل
چیمہ، جسٹس تنزیل الرحمان، جسٹس محمد حلیم اور ڈاکٹر ایس ایم زمان ایسے
نابغہ روزگار کونسل کے چیئرمین رہ چکے ہیں۔مگر شومئی قسمت اب یہ ادارہ
آہستہ آہستہ سیاسی آلائشوں کا شکار ہوتا جارہا ہے۔ شروع میں اس ادارہ کے
ممبران کا انتخاب میرٹ پر ہوتا تھا مگر بعد ازاں یہ عہدہ سیاسی رشوت کے طور
پر پیش ہوتا رہا اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔
حال ہی میں اسلامی نظریاتی کونسل کا دو روزہ اجلاس 18،19 ستمبر 2013ء کو
اسلام آباد میں منعقد ہوا۔ اس سلسلہ میں کونسل کے ڈائریکٹر جنرل ریسرچ محمد
الیاس خان نے ایک پریس ریلیز جاری کیا جس میں کہا گیا: ’’کونسل کے اجلاس
میں، اخبارات میں آیات قرآنی کی طباعت، DNA ٹیسٹ کی سفارش پر میڈیا اور بعض
دیگر اداروں و شخصیات کے ردعمل، بزرگ شہریوں کے لیے شیلٹر ہومز کے بارے میں
مسودہ بل، قانون توہین رسالت کے غلط استعمال کی روک تھام، تحقیقات برائے
منصفانہ سماعت ایکٹ 2012ء، شہری و سیاسی حقوق پر عالمی کنونشن، تحفظ نسواں
ایکٹ، 2006ء، شدید اشتعال میں قتل کرنے کی صورت میں سزا میں تخفیف اور نظام
معیشت کے حوالے سے سفارشات کے مسودے کو بھی حتمی شکل دی گئی۔ علاوہ ازیں
دیگر اہم امور بھی زیر غور آئے اور ان کے بارے میں سفارشات منظور کی
گئیں‘‘۔
قانون توہین رسالت کے سلسلہ میں کونسل نے اپنے حالیہ اجلاس میں حکومت اور
پارلیمنٹ کو سفارش کی ہے کہ اس قانون کو چھیڑے بغیر ایک نیا قانون بنایا
جائے کہ اگر کوئی شخص (مدعی) کسی دوسرے شخص (ملزم) پر توہین رسالت کا الزام
لگائے یا اس کے خلاف ایف آئی آر درج کرائے اور وہ شخص (مدعی) اس الزام کو
ثابت نہ کرسکے تو اس (مدعی) کو وہی سزا ملے گی جو توہین رسالت کے مجرم کو
دی جاتی ہے۔ اجلاس میں کونسل نے توہین رسالت کے قانون کے تحت جھوٹی ایف آئی
آر کو روکنے کے لیے وزارت قانون کو نئی قانون سازی کرنے کی بھی باضابطہ
سفارش کی ہے۔ قارئین کرام کو یاد ہونا چاہیے کہ مشرف دور میں راتوں رات
ضابطہ فوجداری میں ایک ترمیم کے ذریعے قانون توہین رسالت کو غیر موثر بنانے
کی ایک کامیاب کوشش ہوچکی ہے۔ ضابطہ فوجداری کی دفعہ 156-A کے تحت توہین
رسالت کے مقدمہ کی تفتیش صرف سپرنٹنڈنٹ پولیس یا اس ے بڑے عہدے کا آفیسر ہی
کرسکتا ہے۔ لہٰذا کونسل کی حالیہ سفارش کے بعد اب نیا قانون اس طرح ہوگا:
’’اگر کوئی شخص کسی دوسرے شخص پر توہین رسالت کا غلط الزام لگائے، وہ
سپرنٹنڈنٹ پولیس یا اس سے بڑے عہدے کے آفیسر کے روبرو درخواست دے کہ فلاں
شخص نے توہین رسالت کا ارتکاب کیا ہے۔ متعلقہ سپرنٹنڈنٹ پولیس اپنے طور پر
اس امر کی تحقیقات کرے گا کہ یہ الزام کہاں تک صحیح ہے۔ اگر وہ تفتیش کے
بعد اس الزام کی تصدیق نہ کرے تو مدعی (مقدمہ درج کروانے والے) کے خلاف
مقدمہ درج ہوگا جس کی سزا سزائے موت ہوگی‘‘۔
ہمارے خیال میں کونسل کی مذکورہ سفارش قانون اور انصاف کے تمام اصولوں کے
منافی ہے۔ پاکستان میں جہاں عدالتی نظام انحطاط کا شکار ہے، جہاں مدعی کو
کوئی تحفظ حاصل نہیں۔ جہاں کمرہ عدالت میں گواہوں کو دھمکیاں دی جاتی ہیں،
جہاں عدالتوں کے احاطہ میں فریق مقدمہ کو قتل کردیا جاتا ہے اور مخالفین کو
موت کے سپرد کرنا معمول بن چکا ہے، وہاں ایسی ترمیم سے اس قانون کے تحت
توہین رسالت کے مجرموں کو سزا دینے کے تمام دروازے بند ہوجائیں گے۔ بلکہ یہ
جانتے ہوئے کہ اگر اس کی شکایت مسترد کردی گئی تو خود اسے بھی سخت سزا کا
مستوجب گردانا جائے گا۔ ان حالات میں کون شکایت درج کرانے کے لیے آگے آئے
گا؟ مزید براں جب نہ صرف اعلیٰ سرکاری حکام بلکہ قانون نافذ کرنے والے
اداروں کی ہمدردیاں بھی کروڑوں مسلمانوں کے بجائے، توہین رسالتؐ کے مرتکب
افراد کے ساتھ ہوں گی تو مسلمانوں کے لیے کوئی قابل عمل قانونی مداوا ہی نہ
ہوگا۔ پھر مجوزہ سفارش جس کے تحت غلط شکایت کرنے والے کے لیے سزا تجویز کی
گئی ہے، بلا ضرورت اور بلا جواز ہے۔ کیونکہ پاکستان کے ضابطہ تعزیرات اور
ضابطہ فوجداری میں جھوٹی شکایت جس کا مقصد کسی دوسرے شخص کو نقصان پہنچانا
ہو، دینے والے کو سزا کی دفعات پہلے ہی موجود ہیں۔مثلاً تعزیرات پاکستان کی
دفعہ 194 میں درج ہے:
’’جو کوئی شخص جھوٹی گواہی دے یا اس کی غلط بیانی اس بات کے احتمال کے علم
کے ساتھ کرے کہ اس کے باعث کسی شخص کو کسی ایسے جرم میں سزا یاب کرائے جو
فی الوقت نافذ العمل قانون کی رو سے سنگین ہو تو اسے عمر قید کی سزا یا قید
بامشقت جس کی میعاد 10 سال تک ہوسکتی ہے اور وہ جرمانے کی سزا کا مستوجب
بھی ہوگا اور اگر مذکورہ گواہی کے سبب کوئی بے گناہ شخص سزا یاب ہوکر
پھانسی پا جائے تو اس شخص کو جس نے جھوٹی گواہی دی ہو، سزائے موت دی جائے
گی۔‘‘
اسی طرح تعزیرات پاکستان کی دفعہ 182 اور 211میں بھی جھوٹی شہادت یا غلط
رپورٹ درج کروانے والے کے لیے کڑی سزا موجود ہے۔ اگر حکومت یہ سمجھتی ہے کہ
ان دفعات میں سزا کم ہے تو اس میں اضافہ بھی کیا جاسکتا ہے اور قذف کی طرح
کوڑوں کی سزا بھی دی جاسکتی ہے۔
تعزیرات پاکستان میں مذکورہ بالا دفعات کے ہوتے ہوئے اسلامی نظریاتی کونسل
کو ایک نئے قانون کی سفارش کرنے سے احتراز کرنا چاہیے تھا۔ افسوس کی بات یہ
ہے کہ اراکین کو ان دفعات کا بخوبی علم تھا مگر شائد وہ ’’شاہ سے زیادہ شاہ
کے وفادار‘‘ بننے کے لیے پرتول رہے ہیں۔ کونسل کی اس تازہ واردات کے ڈانڈے
کہاں ملتے ہیں، اس پر کسی لمبی چوڑی تحقیق کی ضرورت نہیں، ہر ذی شعور جانتا
ہے کہ اس سفارش کے پس پردہ یورپ، امریکہ، قادیانی لابی اور نام نہاد این جی
اوز کے محرکات اور مفادات کار فرما ہیں۔ پاکستان میں قتل، بدکاری، ڈکیتی،
اغوا برائے تاوان، دہشت گردی اور منشیات کی خرید و فروخت کے لیے نہایت
سنگین سزائیں موجود ہیں۔ یہاں خاندانی دشمنیاں اور سیاسی رقابتیں عروج پر
ہیں۔ ہم روزمرہ زندگی میں دیکھتے ہیں کہ ان جرائم میں بے گناہ اشخاص کو
دشمنی اور عداوت کی بنا پر آسانی سے ملوث کر لیا جاتا ہے۔ آخر ان سنگین
جرائم کی تفتیش کا کام ایس پی کے سپرد کیوں نہیں؟ اور ان جرائم میں بے گناہ
لوگوں کو ملوث کرنے کے خلاف کونسل نے قانون سازی کیوں نہ کی؟ یہ بھی یاد
رہے کہ ضابطہ فوجداری میں گستاخ رسول کے خلاف مقدمہ کو ایس پی کی تفتیش سے
ملزوم اور مشروط کردیا گیا ہے۔ جس سے یہ ضابطہ، قانون کی کتابوں میں تو
موجود ہے مگر عملاً غیر موثر ہوکر رہ گیا ہے۔ یہاں تو متعلقہ ایس ایچ او کو
ملنا محال ہے، ایس پی تک رسائی کیسے ہوگی؟ ایس پی تو اپنے علاقے کا بادشاہ
ہوتا ہے۔ اس سے تو طاقتور ترین ایس ایچ او بھی بات کرنے سے گھبراتا ہے۔
یہاں ایک اور سوال پیدا ہوتا ہے کہ فرض کیجیے کہ ایک قادیانی ایس پی توہین
رسالت کے مقدمہ کی تفتیش کرتا ہے۔ کیا اس سے یہ توقع رکھی جاسکتی ہے کہ وہ
کسی قادیانی کے خلاف مقدمہ درج کرنے کا حکم دے۔ یہاں تو الٹا بے چارہ مدعی
ہی پھانسی چڑھ جائے گا۔ لاہور ہائی کورٹ نے اپنے ایک فیصلہ میں لکھا تھا:
’’مجموعہ تعزیرات پاکستان کی دفعہ 295۔ سی کے احکام نے یہ بات ممکن بنا دی
ہے کہ ملزموں کا عدالتی طریقہ کار سے مواخذہ کیا جاسکے اور معاشرہ میں یہ
رجحان پیدا کر دیا ہے کہ قانونی کارروائی کا سہارا لیا جائے۔ تعزیراتِ
پاکستان کی محولہ بالا دفعہ کے تحت مقدمے کے اندراج سے ملزم کو ایک عرصہ
حیات میسر آجاتا ہے۔ اس امر کے پورے مواقع کے ساتھ کہ وہ اپنی پسند کے وکیل
کے ذریعے عدالت میں اپنا دفاع کرے اور سزایابی کی صورت میں اعلیٰ عدالتوں
میں اپیل، نگرانی وغیرہ جیسی داد رسی کا فائدہ اٹھائے۔ کوئی بھی شخص، کجا
ایک مسلمان، ممکنہ طور پر اس قانون کی مخالفت نہیں کرسکتا، کیونکہ یہ من
مانی کا سد باب کرتا ہے اور قانون کی حکمرانی کو فروغ دیتا ہے۔ اگر تعزیرات
پاکستان کی دفعہ 295۔سی کے احکام کی تنسیخ کردی جائے یا انہیں دستور سے
متصادم قرار دے دیا جائے تو معاشرہ میں ملزموں کو جائے واردات پر ہی ختم
کرنے کا پرانا دستور بحال ہو جائے گا۔‘‘ (پی ایل ڈی 1994ء لاہور 485)
کہا جاتا ہے کہ کونسل کی حالیہ سفارش سے قانون توہین رسالت کے غلط استعمال
کے امکانات ختم ہوجائیں گے۔ مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا قانون توہین
رسالت ہی وہ واحد قانون ہے جس کو پاکستان میں غلط استعمال کیا جارہا ہے۔
ایک مصدقہ سروے رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 60 فیصد جھوٹے مقدمات درج ہوتے
ہیں۔ آخر ان مقدمات کے غلط استعمال کے بارے میں کیوں نہیں سوچا جاتا؟ کونسل
کے اراکین مسلمانوں کی آنکھوں میں دھول جھونکتے ہوئے نہایت ڈھٹائی سے
بیانات دے رہے ہیں کہ قانون تحفظ ناموس رسالت ﷺ کو تبدیل کرنے کی کوئی
سفارش نہیں کی گئی کیونکہ یہ قانون قرآن و سنت کے عین مطابق ہے۔ لہٰذا اس
میں کسی قسم کی تبدیلی کا سوچا بھی نہیں جاسکتا۔ کونسل کے اراکین کا یہ
موقف بالکل درست ہے مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس قانون کو غیر موثر
بنانے کے لیے حکومت کو ایک نئے قانون کی سفارش کرنا کس سازش کی چغلی کھا
رہا ہے؟
وفاقی وزیر مذہبی امور سردار محمد یوسف نے اپنے ایک اخباری بیان میں کہا ہے
کہ کونسل ایک مراعاتی ادارہ بن کر رہ گئی ہے۔ اس پر کونسل کے اراکین بہت
سیخ پا ہوئے۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل کی حالیہ سفارش کو
مسترد کردیا جائے تاکہ مسلمانوں میں قانون تحفظ رسالت ﷺ کے بارے میں پائی
جانے والی بے چینی اور اضطراب ختم ہوسکے۔ کونسل کے تمام اراکین کی ماہانہ
تنخواہ، مالی مراعات اور اثاثہ جات کی تفصیلات عام کی جائیں۔ اس بات کی
اعلیٰ سطح پر تحقیقات کروائی جائیں کہ غیر ملکی سفیروں کے ساتھ کونسل کے کن
اراکین کے خصوصی تعلقات ہیں۔ مزید برآں موجودہ اسلامی نظریاتی کونسل کو
فوری طور پر تحلیل کرکے اعلیٰ اسلامی کردار کے حامل افراد کو میرٹ پر
تعینات کیا جائے جن کا اخلاص و کردار ہر شک و شبہ سے بالا تر ہو۔ |