محافظ یادگارِ رسول صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم: صحابہ
کرام رضی اﷲ تعالیٰ عنہم کے زمانہ میں رسول اﷲ عزوجل و صلی اﷲ تعالیٰ علیہ
وآلہٖ وسلم کی یادگاریں محفوظ تھیں جن کووہ جان سے زیادہ عزیز رکھتے تھے
اور ان سے برکت حاصل کرتے تھے۔
حضرت علی بن حسین رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ جب ہم حضرت امام حسین
رضی اﷲ عنہ کی شہادت کے زمانے میں یزید کے دربار سے پلٹ کر مدینہ میں آئے
تو حضرت مسور بن مخرمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ ملے اور مجھ سے کہا کہ رسول اﷲ
عزوجل و صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم کی تلوار مجھے دیدو ایسا نہ ہو کہ
یہ لوگ اس کو چھین لیں۔ خدا عزوجلکی قسم! اگر تم نے مجھے یہ تلوار دی تو جب
تک جسم میں جان باقی ہے کوئی شخص اس کی طرف دست درازی نہیں کرسکتا۔
(سنن ابی داود، کتاب النکاح، باب مایکرہ ان یجمع بینھن من النساء ، الحدیث:
۲۰۶۹،ج۲،ص۳۲۷)
حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کے پاس آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہ وبارک
وسلمکا ایک جبہ محفوظ تھا۔ جب ان کا انتقال ہوا تو حضرت اسماء رضی اﷲ
تعالیٰ عنہا نے اس کو لے لیا اور محفوظ رکھا۔ چنانچہ جب ان کے خاندان میں
کوئی شخص بیمار ہوتا تھا تو شفا حاصل کرنے کے لئے دھوکر اس کا پانی پلاتی
تھیں۔
(المسندلامام احمد بن حنبل، حدیث اسماء بنت ابی بکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ
عنہما، الحدیث: ۲۷۰۰۸،ج۱۰،ص۲۷۱)
بہت سے صحابہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہم ان یادگاروں کو زاد آخرت سمجھتے تھے اور
ان کو بعد مرگ بھی اپنے پاس سے جدا کرنا پسند نہیں کرتے تھے۔
جب رسول اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم حضرت انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے
گھر تشریف لاتے تھے تو ان کی والدہ آپصلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہ وبارک وسلم
کے پسینے کو ایک شیشی میں بھرکر اپنی خوشبو میں ملادیتی تھیں چنانچہ جب
حضرت انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے انتقال کیا تو وصیت کی کہ یہ خوشبو ان کے
حنوط (چند خوشبودار چیزوں کا ایک مرکب جو مردہ کو غسل دینے کے بعد اس پر
ملتے ہیں)میں شامل کی جائے۔ روایت میں یہ بھی ہے کہ وہ آپصلی اﷲ تعالیٰ
علیہ والہ وبارک وسلم کے موئے مبارک کو بھی شیشی میں بھرلیتی تھیں۔
(صحیح البخاری، کتاب الاستئذان،باب من زارقوما فقال عندھم ، الحدیث:
۶۲۸۱،ج۴،ص۱۸۲)
لیکن علامہ ابن حجر رحمۃ اﷲ تعالیٰ علیہنے اس حدیث کی شرح میں پہلے تو اسکو
ایک بے جوڑ چیز سمجھا ہے لیکن اس کے بعد لکھا ہے کہ بعض لوگوں کے نزدیک اس
سے وہ بال مبارک مراد ہیں جو کنگھی کرنے میں آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہ
وسلم کے سر سے جداہوجاتے تھے ۔
پھر حضرت انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے ایک روایت نقل کی ہے کہ رسول اﷲ عزوجل و
صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم نے جب منیٰ میں اپنے بال مبارک اتروائے تو
حضرت ابو طلحہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے آپصلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہ وبارک وسلم
کے بال مبارک لے لئے اور انکو حضرت انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی والدہ کے
حوالے کیا جن کو انہوں نے اپنی خوشبو میں شامل کرلیا۔ اس سے یہ نتیجہ نکلتا
ہے کہ جس خوشبو میں یہ بال مبارک شامل تھے اسی میں وہ پسینے کو بھی شامل
کرلیتی تھیں۔
(فتح الباری شرح البخاری، کتاب الاستئذان،باب من زار قوما فقال عندھم، تحت
الحدیث: ۶۲۸۱،ج۱۲،ص۵۹)
غزوہ خیبر میں آ پ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلمنے ایک صحابیہ رضی اﷲ
تعالیٰ عنہا کو خود دست مبارک سے ایک ہار پہنایا تھا وہ اس کی اتنی قدر
کرتی تھیں کہ عمر بھر گلے سے جدا نہیں کیا اور جب انتقال کرنے لگیں تو وصیت
کی کہ ان کے ساتھ وہ بھی دفن کردیا جائے۔
(المسند لامام احمد بن حنبل، حدیث امرأۃ من بنی غفار رضی اﷲ عنہا، الحدیث:
۲۷۲۰۶،ج۱۰،ص۳۲۴)
حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے پاس آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہ
وسلم کا ایک کرتہ، ایک تہبند ایک چادر، اور چند موئے مبارک تھے، انہوں نے
وفات کے وقت وصیت کی کہ یہ کپڑے کفن میں لگائے جائیں اور موئے مبارک منہ
اور ناک میں بھردیئے جائیں۔
(تاریخ الخلفاء،معاویۃ بن ابوسفیان،ص۱۵۸بتصرف)
رسول اﷲ عزوجل و صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم نے جن کپڑوں میں انتقال
فرمایا تھا، حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے ان کو محفوظ رکھا تھا۔
چنانچہ انہو ں نے ایک دن ایک صحابی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو ایک یمنی تہبند
اور ایک کمبل دکھاکر کہا کہ خداعزوجل کی قسم! سرکار صلی اﷲ تعالیٰ علیہ
وآلہٖ وسلم نے ان ہی کپڑوں میں انتقال فرمایا تھا۔
(سنن ابی داود، کتاب اللباس،باب لباس الغلیظ،الحدیث:۴۰۳۶،ج۴،ص۶۳)
ایک صحابی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلمنے
خَزّ(اون اور ریشم سے بُنا ہوا کپڑا)کا سیاہ عمامہ عطا فرمایا تھا، انہوں
نے اس کو محفوظ رکھا تھااور اس پر فخر کیا کرتے تھے، چنانچہ ایک بار بخارا
میں خچر پر سوار ہوکر نکلے تو عمامہ دکھاکر کہا کہ اس کو رسول اﷲ عزوجل و
صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم نے مجھ کو عنایت فرمایا تھا ۔
(سنن ابی داود،کتاب اللباس،باب ماجاء فی الخز،الحدیث:۴۰۳۸، ج۴، ص۶۴)
آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہ وبارک وسلم کے چند بال مبارک حضرت ام سلمہ رضی
اﷲ تعالیٰ عنہا نے بطور یادگار کے محفوظ رکھے تھے اور جب کوئی شخص بیمار
ہوتا تھا تو ایک برتن میں پانی بھر کر بھیج دیتا تھا اور وہ اس میں ان
مبارک بالوں کو دھو کر واپس کردیتی تھیں، جس کو وہ شفا حاصل کرنے کے لئے پی
جاتا تھا( یا اس سے غسل کرلیتا تھا)۔
(صحیح البخاری،کتاب اللباس،باب مایذکر فی الثیب،الحدیث۵۸۹۶،ج۴،ص۷۶)
خلفاء ان یادگاروں کی نہایت عزت کرتے تھے، اور ان سے برکت اندوز ہوتے تھے،
ایک بار آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلمنے کسی عجمی بادشاہ کے نام خط
لکھنا چاہا تو لوگوں نے کہا کہ جب تک خط پر مہر نہ ہو اہل عجم اسکو نہیں
پڑھتے، اس لئے آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلمنے ایک چاندی کی انگوٹھی
تیار کروائی،جس کے نگینہ پر محمد رسول اﷲ (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم)
کندہ تھا ، اس انگوٹھی کو خلفائے ثلاثہ نے محفوظ رکھا تھا، اخیر میں حضرت
عثمان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ سے ایک کنوئیں میں گرپڑی، انہوں نے تمام
کنوئیں کا پانی نکال ڈالا،لیکن یہ گوہر نایاب نہ مل سکا۔
(سنن ابی داود،کتاب الخاتم،باب ماجاء فی اتخاذ الخاتم،الحدیث:
۴۲۱۴۔۴۲۱۵،ج۴،ص۱۱۹)
حضرت کعب بن زہیر رضی اﷲ تعالیٰ عنہما کے قصیدے کے صلہ میں رسول اﷲ عزوجل و
صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم نے خود اپنی چادر عنایت فرمائی تھی۔ یہ چادر
امیر معاویہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے ان کے صاحبزادہ سے خریدلی اوران کے بعد
تمام خلفاء عیدین میں وہی چادر اوڑھ کر نکلتے تھے۔ (الاصابۃ، تذکرۃ کعب بن
زھیر،ج۵،ص۴۴۳)
آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہ وسلم جس پیالے میں پانی پیتے تھے، وہ حضرت انس
بن مالک رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے پاس محفوظ تھا ایک بار وہ ٹوٹ گیا تو انہو ں
نے اسکو چاندی کے تار سے جڑوایا، اس میں ایک لوہے کا حلقہ بھی لگا ہوا تھا،
بعد کو حضرت انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے اس میں سونے یا چاندی کا حلقہ لگوانا
چاہا لیکن حضرت طلحہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے منع کیا کہ رسول اﷲ عزوجل و صلی
اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم نے جو کام کیا ہے اس میں تغیر نہیں کرنا چاہئے۔
آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے دواورپیالے حضرت سہل رضی اﷲ تعالیٰ عنہ
اور حضرت عبداﷲ بن سلام رضی اﷲ تعالیٰ عنہکے پاس محفوظ تھے۔
(صحیح البخاری،کتاب الأشربۃ، باب الشرب من قدح النبی صلی اﷲ علیہ وسلم
وآنیتہ،الحدیث:۵۶۳۷۔۵۶۳۸،ج۳،ص۵۹۵)
ایک دن آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم حضرت ام سلیمرضی اﷲ تعالیٰ عنہاکے
گھر تشریف لائے گھر میں ایک مشکیزہ لٹک رہا تھا، آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ
وآلہٖ وسلم نے اس کا دہانہ اپنے منہ سے لگایا اور پانی پیا ، حضرت ام سلیم
رضی اﷲ تعالیٰ عنہانے مشکیزے کے دہانے کو کاٹ کر اپنے پاس بطور یادگار رکھ
لیا۔
(طبقات الکبری،تذکرۃام سلیم بنت ملحان، ج۸،ص۳۱۵)
آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہ وسلم حضرت شفاء بنت عبداﷲ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے
یہاں کبھی کبھی قیلولہ فرماتے تھے، اس غرض سے انہوں نے آپ صلی اﷲ تعالیٰ
علیہ والہ وسلم کے لئے ایک خاص بستر اور ایک خاص تہبند بنوالیا تھا، جسکو
پہن کر آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہ وبارک وسلم استراحت فرماتے تھے، یہ
یادگاریں ایک مدت تک ان کے پاس محفوظ رہیں۔ اخیر میں مروان نے ان سے لے
لیا۔
(اسدالغابۃ، تذکرۃ الشفاء بنت عبداﷲ، ج۷،ص۱۷۷)
ان یادگاروں کے علاوہ صحابہ کرام رضی اﷲ تعالیٰ عنہم آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ
والہ وسلم کی ہر چیز کو یادگار سمجھتے تھے اور لوگوں کو اس کی زیارت کرواتے
تھے۔
حضرت نافع رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ مجھ کو حضرت عبداﷲ بن عمر رضی
اﷲ تعالیٰ عنہ نے مسجد میں وہ جگہ دکھائی جہاں آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہ
وسلم معتکف ہوتے تھے ۔
(سنن ابی داود،کتاب الصوم، باب این یکون الاعتکاف؟،الحدیث:۲۴۶۵،ج۲، ص۴۸۹)
وہ آج تک نوازتا ہی چلا جارہا ہے اپنے لطف و کرم سے مجھے
بس اک بار کہا تھا میں نے یا اﷲ مجھ پر رحم فرما مصطفی کے واسطے |