نیا آرمی چیف

وہ زمانے ہوا ہوئے جب پاکستان میں اس طرح کے کسی موضوع پہ خامہ فرسائی کا مطلب اچھی خاصی دھنائی ہوا کرتا تھا۔اب میڈیا آزاد ہے اور فوج بھی بہت حد تک لبرل۔جنرل کیانی کے آرمی چیف بننے کے بعد جہاں فوج کے اندر بہت مثبت تبدیلیاں آئیں جس سے فوج کے جوانوں اور افسروں کا مورال بہتر ہوا۔معاشرے میں ان کا کھویا ہوا مقام انہیں واپس ملاوہیں جنرل نے فوجی مائینڈ سیٹ میں بھی کچھ ایسی بنیادی نوعیت کی تبدیلیاں کی ہیں کہ انہیں اس کارنامے کے لئے مدتوں یاد رکھا جائے گا۔فی الوقت یہ اقدامات بھلے بھاری بھر کم محسوس نہ ہوں لیکن وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ جب یہ شجر برگ و بار لائے گا تو اس سے محظوظ ہونے والے لازماََ مشکور بھی ہوں گے ۔ جیسے جنرل کرامت کی ایک سادہ سی تجویز سے برہم ہو کر ان سے استعفیٰ لینے والے آج اسی تجویز کے ثمرات سمیٹ رہے ہیں۔

اس سے پہلے کہ میں اپنے موضوع پہ بات کروں دوستوں کی تفنن طبع کے لئے چلتے زمانے کا ایک واقعہ نما لطیفہ پیش کرنے کو من للچا رہا ہے جس کا گہرا تعلق فوج کے لبرل ازم اور میڈیا کی آزادی کے ساتھ نکل تو آتا ہے لیکن میں نے جان بوجھ کے نہیں نکالا کہ میڈیا کے دانت تازہ تازہ نکل رہے ہیں اور فوج کے دانت ابھی اتنے بھی کھٹے نہیں ہوئے کہ میری از کار رفتہ ہڈیوں کا سرمہ نہ بنا سکیں۔اس لئے بس لطیفہ سنئیے اور اگر کوئی نتیجہ نکالنا ہے تو اپنی ذمہ داری پہ نکالئیے۔واقعہ کچھ یوں ہے کہ نئے زمانے کی ایک لڑکی نے اپنے باپ سے کہا کہ ڈیڈ میں نے کل شادی کر لی مجھے افسوس ہے کہ میں آپ کو دعوت دینا بھول گئی۔باپ بیٹی کی طرف مڑا اور کہنے لگا نو پرابلم لیکن آئندہ خیال رکھنا۔

جنرل کیا نی اپنی مدت ملازمت اور پھر اس پہ ملنے والی توسیع مکمل کر کے دوبارہ اب اس مقام پہ ہیں جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ہر ایک سرکاری اہلکار نے اس کا مزہ چکھنا ہی ہوتا ہے یعنی ریٹائر منٹ۔اس موقع پہ آزاد میڈیا پہ پھر قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں کہ ان کی مدت ملازمت میں شاید توسیع کر دی جائے۔خدا لگتی کہی جائے تو ہماری آج کی تجارت پیشہ سیاسی قیادت کو اس سے زیادہ کوئی چیز سوٹ ہی نہیں کرتی۔یہ لوگ ہر شے کو تجارت کے ترازو میں تولتے ہیں۔یہ فیکٹری لگانے سے پہلے اپنی زبان میں اس کا منشی اور پڑھے لکھے لوگوں کی زبان میں اس کا مینیجر تلاش کرنے میں مہینوں صرف کر دیتے ہیں پھر جا کے کہیں فیکٹری یا مل کا سنگ بنیاد رکھتے ہیں ۔اگر کام کا کوئی بندہ نہ ملے تو اپنی ہی کسی دوسری مل میں کام کرتے اپنے کسی" اعتبارئیے" کو یہ کام سونپتے ہیں۔کسی سیانے دانشور نے اسی لئے گئے زمانوں میں عوام کو یہ نصیحت کی تھی کہ تاجروں کو زمام اقتدار کبھی نہ دو کہ یہ کارِ حکومت کو بھی ذاتی نفع اور نقصان کے ترازو میں تولتے ہیں اور ان کے نزدیک عزت، غیرت، جذبات، احساسات، نیک نامی اور بد نامی جیسے الفاظ کوئی معنیٰ نہیں رکھتے ۔حکومت چلانے اور مل چلانے میں بہرحال بڑا فرق ہوتا ہے۔مل یا فیکٹری ایک دبنگ یا دوسرے لفظوں میں ایک کن ٹٹے کے زور پہ بھی چل جاتی ہے جب کہ حکومت کا تعلق لوگوں کے جذبات اورمحسوسات سے ہوتا ہے اور اسے مشاورت ہی سے چلایا جا سکتا ہے۔

عزت اﷲ کریم کا حضرت انسان کے لئے تحفہ ہے۔جنرل پہ اﷲ کا کرم ہے کہ پاکستانی قوم کی اکثریت انہیں ایک شریف اور معزز شخص گردانتی ہے۔اس کے باوجود کہ ان کے زمانے میں امریکی دندناتے ہوئے سینکڑوں میل ملک کے اندر گھس کے اپنے ایک انتہائی مطلوب کو مار کے ساتھ لے گئے۔باوجود اس کے کہ ان کے کچھ انتہائی قریبی عزیزوں کے معاملات بھی سر گوشیوں میں لوگ ایک دوسرے کے ساتھ شیئر کرتے سنائی دیتے ہیں لیکن ان سارے قصوں اور کہانیوں کے باوجود شاید جنرل کی نیک نیتی ،وطن سے محبت اور غیرت و حمیت کی بنیاد پہ ان کو عوام میں وہ پذیرائی حاصل ہے جو اس سے پہلے شاید ہی کسی کے حصے میں آئی ہو۔پاکستان جیسے ملک میں دوامی عزت کم ہی لوگوں کو نصیب ہوا کرتی ہے کہ اس ملک میں ابھی تک وہ لوگ بھی اقتدار میں شریک ہیں اور رہے ہیں جو بابائے قوم کو بھی قائد اعظم کی بجائے کافر اعظم کہا کرتے تھے اور جواب بھی برملا کہتے ہیں کہ شکر ہے کہ ہم پاکستان بنانے کے گناہ میں شریک نہیں تھے۔اس پہ طرہ یہ حکمران کہ انہیں ہر ماہ بعد ایک آدھ بم کو لات مارنے کی عادت ہے۔نہ جانے کل کلاں یہ کیا کر بیٹھیں کہ عاشقی میں عزت سادات کے بھی لالے پڑ جائیں۔اس لئے مناسب یہی تھاکہ آپ عزت سے گھر جائیں تا کہ کل کلاں پاکستانی کوئی غیر جانبدار اور اور مخلص پاکستانی ڈھونڈنے نکلیں تو انہیں ایک تو ایسا شخص مل جائے جس پہ اس ملک کی اکثریت اعتبار کرتی ہو۔ایک آخری بنتی آپ سے یہ ہے کہ محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر کی طرح سیاست میں گھس کے اپنے آپ کو بے توقیر نہ کر لیجئیے گا کہ آجکل ٹکے ٹکے کے لوگ ان کے لتے لے رہے ہوتے ہیں جسے دیکھ کے دل خون کے آنسو روتا ہے لیکن کیا کیا جائے کہ خود کردہ را علاجے نیست۔

رہا نیا آرمی چیف تو وہ اگر سینئر ترین تینوں میں سے بنا تو یا تو وہ اپنی قلندرانہ طبیعت اور مزاج کی سادگی پہ بنے گا یا اپنی قسمت اور درد دل رکھنے کی بناء پہ اور یا پھر جوڑ توڑ اور تعلقات پہ۔کسوٹی میں نے آپ کے سامنے رکھ دی ۔اب آپ خود اس پہ نئے لوگوں کو پرکھیں اور نتیجہ نکال لیں ۔کیا کہا نتیجہ بھی میں نکالوں۔بھائی آپ مجبور کرتے ہیں تو عرض ہے کہ سینئر ترین سینئر ترین ہی رہے گا کہ وہ راضی برضا رہنے والا آدمی ہے اور درویش صفت بھی۔ اس کے بعد مقابلہ بڑا سخت ہے تعلقات کا اپنا زور ہوتا ہے لیکن قسمت کا لکھا بھلا آج تک کوئی ٹال سکا ہے۔یہ وضاحت کردوں کہ یہ خالصتاََ میرا اندازہ ہے اندر کی خبر نہیں کہ اندر کی خبر تو چڑیا لاتی ہے ۔

Malik Abdul Rahman jami
About the Author: Malik Abdul Rahman jami Read More Articles by Malik Abdul Rahman jami: 283 Articles with 291918 views I am from Abbottabad presently living at Wah.I retired as Lt Col from Pak Army. I have done masters in International Relation and Political Science. F.. View More