آج کسی کو کُتے کا بچہ کہوتو وہ
ہنستاہواچلاجاتاہے مگر جب کُتے کو کُتے کا بچہ بولو تو...؟
خبردارآج کے بعد کسی نے کُتے کو جوکُتایا کُتے کا بچہ کہا...!کیوں کہ آج
میرے شہر کے کُتے عزت داراورغیرت مند ہوگئے ہیں،آج اِنہیں انسانوں کی زبان
سے حقارت سے”کُتے، کُتایا کُتے کا بچہ “ کہاجانے والا یہ جملہ سخت ناگوار
محسوس ہونے لگاہے،اَب ایسے میں کسی بھی لفظ یا جملے کو ہر خاص و عام(یعنی
گلی کوچوں ، بازاروں، میدانوں، جنگلوںاورویرانوں میں پائے جانے والے آوارہ
کُتے اور بعض پوش علاقوں کے بنگلوں اور کوٹھیوں میں عیش وطرب سے پلنے اور
چوروں پر بھوکنے والے) کُتے بھی اپنی عزت پر حملہ تصورکرتے ہیں،اور اِس کی
حفاظت میں اُس حد کوپہنچ جاتے ہیں جہاں اگلے کی تو ایسی کی تیسی ہوجاتی
ہے،اورکُتے ا پنا احتجاج ریکارڈکراکراپنی زبان میں بھونکتے اور بڑبڑاتے
ہوئے انتہائی فخریہ انداز سے اپنی دُم تان کراپنی اپنی کمین گاہوں میں چلے
جاتے ہیں،اور اِنہیں غصے یا ناراضگی سے کُتایاکُتے کا بچہ کہنے
والاانسان(سگ گزیدگی) اِن کے کاٹنے یا اِن کے پنجوں سے زخمی ہونے کے
بعداسپتالوں سے مخصوص انجکشنوں کا کورس مکمل کراتارہتاہے،، تو بھائی ہماری
خیر اِس ہی میں ہے کہ ہم اپنے شہر کے کسی بھی علاقے کے کسی بھی کُتے کو
حقارت سے نہ تو کُتاکہیں اور نہ کُتے کا بچہ کہہ مخاطب کرنا تودورکی بات ہے
اِسے ایسے ویسے اشارے بھی نہ کریں ،جو اِسے ناگوار گزرے ،ورنہ یقین جانیئے
کہ یہ آپ کاحشر ایساکریں گے کہ آپ کی چکری گھوم جائے گی( اِس کی تفصیل میں
اپنی آپ بیتی کی صورت میں اگلی سطورمیں دعوی ٰ کے ساتھ بیان کروںگا)تو بات
آگے بڑھانے سے پہلے ایک اور بات جو بڑے پتے کی ہے بتادیناچاہتاہوں کہہمارے
یہاںکچھ ہواہویانہ ہواہو، مگرآج ایک واقع کے بعد میرامشاہدہ مجھے یہ
بتاتاہے کہ” اے مسٹرچلومیرے شہرکے کُتے توغیرت منداور عزت دار ہوگئے ہیں“
اَب کوئی دوسرا عزت کا ٹھیکیدار سامنے آئے یانہ آئے مگریہ حقیقت ہم سب کو
تسلیم کرنی پڑے گی کہ میرے اور آپ کے شہرکے کُتوں کو غیرت آگئی ہے،اَب کوئی
انہیں غصے یا ناراضگی سے ” کُتایا کُتے کا بچہ “ بول کر تودیکھے یہ اُسے
چھٹی کو دودھ یاد نہ دِلادیں تو کہنا“ یہ بات میں پورے وثوق سے کہہ رہاہوں
، اور آپ کو یاد دِلاتاچلوں کہ کہاںایک زمانہ وہ بھی تھاکہ جب ہمارے معاشرے
میں چولہوں (آنگیٹھیوں)میں آگ بھڑکانے کے لئے خواتین بھونکنی سے بھونک
مارکرآنچ تیزکیاکرتی تھی یہ لوہے کی ایک خالی نالی ہواکرتی تھی جسے خواتین
اپنے ہونٹوں سے لگاکر چولہوں کی مدہم آگ کو بھڑکانے کے لئے بھونک مارتیں
تھیں توآگ حسبِ ضرورت بھڑک اُٹھتی تھی اُس زمانے کے اہلِ مثل ومحاورہ نے
اِس بھونکنی کو کُتوںکی ٹیڑھی دُم کو سیدھاکرنے کے لئے سوسال تک رکھنے کا
محاورہ ایجادکیا مگرکُتے کی دُم بھی ایسی ڈھیٹ کہ یہ سوسال بعد بھی جب اِس
سیدھی لوہے کی بھونکنی سے باہر نکاتی تھی تو یہ پھر بھی پہلے کی طرح ٹیڑھی
ہی رہتی تھی ، اِس پر انسان جب یہ کہتاکہ دھت تیری کی کُتے کی دُم سوسال
بھونکنی میں رہنے کے بعد بھی ٹیڑھی کی ٹیڑھی ہے“ اِس پر بھی کُتوں کو بڑی
ندامت کا سامناکرناپڑتاوہ مار ے شرم کے پانی پانی ہوجاتے تھے ،اُس زمانے کے
کچھ عقل مندکُتوں نے یہ سوچاکہ یہ کیا بات ہوئی کہ وہ اِنسان جس کی اُونٹ
کی طرح اپنی کوئی کل خودسیدھی نہیں ہے اِن اِنسانوں نے ہماری دُم کو مزاق
بنارکھاہے ، اور اُنہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ اَب ہم اور ہماری آئندہ کی نسل
کے جتنے بھی کُتے پیداہوں گے وہ بغیر دُم کے ہوں گے یہ ہمارااِنسانوں کے
معاشرے میں انسانوں سے بھرپوراحتجاج ہوگااور میںنے دیکھاکہ اِس کے بعد
ایسابھی ہواکئی برسوں تک جتنے بھی کُتے پیداہوئے اِن کی پیدائشی دم نہیں
تھی اور اگر اتفاق سے کوئی کُتادُم والاپیدہوگیاتو بڑے غیرتمندکُتوں نے اِس
کی دُم خودکاٹ دی اور وہ بغیردم کا ہوگیااور جب زمانے نے ترقی کی تو ہمارے
گھروں سے بھی بھونکنی کا دورختم ہوگیاآج نہ وہ بھونکنی ہی رہی ہے اور نہ
کُتوں کی ایسی مڑی ہوئی اور ٹیڑھی دُم ہی مجھے کہیں نظرآتی ہے، یہ کُتوںکی
وہ غیرت نماخصوصیات ہیں جو کُتوں میں اِن کی وفاداری کے بعداِن کی خاصیت کا
حصہ بن گئی ہے ۔
اگرچہ آج کا میرایہ کالم خلاف ِ توقع مُلکی سیاست اورمُلکی داخلی و خارجی
حالاتِ حاضرہ سے ذراہٹ کر ہے،اِس کی وجہ کیا ہے..؟آپ یہ تو پڑھنے کے بعد
خودجان جائیں گے مگر آج میں یہ بھی چاہتاہوں کہ میرے قارئین ذرااپناذائقہ
چینچ کر لیں اورمجھے بتائیں کہ اِنہیں میری یہ کوشش کیسی لگی..؟، میں اِن
کے مزاح کے ذوق پرکیسااُتراہوں..؟اور اپنی اِس کوشش میں کتناکامیاب رہاہوں
..؟،اَب میں اِس کا فیصلہ اپنے قارئین پرچھوڑتاہوں۔
بہرحال..!میں عرض کرتاچلوں کہ آج میرے شہر کے کُتے تہذیب یافتہ ضرورہوگئے
ہیں اَب یہ اور بات ہے کہ ہم بحیثیت انسان اِس صدی میں جس میں اقوام ِ کُل
نے اپنی تہذیبوں کا تعین کرلیا ہے اور وہ کسی درست سمت میں اپنی منزلوں کی
تلاش میں ہیں مگر افسوس ہے کہ ہم ابھی تک نہ توتہذیب کی ہجے درست کرسکے ہیں
اور نہ ہی اِس کا درست تلفظ ہی اداکرپائیں ہیں ...تواَب ایسے میں بھلا ہم
اپنی کس تہذیب کا تعین کیوں کر کرپائیں گے ...؟اور شاید یہی وجہ ہے کہ ہم
ابھی تک اندھیروں میں ہی بھٹک رہے ہیںاور نہ توہم کسی تہذیب کواپناسکے ہیں
اور نہ ہی تہذیب یافتہ بن پائیں ہیں، ہم آج بھی جانوروںجیسی بے فکری اور
لاپرواہی والی زندگی گزاررہے ہیں، اور اپنے ذاتی وفروعی اختلافات اور سیاسی
رنجشوں میں پڑکر ایک دوسرے کے دُشمن بن گئے ہیںاورآج ہم اِس دُشمنی میں اُس
حد کو پہنچ گئے ہیں کہ جہاں پہنچ کر انسانیت بھی تھراجاتی ہے اور یہ سوچنے
لگتی ہے کہ انسانیت اتنی بھی گرسکتی ہے جتنی آج گر کر کرچی کرچی ہوگئی ہے
جبکہ جانوروں میں اِنسانوں کے بیچ رہ کر اپنے اچھے بُرے کی تہذیب آتی جارہی
ہے، اورآج ایک ہم اِنسان ہیں کہ خود میں جانوروں والی خصلت پاکر بھی اِس
چھٹکارہ نہیں پارہے ہیں۔
ہاںتوجناب ...!میں بات کررہاتھاکُتے اوراِس کی وفاداری اوراِس کی غیرت وعزت
کی باتوں ہی باتوں میں بات کہاں سے کہاں چلی گئی اور میں اپنے نقطے سے بھٹک
گیا،چلیں پھر آتے ہیں اُن محرکات کی جانب جن کی وجہ سے میں اپنا یہ کالم
لکھ رہاہوں،بات دراصل یہ ہے کہ پچھلے دنوں کی بات ہے مجھے ایک سرکاری آفس
میں جانے کا اتفاق ہوا، جن صاحب سے ملاقات کرنی تھی،اِن کی شخصیت کئی
اعتبارسے قابلِ تعریف ہے، اگرچہ اِن جیسے اور بھی آفیسرز ہیں جو اپنی اپنی
قابلیت اور ذاتی رکھ رکھاؤ کے لحاظ سے انتہائی ملنساراور خوش اخلاق اور
اپنے اپنے شعبوں میں اپنی مہارت کے لحاظ سے ایک منفردپہنچان رکھتے ہیں ،جب
میں اِن کے آفس کے مین گیٹ پر پہنچاتو میں حیران و پریشان ہواکہ اتنی بڑی
شخصیت اور یہ عالم کہ جناب اپنے آفس میں اتنے آرام اور بے فکری کے عالم میں
ایسے بیٹھے ہیں کہ جیسے سارے عالم دہشت گردی اور جرائم پیشہ افراد کا مکمل
طور پر خاتمہ ہوگیاہے، اِن کے آفس کے سامنے نہ حفاظتی گارڈزنہ ایسی کوئی
حفاظی تدابیرنظرآئی کہ جس سے یہ اندازہ ہوتاکہ جناب سے ملاقات سے پہلے
ملاقاتی کو سیکورٹی پرپز کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے بڑے بڑے پاپڑبیلنے پڑتے
ہیں اور ہمارے سرکاری آفسز میں کسی کام کے لئے آنے والے افراد کا ساراوقت
اِسی چکرمیں برباد ہوجاتاہے، خیرمیں نے جناب کے آفس کے باہر دیکھاکہ ایک
کُتا(جسے ہم عام زبان میں آوارہ کُتاکہتے ہیں) وہ باہر بیٹھاہے، اورجناب
اپنے آفس میں آرام وسکون سے بیٹھے اپنے معاملات نمٹارہے ہیں، ذراسی دیر کو
جناب نے اپنی نظریں اٹھائیں تو اُنہوں نے مجھے دیکھتے ہی اپنے آفس میں آنے
کا کہامگرقبل اِس کے کہ میں اِن کے آفس میں جاتامیں نے بصداحترام عرض کیا
کہ” جناب عالیٰ..!میں اندر کیسے آؤں ...؟پیلیز سر پہلے اِس کُتے کوتو (جو
دروازے کے دونوں باٹوں کے درمیان اپنی چاروں ٹانگیں پھیلائے بیٹھاتھا )
اپنے آفس کے دروازے سے تو ہٹائیں ،مگروہ بضدتھے کہ سائیں اندرآجاو ¿یہ کچھ
نہیں کرے گامگرمیری چھٹی حس نے کہاکہ تم اِسے بغیرہٹائے اندرنہیں جانااور
میں نے جناب سے کہاکہ” سرجب تک آپ اِس کُتے کے بچے کو دروازے سے نہیں ہٹاتے
ہیں میں اندرنہیں آو ¿ں گاآج بھلے سے میں آ پ سے بغیرملے اور اپناکام
بغیرکئے ہی واپس چلاجاو ¿ں مگر آپ اپنے آفس کے دروازے سے اِس کُتے کو(میں
نے ذراغصے اور حقارت سے اِسے کُتے کا بچہ بھی کہہ دیا)کو بھگائیں تو میں
اندرآو ¿ں “ ابھی مکالمے جاری ہی تھے کہ اِس کُتے نے مجھ پر بھونکتے ہوئے
حملہ کردیااور ایساحملہ کہ خوف کی وجہ سے میری آنکھوں کے سامنے
اندھیراچھاگیااور یہ کُتامجھے شیرلگنے لگامگر پھر بھی میں ڈرانہیں میں نے
اپنے بچاو ¿ میں اپنی مزاحمت جاری رکھی ،ذراسنبھلاتو لوگوں نے بتایاکہ اِس
کُتے نے اِس سے پہلے تو کسی کے ساتھ ایسانہیں کیاتھا جتنے بھی لوگ آتے ہیں
یہ سب کے پیچھے دم ہلاتے اور اپنی وفاداری دکھاتے ہوئے چل پڑتاہے ، اور اگر
اپنی جگہہ سے نہیں بھی اُٹھتاتو لوگوں اپنی ٹانگوں سے ہی اِسے چمکارتے ہوئے
آتے جاتے رہتے ہیں مگرمیں نے اِسے ایساکیا کہہ دیا یا کچھ کردیا...؟کہ اِس
نے مجھ پر حملہ ہی کردیا،اور حملہ بھی ایساکہ اِس نے بھونکتے ہوئے اپنے
دانتوں میں دپوچ کر میری قمیض کا دامن ہی پھاڑدیااور اِسے یہ منظروہاں
موجودایک میرے جاننے والے عبدالحق بھائی نے دیکھاتو وہ فوراََ میری مددکو
لپکے اور یوں کی مددسے میری جان بخشی ہوئی اور وہ بھونکتاہوا میری قمیض کا
دامن اپنے منہ میں دباکربھاگ گیا اگرمیرادوست اُس وقت میری مدد کو نہیں
آتاتو یہ کُتے کا بچہ خدانے میراکیاحشرکرتا،وہ تو اللہ کا بڑاکرم ہواکہ اِ
س کُتے ( جسے آج تک میں غصے سے کُتے کا بچہ ہی کہہ رہاہوں )اِس نے مجھے
کاٹانہیں مگر میراوہ حشر ضرورکردیاکہ مجھے اُس وقت خوف کی وجہ سے یہ کٹے کا
بچہ شیرنظرآرہاتھااور میں انتہائی بہادری اور چابکدستی سے اِس سے خود کو
بچانے کی کوششوں میں مصروف رہامیرے دوست عبدالحق نے بتایاکہ سائیں کوئی بھی
تمہاری مددکو آگے نہیں آیااور جناب عالی تو حالاتِ آفسری اور مزاجِ آفسری
کے رنگ میں رنگے رہنے کی وجہ سے دورکھڑے قہقہ مارمارکر تمہاری بے توقیری
اور چالاچارگی کے مناظر سے الفت اندوز ہوتے رہے تھے اور کُتااپنے خونخوار
دانتوں اور پنجوں کے ساتھ مجھ پر حملہ آورتھا،وہ تواللہ کے حکم سے میرے
دوست عبدالحق نے مدد کی ورنہ تو میراکیا حشرہوتایہ تو میں بھی نہیں
جانتامگرآج میں سگ گزیدگی کے بعد کے انجکشز لگانے کے لئے اسپتالوں کے
چکرلگارہاہوتا اور سرکاری افسروں کی طرح کسی سرکاری اسپتال کے ڈاکٹرز کے
رحم وکرم پر انجکشنوں کے کورس مکمل کرانے کے لئے دربدرکی ٹھوکریں
کھاتاپھرتااور اپنے آپ کو ہی کوستارہتاکہ کاش میں اُس کُتے کو حقارت سے
کُتااور کُتے کا بچہ نہ کہتاتو میرایہ حشربھی نہ ہوتاآ ج جو ہونے سے بچ
گیاہے مگر آج میںاور میری قمیض بے دامن کی توضرور ہوگئی ہے مگراللہ کا کرم
ہے کہ میں کسی بڑی مصیب سے بچ گیاہوں تو قارئین حضرات براہ کرم ..! آپ کی
کُتوں کے معاملے میں برتی جانے والی ذراسی احتیاط کسی بڑی مصیب سے بچاسکتی
ہے، اَب یہ اوربات ہے کہ اپنے جِسے کسی کو کُتے کا بچہ کہوتو وہ
ہنستاہواچلاجاتاہے مگرجب کسی کُتے کو کُتے کا بچہ بولوتو اِس کی غیرت جوش
مارجاتی ہے اور وہ حملہ آورہوجاتاہے،آج ہم میں اور اِس میں یہ بڑا فرق رہ
گیاہے بس....!! |