لیڈرشپ کا قحط ھے یا پھر یہ قوم
بےقدروں کا ایک ھجوم ھے۔ کچھ تو ھے جو ہم لوگ قائداعظم کے بعد کوئی ایسا
لیڈر پیدا نہ کرسکے جسے تمام قوم متفقہ طور پر اپنا رھنماء تسلیم کرتی ھو۔
ایڈھاک لیڈرشپ عارضی خلا پر کرتی رہی مگر وہ صرف زاتی مفادات کی تکمیل کرتی
نظر آئی۔ دوسری طرف قوم آہستہ آہستہ جہالت کی سیڑھیاں اترتی رہی۔ اپنے
موجود میں کچھ نہ پاتے ھوئے ھم لوگ ماضی کے مزاروں پر اپنے مستقبل کا سر
پھوڑنے لگے۔ کبھی جہادی کبھی جدت پسند کی دو رنگی نے زھنی طور پر ھمیں کئی
حصوں میں بانٹ دیا۔ آج ہماری حالت یہ ھے کہ ھم خود اپنا ھی گوشت نوچ رہے
ہیں۔ ہمیں معلوم ھے کہ ہمارے بچوں کےچیتھڑے کون اڑا رھا ہے مگر چونکہ وہ یہ
سب “الله اکبر“ کا نعرہ لگا کے کرتے ھیں اور ھم بھی اسی خدا کے ماننے والے
ھیں تو کس منہ سے انھیں اپنے دشمنوں کی صف میں کھڑا کریں؟
ھم عوام تو اس دھشت کے خاتمے کے لئے اپنے لیڈر حضرات کی طرف دیکھتے رھے ھیں
مگر بدقسمتی سے ان میں کوئی ایسا نھیں جو اپنے فول پروف سیکیورٹی کے
دائیروں میں رھتے ھوئے بھی ان دھشت گردوں سے اعلان جنگ کرنے کی ھمت رکھتا
ھو۔ ملک میں دھشت کا ماحول بنائے رکھنے میں بہت بڑا کردار ھماری منقسم سوچ
اور ھماری بےفکر و بے ھمت لیڈرشپ کا ھے۔ دھشت گرد عوام کو اپنی بربریت کا
نشانہ بناتے ھیں تو ھمارے لیڈر فوری طور پر مزمتی بیان داغ دیتے ھیں اور
پھر ان کے خلاف کسی بھی اقدام سے گریزاں یہ رھنماء پھر سے مزاکرات کی بات
کرنے لگتے ھیں اور دوسری جانب دھشت گرد اپنی محفوظ کمین گاہوں میں دوبارہ
کسی اگلے خود کش حملے کی تیاری شروع کر دیتے ھیں۔۔۔۔
دھشت کے اس عالم میں جب ھمارے لیڈر کچھ کہنے سے ڈر رھے تھے تبھی اچانک دور
ایک کونے سے ایک کمزور سی بچی نے سکولوں پر حملہ کرنے والوں کے خلاف علم
بغاوت بلند کر دیا۔ اس کمزور مگر کمال کی بہادر لڑکی نے مسلسل آواز بلند کر
کے تعلیم دشمنوں کی تو نیندیں ھی جیسے برباد کر دیں۔ جب انہوں نے دیکھا کہ
عوام اس کی آواز کو بہت اھمیت دے رھے ھیں اور ان کے اسکولوں کو تباہ کرنے
کی کاروائیوں کی ھر طرف سے مزمت شروع ھو گئی ھے تب انھوں نے اس آواز کو
ھمیشہ کے لئے خاموش کرنے کی مزموم حرکت کی۔۔۔۔ طالبان کے دعوے کے مطابق
انھوں نے ملالہ کو گولیاں ماریں۔ مگر وہ کہتے ھیں نا کہ “مارنے والے سے
بچانے والا بڑا ھو تا ھے“ خدا نے میرے وطن کی بہادر ملالہ کو بچا کر طالبان
کی گردنوں میں ایک اور شرمندگی کا طوق ڈال دیا ھے اگر وہ سمجھ سکتے لیکن ان
کے دلوں پر تو مہریں لگا دی گئی ھیں (٧:٢)
ملالہ اٹھی تو اس کے ساتھ اس کی آواز بھی اور زیادہ بلند ہو گئی۔ اب کی بار
جب ملالہ بولی تو ساری دنیا ہمہ تن گوش تھی۔ اسے دنیا نے اس کی بہادری اور
اس کے عظیم مقصد کی وجہ سے اپنے سر آنکھوں پر بٹھایا۔ اس کے قدموں میں
انعامات و اعزازات کے ڈھیر لگنے لگے۔۔ ایسا کیوں ھوا؟ سیدھی سی بات ھے کہ
یہ سب ملالہ کی بہادری کا انعام ھے بلکہ میں تو کہوں گا یہ اس کا حق ھے۔
ملالہ کی بہادری دنیا کے تمام اعزازات سے بڑی ھے۔ نوبل انعام سے بھی بڑی۔
آج اگر نوبل انعام ملالہ کو مل جاتا تو ملالہ کی نہیں بلکہ نوبل انعام کی
عزت میں مزید کچھ اضافہ ھو جاتا۔ میری قوم کی بیٹی تو دنیا کیلئے عظیم ترین
انعام ھے۔ خدا میری قوم اور میری اس عظیم بیٹی کو ہمیشہ بلند ترین مقام پر
بنائے رکھے۔ آمین
|