اس بات میں شک کی ہرگز کوئی
گنجائش نہیں ہے کہ مدارس دینیہ ملک و ملت کے لیے قابل فخر ادارے ہیں۔ ان
میں اخلاقیات کی ایسی اعلیٰ تعلیم دی جاتی ہے، جس کی مثال ڈھونڈے سے بھی
نہیں مل سکتی۔ دین کی خدمت، دین کا مکمل دفاع ہی ان مدارس دینیہ کی فکر کا
محور و مرکز ہے۔ مدارس دینیہ نے ہمیشہ معاشرے میں اسلامی مزاج کو فروغ دینے
کی بھرپور تگ و دو کی ہے اور بے شمار لوگوں کی زندگیوں کو خالص اسلامی طرز
میں ڈھالا ہے۔ اس کے ساتھ انہوں نے دین متین سے متعلق تمام علوم اسلامیہ کو
قیامت تک کے لیے نسل در نسل منتقل کرنے کو اپنا مقصد بنایا اور اس میں
کماحقہ کامیاب بھی ہوئے ہیں۔جب ہندوستان میں برطانوی حکومت باضابطہ قائم
ہوئی ، تو اس برطانوی ظالم حکومت نے مسلمانوں سے اسلامیت کو خارج کرنے کے
لیے معاشرے سے مدارس کے اثر و رسوخ کو مٹانے کی کوشش شروع کردی۔ دفتروں اور
عدالتوں سے فارسی اور عربی زبان کی بساط لپیٹ دی،اس کے ساتھ ساتھ تفسیر،
حدیث، فقہ، اصول حدیث، اصول تفسیر اور دیگر اسلامی علوم کی تعلیم دینے والے
مدارس کے معاشرتی کردار پر بھی خطِ نسخ کھینچ دیا گیا۔ اسلام دشمنوں کے دل
میں یہ منحوس تمنا اور خواہش پیدا ہوئی کہ اپنے انگریزی اقتدار کی بدولت
مسلمانوں کے دینی ، ملی، تہذیبی اور تمدنی ورثے اور کلچر کو سرے سے ہی ملیا
میٹ کردیاجائے اور مسلمانوں کے دلوں سے دین وایمان، شرافت ودیانت اور
اسلامی اخلاق واقدارکے آثار وعلامات کو کھرچ کھرچ کر صاف کردیاجائے۔ ایسے
سنگین حالات میں مدارس نے دین اور اسلامی علوم کو آخری انسان تک مکمل و
محفوظ پہنچانے کے اپنے مقصد کو سامنے رکھتے ہوئے بھرپور منصوبہ بندی اور
بیدار مغزی کے ساتھ محنت و تگ ودو کی۔اس کے لیے پوری دنیا میں مدارس کی
تعداد کو بڑھانے پر خصوصی توجہ دینا شروع کی۔جس سے مدارس نہ صرف اپنے مقصد
میں کامیاب ہوئے بلکہ انہوں نے اپنے وجود کو مکمل محفوظ رکھتے ہوئے دن بدن
ترقی کی بلند و بالا منازل بھی طے کیں ۔علوم اسلامیہ کو مکمل طور پر محفوظ
رکھنے کے لیے پوری دنیا میں مدارس دینیہ کا جال بچھا دیا۔ مدارس کو پوری
دنیا کے ہر چھوٹے بڑے شہر میں کھولنے کا مقصد یہی تھا کہ اس سے ہمارا دینی
ورثہ مکمل طور پر محفوظ رہے۔
انگریز کی ظالم حکومت کے مقابلے میں کامیاب ہونا اگرچہ انتہائی مشکل کام
تھا لیکن مدارس نے ڈٹ کر ان کا مقابلہ کیا۔دین اسلام اورعلوم اسلامیہ کی
حفاظت ان کا مقصد تھا جس کی خاطر یہ طلبہ مدرسے میں داخل ہونے سے لے کر قبر
میں جانے تک اپنے مقصد کو حاصل کرنے کی فکر میں مگن رہتے۔انہوں نے اپنے
مقصد کے حصول میں کبھی بھی سستی و کاہلی سے کام نہ لیا۔جس کام کے لیے وقف
ہوئے اسی پر جان نچھاور کی۔وہ مدرسے میں داخل ہوتے ہیں پہلے روز اپنا مقصد
متعین کرلیتے تھے۔ اسلامی علوم کو مکمل طور پر محفوظ رکھنا ان کا مقصد
تھا۔ان کو اللہ تعالیٰ نے بے بہا نعمتوں سے نوازا تھا ، وہ تقویٰ، ذہانت،
فکر و دیگر کئی بے مثال صلاحیتوں سے مالا مال تھے۔ اس لیے ہر طالب علم نے
اپنی ذات کی حد تک پورے پورے اسلامی ورثہ کو محفوظ کرنے کی ٹھانی، ہر
اسلامی علم و فن پر مہارت حاصل کرتے گئے۔اس لیے ان میں سے ہر ایک طالب علم
فقیہ بھی ہوتا تھا، مجتہد بھی، قاری بھی، محدث بھی، استاد بھی، متکلم بھی۔
اگر کوئی کسی ایک پہلو سے کمزور بھی ہوتا تو اس کے چاروں طرف متعدد افراد
ایسے موجود ہوتے تھے جو اس کمی کو آناً فاناً پورا کر دیتے تھے۔ اس مقصد کے
حصول کے لیے ہر شخص حتی المقدور سب کچھ کر گزرنے کو تیار رہتا تھا۔ اس
بامقصد زندگی میں کوئی اپنے کو کمزور محسوس نہیں کرتا تھا۔لیکن اب حالات
ویسے نہیں ہیں۔اب مدارس تو ماشاءاللہ بہت زیادہ ہیں ۔ مدارس میں پڑھائی پر
بہت محنت سے ہورہی ہے ، تعلیم پر کافی توجہ بھی دی جارہی ہے۔امتحانات میں
اچھے نمبر حاصل کرنے والوں کو انعامات سے بھی نوازا جاتا ہے۔لیکن انتہائی
افسوس کی بات یہ ہے کہ طلبہ کی اکثریت ایک طویل عرصہ پڑھ تو لیتی ہے لیکن
وہ اپنے مقصد سے نابلد ہی رہتی ہے۔بے شمار طلبہ ایسے بھی ہوتے ہیں جنہیں
پورے تعلیمی دورانیے میں اپنے مقصد تک کا علم نہیں ہوتا کہ ہم کیوں پڑھ رہے
ہیں اور ہمارا مقصد کیا ہے۔بس ایک روایتی طریقے پر سب کچھ چل رہا ہے۔ کسی
بڑے نے مدرسے میں داخل کروا دیااور طالب علم نے داخلہ لے لیا، مدرسے کا
پورا دورانیہ مکمل کرلیا لیکن اپنے مقصد تک سے نابلد رہے۔اکثر طلبہ کرام
کہہ دیتے ہیں کہ ہمارا مقصد تو اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی حاصل کرنا
ہے۔یہ بہت اچھی بات ہے کہ کوئی انسان اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لیے
کوئی کام کرے ۔ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنا یقینا بہت ہی بڑی چیز ہے۔
لیکن پھر یہاں یہ سوال اٹھے گا کہ اگر مدرسے میں پڑھنے سے صرف اللہ تعالیٰ
کی خوشنودی حاصل کرنا ہی مقصود ہے تو یہ خوشنودی تو بہت سے دوسرے دین کے
کاموں کے ذریعے بھی حاصل ہوسکتی ہے، وہ کیوں نہیں کرلیے؟اللہ تعالیٰ کی
خوشنودی کے حصول کے لیے صرف مدرسے میں داخلہ ہی کیوں لیا کوئی اور کام کیوں
نہیں کیا؟یقینا مدرسے میں داخلہ لینے کا مقصد اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل
کرنا ہی ہے لیکن صرف داخلہ لے لینا ہی تو کافی نہیں بلکہ مدرسے میں داخلہ
لے کر وہاں کچھ ایسا کام کرنا بھی ضروری ہے جو دین متین کی حفاظت کا ذریعہ
بنے۔وہ کام علوم دین کی مکمل طور پر حفاظت کرنا ہے۔دین کو آئندہ آنے والے
لوگوں تک محفوظ حالت میں پہنچانا ہے۔
اب ہر طالب علم ہر ہر علم پر مکمل دسترس تو حاصل نہیں کرسکتا۔ہر طالب علم
ہر فن مولا نہیں بن سکتا۔نہ اکابر جیسا تقویٰ ہے اور نہ ہی ویسی
صلاحیتیں۔لیکن اپنے ورثہ یعنی اسلامی علوم کو مکمل طور پر محفوظ تو کرنا
ہے۔اس کے لیے بہتر راستہ تو یہی ہے کہ ہر طالب علم پڑھے تو تمام علوم لیکن
مہارت اتنے علوم پر حاصل کرے جتنے پر حاصل کرسکتا ہے۔بڑوں کی ذمہ داری ہے
کہ جب طلبہ کرام مدارس میں داخلہ لیتے ہیں اور وہاں ایک طویل عرصہ گزارتے
ہیں۔ اس دوران ہر طالب علم کی ذاتی رغبت و دلچسپی کو سامنے رکھتے ہوئے کسی
ایک علم میں تخصیص کرنے کا مشورہ دیں۔ طالب علم پڑھے تمام علوم لیکن خصوصی
توجہ کسی ایک پر دے جس میں اس کی زیادہ دلچسپی ہو۔ تاکہ ایک لمبا عرصہ
پڑھنے کے بعد جب وہ مدرسے سے فارغ ہوتو وہ کسی خاص علم میں مہارت حاصل
کرچکا ہو۔ ایک عرصے کے بعد تفسیر، حدیث، فقہ، اصول تفسیر، اصول حدیث، اصول
فقہ اور دوسرے تمام اسلامی علوم کے بے شمار ماہر مدارس کو مل جائیں گے۔ اب
جبکہ طلبہ کے سامنے کوئی مقصد بھی نہیں ہوتا اور وہ ایک روایتی انداز میں
علم حاصل کرتے رہتے ہیں اس سے علوم و فنون کے چند ہی ماہر سامنے آتے ہیں،
حالانکہ ہر سال مدارس سے ہزاروں طلبہ کرام فارغ ہوتے ہیں، اس کے باوجود یہ
سب کچھ کیوں؟۔ہر کامیابی حاصل کرنے کے لیے اپنے مقصد کو سامنے رکھنا ضروری
ہے۔اسکول میں کسی چھوٹی سی کلاس کے اسٹوڈینٹ سے بھی پوچھا جائے کہ آپ بڑے
ہوکر کیا بنیں گے تو فوراً کوئی جواب دیتا ہے کہ میں انجینئر بنوں گا، کوئی
کہتا ہے میں بڑا ہوکر پائلٹ بنوں گا۔ ہر اسٹودینٹ اپنی زندگی کے مقصد کو
بچپن سے ہی اپنے سامنے رکھ لیتا ہے اور پھر اپنی تعلیم کا مکمل دورانیہ
اپنے اسی مقصد کو سامنے رکھ کرطے کرتا ہے اور اپنے مقصد کو حاصل کرلیتا ہے۔
لیکن اگر ہمارے مدارس کے طلبہ کی طرف دیکھا جائے تو وہ ایک طویل عرصہ پڑھ
تو لیتے ہیں لیکن اپنے مقصد سے نابلد نظر آتے ہیں۔ اگرچہ ان کی تعلیم کا
مقصد یہ ہرگز نہیں کہ ان میں سے کوئی پائلٹ بنے اور کوئی انجینئر بنے لیکن
دنیا میں ایک عظیم شخصیت بن کر دین کی زیادہ سے زیادہ خدمت کرنا تو ہر طالب
علم کا مقصد ہوسکتا ہے۔ لیکن مدرسے کا کوئی طالب علم دوران تعلیم اس بات کا
اظہار تک نہیں کرتا کہ میں بڑا ہوکر اپنے اکابر کے نقش قدم پر چلتے ہوئے
شیخ الاسلام بنوں گا، مفتی اعظم بنوں گا اور دین کا بہت بڑا داعی بنوں گا۔
مانا کہ ایسے مناصب کسبی نہیں ہوتے بلکہ وھبی ہوتے ہیں لیکن اگر کوئی طالب
علم ان بڑے مناصب کو اپنا مقصد زندگی بنائے تو اپنے اکابر کے نقش قدم پر
چلتے ہوئے، ان کی سی صفات اپنائے توان مقاصد کو حاصل بھی کرسکتا ہے۔ جب
مقصد سامنے ہوگا تو انسان اس کو حاصل کرنے کی کوشش کرے گا لیکن اگر کوئی
مقصد ہی سامنے نہیں تو اسے کیسے حاصل کرے گا۔
|