سوشل میڈیا پرپابندی کیوں؟

وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا ہے کہ وفاقی حکومت نے سوشل میڈیا پر پابندی کا کوئی فیصلہ نہیں کیا اور نہ ہی اس حوالے سے کوئی بات چیت کی جارہی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ عوام ویب سائٹس کو بند نہیں کیا جاے گا۔ جبکہ حکومت سندھ کے خط کا جواب چند دنوں میں دیدیا جاے گا۔ دوسری جانب پی ٹی اے کے ترجمان نے کہا کہ شوشل میڈیا ویب سائٹس کو بند کرنے کی خبریں بے بنیاد ہیں، وزارت داخلہ کی جانب سے ویب سائٹس کی بندش کے حوالے سے کوئی احکامات موصول نہیں ہوے۔

یہ ایک چھوٹی سی خبر ہے جس سے واضح معلوم ہورہا ہے کہ سوشل میڈیاپر پابندی کے حوالے سے کوئی بحث ہے جس پر وفاقی وزیر لب کشائی کرنے پر مجبور ہوئے ہیں۔ گزشتہ روز سوشل میڈیا کے حوالے سے ایسی خبریں گردش کررہی تھی کہ جن میں کہا جارہا تھا کہ کراچی میں سوشل میڈیا کی کچھ ویب سائٹس پر پابندی عائد کی جائے گی۔ یہ خبر ایسی تھی جو یوزرز پر بجلی بن کر گری تھی۔ بہت سے لوگ پوچھتے پھر رہے تھے کہ کیا ایسا کچھ ہورہا ہے؟ اگر ایسا ہوا تو پھر کیا ہوگا ؟ یہیں باتیں وہ سابق وزیر کے دور میں بھی کیا کرتے تھے کہ یوٹیوب پر پابندی لگی تو کیا ہوگا، بس پابندی تو اب تک باقی ہے مگر ہوا کچھ بھی نہیں ہے۔ جب استعمال کرنا ہے تو کرنا ہے اور کرنے والوں نے کسی نہ کسی طریقے سے استعمال کرنا شروع بھی کردیا۔

سوشل میڈیا نے چند دہائیوں میں ایسی کامیابی حاصل کی ہے کہ دیکھتے ہی دیکھتے لوگوں کی کثیر تعداد نے اس کا استعمال شروع کردیا۔ چیز جب کثرت میں استعمال ہوتی ہے تو اس کے بہت سے نقصانات بھی سامنے آتے ہیں بس یہیں نقصانات ہوتے ہیں جو ان پر پابندی جیسی باتیں کرنے یا پھر پابندی لگانے پر مجبور کردیتے ہیں۔ ایک وقت تھا کہ میڈیا کا دور دورہ تھا اور کسی بھی بات سے باخبر رہنے یا رائے بنانے کے لئے معتبر ترین ذریعہ میڈیا ہی تھا۔ گزشتہ کچھ عرصے میں سوشل میڈیا نے جس انداز میں اپنی جگہ بنائی ہے اس سے انکار ممکن نہیں ہے۔ ایسے واقعات دیکھے جا سکتے ہیں جن میں سوشل میڈیا نے بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔

سوشل میڈیا کو دوسرے میڈیا سے اس لحاظ سے بھی سبقت یا برتری حاصل ہو جاتی ہے کہ باقی میڈیا میں ان پٹ والے عناصر تقریبا’’ محدود اور فکسڈ‘‘ ہوتے ہیں۔ جبکہ سوشل میڈیا میں تقریبا ’’ہر شخص ہی شریکِ کار ہے یا دوسرے الفاظ میں ہر شخص اس سسٹم میں ایک node‘‘ کی حیثیت رکھتا ہے۔

جیسے ہر نئی ٹیکنالوجی یا نئی ایجاد اپنے ساتھ کچھ نقصانات بھی لاتی ہے، اسی طرح سوشل میڈیا کے بھی کافی سارے نقصانات ہو سکتے ہیں۔ جیسے ایک نقصان تو یہی دکھائی دیتا ہے کہ کسی بھی خبر یا افواہ کی تحقیق سے بھی پہلے وہ پوری دنیا میں نشر ہو جائے گی۔ لیکن بحیثیت مجموعی سوشل میڈیا کے بہت سے فوائد بھی ظاہر ہوتے جائیں گے۔

خیر اب تو وفاقی وزیر نے پابندی کی باتوں کو غلط قرار دے دیا ہے، جس کی پی ٹی آئی نے بھی حمایت کی ہے۔ مگر ہمیں سوشل میڈیا کا استعمال کیسا بنا نا ہے یہ ہمیں سوچنا ہوگا۔ ہمیں سماجی ویب سائٹس کو مکمل ذمہ داری کے ساتھ استعمال کرنا ہوگا۔

اس وقت پاکستان میں تقریبا 30 ملین شہریوں کو انٹرنیٹ کی سہولت دستیاب ہے، ان میں سے دس ملین شہری فیس بک جبکہ لگ بھگ دو ملین ٹوئٹر استعمال کرتے ہیں۔ پاکستان میں گزشتہ چند برسوں کے دوران ایسے چند واقعات بھی سامنے آئے ہیں، جن میں فیس بک پر جعلی اکاو ¿نٹ بنا کر لوگوں کو دھوکہ دیا گیا۔ اسی طرح ای میل یا سوشل میڈیا اکاو ¿نٹ ہیک کر کے لوگوں کی ذاتی معلومات تک حاصل کئی گئیں۔ چند ماہ قبل کراچی میں فیس بک کے ذریعے ایک بچے کو اغوا کر لیا گیا تھا جو ظاہر کرتا ہے کہ سوشل میڈیا کے ذریعے سنگین جرائم کا ارتکاب کس حد تک ممکن ہے۔

اس وقت سوشل میڈیا پر بہت سے جعلی اکاؤ نٹس موجود ہیں۔ نوجوانوں کو چاہیے کہ جب بھی انہیں دوست بننے کی درخواست بھیجتا ہے تو تصدیق کیے بغیر اسے قبول نہ کریں۔ ذاتی زند گی میں ہم ہر کسی پر اعتبار نہیں کرتے تو سوشل میڈیا پراتنی جلدی بھروسہ کیسے کر لیتے ہیں‘‘۔ ضروری ہے کہ بچوں کو سوشل میڈیا کی سکیورٹی اور نقصانات کے بارے میں بھی بتایا جائے۔

سوشل میڈیا پر کرنے کے چند کام جنہیں ہمیں کرنا ہوگا۔ وہ یہ ہیں کہ والدین کو سافٹ ویئر کے ذریعے انٹرنیٹ پر اپنے بچوں کی سرگرمیوں کو دیکھنا چاہیے اور بچوں کو بتانا چاہیے کہ انٹرنیٹ پر ان کی سرگرمیوں کی نگرانی کی جا رہی ہے۔

سوشل میڈیا پر اپنی ذاتی معلومات نہ دیں جیسے مو بائل نمبر، گھر کا پتہ اور ذاتی تصاویر۔کبھی بھی یہ نا لکھیں کہ آپ کہاں ہیں اور کیا کر ر ہے ہیں۔ کچھ لوگوں نے فیس بک یا ٹوئٹر پر لکھا ہوتا ہے کہ میں گھر میں تنہا ہوں، اسکول یا کالج کے راستے میں ہوں یا فلاں مارکیٹ میں ہوں۔ اس طرح مذموم عزائم رکھنے والے لوگوں کے مقاصد آسان ہو جاتے ہیں۔
 
Ulfat Akram
About the Author: Ulfat Akram Read More Articles by Ulfat Akram: 12 Articles with 10017 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.