اسمارٹ پولیس کے لئے اسمارٹ فون

پولیس بندوق کے بجائے اسمارٹ فون سے مجرموں کا مقابلہ کرے گی

پولیس سمارٹ فون کے ذریعے تمام وارداتوں کی معلومات اکٹھی کرے گی اور پھر ان معلومات کو سامنے رکھ کر جرائم روک تھام کے لیے منصوبہ بندی کی جائے گی۔ پنجاب میں پولیس والوں کو تیس ہزار اسمارٹ فون دیئے جائیں گے۔

دنیا میں نئی سے نئی ٹیکنالوجی جنم لے رہی ہے۔لیکن یہ ٹیکنالوجی جہاں عوام کے لئے راحت اور آسانیاں فراہم کرتی ہے۔وہان مجرموں کو بھی یہ ٹیکنالوجی جرائم میں آسانیاں اور جدت پیدا کرنے میں مدد دیتی ہے۔ پاکستان میں موبائیل فون آیا تو سینکڑوں جانیں تو موبائیل چھینے کی وراداتوں میں چلی گئی۔پھر مجرموں نے موبائیل فون کی سموں کو ہتھیار بنا لیا۔ ان سموں سے خودکش دھماکے ہونے لگے۔ حکومت کو یہ سمجھ ہی نہیں آتی کہ موبائیل فون سے کیسے نمٹے، کبھی موبائیل فون کی سروس بند کی جاتی ہے۔ کبھی جعلی سموں کی روک تھام کے لئے، سروس فراہم کرنے والی کمپنیوں کے چیف ایگزیکیٹیو کو گرفتار کرنے کی بھی دھمکی دی جارہی ہے۔ ٹیکنالوجی کا یہ سفر جاری ہے۔ اب سمارٹ فون جرائم کی روک تھام کے لئے مقبول ہورہا ہے۔ حال ہی میں آئی فون بنانے والی امریکی کمپنی ایپل نے کہا ہے کہ تین دن کے اندر 90لاکھ سمارٹ فون فروخت ہو گئے ہیں جو ایک ریکارڈ ہے۔ کمپنی کی جانب سے آئی فون، سمارٹ فون کے دو نئے ماڈل لانچ کئے ہیں اور لانچنگ کے تین دن کے اندر 90لاکھ فون فروخت ہو گئے ہیں۔اس فون نے عوام میں بڑی مقبولیت حاصل کی ہے۔ یہی سمارٹ فون سے اب جرائم کی روک تھام کے لئے استعمال کے ساتھ ساتھ اور بہت سے کام کررہا ہے، لیکن ہمارے یہاں اب پولیس کو بندوق اور ہتھیار کے بجائے، اسمارٹ فون سے لیس کیا جارہا ہے۔ اب تک تو یہ تھا کہ موبائیل فون کے ذریعے وارداتوں کی خبریں پہنچائی جاتی تھی۔ یا کسی خودکش دھماکے یا اغوا کی وردات کی ذمہ داری قبول کی جاتی تھی۔ لیکن اب یہی فون جرائم کی روک تھا م کے لئے استعمال ہوں گے۔ جرم کو روکنے کے لیے فون کے استعمال کی بات بالکل نئی ہے۔پاکستانی پولیس کے لیے جدید اسلحے سے لیس مجرموں سے لڑنا آسان نہیں، لیکن اب لاہور میں پولیس کو جرائم کے خاتمے کے لیے ایک اور طرح کا ہتھیار دیا جارہا ہے۔ وہ ہے سمارٹ فون۔اب لاہور میں پولیس سمارٹ فون کے ذریعے تمام وارداتوں کی معلومات اکٹھی کرے گی اور پھر ان معلومات کو سامنے رکھ کر جرائم روک تھام کے لیے منصوبہ بندی کی جائے گی۔ڈاکٹر علی چیمہ کا تعلق ایک تحقیقاتی ادارے انسٹی ٹیوٹ آف ڈیویلپمنٹ اینڈ اکنامکس آلٹرنیٹوز سے ہے۔ گذشتہ برس ان کی گاڑی چوری ہوئی جو ابھی تک بازیاب نہیں ہوسکی۔ تاہم اس واردات نے انھیں شہر میں ہونے والے جرائم کی معلومات سے متعلق ایک نئے نظام کی تحقیق کی راہ دکھائی۔ڈاکٹر علی چیمہ کہتے ہیں: ’جب میری گاڑی چوری ہوئی تو اس وقت اس علاقے میں ایسے بہت سے واقعات ہو رہے تھے لیکن بحثیت شہری مجھے یہ بالکل معلوم نہیں تھا کہ میرے ساتھ اس قسم کی واردات ہونے کے امکانات کتنے زیادہ ہیں۔ اسی سے میں نے سوچا کہ ہم کسی طرح جرم ہونے کے امکانات کو جانچنا شروع کریں اور اس کے لیے کوئی نظام بنائیں کہ کب کہاں کیا ہوا اور جہاں زیادہ خطرات ہوں، وہاں کے معروضی حالات کے مطابق حکمتِ عملی بنائی جا سکے۔‘ "پہلے ہم نے لاہور کے تھانوں کی حدود بلکہ بیٹس کے حساب سے نقشہ بنوایا اور اس کے لیے ایک بنیادی ٹول تیار کیا جس پر لاہور میں جن جرائم کی ایف آئی آر درج ہو رہی ہیں ان کا نقشہ دکھائی دیتا ہے۔ پھر ہم نے اینڈرائڈ فون کی ایک ایسی ایپلکیشن ڈیزائن کی جس میں جرائم کی معلومات درج کی جاسکتی ہیں۔ ابتدائی طور پر لاہور کے چار تھانوں میں یہ فون دیے گئے اور انھوں نے یہ رپورٹ کرنا شروع کیا کہ کب کہاں کیا ہو"پاکستان میں روایتی طور پر جرائم کی روک تھام کے لیے جو نظام رائج ہے اس میں جرم کرنے والے کی نفسیات اور حالات پر بہت توجہ دی جاتی ہے تاہم ڈاکٹر علی چیمہ اور ان کے ادارے نے مجرموں کے بجائے ان علاقوں پر توجہ دینے کی بات کی جہاں جرائم زیادہ تعداد میں ہو رہے ہوں۔ اور اس مقصد کے لیے سمارٹ فونز کا سہارا لیا گیا۔علی چیمہ نے پنجاب پولیس کے کچھ افسران کے سامنے یہ آئیڈیا رکھا اور پھر باہمی مشاورت کے بعد ایک ایسی سمارٹ فون اپلیکیشن بنانے پر اتفاق ہوا جس میں جرائم سے متعلق تمام معلومات درج کی جاسکیں۔پاکستان میں فون کے لیے اور فون کے ذریعے وارداتوں کی خبریں تو معمول ہیں لیکن جرم کو روکنے کے لیے فون کے استعمال کی بات بالکل نئی تھی۔اس تصور کو عملی جامہ پہنانے کے لیے لاہور یونیورسٹی آف مینیجمنٹ سائنسز میں موجود شعبے کی خدمات لی گئیں۔ یہ شعبہ ٹیکنالوجی کے ذریعے عام آدمی کے مسائل حل کرنے کے کئی منصوبوں پر کام کررہا ہے۔لاہور پولیس کے لیے ایسی سمارٹ فون ایپلکیشن ڈیزائن کی گئی جس میں وہ ہر وقوعے کی تاریخ، وقت، تصویر، دفعات، ایف آئی ار کا نمبر اور دوسری تمام معلومات درج کرسکتے ہیں۔اس پہلے پنجاب میں سمارٹ فون کے زریعے ڈینگی کی روک تھام کا منصوبہ شروع کیا گیا تھا۔اس پراجیکٹ کی کنسلٹنٹ مریم افضل کہتی ہیں: ’پہلے ہم نے لاہور کے تھانوں کی حدود بلکہ حلقے کے حساب سے نقشہ بنوایا اور اس کے لیے ایک بنیادی ٹول تیار کیا جس پر لاہور میں جن جرائم کی ایف آئی آر درج ہو رہی ہیں، ان کا نقشہ دکھائی دیتا ہے۔ پھر ہم نے اینڈروئڈ فون کی ایک ایسی ایپلکیشن ڈیزائن کی جس میں جرائم کی معلومات درج کی جاسکتی ہیں۔ ابتدائی طور پر لاہور کے چار تھانوں میں یہ فون دیے گئے اور انھوں نے یہ رپورٹ کرنا شروع کیا کہ کب کہاں کیا ہوا۔‘اب لاہور کے 83 تھانوں میں بندوق کے ذریعے جرائم کا خاتمہ کرنے والی پولیس کو جرائم کا خاتمہ کرنے کے لیے سمارٹ فون مل چکے ہیں۔ڈی آئی جی انوسٹی گیشن ذوالفقار حمید کا کہنا ہے کہ اس نظام سے انھیں شہر میں جرائم کے مراکز کا اندازہ ہو رہا ہے اور اب وہ ایسے علاقوں میں پولیسنگ کے نظام کو بہتر بنانے پر توجہ دے سکتے ہیں جہاں جرائم زیادہ ہوں۔ "پورے لاہور میں ہونے والے جرائم اب ہمیں ایک نقشے پر دکھائی دے رہے ہیں۔ اس سے ہمیں یہ اندازہ ہورہا ہے کہ کن مقامات پر جرم زیادہ ہورہا ہے اور کس نوعیت کا جرم زیادہ ہے۔ ہم نے یہ اپلیکشن استعمال کرنے کے لیے پولیس اہلکاروں کو ایک کورس کروایا ہے اور ایک باقاعدہ طریق? کار طے کیا ہے کہ ہر تھانے میں رپورٹ ہونے والے ہر جرم کو فون کے ذریعے محفوظ کیا جائے"

’پورے لاہور میں ہونے والے جرائم اب ہمیں ایک نقشے پر دکھائی دے رہے ہیں۔ اس سے ہمیں یہ اندازہ ہورہا ہے کہ کن مقامات پر جرم زیادہ ہو رہا ہے اور کس نوعیت کا جرم زیادہ ہے۔ ہم نے یہ اپلیکشن استعمال کرنے کے لیے پولیس اہلکاروں کو ایک کورس کروایا ہے اور ایک باقاعدہ طریقہ کار طے کیا ہے کہ ہر تھانے میں رپورٹ ہونے والے ہر جرم کو فون کے ذریعے محفوظ کیا جائے۔‘سمارٹ فون کے ذریعے سمارٹ گورننس کا تصور دنیا میں تو بہت نیا نہیں تاہم پاکستان میں لاہور نے اس سلسلے میں بازی لے لی ہے۔پنجاب انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ نے پولیس اہلکاروں کی سہولت کے لیے اس ایپلیکشن کا سافٹ ویئر اردو میں تیار کیا ہے۔ چیئرمین پنجاب آئی ٹی بورڈ عمر سیف کہتے ہیں کہ لاہور کے بعد پنجاب کے دوسرے شہروں میں بھی یہ منصوبہ شروع کیا جائے گا۔انھوں نے کہا: ’ہمارے جو بھی لوگ عوام کو خدمت فراہم کرنے کے لیے فیلڈ میں کام کر رہے ہیں سمارٹ فون کے ذریعے ہم ان کو بھی موثر انداز میں مانیٹر کرسکتے ہیں۔ خوش قسمتی کی بات یہ ہے اب سمارٹ فون سستے ہوگئے ہیں۔ اور ان میں کوئی بھی ایپلیکیشن بنانا اور اسے استعمال کرنا انتہائی آسان ہے۔‘اس پہلے پنجاب میں سمارٹ فون کے زریعے ڈینگی کی روک تھام کا منصوبہ شروع کیا گیا جو انتہائی کامیاب رہا۔ اس وقت بھی پنجاب حکومت مختلف منصوبوں کے لیے 30 ہزار سمارٹ فون خرید رہی ہہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ جدید ٹیکنالوجی کا زمانہ ہے، جہاں آئے دن نت نئی ایجادات انسانی زندگی کو مزید آسان بنارہی ہیں۔اسمارٹ فون سے کیا کیا کام لئے جا رہے ہیں اور کیا لیئے جاسکتے ہیں ، اس بارے میں دنیا حیرت زدہ ہے۔ حال ہی میں ایک ایسی کیتلی متعارف کر وائی گئی ہے جس میں کافی یا چائے کے لیے پانی گرم کرنے کے لیے کچن میں داخل ہو نا تو دور کی بات بستر سے اٹھنے کی بھی ضرورت نہیں کیونکہ یہ کیتلی WiFiکے ذریعے اسمارٹ فون سے ا?ن ہو کر اپنا کام شروع کر تی ہے۔ iKettle نامی اس کیتلی کوبستر پر لیٹے لیٹے موبائل فون سے ایک میسج کرکے ا?ن کیا جاتاہے جو پانی کے گرم ہوتے ہی جواب میں ایک میسج کرکے آگاہ بھی کرتی ہے ۔ آجکل ساری دنیا میں اسمارٹ فون کا ہر طرف دور دورہ ہے، پاکستان میں اسکا استعمال عام ہے یا کہ ابھی عوام الناس کی پہنچ سے دور ہے؟ اس بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ لیکن یہ طے ہے کہ اسمارٹ فون کا فائدہ تو ایک اچھے انٹرنیٹ ڈیٹا کنکشن سے ہی ہو سکتا ہے،پاکستان میں موبائل کمپنیاں ابھی اچھے پیکیج آفر نہیں کر رہی ہیں۔ پاکستان میں ابھی ٹو جی نیٹ ورک ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں بائیس ملین یا دو کڑوڑ بیس لاکھ سمارٹ فون یوزر ہیں۔مختلف کمپنیوں کے پیکجز مختلف ہیں۔مثلاً زونگ 2 جی بی 200 روپے میں اور 4 جی بی 400 میں دیتی ہے۔موبی لنک 100 روپے میں 200 ایم بی منتھلی اور 10 روپے میں ڈیلی "ان لمیٹیڈ" جس پر 200ایم بی ڈیلی کی لمٹ ہوتی ہے۔ دوسری جانب امریکی انٹیلیجنس ان ہی اسمارٹ فون کو اپنے عوام اور دنیا بھر میں معلومات کی چوری ، اور جاسوسی کے لیئے استعمال کر رہی ہے۔ یہ اطلاعات ہیں کہ امریکی نیشنل سکیورٹی ایجنسی زیادہ تر سمارٹ فونز کے ڈیٹا تک رسائی حاصل کرنے کی اہلیت رکھتی ہے۔ جرمن میگزین ڈیر شپیگل نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ امریکی نیشنل سکیورٹی ایجنسی (این ایس اے) آئی فون، اینڈروئڈ اور بلیک بیری کے فونز کے ڈیٹا تک رسائی حاصل کر سکتی ہے۔ بتایا گیا ہے کہ اسمارٹ فونز کے ذریعے بھیجے جانے والے ایس ایم ایس اور ای میل پیغامات کی نگرانی کی جاتی رہی ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایا کہ این ایس اے اسمارٹ فونز کے کانٹیکٹس، نوٹس اور صارف کی لوکیشن کی معلومات حاصل کر سکتی ہے۔ میگزین نے اس سلسلے میں این ایس اے اور برطانیہ میں قائم اسی طرز کے برطانوی ادارے جی سی ایچ کیو کی دستاویزات کا حوالہ دیا ہے۔ ان سے پتہ چلتا ہے کہ ان ایجنسیوں نے ہر طرح کے اسمارٹ فون کیلئے مخصوص ٹیمیں مقرر کر رکھی ہیں جن کا کام دہشت گردی کی ممکنہ کارروائیوں جیسے خطرات کے بارے میں معلومات اکٹھی کرنا ہے۔ ان دستاویزات سے یہ پتہ نہیں چلتا کہ کیا این ایس اے بڑے پیمانے پر اسمارٹ فونز کے صارفین کی نگرانی کر رہی ہے تاہم یہ بات سامنے آئی ہے کہ اس طریقے سے مخصوص لوگوں کی نگرانی کی جا رہی ہے تاہم ڈیر شپیگل نے یہ نہیں بتایا کہ یہ دستاویزات اس کے ہاتھ کیسے لگیں۔ ان کے مصنفین میں سے ایک لارا پوئٹراس ہیں۔ وہ امریکی فلمساز ہیں اور ان کے این ایس اے کے سابق ملازم ایڈورڈ سنوڈن سے قریبی رابطے رہے ہیں۔ ڈیئر شپیگل حالیہ ہفتوں کے دوران سنوڈن کے حوالے سے متعدد مضامین شائع کر چکا ہے۔ قبل ازیں اس میگزین نے ایک رپورٹ میں یہ بھی بتایا تھا کہ این ایس اے اقوام متحدہ کی ویڈیو کانفرنسوں کی جاسوسی کرتی رہی ہے۔ ڈیر شپیگل میگزین کی گزشتہ ماہ سامنے آنے والی اس رپورٹ کے مطابق این ایس اے نے امریکی انٹیلیجنس اہلکاروں کو اقوام متحدہ کی ویڈیو کانفرنسوں تک غیر قانونی طریقے سے رسائی دی۔ اس رپورٹ میں این ایس اے کی دستاویزات کے حوالے سے بتایا گیا کہ اقوام متحدہ کے جوہری ادارے آئی اے ای اے کی کانفرنسوں تک بھی رسائی حاصل کی گئی۔ پنجاب پولیس کے بر عکس کراچی جہاں جرائم میں ٹیکنالوجی کا استعمال مجرموں کی جانب سے بہت زیادہ ہے، وہاں ان جرائم سے نمٹنے کے لئے حکومت کا عزم ماند پڑتا دکھائی دیتا ہے۔ کراچی میں امریکی قونصل خانہ بھی پولیس کی تربیت میں تعاون کر رہا ہے۔ ضال ہی میں انسپکٹر جنرل سندھ سندھ پولیس مشتاق احمد شاہ اور کراچی میں تعینات امریکی قونصل جنرل ولیم مارٹن نے سینٹرل پولیس آفس کراچی میں25پولیس افسران جن میں سندھ پولیس کے 16اور بلوچستان پولیس کے 9 افسران شامل ہیں کو پوسٹ بلاسٹ کرائم سین انویسٹی گیشن کورس کرایا ہے۔ اور اس کورس کی کامیاب تربیت مکمل کرنے پر اسناد بھی تقسیم کیں۔ اس کورس میں افسران کو تخریب کاری کے واقعات اور دھماکے کے بعد شواہد اکٹھا کرنے اور انہیں محفوظ کرنے کی تربیت دی گئی۔ آئی جی سندھ پولیس سید مشتاق احمد شاہ تو کہتے ہیں کہ پولیس کو جدید تربیت اور ٹیکنالوجی کی فراہمی کے لئے مزید اقدامات کئے جارہے ہیں اور یہ کورس بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ انہوں نے کورس کے انعقاد میں تعاون پر امریکی قونصل جنرل کا شکریہ ادا کیا۔

کراچی میں ٹیکنالوجی کو جرائم کے لئے استعمال کرنے میں حکومت کی عدم دلچسپی کا اظہار اس بات سے ہوجاتا ہے کہ یہاں اب تک سی سی ٹی وی کیمرے بھی پوری طرح نہیں لگ سکے، جہاں لگے وہاں بھی ان میٹینیس نہ ہوسکی ، جس سے مطلوبہ نتائج حاصل نہ ہوسکے۔ : کمشنر کراچی شعیب احمد صدیقی کہتے ہیں کہ ترقیاتی ممالک کی طرح امن وامان کے قیام، کرائم کو کنٹرول کر نے اور جرائم کے خاتمے کے سلسلے میں سرویلنس کیمرہ سسٹم سمیت دیگر جد ید ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھایا جائے، جن اداروں نے یہ سسٹم رائج کیا ہوا ہے انھیں اس کا بھرپور فائدہ بھی پہنچ رہا ہے۔وہ اس کی افادیت کے قائل ہیں۔ گذشتہ دنوں انھوں نے اپنے دفتر میں سیکیورٹی اینڈ سرویلنس کیمرہ سسٹم کے حوالے سے گورنر اسٹیٹ بینک کے نمائندے، بینکوں کے صدور کے نمائندوں، پیٹرولیم ڈیلرز ایسوسی ایشن کے سربراہ، ڈی آئی جی ساؤتھ ، کے ایم سی اور پولیس انفارمیشن ٹیکنالوجی کے افسران و دیگر کے ساتھ ایک اجلاس بھی کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ کرائم کنٹرول کے سلسلے میں سرویلنس کیمروں کا استعمال انتہائی مفید ہے مگر تمام اداروں بشمول بینک، پٹرول پمپس، صنعتی و تجارتی علاقے، تفریحی مقامات سمیت دیگر اہم مقامات پر کے ایم سی کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم اور پولیس کے تحت لگائے جانے والے سرویلنس کیمرہ سسٹم کا ایک دوسرے کے ساتھ منسلک ہونا نہایت ضروری ہے۔انھوں نے اس موقع پر انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ماہرین پر مشتمل ایک فوکل گروپ قائم کر نے کا اعلان کیا جو کہ تمام اداروں کے مابین سرویلنس کیمرہ سسٹم منسلک کر نے کے سلسلے میں اپنی سفارشات پیش کریگا، انھوں نے آئی جی سندھ سے بھی پولیس کے کیمروں کے مانیٹرنگ سسٹم کو مزید بہتر اور فعال بنانے کے لئے کہا ہے۔ کراچی میں سیکورٹی کے حوالے سے کیے جانے والے اقدامات کو مزید بہتر بنانے کے لئے پنجاب پولیس کی تحقیقات کو سامنے رکھتے ہوئے ضرورت اس بات کی ہے کہ جد ید ٹیکنالوجی کو استعمال کیا جائے، لیکن اس میں سب سے اہم بات ان اقدامات کو پوشیدہ رکھنا ہے، کیونکہ ان کیمروں اور دیگر حساس تنصیبات کے بارے میں میڈیا پر خبریں اور تصاویر نشر ہونے کے بات اس کی افادیت ختم ہوجاتی ہے۔
Ata Muhammed Tabussum
About the Author: Ata Muhammed Tabussum Read More Articles by Ata Muhammed Tabussum: 376 Articles with 387575 views Ata Muhammed Tabussum ,is currently Head of Censor Aaj TV, and Coloumn Writer of Daily Jang. having a rich experience of print and electronic media,he.. View More