عظمت کی عظمت

عظمت ؔ کی ’’عظمت ‘‘

السلام علیکم !
محترم پروفیسر ، جناب عظمت علی خان کی’’ عظمت ‘‘کو ، کم از کم میں تو بیان نھیں کرسکتا !
کیوں ؟
اُن کے غیض و غضب کے خوف سے ؟
اُن کے جاہ و جلال کے مارے ؟
اُن کے رعب و دبدبے کی بنا پر ؟
پھر ؟؟؟؟
وجہ ظاہر ہے !
اُن کے احترام کی بنا پر !
اُن کی محبت ، چاہت ، اُلفت ، احترام کے سبب !
بھلا جو اُن سے اُن کی زندگی میں نگاہ مِلا کر بات نہ کرسکے ، وہ اُن کی موت کے بعد اُن کی اعلا و بالا شخصیت پر قلم کیسے ہلا ،چلاسکتا ہے ؟؟
’’عظمت علی خان ‘‘ بہت بڑے انسان ، بہت بڑے نقّاد ، اعلا پائے کے سائنس داں ۔
حضرت نے ساری زندگی ہم جیسے ’’ناس پِیٹوں ‘‘ ، غبی ، لا تعلقوں کو کیمیا سکھانے ، پڑھانے میں بسر کردی ،پھر بھی ہم ان کی تعلیمات کا عشرِ عشیر بھی منعکس نہ کرپائے ،یہ ہماری بد قسمتی ، بس دو چار الفاظ سیکھ گئے جو حضرت کی جُوتیوں کا طفیل قرار پائے ۔زمانے نے ہمارے علم اور ہماری ہی علمیت کی بولی لگائی اور ہم حضرتِ عظمت علی خان صاحب کے سامنے شرمندہ شرمندہ ہوتے رہے ۔
بھلا کہاں وہ ؟ کہاں ہم !
کہاں میں ، کہاں ’’وہ‘‘ مقام اللہ اللہ !
پروفیسرعظمت علی خان ’’بابائے سائنسی ادب ‘‘ قرار پائے ۔وہ علم دوست انسان تھے۔ماہر ِ کیمیا تھے ۔افسوس آج وہ ہم میں نھیں ،عرش معلی پر بسیرا کیے، اپنے رب کی رِضا میں راضی ، ہم اِدھر اُن کی خوشی میں خوش۔
نوّے کی دہائی کا آغاز ، اُردو سائنس کالج کے نوٹس بورڈ پر دستی اطلاع نامے کی عکسی نقل لگی ، ’’بزمِ سائنسی ادب ‘‘ کا ماہانہ اجلاس ، صدارت : فلاں خطبات : فلاں فلاں کلماتِ تشکر : پروفیسر عظمت علی خان
دعوت نامے کے اخیر میں لکھا تھا : ’’داعی : عظمت علی خان ‘‘
ہائے اللہ ۔۔۔داعی (دائی) ، اُس وقت یہی معانی شناسا تھے ،حقیقت تو بعد میں کھلی کہ وہ ’’سائنسی ادب ‘‘ کے دونوں اعتبار سے ’’داعی ‘‘ رہے ۔وقتاً فوقتاً انھوں نے جو سائنسی ادب خود تحریر کیا ، فی زمانہ اس پائے کا سائنسی ادب نایاب ہے ۔
جنوبی ایشیا کے گنجان علاقوں میں سرسید احمد خان کی سائنسی تحریک کی احیا کا جو ڈول محترم پروفیسر عظمت علی خان نے ڈالا ، وہ آپ ہی کا خاصہ قرار پایا ۔جو کچھ آپ نے ’’سائنسی ادب ‘‘ کے بینر تلے لکھا اور لکھوایا ، وہ سب اعلا پائے کا سائنسی ادب قرار پایا کہ جو آج کے دور میں خال خال ملا کرتا ہے ۔
لوگو ! افسوس ہم سب کو میرؔ سے صحبت ہی نھیں رہی ، صد افسوس !
یُوں پھریں اہلِ کمال آشفتہ حال افسوس ہے
اے کمال افسوس ہے تجھ پر کمال افسوس ہے
عظمت علی خان ’’آبروئے سائنسی ادب ‘‘ قرار پائے ، آپ ’’ عظمتِ سائنسی ادب ‘‘ قرار پائے ۔آپ نے سائنسی ادب کے بینر تلے جو کچھ اور جتنا کچھ نظم ونثر کا سرمایہ جمع کردیا ، وہ ملکِ خدادادِ پاکستان کا کثیر علمی و ادبی سرمایہ قرار پارہا ہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ اُس سرمائے کو نصابی کتب میں شامل کیا جائے ۔
ہم نے ’’بزمِ سائنسی ادب ‘‘کی اطلاع پاکر محترم ڈاکٹر ابواللیث صدیقی صاحب سے پوچھا ، جناب محترم آفتاب زبیری صاحب سے معلوم کیا ، پروفیسر ہارون رشید نجمی صاحب کے علم میں لائے، پتا یہی چلا کہ :’’کوئی عظمت علی خان صاحب ہیں کیمسٹری کے ،جو ماہ بہ ماہ یہ بزم منعقد کیا کرتے ہیں اور خوب کرتے ہیں !‘‘
’’مجھے تو کبھی نہ گُھسنے دیں ، چلو اخبار والا بن کر چلوں ، جا کر دیکھوں تو ، میں تو نو آموز لیکچرر ہوں اور وہ خود سینئر ترین پروفیسر ، استادوں کے اُستاد ۔‘‘ خود کو سمجھایا ۔ دل پسلیاں توڑ کر باہر آنے کو بے تاب تھا ، سائنس سینٹر کی تیسری منزل کی چھت ، وزن میرا زیادہ ، سانس پھول گیا ، ہائے ہائے کرتا جیسے ہی قدم رنجہ فرمائے ، ایک انتہائی نستعلیق بزرگ سے گلے ملا ، جی ہاں ، آخری سیڑھی پر ہمارا پاؤں رپٹا اور سیدھے اُسی بزرگ کی شفیق گود میں ’’لینڈ ‘‘ فرمایا ، ’’ بھائی نماز فجر کے بعد ذرا سا دوڑ بھاگ کرلیا کیجئے ، کیا مشغلہ ہے ؟کیا مشاغل ہیں ؟‘‘ انتہائی رغبت سے پوچھا گیا ۔
’’ہائے اللہ یہ کون ہیں ؟ ‘‘ دل نے دہائی دی ، پھر ہمت یکجا کی : ’’وہ سر۔۔۔۔وہ ہمیں پروفیسر عظمت علی خان صاحب سے ملنا ہے !‘‘ تمام تر طاقتوں کو یکجان کیا ۔’’جی فرمائیے !‘‘ انتہائی تحمل ، بُرد باری ، لجاجت اور دل چسپی سے پوچھا گیا ۔
’’ہائیں ! ‘‘ ہاتھوں کے توتے اُڑ گئے ۔’’سر ۔۔سر آپ ہیں عظمت علی خان ؟؟‘‘
’’جناب ۔۔۔جی حکم !‘‘ گویا ہوئے ۔عقابی نظریں عینک کے پیچھے سے مسلسل ہمارے ایکسرے میں مصروفِ عمل تھیں ۔
’’وہ میں روزنامہ ب دنگ سے آیا ہوں ۔‘‘ پہلا جھوٹ !
’’سائنسی ادب لکھتے ہیں ؟‘‘
’’جی ہاں سر !‘‘ دوسرا جھوٹ ۔
’’اِنھیں پہچانتے ہو؟‘‘ایک سُرخ سفید بارعب خاتون کی جانب اشارہ کیا ۔
’’جی ہاں سر !‘‘ تیسرا ۔۔۔۔ جھوٹ !
’’کون ؟؟‘‘ بخشنے کو تیار نہ تھے ،اچانک ہمارے سر وقار احمد زبیری صاحب کہیں سے تشریف لائے اور بولے ’’ارے عظمت صاحب ۔۔۔آپ یہاں مجیب کے ساتھ کیا کررہے ہیں سر ؟ تقریب تو شروع کروائیے ! ‘‘
یوں بروقت محترم پروفیسر وقار احمد زبیری صاحب کے ’’مجیب ‘‘ فرمانے پر ’’مجیب ‘‘ شاملِ بزم قرار پایا اور آج تک اپنے ٹوٹے پھوٹے ، شَکَری، ہلتے ، ڈولتے ، بلبلاتے ، کرلاتے ، وجود کے ساتھ کوشش میں لگا رہتا ہے کہ کہیں ’’بزمِ عظمت ‘‘ سے غیر حاضر ہونے کا جُرم نہ کربیٹھے۔ہاہاہا۔۔۔
کیا دن تھے وہ ، بعد میں پتا چلا کہ وہ محترمہ ، پروفیسر نسیمہ سراج علوی (ڈاکٹر نسیمہ ترمذی) صاحبہ تھیں جو ہمارے ’’اردو سائنس کالج ‘‘ میں کبھی کبھار تشریف لایا کرتی تھیں جبکہ اُن کے شوہرِ ڈاکٹر معصوم ترمذی صاحب تو ہمیں فزکس پڑھایا کرتے تھے ، محترمہ مقامی اخبار میں اپنا کالم ’’اللہ معاف کرے ‘‘ لکھا کرتی تھیں ، ایکا ایکی کالم لکھناترک فرمادیا تو ہم نے انتہائی بدتمیزی اور گستاخی کا مظاہرہ کرتے ہوئے روزنامہ ’’دنگ ‘‘ کراچی ہی میں لکھا کہ :’’لگتا ہے بزم سائنس و ادب ‘‘ میں تشریف لانے کے بعد محترمہ کو اللہ نے معاف کر ہی دیا ہے !‘‘
’’ارے سائنسی ادب لکھو ! سائنسی ادب لکھو ! ادب کو مزاح اور سائنس کے ساتھ گوندھ کر لکھو ، مضمون کے شروع میں اتنا بہت سا پانی پی لیتے ہو ، کھاؤ گے کیا ؟ بولیے ! ‘‘
’’جی سر ۔۔۔۔جی سر۔۔۔۔ ‘‘ ایک ہی گردان۔
’’بس کرو ، وقت نھیں ، ڈاکٹر امتیاز کا لیکچر بھی ہے ، اوہو ۔۔۔ابھی تو ڈاکٹر عفان سلجوق کا لیکچر بھی باقی ہے،صہبا اختر کو اپنی نظم پڑھنا ہے ، ٹھیرو تم یوں نھیں مانو گے ، چرررر۔۔۔رررر۔۔۔۔‘‘ نیچے سے باقی کاغذ پھاڑ لیا گیا ۔
’’ارے سر۔۔۔ارے سر ۔۔۔۔یہ ادارت کا کون سا انداز ہے ؟ ‘‘ ہم بلبلائے ، دہائیاں دیں ، محترمہ نسیمہ بنت سراج ہنستے ہنستے لوٹ پوٹ ۔جناب نعیم علی خان گوہرؔ ، جناب سراج علوی ، جناب نجم الہدیٰ ، جناب ظفر احمد خان ظفرؔ ، محترمہ آمنہ عالم ،محترمہ برجیس زہرہ ہارون، ڈاکٹر نزہت عباسی ، پروفیسر شاہین حبیب ، پروفیسر نزہت پروین ، جناب احمد نسیم سندہلوی ، ہنستے مسکراتے ، خوف زدہ چہروں کے ساتھ ہمارے انجام پر متبسم ، ہاہاہا۔۔۔
’’بس کیجئے ! کل، پرسوں کا پریس دیکھ لیجئے گا !‘‘
لیجئے جناب ، کل، پرسوں ، ترسوں ، سرسوں کا پریس صبح و شام کا بزم کی خبروں اور تصاویر سے بھرا ، ہفتہ وار جریدوں میں بزم کی کاروائیوں سے اَٹا ، خُوب مسکراتے ۔قریب رکھا مکسڈ نمکو تھوڑا سا زیادہ کھاتے ، موٹے والے سیؤ خُوب چباتے جیسے سائنسی دشمنوں کی ہڈیاں چبا رہے ہوں ۔ پھر فرماتے : ’’بھائی مجیب ظفر، تمہارے مضمون ،عروس الجلاد کی۔۔۔ وہ ، میڈیکل ادارے والا ، کیا نام ہے پی ایم۔ اے والا ، بہت تعریف کررہا تھا ،کیا نام ہے ، ارے بولتے کیوں نھیں !‘‘
’’سر مجھے تو نام معلوم ہی نھیں !‘‘
’’اچھا ٹھیک ہے ، یہ بتائیے کہ قرآن پاک کی اس سورۃ کی سائنسی تفسیر کیا ہوگی ؟ پڑھ لو گے ؟ ارے پڑھ لو گے؟ تقریب آج کی تمہارے مضمون سے شروع کرادیں ، کیوں نجم صاحب ؟‘‘ پروفیسر نجم الہدیٰ صاحب سے پوچھا گیا ۔
’’جی ! ‘‘ انتہائی مختصر جواب دیا گیا ۔
’’یہ ملاحظہ فرمائیے !‘‘ کسی انجان کتاب کے گورے چِٹّے ورق پر انگلی رکھ دی ۔ہائے کیسی مشکل عربی ، انگریزی لکھی ہے ، سورۂ رحمان ہے شاید ، دادی جان ، امی جان روز ہی تو پڑھا کرتی ہیں اور یہ تو اپنے مولوی صاحب والی سورۃ ہے ، الحمد لِلہ ! رب العالمین ! مالکِ یوم الدین ، ایاکَ نعبدُو اِیّاکَ نستعین ۔۔۔ ’’کرنا کیا ہے سر مجھے ؟‘‘ گاؤدی پن کی انتہا ، بلکہ پاجی پن کی ۔۔ہاہاہا ۔۔۔
’’ان آیات کی سائنسی توجیحات لکھیے ، ابھی لکھیے !‘‘ حکم دیا گیا ۔ پروفیسر نجم الہدیٰ صاحب نے پس و پیش کرنا چاہی ، حضرت کی آرزوؤں کا بھی گلا گھونٹ دیا گیا ۔’’اور سنو جی ! تفسیر بھی ساتھ ساتھ ہونا چاہئیے ! ‘‘
ظلم کی انتہا ہے بچّوں پر ۔دل نے دُہائی دی ۔۔۔۔لیکن بھائی یہ عظمت علی خان ہیں ، یہ جن ہیں ، سائنس کے جن ہیں ، عام انسان نھیں ہیں یہ مجیب میاں ۔خود بھی ایک بار پھر سمجھایا۔
’’سر ۔۔۔۔‘‘ اطلاع دی ، لہجے میں پچاس میل دوڑنے کی تھکن تھی ۔
’’ٹھیک ہے ، پانی مت پیجئے گا ! پانی آپ کے پاس نہ ہو ، سمجھے میاں !‘‘ ’’جی سر ! ‘‘
’’آپ پڑھ تو لیجئے عظمت صاحب ! ‘‘ نجم الہدیٰ صاحب کی آواز آئی ۔
’’نھیں ، ٹھیک ہوگا ! ‘‘ بلا کاا عتماد ، نمکو کے کئی موٹے سیؤ رکابی سے کم ہوگئے ۔
سر دیکھ لیجئے آ کر ،آج بھی پانی میرے ساتھ ہے لیکن ۔۔۔۔شاید آنکھوں میں بھی ، میں بھی تو ضدی ہوں نا بلا کا ۔
؂ جان کر مِن جُملۂ خاصانِ مے خانہ مجھے
مدتوں رویا کریں گے جام و پیمانہ مجھے
نجانے کیا کچھ اور کب کب لکھوا گئے ۔آمنہ عالم کی کتاب پر اپنے زمانے کے نام ور اہالیانِ علم کی رائے پڑھتا اور زارو قطار ہنستا رہا کہ اگر آمنہ ،پروفیسر صاحب سے رائے لکھواتیں تو کیسے لکھواتیں اور کیا واقعی وہ لکھ دیتے ؟
’’واجد اسکوائر ، گلشن اقبال کے احاطے میں سائنسی مشاعرہ ہے ! آجائیے گا گھر میں بتلا کر !‘‘
’’آپ تو اب شادی کو پیارے ہوگئے ہیں ، مسلسل ناغہ ہورہا ہے ! ‘‘ بزم کے جلسے کے دوران حسب معمول راؤنڈ لیتے ہوئے ارشاد فرمایا : ’’جی سر !‘‘
’’ کچھ پڑھیں گے ؟ یا ڈاکٹر محمد محسن کو سُنیں گے !‘‘
’’نھیں سر ۔۔۔۔پڑھوں گا تابکاری پر ، ایک سائنسی غزل ہے ، ارے سائنس داں تجھے ہوا کیا ہے ؟ آخر اس درد کی دوا کیا ہے ؟ امائنو ایسڈ کہاں سے آتے ہیں ، ابر کیا چیز ہے ، ہوا کیا ہے !‘‘
’’ٹھیک ۔۔۔ لیکن دوسرا شعر اُس کا ہے ، نعیم علی خان گوہرؔ کا ! ‘‘ ذرا متاثر نہ ہوئے ۔
’’ جی جی ۔۔جی سر ۔۔۔وہ دراصل نعیم صاحب نے دہلی کالج میں چائے نوشی کے درمیان ہمیں اپنا یہ روپہلا شعر عطیہ کردیا ہے ! ‘‘ نہایت تفصیل سے ہزارواں جھوٹ بولا گیا اور اس منظر کو اکبر علی صاحب کے کیمرے نے ہمیشہ کے لیے مُقیّد کرلیا ۔
’’سب کچھ ٹھیک ہوگیا ۔ شکر ہے ۔‘‘ ہمارے مضمون سنانے ، پانی نہ پینے اور بزم کے مکمل اختتام پر ہمیں نظر بھی کر دیکھتے ہوئے فرمایا گیا ۔
ایک دن تو سخت افسوس ہوا ، یہ بزم کی حاضری میں کوئی ہماری موجودگی کا اعتراف کیوں نھیں کرتا ؟؟ہم نے جل کر سوچا اور ایک ساتھ چار پانچ کاغذوں پر اپنا نام پتا لکھ دیا ،ایک اور جھوٹ ، پھر اگلے ماہ ایک ساتھ اتنے ہی دعوت نامے ملے جتنے ہم نے نام لکھے تھے ، جعلی حاضریاں لگائی تھیں ، ہاہاہا۔۔۔ کیا خُوب ، کمپیوٹر ہیں گویا پروفیسر عظمت علی خان ؟
انتقال کا سُن کر سر پٹ بھاگا ، وہاں پروفیسر نعیم علی خاں گوہر ؔ سے ملاقات ہوئی ،
’’کیسے ہوگیا یہ سب ؟‘‘ تمام چہروں پر ہوائیاں اُڑ رہی تھیں ، اس روز سائنس اور سائنسی ادب یتیم ہو چکے تھے ۔سائنسی شعر و ادب و تعلیم و تعلم نے بیوگی کی سفید چادر اُوڑھ لی تھی ۔
’’ عظمت صاحب نے سینے میں شدید درد محسوس کیا ، خود سیڑھیاں اُتر کر نیچے تک آئے ، گیٹ کے قریب جاکر اسے کھولا تو بیٹے نے تھام لیا ، بھائی وہ عظمت علی خان تھے ، کوئی عام انسان نہ تھے !‘‘ پروفیسر نعیم نے بتلایا ۔
’’ارے میرے بھائی ، پچیس سال پہلے یہی بات تو میں نے کہی تھی ، کہ ، عظمت علی خان انسان نھیں جنّ ہیں ! ‘‘ ہم نے کہنا چاہا لیکن نظروں کے سامنے کے تمام مناظر دھندلا چکے تھے ۔بس ایک سائنس و ٹیکانالوجی کا ایک آفتاب ،جو ۱۹۳۱ ء میں رام پُور میں طلوع ہوا تھا ، اسے ۲۰۱۲ء میں کراچی کی لئیم خاک میں ملادیا گیا ، اللہ آپ کو کروٹ کروٹ جنّت نصیب کرے ، اَلاَّ ھُمِّ آمین

پروفیسر ڈاکٹر مجیب ظفر انوار حمیدی
About the Author: پروفیسر ڈاکٹر مجیب ظفر انوار حمیدی Read More Articles by پروفیسر ڈاکٹر مجیب ظفر انوار حمیدی: 10 Articles with 33139 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.