اسرائیلی اسلحہ کی قیمت
(Dilpazir Ahmed, Rawalpindi)
ایک عام امریکی شہری جب تنخواہ کا چیک وصول کرتا ہے، تو اسے شاید یہ گمان بھی نہیں ہوتا کہ اس کی محنت کی کمائی کا ایک حصہ کہیں مشرق وسطیٰ میں کسی F-35 طیارے، JDAM بم یا آئرن ڈوم میزائل کی صورت میں استعمال ہو رہا ہے — اور وہ بھی ایک ایسی ریاست کے لیے جو دنیا کے ایک حساس ترین خطے میں مسلسل انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں میں ملوث ہے۔ جی ہاں، بات ہو رہی ہے اسرائیل کی، اور اس کی عسکری طاقت کو سہارا دینے والے سب سے بڑے عالمی مالی مددگار، یعنی امریکہ کی۔ اسرائیل کا قیام اور امریکی آشیرباد
1948 میں اسرائیل کے قیام کے بعد ہی امریکہ نے اسے تسلیم کیا اور چند ہی برسوں میں اسے معاشی و عسکری امداد دینا شروع کر دی۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ یہ امداد ایک "تحفہ" سے بڑھ کر "معاہدہ" بن گئی — ایسا معاہدہ جو ہر امریکی حکومت نے اپنی خارجہ پالیسی کا ستون بنایا۔ اندازہ کریں کہ اب تک امریکہ، اسرائیل کو تقریباً 297 سے 310 ارب ڈالر کی امداد دے چکا ہے، اور یہ رقم امریکی تاریخ کی سب سے بڑی غیر ملکی امداد بن چکی ہے۔ 2016 کا تاریخی دفاعی معاہدہ
اوباما دور میں 2016 میں امریکہ اور اسرائیل کے درمیان ایک یادداشتِ (MoU) پر دستخط ہوئے، جس کے تحت امریکہ 2028 تک ہر سال 3.8 ارب ڈالر اسرائیل کو مہیا کرے گا — جس میں 33 ارب ڈالر ہتھیاروں کے لیے اور 5 ارب میزائل ڈیفنس سسٹمز کے لیے مختص ہیں۔ یہ رقم امریکی ٹیکس دہندگان کی جیب سے نکلتی ہے، اور براہ راست اسرائیلی وزارت دفاع کے کام آتی ہے۔ اسرائیلی اسلحے کی امریکی فیکٹری
اسرائیل آج جو جدید عسکری طاقت رکھتا ہے، اس میں امریکہ کا براہ راست کردار ہے۔ F-35 اسٹیلتھ طیارے، آئرن ڈوم میزائل دفاعی نظام، ڈیوڈز سلنگ، ایرو میزائل، Apache ہیلی کاپٹرز، اور جدید بم — سب امریکی فنڈنگ سے خریدے یا تیار کیے گئے ہیں۔ صرف آئرن ڈوم کے لیے امریکہ 2.6 ارب ڈالر فراہم کر چکا ہے۔ یہی نہیں، اسرائیل کو دی جانے والی امداد میں سے 26 فیصد رقم وہ اپنے ملک میں خرچ کر سکتا ہے — جس سے اس کی دفاعی صنعت کو فروغ ملتا ہے۔ حالیہ جنگیں، فوری امداد اکتوبر 2023 میں غزہ پر اسرائیلی حملے کے بعد سے لے کر جولائی 2025 تک، امریکہ نے اسرائیل کو ہنگامی بنیادوں پر 17.9 ارب ڈالر کی فوجی امداد فراہم کی — جو تاریخ کی سب سے بڑی سالانہ رقم ہے۔ مزید برآں، وائٹ ہاوس نے 2025 میں 8 ارب ڈالر کے اضافی ہتھیاروں کی فراہمی کا نوٹیفکیشن جاری کیا، جس میں میزائل، توپیں، اور Hellfire میزائل شامل تھے۔
تنقید اور سوالات امریکی امداد پر سوال اٹھانے والوں کا کہنا ہے کہ یہ پیسہ ان اسکولوں، اسپتالوں اور بنیادی ضروریات سے چھینا جا رہا ہے جو امریکی عوام کے لیے ناگزیر ہیں۔ مزید یہ کہ یہ امداد ان جنگوں کو طاقت دیتی ہے جن میں ہزاروں معصوم فلسطینی شہری مارے جا چکے ہیں، جن میں بچے اور خواتین بھی شامل ہیں۔ اقوام متحدہ، انسانی حقوق کی تنظیمیں، اور بین الاقوامی میڈیا بارہا اس پر تشویش ظاہر کر چکے ہیں — مگر امریکہ کی پالیسی میں کوئی بڑی تبدیلی دیکھنے کو نہیں ملی۔ نتیجہ: بندوق اور ضمیر کا حساب
اسرائیل کو دی جانے والی امریکی امداد، صرف ایک سفارتی یا دفاعی تعلق نہیں، بلکہ یہ اس عالمی ضمیر کا امتحان ہے جو انسانی حقوق، جمہوریت، اور انصاف کی بات کرتا ہے۔ امریکی ٹیکس دہندگان کو یہ سوال ضرور اٹھانا چاہیے کہ ان کی محنت کی کمائی آخر کس کے ہاتھوں میں جا رہی ہے — اور کس کے خلاف استعمال ہو رہی ہے۔
یہ محض اعداد و شمار کا معاملہ نہیں، یہ اخلاقیات، اصولوں اور عالمی امن کی بات ہے۔ بندوق کی نالی سے نکلنے والی ہر گولی کا حساب صرف فائر کرنے والے کے ہاتھوں میں نہیں، بلکہ اس کو خریدنے والے کے ضمیر میں بھی محفوظ ہوتا ہے۔ کیا امریکی عوام کو معلوم ہے کہ ان کا پیسہ اسرائیلی فوجی کارروائیوں میں استعمال ہو رہا ہے؟ کیا کانگریس نے امداد کے اس بہاؤ پر کبھی جامع آڈٹ کرایا ہے؟ کیا فلسطین کی موت کا بوجھ امریکی ووٹر پر بھی ہے؟ یہ وہ سوالات ہیں ودنیا بھر میں پوچھے جا رہے ہیں
|
|