پروفیسر مسعود اختر ہزاروی کا یہ چشم کشا کالم آج کے ڈیجیٹل پردوں میں گم اس انسان کو آئینہ دکھاتا ہے، جو حقیقی رشتوں سے ناتا توڑ چکا ہے اور جسے "لائکس" اور "فالوورز" کی دوڑ نے خود اپنی شناخت، مقصد تخلیق اور فکر آخرت سے بیگانہ کر دیا ہے۔

یہ تحریر ہمیں جھنجھوڑتی ہے کہ کہیں یہ نام نہاد "آزادی" ہمیں تنہائی اور اندھیرے کے ایسے غار میں نہ دھکیل دے، جہاں انسان بہت کچھ پا کر بھی خود کو کھو بیٹھے۔ حمیرہ اصغر اور اداکارہ عائشہ کی حالیہ تنہائی کی دردناک اموات سماج کے اجتماعی ضمیر پر دستک ہیں۔" />

تہذیبی بحران اور سماجی تنہائی کا المیہ

تہذیبی بحران اور سماجی تنہائی

کیا یہی ہے نام نہاد "آزادی" کا انجام؟

پروفیسر مسعود اختر ہزاروی کا یہ چشم کشا کالم آج کے ڈیجیٹل پردوں میں گم اس انسان کو آئینہ دکھاتا ہے، جو حقیقی رشتوں سے ناتا توڑ چکا ہے اور جسے "لائکس" اور "فالوورز" کی دوڑ نے خود اپنی شناخت، مقصد تخلیق اور فکر آخرت سے بیگانہ کر دیا ہے۔

یہ تحریر ہمیں جھنجھوڑتی ہے کہ کہیں یہ نام نہاد "آزادی" ہمیں تنہائی اور اندھیرے کے ایسے غار میں نہ دھکیل دے، جہاں انسان بہت کچھ پا کر بھی خود کو کھو بیٹھے۔ حمیرہ اصغر اور اداکارہ عائشہ کی حالیہ تنہائی کی دردناک اموات سماج کے اجتماعی ضمیر پر دستک ہیں۔
تحریر: پروفیسر مسعود اختر ہزاروی

عنوان: تہذیبی بحران اور سماجی تنہائی کا المیہ

ہم ایک ایسے دور میں سانس لے رہے ہیں جہاں سوشل میڈیا کی مصنوعی چمک، شہرت کے جھوٹے معیارات، اور "ٹرینڈنگ" کی دوڑ نے انسانی رشتوں کو بے وقعت بنا دیا ہے۔ آج کی نوجوان نسل "لائکس" اور "فالوورز" کے پیچھے بھاگتی ہے، لیکن حقیقی زندگی میں وہ تنہائی، بے چارگی اور احساسِ کمتری کا شکار ہو رہی ہے۔ یہ المیہ صرف پاکستان تک محدود نہیں، بلکہ پوری دنیا میں جدید تہذیب کے باطن میں پنپنے والے اخلاقی زوال کی عکاسی کرتا ہے۔ کچھ ہفتے قبل عائشہ نامی ایک اداکارہ کی لاش کراچی کے ایک فلیٹ میں ہفتہ بھر پڑی رہی۔ بد بو آنے پر محلے داروں نے پولیس بلائی تو پتہ چلا کہ کروڑوں کی مالکہ اور تین بچوں کی ماں کئی دنوں سے تنہائی میں فوت ہوچکی ہے اور لاش کی بدبو فلیٹ سے باہر پھیل رہی ہے۔ پھر حال ہی میں ایک اور اداکارہ "حمیرہ اصغر" کے فوت ہونے کے کئی ماہ بعد ان کے بند فلیٹ سے لاش برآمد ہونے کا واقعہ بھی اسی سماجی بے حسی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ یہ صرف ایک موت نہیں، بلکہ پورے معاشرے کے لیے ایک گہرا سوال، ایک تازیانۂ عبرت اور ہمارے اجتماعی ضمیر کو جھنجھوڑنے والا سانحہ ہے۔ حمیرا اصغر، جو کبھی میڈیا کی رعنائیوں کی علامت تھیں اور شوبز کے ایوارڈز کی محفلوں کی رونق تھیں، اپنے ہی فلیٹ میں کئی ماہ تک پڑی رہی، لیکن کسی کو خبر تک نہ ہوئی۔ جب فلیٹ کے مالک نے کرایہ نہ ملنے پر پولیس کو بلایا، تو دروازہ کھولتے ہی اہلکاروں کو منہ پر رومال اور ماسک رکھنے پڑے۔ لاش کی بدبو بو بتا رہی تھی کہ یہاں کافی عرصہ سے کوئی نہیں آیا، نہ کوئی پوچھنے والا تھا اور نہ ہی کوئی دستک دینے والا۔ یہ وہی حمیرا اصغر تھیں جن کے لاکھوں "فینز" تھے، جن کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر ہزاروں تبصرے ہوتے تھے، جن کی تصاویر پر "لائکس" کی بارش ہوتی تھی۔ مگر جب زندگی کا سورج غروب ہوا تو کئی ماہ بیت جانے کے باوجود وہ کسی کو یاد آئی نہ کسی کو حال پوچھنے کی ضرورت ہی محسوس ہوئی۔ یہ واقعہ صرف ایک اداکارہ کی موت نہیں، بلکہ ہمارے معاشرے کا سبق آموز المیہ ہے جہاں ہم "آن لائن" تو ہزاروں دوست رکھتے ہیں، لیکن حقیقت میں اتنے تنہا ہیں کہ مر بھی جائیں تو کئی ماہ تک کسی کو خبر تک نہیں ہوتی یہاں تک کہ لاش گل سڑ جاتی ہے۔ ہماری نوجوان نسل "آزادی" کے نام پر خاندان سے دور ہو رہی ہے، لیکن یہی آزادی آخرکار تنہائی کے گھناؤنے انجام تک لے جاتی ہے۔ شوبز انڈسٹری میں آج آپ "سٹار" ہیں، کل آپ کی لاش بھی کئی ماہ تک پڑی رہے کسی کو کوئی پرواہ نہیں۔ آج ایک "خاص لبرل طبقہ" مسلمان عورت کو یہ پیغام دے رہا ہے کہ"پردہ قدیم سوچ ہے، خاندان کی پابندی گھٹن ہے اور آزادی یہ ہے کہ جو دل چاہے کرو"
لیکن حمیرا اصغر کی موت نے ثابت کر دیا کہ یہ "آزادی" درحقیقت تنہائی، بے کسی اور اجتماعی بے حسی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ کیا یہی وہ کامیابی ہے جس کے لیے ہماری بہنیں اور بیٹیاں گھر کی چار دیواری کو "قید" سمجھ کر توڑنا چاہتی ہیں؟ کیا اکیلے فلیٹ میں سڑتی لاش ہی "آزاد عورت" کا مقدر ہے؟ اسلام نے عورت کو جو مقام دیا، وہ کسی بھی جدید معاشرے سے بلند تر ہے۔ پردہ عورت کے وقار کا تحفظ ہے، نہ کہ اس کی ترقی میں رکاوٹ۔ اسلام کی سماجی تعلیمات کا زیادہ زور "صلہ رحمی" کی صورت میں خاندان کو انسان کا سب سے مضبوط سہارا بنانے پر ہے تاکہ وہ تنہائی کی گھٹن سے بچ سکے۔ اسی طرح وہ اخلاقی پابندیاں جنہیں بوجھ سمجھا جاتا ہے وہ معاشرے کو بگاڑ سے بچانے کیلئے ہیں۔ اگر حمیرا اصغر اپنے خاندان کے ساتھ رہتیں، اسلامی اقدار کو اپناتیں، تو شاید آج ان کی لاش مہینوں تک بند کمرے میں سڑتی نہ رہتی۔ علامہ اقبال رح نے ایک صدی پہلے ہی جدید تہذیب کے انجام کی پیش گوئی کر دی تھی کہ

یہ تہذیب آپ اپنے خنجر سے خودکشی کرے گی
جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا، ناپائیدار ہو گا

آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ یہ تہذیب اپنے ہی بنائے ہوئے جال میں پھنس چکی ہے۔ انسان اپنے مقصد تخلیق کو بھلا کر اور آخرت کی جوابدہی سے غافل ہو کر ایک مشین بن چکا ہے، رشتے کاروبار بن گئے ہیں اور زندگی ایک "سوشل میڈیا پرفارمنس" میں تبدیل ہو گئی ہے۔ مرحومہ کی موت کے اس دردناک سانحہ میں ہمارے لیے یہ سبق ہے کہ خاندانی رشتوں کو مضبوط بنائیں، اپنے پیاروں کا خیال رکھیں، خاص طور پر بزرگوں اور تنہا رہنے والوں کی خبر گیری رکھیں۔ سوشل میڈیا ضروت کے مطابق اور مخلوق کے فائدے اور اصلاح کیلئے ضرور استعمال کریں لیکن اس کی چکا چوند کی بجائے حقیقی تعلقات پر بھرپور توجہ دیں۔ صرف "فالوورز" پر مصنوعی خوشی کی بجائےحقیقی مخلص دوست بنائیں جو زندگی میں آپ کے کام آئیں۔ مختلف میڈیا پلیٹ فارمز اور فورمز کے ذریعے نوجوان نسل کو اسلامی اقدار سے روشناس کرانے کی اشد ضرورت ہے۔ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ دنیا کی یہ شہرت عارضی ہے، لیکن آخرت کی زندگی ہمیشہ کے لئے ہے۔ دنیا میں رہتے ہوئے اسلامی نظام اخلاقیات کے مطابق ہمسایوں، رشتہ داروں، اور معاشرے کے کمزور افراد کی خبر گیری کریں۔ موت تو ہر کسی کو آئے گی، لیکن سوال یہ ہے کہ ہم نے موت کیلئے کیا تیاری کی ہے۔ ایک لمحے کیلئے سوچیں کہ ابھی اگر ہم پر موت طاری ہوجائے تو کیا ہم آخرت کی جوابدہی کیلئے تیار ہیں۔ ہمارا اللہ کی مخلوق سے کیا تعلق ہے اور کیا ہماری زندگی کے بارے میں بعد میں بھی کوئی اچھا ذکر کرے گا؟ حمیرا اصغر کا واقعہ ہمیں یہی سبق دے رہا ہے کہ ہمیں اپنی زندگیوں میں والدین اور بہن بھائیوں کو ترجیح دینا ہو گی، ورنہ خدانخواستہ کل کوئی اور لاش بھی کسی بند فلیٹ میں پڑی مل سکتی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے نوجوانوں کی تربیت کریں، انہیں سکھائیں کہ شہرت نہیں بلکہ دلی سکون اصل دولت ہے جو اللہ تعالٰی سے مضبوط تعلق اور اس کی یاد سے وابستہ ہے۔ یہ بھی ہمیں باور کرنا چاہیے کہ سکرین کا پردہ نہیں بلکہ اللہ تعالٰی کی بارگاہ میں سجدہ ریزی انسان کی اصل معراج ہے۔ ہم اللہ تعالیٰ سے دعا گو ہیں کہ مرحومہ کی مغفرت فرمائے اور ہم اس عبرتناک واقعے سے سبق حاصل کریں اور اللہ تعالیٰ ہم سب کو سیدھی راہ پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
Prof Masood Akhtar Hazarvi
About the Author: Prof Masood Akhtar Hazarvi Read More Articles by Prof Masood Akhtar Hazarvi: 220 Articles with 267919 views Director of Al-Hira Educational and Cultural Centre Luton U.K., with many years’ experience as an Imam of Luton Central Mosque. Professor Hazarvi were.. View More